Who are terrorists?

دہشتگردکون؟

:Share

جوں جوں پاکستان میں انتخابات قریب آرہے تھے،اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پردہشتگردخودکش حملوں کی صورت میں ابتری پھیلانے کیلئے ارضِ وطن کوخون میں رنگین کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے تھے۔مستونگ وگردوپیش کے دوسرے علاقے میانوالی،ڈیرہ غازی خان،بنوں، وزیرستان اورکرم ایجنسی کے علاوہ چترال تک روح فرساخبریں پڑھنے کوملناشروع ہوگئیں اور جوابی طورپرہماے محافظ دلیری سے اپنی جانیں قربان کرکے اس وطن عزیزکی حفاظت میں مصروف ہیں۔گویاپاکستان جوضرب عضب اوررد الفساد آپریشنزمیں ان دہشتگردوں سے صفایاکرنے میں مصروف ہے ، اسےایک مرتبہ پھرپیغام دیاجارہاہے کہ ان دہشتگردوں کامکمل صفایاہوناابھی باقی ہے۔ یادرہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم نے گزشتہ دنوں بھارت کو ایک سے زیادہ مرتبہ واضح پیغامات بھی دیئے کہ پاکستان اپنی لازوال قربانیوں سے ان دہشتگردوں کاخاتمہ کرنے میں مصروف ہے اوران طاقتوں کوبالآخرمنہ کی کھانی پڑے گی لیکن دشمن اس وقت چاروں اطراف سے اپنی سازشوں میں مصروف رہا۔دراصل دشمنوں کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان میں کسی طرح انتخابات کوسبوتاژکرکے عالمی طورپر1971ء والی کہانی دہرائی جائے لیکن اللہ کاشکرہے کہ نہ صرف انتخابات مکمل ہوئے بلکہ اس کے نتیجے میں سارے ملک میں حکومتیں بھی قائم ہوگئیں۔

جوبائیڈن کاافغانستان سے یوں رسواہوکرانخلاء کادکھ چھپائے نہیں چھپتاجبکہ افغانستان سے جان چھڑانے کے بعدان کوحقائق کی طرف لوٹ کراپنی سابقہ پالیسیوں پرتدبرکرناضروری تھالیکن وہ توفوری طورپراسی خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ روس کے ساتھ محاذآرائی میں مشغول ہوگئے اور یوکرین کی پشت پرہاتھ رکھ کرہزاروں افرادکواپنے مفادات کی بلی چڑھادیا اوراب یوکرین کے ساتھ ساتھ روس بھی اس جنگ سے جان چھڑانے کیلئے توبیتاب ہیں لیکن امریکاابھی ایک اوردھکہ دینے کیلئے سرگرم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے اپنے پرانے مہروں کو استعمال کرکے پاکستان میں 8فروری کوہونے والے انتخابات کوسبوتاژکرنے کے عمل میں مصروف ہے۔بالخصوص حالیہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ قتل وغارت کی جس طرح حمائت میں بائیڈن ،اوراس کے ہمنواؤں کاشرمناک کردارہے،خودان کے اپنے ملکوں میں لاکھوں افرادکے مظاہروں نے اس کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔

یہ سارابیانیہ میڈیامیں درجنوں مرتبہ زیربحث بھی رہاحتی کہ خودامریکامیں کئی دانشوروںامورسیاسی تجزیہ نگاروں نے جوبائیڈن کے اس رویے کو بداخلاقی اورسیاسی عقل سے عاری بھی قراردیا لیکن آج تک بائیڈن کے رویے میں تبدیلی کی بجائے مسلسل ایسے ریمارکس کئی دیگرملکوں کے خلاف بھی استعمال کرکے ان سیاسی تجزیہ نگاروں کی آراء کودرست ثابت کردیاہے کہ بائیڈن طاقت کے بل بوتے پرتمام مسائل کاحل اپنی مرضی کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔بائیڈن کے اس بیانیہ میں ایک لفظ ”دہشتگردی”جواس فاعل کے صیغے کے ساتھ استعمال ہوا ہے،انتہائی مبہم اورغیرواضح ہے، دہشتگردی کیاہے؟

آج کی دنیامیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والالفظ”دہشتگردی”ہے۔انسائیکلوپیڈیابتاتاہے کہ دنیاکی تمام زبانوں میں آج یہ سب سے زیادہ لکھااور پڑھاجانے والالفظ ہے جو کرۂ ارض کی ہرزبان میں ترجمے کی صورت گردش کررہاہے۔اخبارات،ریڈیو، ٹیلی ویژن ہرجگہ آپ کواس لفظ کاسامناکرنا پڑے گا۔یہ لفظ ہماری سماجی زندگی کی گفتگومیں ہرطرح سے دخیل ہے۔دنیابھر کے اسکولوں کالجوں اوریونیورسٹیوں کے طالب علموں کی زبان پر ہے۔استادوں،صحافیوں اوردانشوروں کی گفتگوکامحوریہی لفظ”دہشتگردی”ہے۔انٹرنیٹ کی دنیامیں داخل ہوتے ہی آپ کاسامنااس لفظ سے ہوتا ہے۔آج یہ لفظ دہشتگردی بغیرکسی ٹھوس وضاحت اورتعریف کے عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کی نذرہوگیاہے۔کوئی بھی ملک ،تنظیم،گروہ یابااثر شخصیت اپنے ملک کوبین الاقوامی سطح پرذلیل کرکے اپناضمیربیچ کراپنی عزت نیلام کرکے اپنے ہی شہریوں کی نظرمیں اپنے آپ کو رسوا کرکے اگر عالمی طاقتوں کے مفادات کیلئے ایڑی چوٹی کازورلگاتاہے تواس ملک اورگروہ کے جنگجوحریت پسندکہلاتے ہیں اوراعلیٰ عہدیداروں کونوبل پرائزاور امن ایوارڈزدیئے جاتے ہیں اورخراج تحسین پیش کیاجاتاہے لیکن اگرکسی کامردہ ضمیر بیدارہوجاتاہے، اپنے ملک کوترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کیلئے منصوبہ بندی اوردیگر ممالک سے معاہدے کیےجاتے ہیں،خیرات کاکشکول توڑکرمعیشت کومستحکم کرنے کاارادہ کیاجاتا ہے، ملک کودہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں،خوداپنے پاؤں پرکھڑاہونے کی کوشش کی جاتی ہے،اپنے ملک کے انفرادی اوراجتماعی مفادات کوعالمی طاقتوں کی چاپلوسی پرترجیح دی جاتی ہے تووہی لوگ جوپہلے عالمی طاقتوں کی نظرمیں حریت پسندکہلاتے تھے، وہی دہشتگرد، جھوٹے اوردھوکے بازکہلاتے ہیں۔

پاکستان ہی کی مثال لے لیجئے،برسوں سے لیکرآج تک تیل کے حصول کیلئے امریکی جنگ کواپنی جنگ سمجھ کرفرنٹ لائن اتحادی کارول اداکیاجس سے ہمارااپناملک دہشتگردی کی زدمیں آگیا ۔مزیدنقصان یہ ہواکہ عالمی میڈیامیں پاکستان کواسٹیٹ آف ٹیررقرارے دیاگیا ۔تیل کے ذریعے امریکی معیشت کوجلابخشنے کیلئے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قوم کے نوجوانوں کودہشتگردی کی آگ میں دھکیل دے دیاگیا لیکن جب اسٹیٹ آف ٹیررکو(اسٹیٹ آف پیس اینڈلو) میں تبدیل کرنے کاارادہ کیاگیاتوہم دھوکے بازاور جھوٹے ٹھہرے۔

جب اپنی لازوال قربانیوں سے اپنے ملک سے دہشتگردی جیسی لعنت کوختم کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کرلی اوریہ تمام دہشتگردپاکستان کی سرزمین پریاتوماردیئے گئے یاپھرفرارہوکر افغانستان کی سرزمین کے اس علاقے میں جابسے جہاں خودامریکی افواج کی عملداری تھی اوران کی ناک کے نیچے بھارتی”را”انہیں پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرنے کیلئے باقاعدہ اڈے قائم رکھے تھے اورایک مرتبہ پھرانہیں گمراہ لوگوں کواستعمال کرنے کیلئے کام شروع ہوچکاہے،اور پاکستان کے ٹھوس شواہدفراہم کرنے کے باوجودان کے خلاف کاروائی سے اجتناب کیاجارہاہے لیکن جب بھی ”ڈومور”کے احکامات ماننے کی بجائے اقوام عالم سے”ڈومور”کاجائز مطالبہ کیاگیاتوجواب میں تحسین کی بجائے الٹااس پرجھوٹ اوردھوکہ دہی کا الزام ایک فاترالعقل کی طرف سےلگادیاگیا۔

افغانستان کی مثال لے لیجئے۔روس کے ساتھ برسرپیکارافغان طالبان کومالی تعاون کے ساتھ ساتھ امریکاکی طرف سےاسٹنگر میزائل اورجدیدقسم کا اسلحہ فراہم کیاجاتارہاجس کی مدد سے تقریباً دس سال تک بے سروپاطالبان روس کے ساتھ زورآزمائی کرتے رہے بالآخرروس انتہائی بری طرح شکست کھاکرنہ صرف اپنابوریابسترسمیٹ کرچلاگیابلکہ اسی کے بطن سے چھ اور مسلم ریاستوں کاقیام عمل میں آگیااورامریکادنیامیں واحدسپرپاوربن گیا۔ ہونا تویہ چاہئے تھاکہ اس لازوال قربانیوں کوتسلیم کرتے ہوئے تباہ حال افغانستان اورپاکستان کی ہرممکن مددکی جاتی لیکن امریکا فوری طور پرطوطے کی طرح آنکھیں پھیرکرواپس چلاگیالیکن اس مشکل حالات میں یہ پاکستان ہی تھاجس نے افغانستان میں قیام ِامن کیلئے اپنی تمامترکوششوں کو جاری و ساری رکھااورکسی حد تک انہی افغان طالبان نے افغانستان میں جاری خونریزری پرقابوپاکرپرامن حکومت کی بنیادرکھی اوردنیانے یہ تسلیم کیاکہ انہی طالبان کے دورِ حکومت میں منشیات اوردیگرجرائم پرقابوپالیاگیا لیکن جونہی روس سے الگ ریاستوں جہاں قدرتی معدنی گیس اورتیل کے وافرذخائر کے خزانوں کاانکشاف ہواتو امریکاایک مرتبہ پھران کے حصول کیلئے راہداری کیلئے افغانستان کواستعمال کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے لیکن طالبان امریکاکی بے وفائی کے مناظربھول نہ پائے تھے،اس لئے انہوں نے اپنی شرائط پر معاملہ طے کرنے کی کوشش کی جوایک خود مختار ملک کاحق ہے جوامریکانے طاقت کے نشہ میں ماننے سے نہ صرف انکارکردیابلکہ افغان حکومت کوتبدیل کرنے کیلئے سازشیں شروع کردیں۔ جب امریکا اپنی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکاتواس نے ورلڈ ٹریڈ سنٹرکی تباہی کاافسانہ گھڑلیااوروہی طالبان جوکبھی حریت پسندکہلاتے تھے، اسامہ بن لادن کوپناہ دینے کے الزام میں امریکی بربریت ،درندگی اورسفاکی کانشانہ بنے اوردہشتگردکہلائے۔

امریکاکواپنے علاوہ تمام مسلم دنیابالخصوص پاکستان دہشتگرددکھائی دیتاہے اورکیوں نہ دکھائی دے کہ امریکاباربارانسانیت سوزمظالم اوردرندگی کا مظاہرہ کرنے سے بازنہیں آرا۔کسی بھی ملک کیلئے جوغلط راہ پرچل پڑے ،مسلمان ملک وملت سے خائف ہوناایک فطری امرہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کیلئے غلط کام کرنے پرایک خوف ڈال دیا ہے۔اسی خوف کے زیراثربائیڈن یاکسی بھی شخص کاپاکستان کھ خلاف اپنی کاروائیاں جاری رکھناکوئی عجب بات نہیں۔اس کو توایک مثال سے یوں سمجھ لیجئے کہ ایک چورکسی گھرمیں ڈاکہ ڈالتا ہے،پولیس کواطلاع ہوتی ہے توچورکورنگے ہاتھوں گرفتارکرنے کیلئے چوراورپولیس کاآمناسامناہوتاہے۔اس وقت چورکیلئے پولیس دہشتگردہوئی کیونکہ چورکیلئے پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی دہشت اورخوف ایک طبعی امرہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکااوراسرائیل کے دلوں میں پاکستان کی انتہائی دہشت چھپی ہوئی ہے ،اسی لئے تومختلف مواقع پراس خوف کااظہارکیاجارہاہے۔

جب1967ءکی جنگ میں عربوں کی شکست پریہودیوں نے فرانس میں جشن منایا،اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے ایک تقریب میں واشگاف اعلان کیاکہ”یہودی تحریک کیلئے پاکستان کونظراندازکرناانتہائی خطرناک ثابت ہوسکتاہے،اس لئے ہمارے لئے پہلاہدف پاکستان ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان ایک نظریے کی بنیادپروجودمیں آیا ہے اوریہی نظریہ ہماری منزل مقصود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔چنانچہ ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم جلداز جلد پاکستان کے خلاف ٹھوس اورپرزوراقدامات کاآغازکریں”۔بہرحال یہ توہمیشہ پاکستان سے خوفزدہ رہیں گے لیکن عوامی سطح پردہشتگردی کی اصطلاح سمجھنے کیلئے نہ توامریکاکی کسی ڈکشنری میں اس کی ٹھوس تعریف اوروضاحت ملتی ہے نہ امریکا کے کسی صدر ،اس کے کسی اتحادی ملک کے سربراہ یاوزیراعظم،سیاستدان یاقانون دان نے دہشتگردی کی ٹھوس تعریف کرنے کی زحمت گوارہ کی ہے ۔ کرے بھی کیوں،کہ اسے اپنے حق میں استعمال جو کرنا ہے۔

دہشتگردکالفظ پہلی مرتبہ 1790ءمیں پہلی مرتبہ انقلاب فرانس کے دوران استعمال ہواجبکہ امریکا کی آکسفورڈڈکشنری کے مطابق اس کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے:
The use of violent actions in order to achieve political aims or to force and government to act.
“شدیدمقاصد کیلئے یاحکومت کو عمل کرنے پرمجبورکرنے کیلئے تشدد کے کاموں کااستعمال”۔اسی وضاحت اورتعریف کو مدنظررکھتے ہوئے امریکا کوعالمی دہشتگردکہنایقیناانصاف کاتقاضہ ہے۔میری بات سے میرے ملک کے بعض دوراندیش، روشن خیال اورترقی پسندحضرات یقیناًاختلاف کریں گے لیکن شایدکوئی مندرجہ ذیل حضرات کی تائیدکی بناءپرہی ہمارے مؤقف سے اتفاق کرلے۔

امریکی جنگ آزادی کے دوران برطانوی حکومت کی طرف سے بینجمن فرینکلن اورجارج واشنگٹن کوعالمی دہشتگردقراردیا گیاتھا۔20ستمبر2006ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کےاجلاس وینزویلاکے صدرہوگوچیوازنے جارج بش کوشیطان اور دہشتگردقراردیاتھا۔دسمبر2005ء میں”دی آئرش ٹائمز”کوایک انٹرویودیتے ہوئے بولویاکے صد رایوومورالس نے جارج بش کودہشتگرد قرار دیاتھا۔جنوری2006ءمیں امریکاکے مشہور موسیقار ہیری بیلافونٹی نے جارج بش کودنیاکاسب سے بڑا دہشتگرد قراردیاتھا۔اگست 2005ءمیں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبرجارج گیلوے نے جارج بش کودنیاکا سب سے بڑادہشتگردقراردیتے ہوئے کہاتھاکہ جارج بش اورٹونی بلیئرکے ہاتھ ان لوگوں کی نسبت زیادہ خون آلودہیں جوورلڈ ٹریڈ سنٹریالندن میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ اس پرمستزادیہ کہ اگرکوئی شخص کسی بے گناہ انسان کوتکلیف پہنچائے بغیرجارج بش اورٹونی بلیئرپرخودکش حملہ کرے گاتویہ عین انصاف ہوگا۔25جولائی 2006ءنیدرلینڈکی نوبل انعام یافتہ بیٹی ویلیمزنے تویہاں تک کہہ دیاتھا کہ”مجھے جارج بش کوقتل کرنے کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے”۔

اپنی خونخواری،درندگی،سفاکی اوربربریت کودنیاکی نظروں سے چھپانے اوراپنے مذموم مقاصد کے حصول میں اسلام اور مسلمانوں کوراستے سے ہٹانے کیلئے اسلام کو دہشتگردی سے جوڑنے اوراسے ایک خطرناک اورخونخوارمذہب کے طورپر پیش کرنے کیلئے پرزور پروپیگنڈہ اورسرتوڑناکام کوششیں کی جارہی ہیں جس کیلئے ماہانہ کروڑوں ڈالرزخرچ کئے جاتے ہیں اورمسلمانوں میں سے سلمان رشدی جیسے ملعون لوگ پیدا کرنے اور خریدنے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن اسلام کے مطالعے سے لوگ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ اسلام عالمگیرامن کاداعی ہے اورپرامن معاشرے کیلئے مختلف مذاہب کے ہوتے ہوئے بھی باہمی محبتوں کاوجودضروری ہے۔اسی محبت کے جذبے کوفروغ دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کومختلف مقامات سے مٹی کوجمع کرکے تخلیق فرمایا۔اس حقیقت کوجاننے کے بعد پروپیگنڈہ سے متاثرافرادفطری طورپراسلام قبول کرنے پررضامندہوجاتے ہیں۔ یورپ میں سرعت سےاسلام قبول کرنے والوں کی یہی وجہ ہے۔یورپ میں اسلام کے تیزی سے پھیلاؤ کوروکنے اوراس کے آگے بندباندھنے کیلئے متبادل راستے کے طورپرہرمسلمان دہشتگرد نہیں لیکن ہردہشتگردمسلمان ہے”کے نعرے کوعالمی میڈیامیں فروغ دیا جا رہا ہے جس نے اسلام کی طرف رغبت رکھنے والے غیرمسلموں اور ہمارے بعض دانشوران اورترقی یافتہ طبقے کوبھی کسی حدتک متاثرکیاہواہے جسے حقیقت اورتاریخ کے آئینے میں جانچنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر مسلموں کواسلام پرمطمئن کرنے کاسامان ہوسکے اوریہ ہمارے لئے مزید استقامت کاسبب بنے۔

انیسویں اوربیسیویں صدی میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کااگرجائزہ لیاجائے توحقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے۔13 مارچ1881ء کو ایک دہماکے میں روس کے بادشاہ الیگزینڈر دوم کوقتل کیاگیا جبکہ اس کے ساتھ ہی20دیگرافرادبھی ہلاک ہو گئے۔یہ واقعہ ایک غیرمسلم شخص کے ہاتھوں پیش آیا۔4مئی 1886ءکوشکاگومیں ایک لیبرریلی کے دوران دہماکہ ہواجس میں 12/افرادہلاک اور7زخمی ہوئے جس کی ذمہ داری انارکسٹ نے قبول کی جوکہ ایک غیرمسلم تھا۔6ستمبر1902ءکوایک غیر مسلم شخص نے امریکاکے صدرویلیم میکنلے کوقتل کردیا۔یکم اکتوبر1920ء کو مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے دوافراد ضیمزاورجوزف نے ٹائمزاخبارکی عمارت کودہماکے سے اڑادیاجس میں21افرادہلاک ہوگئے۔

28جون1914ءکوآسٹریلیاکے آرکو ڈوک اوراس کی بیوی ایک بوسینائی سرب کے ہاتھوں قتل ہوئے جوجنگ عظیم اوّل کاپیش خیمہ بنا۔16/اپریل1925ء کوبلغاریہ کی کیمونسٹ پارٹی نے بلغاریہ کے”سینٹ نیڈیلا”چرچ میں دہماکہ کیاجس میں 50/افرادہلاک اور 500/ افرادزخمی ہو گئے،اس کوبلغاریہ کی سب سے بڑی دہشتگردانہ کاروائی شمارکیاجاتاہے۔9/اکتوبر1934ء کو یوگوسلاویہ کے کنگ الیگزینڈراوّل کاایک غیرمسلم سیکورٹی گارڈکے ہاتھوں قتل ہوا۔3/ستمبر1969ءکوبرازیل میں امریکی سفیرکوایک غیرمسلم شخص نے اغواءکرکے قتل کردیا۔30 جولائی 1969ء کوجاپان میں ایک غیرمسلم نے امریکی سفیرپرچاقوسے حملہ کرکے زخمی کردیا۔انیس اپریل1995ء کومسیحی برادری کے دوافرادٹی موتھی اورٹیری نےاوکلوہاماشہرکی فیڈرل بلڈنگ میں دہماکہ کیاجس میں166/افرادکی جانیں ضائع ہوگئیں اور100سے زیادہ افرادزخمی ہوئے۔1941ءسے لیکر1948 ءتک مختلف یہودی تنظیموں کی دہشتگردی کے تقریباً260واقعات نوٹ کیے گئے۔22جولائی 1946ءکودائیں بازوکے صہیونی لیڈرمینہم بیگن نے یروشلم میں واقع برطانوی ایڈمنسٹریشن ہیڈکوارٹرکنگ داؤدہوٹل میں دہماکے کروائے جس میں91/افرادہلاک اور40 / افراد سے زائد زخمی ہوئے جسے برطانیہ نے عظیم دہشتگردقراردیاجبکہ1978ءمیں اسی عظیم دہشتگردکونوبل پرائزسے نوازاگیا۔9مئی1978ءکوایک غیرمسلم کے ہاتھوں اٹلی کے ایلڈومور کا قتل ہوا۔20مارچ1995ءکو”کلٹ موومنٹ آم” نامی تنظیم کے رکن اوربدھ مت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ٹوکیوکی ایک شاہراہ میں زہریلی گیس چھوڑدی جس سے 12/افراد ہلاک اورہزاروں متاثرہوئے۔

امریکامیں گزشتہ سوسال کے دوران“آئرش ری پبلکن آرمی”کے ہاتھوں دہشتگردی کےمتعدد واقعات دیکھے گئے۔1972ءمیں تین دہماکے کیے جس میں20افرادہلاک اورسوسے زائد شدید زخمی ہوگئے۔1974ءمیں دودہماکے کئے جس میں 25سے زائدہلاک اور100سے زائدزخمی ہوئے۔1995ءمیں مانچسٹرکے شاپنگ مال میں ایک زبردست قسم کادہماکہ ہواجس میں کئی درجن افرادہلاک اور200سے زائدزخمی ہوئے۔اگست 1998ء میں بین بریج کے دہماکے میں 30سے زائدزخمی ہوگئے ۔اسپین اورفرانس میں”ای ٹی اے”(اوسکاڈی ٹاسکا ٹاسونا) دہشتگردی کے36 واقعات میں ملوث پایاگیا۔یادرہے ان تمام واقعات میں ایک بھی مسلمان ملوث نہیں تھابلکہ تمام ملزمان غیرمسلم تھے۔

پانچ جون1984ءکوامرتسربھارت میں اندین فورسزنے گولڈن ٹیمپل پرحملہ کیاجس میں سینکروں سکھ افرادکوبیدردی سے مار دیاگیاجس کاانتقام لینے کیلئے اندراگاندھی کوان کے اپنے ہی سکھ گارڈنے31/اکتوبر1984ء کوگولیوں سے چھلنی کردیا۔بیسیویں صدی میں2/اکتوبر2004ءکوعیسائی دہشتگردوں نے 44/ہندوؤں کوقتل کردیاجس میں انہوں نے یہ مؤقف اختیارکیاکہ اب تک ہندوجنونیوں نے ہمارے کئی گرجاگھروں کوآگ لگائی ہے اورہمارے کئی عیسائی راہبوں کوزندہ جلادیاگیااوعلاوہ ازیں مسلسل عیسائیوں کوجبراً ہندو بنانے کاعمل جاری ہے جس پربھارتی حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔اسی طرح 1990ء سے لیکر 2006ءتک شمالی مشرقی انڈیاکی ایک تنظیم یونائیٹڈلبریشن فرنٹ آف آسام کودہشتگردی کے749 واقعات میں ملوث پایا گیا۔بھارت کے600علاقوں میں سے150علاقوں پریعنی ایک تہائی بھارت پرمحیط نیپال کی ماؤتنظیم نے سات برسوں میں دہشتگردی کے 99واقعات سرانجام دیئے۔اس کے علاوہ بھی بیسیوں واقعات ایسے ہیں جن میں آپ کوکسی مسلمان کانام تک دکھائی نہیں دے گا اوراگرکہیں پردعویٰ کیا گیاہے تووہ بے جااوربلاثبوت ہے اوراگردعویٰ ٹھوس ثبوتوں کی بنیادپر ہے تب بھی یہ حملہ آورکا ذاتی فعل ہے،جومذہب اسلام نمازکیلئے وضو میں زائدپانی بہانے کی اجازت نہیں دیتا وہ بھلاکسی بے گناہ کے قتل کی اجازت کیسے دے سکتاہے بلکہ کسی ایک بے گناہ کے قتل کوتوساری امت کے قتل سے تشبیہ دی کرشدیدمذمت کرتا ہے۔

یوگنڈامیں”لارڈسالویشن آرمی” کے نام سے عیسائیوں کی دہشتگردتنظیم موجودہے۔سری لنکامیں تامل ٹائیگرزکے نام سے دہشتگردتنظیم جواس خطے میں خودکش حملوں میں کافی مشہورہے،وہ ایک ہندومذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔پنجاب بجرنگ دل کے نام سے سکھوں کی تنظیم پائی جاتی ہے جویہ دعویٰ کرتی ہے کہ اب تک بھارتی سیکورٹی وفورسزنے تین لاکھ سے زائد بے گناہ سکھوں کوقتل کیاہے جس کی بناء پروہ اب بھارت سے الگ خالصتان بناناچاہتی ہے جس کوبھارت نے دہشتگردتنظیم قراردے رکھاہے لیکن ان میں سے کسی کوبھی ہندددہشتگرد، عیسائی دہشتگرد یاسکھ دہشتگرد کہہ کر پکارنےیاسننے کاکبھی اتفاق نہیں ہوابلکہ ان کی دہشتگردی کوان کی تنظیموں کے نام سے منسوب کیاجاتارہاہے تاہم کسی بھی جگہ ایک ناسمجھ مسلمان کی چھوٹی سی غلطی کوبھی اسلام سے منسوب کردیناکہاں کاانصاف ہے۔فافھم وتدبر

عراق،لیبیا،افغانستان،فلسطین،لبنان اورکشمیرمیں اب تک لاکھوں افرادقتل کردیئے گئے ہیں اورہنوزیہ سلسلہ جاری ہے۔عراق پر امریکااوراس کے اتحادیوں نے جوبہانہ بناکر اس کوتاراج اورتین ملین سے زائدبے گناہ افرادکوشہیدکردیاگیا،اس بہانے کوسب سے پہلے خودامریکی جنرل نے اقوام متحدہ میں اس غلطی کوتسلیم کیا،بعدازاں ٹونی بلیئرنے میڈیا پرآکراس غلطی کوتسلیم کرتے ہوئے معافی مانگی لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کیااس معافی کی تلافی ممکن ہے؟عراق جیسے قدیم ملک کی تہذیب کونابود کردیاگیا،تیس لاکھ افرادکوبمباری کی بارش نے تہس نہس کردیا، خاندان اجڑ گئے، کاروباروتجارت کانام ونشان نہیں بچا۔کیاکسی عالمی ادارے نے امریکااوربرطانیہ کے ان جنگجورہنماؤں کے خلاف کسی جنگی عدالت میں مقدمہ چلانے کی قراردادمنظور کی؟اگریہی ظلم کسی مسلمان ملک یامسلم رہنماءسے سرزدہوتاتوکیااس کوبھی اسی طرح ہلکے پیٹ برداشت کرلیاجاتا؟سزادیناتو درکنار ان ظالم درندوں کومجرم تک قرارنہیں دیاگیا۔

افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف امریکاسمیت تمام مغرب انہی افغان لڑنے والوں کومجاہدین کے نام سے پکارتاتھااور ہرقسم کے جنگی اسلحے سے روس کے خلاف امدادفراہم کرتا رہالیکن آج یہی کام امریکاکے خلاف جاری ہے اورایک اطلاع کے مطابق امریکانے روس سے کہیں زیادہ خوفناک بمباری میں منی ایٹم بم کے ساتھ ساتھ فاسفورس بم استعمال کرکے پانچ ملین افغانوں کوموت کے گھاٹ اتاردیااورہنوزیہ سلسلہ اب غزہ میں جاری ہے لیکن منافقت کایہ عالم ہے کہ اپنے اس دہرے کردارپرشرمندہ ہونے اوراپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے انہی مجاہدوں کودہشتگردقراردے دیا گیا۔یہی معاملہ فلسطین میں جاری وساری ہے جہاں اسرائیل جیساظالم درندہ صفت پچھلی6دہائیوں سے نہ صرف ان کی سرزمین پرناجائزقابض ہے بلکہ ہرآئے دن ان مظلوم فلسطینیوں کوگاجرمولی طرح کاٹ رہاہے لیکن امریکااعلانیہ اس کی پشت پناہی پرنہ صرف کھڑاہے بلکہ اقوام متحدہ کی منظور قراردادوں کو پس پشٹ ڈال کراپناسفارت خانہ یروشلم میں منتقل کرکے اس نےدنیاکوکیاپیغام دیاہے؟ کیا ٹرمپ کے اس غیرقانونی اقدامات کو اقوام عالم میں کسی نے چیلنج کیا؟یکطرفہ طورپرایران کے ساتھ کئے گئے جوہری معاہدے کے پرزے اڑادیئے گئے اوراس پرمستزاد دنیابھرکے ان تمام ملکوں کودہمکاکرایران کودنیامیں تنہاکرنے کی پالیسی پرعملدرآمد کرانے پرسرگرم ہے جوایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بھارت بھی خطے میں امریکاکے نقش قدم پرچلتے ہوئے طاقت کے بل بوتے پراپنے تمام ہمسایہ ممالک پراپناایجنڈامسلط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔اقوام متحدہ کی تمام قرار دادوں کے پرخچے اڑاتے ہوئے اب تک کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کی بجائے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہیدکرچکاہے۔جانوروں کوشکارکرنے والی ممنوعہ پیلٹ گن کابے دریغ استعمال کرکے سینکڑوں کشمیریوں کوبصارت سے محروم کر چکا ہے۔کیااقوام متحدہ یاکسی بھی مغربی ملک نے بھارت کو دہشتگردملک قراردینے کے بارے میں سوچا بھی ہے؟اگریہی عمل پاکستان یاکسی اورمسلمان ملک میں رونماہوتاتوکیاامریکا اور مغربی ممالک کی لونڈی اقوام متحدہ اب تک خاموش تماشائی رہتی؟ لیکن اگرکہیں بدقسمتی سے کچھ مسلمان دہشت گردی میں ملوث پائے جاتے ہیں تومعدودے چندمسلمانوں کی وجہ سے ان کے دین کی تعلیمات سے انکارکرناانتہائی پرلے درجے کی بیوقوفی اور حماقت کے سواکچھ نہیں۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص کوگاڑی چلانانہیں آتی اوروہ کسی اعلیٰ کمپنی کا بہترین اورنئے گاڑی میں بیٹھ کرکسی کھمبے میں جامارتاہے اور بعدمیں اس کمپنی کوموردِالزام ٹھہرائے کہ اس نے گاڑی ٹھیک نہیں بنائی توکیاہم اس اناڑی ناہنجارشخص کی بات پریقین کرنے کیلئے تیارہوں گے؟ کوئی احمق ہی ہوگاجواس کی بودی دلیل پرقہقہہ نہ لگائے کیونکہ کھمبے سے گاڑی کاجاٹکراناگاڑی کی نہیں بلکہ چلانے والے کی ناسمجھی اورکم علمی ہے۔ اسی طرح اگرکوئی مسلمان دہشت گردی اورانتہاء پسندی کے واقعات میں ملوث پایاجائے تواس کی وجہ اسلام کی تعلیمات نہیں بلکہ اس مسلمان کا اسلام سے لاعلمی کانتیجہ ہے۔اس کے باوجودمذہب کے تناظرمیں درندگی،سفاکی،بربریت اورانسانوں پرہونے والے مظالم اورزیادتیوں کا جائزہ لیا جائے تب بھی دیگر ناانصافیوں اورانسانیت کاخون بہانے ے حوالے سے مسلمانوں کی تقصیرات ہیچ نظرآنے لگیں گی۔

جرمنی کے ایڈولف ہٹلرنے ساٹھ لاکھ لوگوں کاقتل عام کیاجوایک عیسائی تھا۔دوسری عالمی جنگ جوجرمنی،اٹلی،فرانس، برطانیہ،جاپان،آسٹریلیا، کینیڈا،نیوزی لینڈ،انڈیا،سوویت یونین،چائنا اور امریکاکے مابین لڑی گئی،اس جنگ میں تمام ملکوں کی افواج کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعدادکم ازکم پانچ کروڑاورزیادہ سے زیادہ آٹھ کروڑبتائی جاتی ہے،ان میں کوئی ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں۔سوویت یونین کے جوزف سٹالن نےدوکروڑلوگوں کاخون بہایاجن میں ایک کروڑچالیس لاکھ افراد کوبھوک اور پیاس سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔چائناکے ماؤزے تنگ نے ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑساٹھ لوگوں کوفناکے گھاٹ اتاردیا۔اس باب میں مسولینی نے بھی حصہ لیااورچارلاکھ افرادکاقتل عام کیا۔میکسی میلین نے انقلاب فرانس کے دوران چارلاکھ لوگوں کوقتل کیا،ان میں کوئی ایک بھی مسلمان نہیں بلکہ یہ تمام عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اشوکا نے کلنگاکی جنگ میں ایک لاکھ افراد کوقتل کیاتھاجوایک ہندوتھا۔اس بات سے انکارممکن نہیں کہ عراق کے صدام کے ذمہ بھی کئی ہزار لوگوں کاخون ہے اورانڈونیشیا کے محمد سوہارتونے بھی تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کوقتل کرنے کااعزازاپنے نام کیاہے لیکن یہ تعداد باقی تمام جنگوں اور دہشتگردی کے واقعات جوغیرمسلموں کے ذریعے انجام پائے کے مقابلے میں کئی گناکم بلکہ نہ ہونے کے برابرہے۔

ان تاریخی حقائق سے یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ دہشتگردی کاکوئی مذہب نہیں ہوتااوراسے کسی بھی مذہب کی تعلیمات سے جوڑناقرین انصاف نہیں۔ہاں!ایک بات ضرورہے اگرمستقبل قریب یابعیدمیں دہشتگردی کیلئے کسی مذہب کانیانام کے انتخاب پرغورکیاجائے تو دہشتگردی کے مذہب کانیانام اسرائیل یاامریکاہوناچاہئے اوردہشتگردوں کے کمانڈروں کے نام جارج واشنگٹن،جارج بش،ٹونی بلیئر، ٹرمپ، بائیڈن،نیتن یاہواورمودی ہونے چاہئیں کیونکہ ان کی اپنی آکسفورڈڈکشنری کی تعریف کے مطابق یہ حضرات عالمی دہشتگردقراردیے جا چکے ہیں ۔اس تناظرمیں سب سے بڑے جھوٹے،مکارکہلائے جانے کے لائق یہ حضرات ہیں جوانسانیت اورمذہبی رواداری کاڈھونگ رچاکرمساوات کاعلم ہاتھ میں لیے ساری دنیاکو ویران کرنے چل پڑے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں