Want to live should Recommend The killer

زندہ رہناہے توقاتل کی سفارش چاہئے

:Share

پچھلے 75سالوں کی پاکستانی تاریخ میں ہرروزیہ فقرہ ہم سب نے تواترکے ساتھ سناکہ پاکستان بڑے نازک حالات سے گزررہاہے اورپاکستان اس وقت شدیدخطرے میں ہے گویاہماری 75سال کی تاریخ سازشوں،ایک دوسرے کی حکومتوں کوگرانے،پچھتاوں اور وسوسوں کی دردناک کہانیوں میں مستورہے۔ہماری عدلیہ نے بھی نظریہ ضرورت سے نظریہ سہولت کی تاریخ رقم کی ہے جویقینا ہمارے لئے اورہماری آنے والی نسلوں کیلئے ندامت کے سوااورکچھ نہیں۔بھٹوکاعدالتی قتل،جس کوبعدازاں خودانہی ججوں نے اپنی غلطی تسلیم کیااور اسے حکومت کے جبرکے خانے میں ڈال کرخودکومجبورو مقہورقراردینے کی ناکام کوشش بھی کی لیکن اگرجج دبا ؤ قبول کرکے مجبورومقہورہوکرعدل و انصاف کااس طرح دن دیہاڑے خون بہائیں گے توکیاان ججزکیلئے کوئی سزانہیں؟

ضیاالحق اورپرویزمشرف کی آمریت کی کس نے توثیق کی بلکہ مشرف کوتوباقاعدہ آئین میں تبدیلی کاحق ہمارے ان ججزیعنی افتخارچوہدری اوران کے ساتھیوں نے دیاجوبعدازاں اسی مشرف کے خلاف اس لئے کھڑے ہوگئے کہ مشرف نے انہیں بلاکر غصے میں گالی دے ڈالی اورمشرف کایہ عمل اس کے زوال اورافتخار چوہدری کے عروج کاباعث بن گیالیکن ہم بدنصیبوں نے اس وقت بھی ان ججزکیلئے جان ومال قربان کرکے جوتحریک چلائی،اس کانتیجہ بھی ان ججزکے ذاتی مفادات کی نذرہوگیا۔اسی عدالت نے بیک جنبش دووزرائے اعظم کوگھربھیجنے کی روایت توقائم کی لیکن پھریہ کیوں روشن مثال بننے کی بجائے سیاہ وارداتوں کا حصہ بن گئی۔میموگیٹ ہویاوزیراعظم گیلانی کی جانب سے صدرکے استثنٰی کی صورت آئینی اختیارکے تحت سوئس حکومت کو خط سے انکار کامعاملہ،پانامہ مقدمے میں اقامہ پرنوازشریف کی برطرفی یاجنرل مشرف کے خلاف غداری کامقدمہ،وزرائے اعظم کوعدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھایا گیا۔میموگیٹ مقدمے کاایک بڑا مجرم حسین حقانی ضمانت پرامریکافرارہوگیاجہاں وہ کھلم کھلا پاکستان کی سلامتی وخودمختاری کے خلاف انڈیاکے پلیٹ فارم پرپاکستان کے خلاف واہی تباہی بک رہاہے۔ہماری عدلیہ نے آخر امریکاسے اس کی واپسی کامطالبہ کیوں نہیں کیا؟اس سوال کاجواب کون دے گا؟

ہماری اسی عدالتِ عظمیٰ کے سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثارنے خودکوملک میں نمایاں کرنے کیلئے بابارحمتے کاکرداراداکرناشروع کردیا حالانکہ ان ہی کے دور میں ایک پاکستانی ان کی مالی بدعنوانی کے تمام ثبوتوں اورشواہدکے ساتھ دہائی دیتارہالیکن کسی نے اس کی فریادپرکان نہیں دھرا،اورنہ ہی اس مظلوم شکائت کنندہ کو توہین عدالت میں گرفتارکرنے کی جرأت ہوئی۔اسی ثاقب نثارکے ہاتھوں اس ملک کویہ چرکہ بھی لگاکہ اس نے ایک عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹرسعیدجس نے امریکہ میں ٹیکساس ٹیک ہیلتھ سائنسزسینٹر میں بطورچیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف یوروالوجی میں عالمی طورپرایک نام کمایا،انہوں نے پاکستان آکراپنے ملک کیلئے خدمات سرانجام دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے پی کے ایل آئی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیاجسے انہوں نے ایساسٹیٹ آف دی آرٹ ادارہ بنادیاجہاں ان غریبوں کامفت علاج شروع کردیاگیاکہ جوبھاری اخراجات اٹھانے کے متحمل نہیں تھے۔

11مارچ 2018 کوڈاکٹر سعید اختر اپنے ایک مشترکہ دوست کے ہمراہ چیف جسٹس کے گھر گئے گردوں اور جگر کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے سے متعلق بات چیت کیلئے گئے تاکہ عطیہ کرنے والوں کی زندگیوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے تاہم یہ ملاقات اس وقت یو ٹرن لے گئی جب ثاقب نثار کے بھائیڈاکٹر ساجد نثار بھی اچانک پہنچ گئے جو کہ سروسز ہسپتال میں فرائض انجام دے رہے تھے ۔ انہوں نے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں سے زائد تنخواہیں پی کے ایل آئی میں دینے پرجب اعتراض اٹھایاتو حیرت زدہ ڈاکٹر سعید نے واضح کیا کہ پی کے ایل آئی نے دنیا کے بہترین ڈاکٹرز کو تعینات کیا، ان کی پرائیویٹ پریکٹس بند کی ہے، اس لیے تنخواہ مناسب رکھی ہے۔ثاقب نثار غصے میں آ گئے اوراور غصے میں تقریبا ًچیختے ہوئے فرمایا کہ میں چیف سیکرٹری اور ہیلتھ منسٹر سے بات کرتا ہوں اور میں اس پر سو موٹو لوں گااور اس کے ایک ہفتے کے بعد پی کے ایل آئی پر سوموٹو ہو گیا۔جس کے بعد ڈاکٹر سعید کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا گیا اور اس کے بورڈ کو معطل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کمیٹی قائم کر دی جبکہ ڈاکٹرز کو زائد تنخواہیں دینے پر فرانزک آرڈر کا بھی حکم دیا گیا ۔تاہم سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے فیصلے کوواپس تولے لیااورڈاکٹرسعید اخترکوعہدے پر بحال کرتے ہوئے پابندیاں بھی اٹھالی لیکن کیاثاقب نثارکواس مکروہ عمل کی سزاسنائی گئی۔کیا پاکستان آنے والوں ڈاکٹروں کا اعتمادبحال ہوسکا؟بلکہ انہی دنوں ثاقب نثارکے بیٹے کی شاہانہ شادی پرکروڑوں روپے کے اخراجات کی تصاویر میڈیا میں نمایاں طورپرشائع ہوئیں لیکن کسی نے آج تک ثاقب نثارسے ان شاہانہ اخراجات کاحساب مانگا؟

یہ سب تاریخ کاحصہ ہے جو تاریخ کے اوراق کبھی معاف نہیں کرتے۔یادرکھیں کہ ظلم وجبراورناانصافی کی تاریک کال کوٹھریوں سے بھی سچ کے چمک دار اور روشن سورج کی پہلی کرن ہی اندھیرے کی موت کاپیام لیکرآتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ کے ترازومیں انصاف کاوزن، زمانے (عوام) اٹھاتے ہیں ۔لیکن مکافات عمل تویہ ہے کہ تاریخ تواب بھی رقم ہورہی ہے اورہم اب بھی کوئی عبرت حاصل نہیں کررہے۔کبھی منصف اپنے ترازومیں انصاف آمریت کے پلڑے میں ڈال کرناجائزاقتدارکوقبولیت کی سنددے رہا ہے،کبھی جمہوریت کے شب خون پرقلم توڑمہرلگاکراورکبھی اپنے ہی دی ہوئی رولنگ کی نئی تشریح سے احکام جاری کر دیئے جاتے ہیں مگراب حالات مختلف ہیں،کیونکہ اب معاملہ صرف عدلیہ تک نہیں رہ گیا۔

اب عدالتیں اس قدربااختیارہوچکی ہیں کہ انہوں نے واضح طورپرتمام سیاسی جماعتوں کومتنبہ کیاہے کہ اگرسیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں کوئی بھی کام خلاف آئین کرے گی تو عدالت کاحق ہے کہ اس کافوری نوٹس لیکرنہ صرف اس کوکالعدم قراردے بلکہ آئین کی تشریح کی بجائے آئین میں ترمیم کااختیاربھی محفوظ رکھتی ہے ۔بہرحال ان دنوں یہ آئینی معاملہ عدالت میں ہے کہ سیاسی جماعت کاسربراہ اہم یا پارلیمانی لیڈرکارتبہ بلند…..لیکن اس سے پیشترپارٹی لیڈرکی منشاکے خلاف ووٹ دینے پرعمران خان کی درخواست پرالیکشن کمشنرنے ان تمام 20/ممبران کوڈی سیٹ کردیالیکن آج پارٹی لیڈرچوہدری شجاعت کے اسی عمل پرعدلیہ کے فیصلے نے ساری قوم کوسوچنے پرمجبورکردیاہے کہ ”بدلتاہے آسماں رنگ کیسے کیسے”۔

آئیے ذرابڑے کینوس پرنظردوڑاتے ہیں۔نومبر قریب ہے اوریہ ستمگرمہینہ اپنی سحرانگیزتاریخ تک کیاکیاستم ڈھائے گانہیں معلوم۔ بس معلوم ہے توصرف اتناکہ آرمی چیف کی تعیناتی تک گیم آن ہے،بدقسمتی کہیے کہ عہدے اوراختیارکی جنگ ریاست اورسیاست بچانے کانعرہ بن چکی ہے۔تین ماہ قبل حکومت سنبھالنے والی سیاسی جماعتیں جب تک ”غیر جانبداری”کے خواب سے جاگیں تب تک بہت دیر ہوچکی۔مسلسل کئی سال تک عوام کوموجودہ نظام سے متنفرکرکے کبھی ”نظام مصطفی”کے فیوض وبرکات اورکبھی فلاحی ریاست یعنی ریاست مدینہ کے خواب آنکھوں کوعطیتاًبخشے گئے لیکن ان آنکھوں کوتعبیرسے روشناس کرانے کی بجائے قصرِاقتدارمیں جاکرعوام کی آنکھوں میں دھوکے کی خاک ڈال کراپنے پاپی پیٹ کوبھرنے میں کوشاں رہے اورہرکسی نے اپنے پیشروؤں کوموردالزام ٹھہراتے ہوئے ہی خودکو بری الذمہ قراردیکرنئے حملوں کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔لیکن اب جب معاشی حقیقتیں کھل رہی ہیں تو آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں۔ہرکوئی ملک کی تباہی کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈال رہاہے۔

اس معاشی ابتری اوربدحالی میں اب ہرکوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہاہے کہ کیسے کیسے حکمران آئے ہیں کہ قرضوں کی دلدل سے نکالنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس ہمارے موٹر ویز،ائیرپورٹس اوردیگرملکی قیمتی املاک کوگروی رکھ دیاگیاہے، اوراب مزیدملکی اثاثہ جات کوغیرملکی اداروں کوفروخت کرنے کاقانون پاس کرلیاگیاہے۔عنقریب سننے میں آئے گاکہ کہیں کوئی شہربک رہاہے،کہیں ریاست کاسودہ ہونے جارہاہے۔یہ کیسے سوداگرہمارے حکمران بن گئے ہیں؟ ساراملک پنساری کی دوکان بن گیاہے۔معلوم نہ تھاکہ اتناکچھ ہے گھرمیں بیچنے کیلئے،زمین سے لیکرضمیرتک سب برائے فروخت لگادیاگیاہے،سب بکتاجارہا ہے۔

اس سے زیادہ بدنصیبی کیاہوگی کہ عوام کادل جیتنے کیلئے کاغذکاایک ٹکڑالہراکرنعرہ لگایاگیاکہ میں اپنی قوم کوکسی کاغلام نہیں بننے دوں گاجبکہ غلامی تویہ ہے کہ 178سیٹیں رکھنے کے باوجو د10سیٹیں رکھنے والے ڈاکوکے سامنے خودلیٹ گئے اوراپنی پوری پارٹی سے ایک بھی ایساباصلاحیت بندہ نہ ملاجس کوملک کے سب سے بڑے صوبے کاوزیراعلیٰ بناسکیں۔ عین وقت پرق لیگ کے صدراوررہنما نے ڈپٹی سپیکرکوخط لکھ کرپانسہ ہی پلٹ دیااورڈپٹی سپیکرکے اس فیصلے نے جوبھونچال پیداکیا،اس کو سنبھالنے کیلئے ایک مرتبہ پھراعلی عدالت کا دروازہ پیٹناپڑگیا۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ جہاں پہلے سے عمران خان کی دو درخواستیں موجود ہیں۔پہلی درخواست کہ عدالت کوپارلیمانی کاروائی میں مداخلت کاکوئی اختیارنہیں دوسری درخواست میں یہ استدعاکی گئی ہے کہ عدالت پارلیمانی کاروائی میں مداخلت کرے۔اب قوم خودفیصلہ کرلے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔جن لوگوں پران کالیڈرچند منٹ کیلئے بھروسہ نہ کرے او ہوٹل میں نظربند کردے کہ کوئی ان کی وفاداریاں نہ خرید لے توآپ خودفیصلہ کریں کہ قوم کی تقدیران کے ہاتھ میں کیسے دی جاسکتی ہے۔اگرآپ کویاد ہوتو ضمنی الیکشن جیتنے کے فوری بعدعمران خان نے الیکشن کمشنرپرعدم اعتمادکااظہارکرتے ہوئے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ بھی دیاکہ وہ اب کوئی الیکشن اس الیکشن کمشنر کے ہوتے ہوئے نہیں لڑیں گے۔

ادھرموجودہ حکومت میں شامل گیارہ سیاسی جماعتوں نے فل بینچ بنانے کاجومطالبہ کیاگیاتھا،وہ عدلیہ کی طرف سے مستردکردیا گیاجس کے بعدانہوں نے آئندہ عدالتی کاروائی کے بائیکاٹ کااعلان کردیااورآج جب سپریم کورٹ نے حکومتی اتحادکے وکلا کو دلائل دینے کی دعوت دی توانہوں نے اپنے مؤکل کے فیصلے کے مطابق بائیکاٹ کی اطلاع دیکرمقدمے سے علیحدگی اختیار کرنے کااعلان کردیاجس کے جواب میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس اورحکومتی وکیل کے درمیان انتہائی سخت اورناپسندیدہ جملوں کاتبادلہ ہواجبکہ اصول تویہ ہے کہ اگر کسی ایک جج پرمدعی غیراطمینان کااظہارکردے توجج خوداس مقدمے سے الگ ہوجاتاہے۔

تاہم پارلیمانی جمہوریت میں اختیارعدالت کو تفویض ہورہے ہیں اورشخصی آمریت کی مثالیں دینے والے خود اشخاص کی آمریت کے پروردہ بن رہے ہیں ۔دھمکی، دھونس اور زبردستی کے سامنے آئین محض کاغذ کاٹکڑاہے اورناپائیدارجمہوریت کوآمریت سے زیادہ فسطائیت کے حوالے کردیاگیاہے۔سابقہ حکومت نے اپنے دورمیں پارلیمانی جمہوریت کوصدارتی آرڈیننس کے ذریعے کنٹرول کیااورعجب تماشہ ہے کہ آئینی بالادستی کوعدالتی فیصلوں کے کنٹرول میں دے دیاگیاہے۔ صحافت ،سیاست،معاشرت،ثقافت کوغیر مؤثر کرنے کیلئے ایسابدنام کیاگیاکہ طاقت کامرکزمحفوظ رہے مگرایساکیسے ممکن ہوسکتاہے کہ جودھول دوسرے چہروں کودھندلاکرنے کیلئے اڑائی جائے آپ خود اس کے نرغے میں نہ آئیں۔اس سارے دورمیں دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایسی رضیہ ہوئی جواپنے پالتوغنڈوں میں پھنس گئی اورجنہوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عوام میں ایسامقبول کردیا کہ برسوں کی محنت اور عزت سادات خاک میں ملانے میں کوئی کسرباقی نہیں رہی لیکن عدالت کے فیصلے کے بعدپانسہ ایساپلٹاہے جس نے ملک میں جاری پچھتاوے اوروسوسے کی آگ کوبجھایاہے یابھڑکایاہے،اس کافیصلہ آنے والاوقت بتائے گالیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اب حکومتی اتحاداسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پرواپس آجائے گاجبکہ تحریک انصاف ایک بار پھر اسی صفحے پرجس کاآسرا تھا،ان کی بانہوں میں سماجانے کی تمنابرآئی ہے۔لیکن بیانیے کی اس جنگ میں عوام کسی پارٹی کے حق میں ہیں یانہیں مگراسٹیبلشمنٹ مخالف ضرور ہو گئے ہیں اوریہ ہی اس ملک کاسب سے بڑانقصان اورعظیم خسارے سے کم نہیں۔
ملک کی سیاسی صورتحال،طاقتوراداروں کی موجودہ صورتحال پربے ساختہ شعریادآگیا:
شہرکے آئین میں یہ مدبھی لکھی جائے گی
زندہ رہناہے توقاتل کی سفارش چاہئے

تاہم چارسال پہلے ہاتھوں سے لگائی گانٹھیں،آج دانتوں سے بھی نہیں کھل رہیں اورنتیجہ معاشرہ تقسیم درتقسیم ہوتاچلاجارہاہے۔تمام ادارے تفریق کاشکارہیں،شخصیات نے ذاتی مفادکیلئے قومی مفادات داپرلگادیئے ہیں۔آئین کی عملداری شخصیت پرستی کی نذرہوگئی ہے،جمہوری نظام خطرے میں ہے اوربچی کھچی معاشی خودمختاری داؤپر………بچاؤکاصرف ایک ہی راستہ ہے……چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں