This sorrow is a trust for the next generation

یہ دکھ اگلی نسل کی امانت ہیں!

:Share

اس وقت دنیابھرمیں سب سے زیادہ مصائب میں مبتلا امت مسلمہ ہے جس پرچاروں طرف سے ابتلاء کی بارش کردی گئی ہے لیکن ہمارے تمام دشمن نہ صرف اکٹھے مل کرمسلمانوں کونیست ونابودکرنے کی عملی سازشوں میں شریک ہیں بلکہ ہمیں بھی ایک دوسرے کادشمن بنانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اورہم ایک دوسرے کاگلہ کاٹنے میں مصروف ہیں۔یوں تواس وقت امت مسلمہ کئی مسائل سے دوچارہے لیکن کشمیراورفلسطین دوایسی بڑی مقتل گاہیں بن چکی ہیں جہاں پچھلی سات دہائیوں سے انسانیت مسلسل چیخ وپکارکررہی ہے لیکن خودکومہذب کہلانے والی قومیں نہ صرف بہرے اور گونگے شیطان کا کرداراداکررہی ہیں بلکہ اس ظلم وستم میں برابرکے شریک ہیں۔

کشمیریوں اورفلسطینیوں پرقیامت بیت رہی ہے لیکن صدافسوس کہ یہاں ہماری مسلم حکومتوں کی محفلیں شگوفہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ ہمیں کیاہوگیاہے؟بستی میں ایسی بے حسی توکبھی نہ تھی۔درست کہ ہم آج کمزورہیں اوران کی عملی مددسے قاصرہیں لیکن ہم اتناتو کرہی سکتے ہیں کہ یہ دکھ امانت کی طرح سنبھال کررکھیں اورنسلوں کووراثت میں دے جائیں۔کیاعجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔وقت کاموسم بدل بھی توسکتاہے۔ہم اتناتوکرسکتے ہیں کہ موسموں کے بدلنے تک اپنے زخموں کوتازہ رکھیں۔ان سے رستے لہوکوجمنے نہ دیں۔بھلے وقتوں کی بات ہے ابھی روشن خیالی کی مسند مسخروں کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی۔ ہمارا ادیب دائیں اور بائیں کی تقسیم سے بے نیاز ہو کر یہ امانت نسلوں تک پہنچا رہا تھا۔

اقبال،قدرت اللہ شہاب،فیض،شورش کاشمیری،انتظارحسین،حبیب جالب،احمد ندیم قاسمی،ابن انشاء،احمدفراز،رئیس امروہوی،ن م راشد، مستنصر حسین تارڑ،قرۃ العین حیدر،مظہرالاسلام،اداجعفری،یوسف ظفر،منظورعارف،ضمیرجعفری،خاطرغزنوی،محمودشام،نذیر قیصر،شورش ملک،سلطان رشک، طاہر حنفی، بلقیس محمود…… … میرے ملک کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں اور نظموں میں اس دکھ کو ٓئندہ نسلوں کیلئےامانت کے طورپر محفوظ کردیا،یہ مگرگزرے دنوں کی بات ہے۔

اب فلسطین سے دھواں اٹھتاہےتومراقلم توبے اختیارنوحے لکھتاہےلیکن سوچتاہوں باقی ادیب کیاہوئے؟قلم ٹوٹ گئے،سیاہی خشک ہوگئی یااحساس نے دم توڑدیا؟برسوں پہلے انتظارحسین کاافسانہ’’شرم الحرم‘‘پڑھاتھا۔کچھ فقرے آج بھی دل میں ترازو ہیں۔’’بیت المقدس میں کون ہے؟بیت المقدس میں تومیں ہوں،سب ہیں،کوئی نہیں ہے۔بچے کمہارکے بنائے پتلے کوزوں کی طرح توڑے گئے، کنواریاں کنویں میں گرتے ہوئے ڈول کی رسی کی مانند لرزتی ہیں۔ان کی پوشاکیں لیرلیرہیں۔بال کھلے ہیں۔انہیں توآفتاب نے بھی کھلےسرنہیں دیکھاتھا۔عرب کے بہادربیٹےبلندوبالاکھجوروں کی مانند میدانوں میں پڑے ہیں۔صحراکی ہواؤں نے ان پربین کیے‘‘۔

انتظارحسین ہی کے افسانے’’کانے دجال‘‘کومیں نے کتنی ہی بارپڑھا۔یہ پیراگراف ہردفعہ خون رلاتاہے۔’’پلنگ پہ بیٹھی اماں جی چھالیاں کاٹتے رونے لگیں۔انہوں نے سروتاتھالی میں رکھااورآنچل سے آنسوپونچھنے لگیں۔ابا جان کی آواز بھرآئی تھی مگرضبط کرگئے۔اپنے پروقارلہجے میں شروع ہوگئے: آنحضورؐﷺدریاؤں،پہاڑوں،صحراؤں،سے گزرتے چلے گئے۔ مسجداقصیٰ میں جاکرقیام کیا۔حضرت جبریلؑ نے عرض کیایاحضرتﷺتشریف لے چلئے، آپؐ ﷺنے پوچھاکہاں؟بولے کہ یاحضرتؐﷺ زمین کاسفرتمام ہوا۔یہ منزل آخرتھی،اب عالم بالاکاسفردرپیش ہے۔تب حضورؐﷺ بلندہوئےاوربلند ہوتے چلے گئے……….. وَرَفَعْنَالَكَ ذِكْرَ …….اباجان کاسرجھک گیا۔پھرانہوں نے ٹھنڈاسانس بھرا۔بولے’’جہاں ہمارے حضورؐ ﷺبلندہوئےتھے،وہاں ہم پست ہوگئے‘‘۔

لڑکپن جوانی میں بدلااورجوانی ڈھل چلی،کنپٹیوں کے بال اب سفیدہورہے ہیں اورعائشہ اب چہچہاتی ہے کہ باباآپ تو بڈھے ہو گئے۔ لیکن یہ فقرہ آج بھی
نیزے کی انی کی طرح وجود میں پیوست ہے ’’جہاں ہمارے حضورؐ بلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔ عشروں پہلے بھی یہ فقرہ پڑھاتوآگے پڑھانہ گیا ۔آج بھی یہاں پہنچتاہوں توآنکھوں میں دھنداترآتی ہے۔سیدعلی گیلانی کانورانی اور پرعزم چہرہ سامنے آن کھڑاہوجاتاہے اورمیں شرمندہ ہوکرافسانہ ایک طرف رکھ دیتاہوں ۔منیرنیازی والامعاملہ درپیش ہوتاہے:’’اس کے بعداک لمبی چُپ اورتیزہواکاشور‘‘۔لمحہ موجودکی روشن خیالی کاتوسارابانکپن ہی مسلمانوں پرغرانےاورغراتے رہنے میں ہے۔میں مگربھلے وقتوں کی بات کررہاہوں۔جب روشن خیالی کی مسندابھی مسخروں کے ہاتھ نہیں آئی تھی۔ تب فیض احمد فیض نے فلسطینی مجاہدوں کیلئے ایک ترانہ لکھاتوقرآن کی آیت کوعنوان بنادیا:کوئی خوف نہ کرو،کوئی غم نہ کرو۔

ابن انشاکی دیوارِگریہ پڑھیے،فیض کی سرِوادیِ سیناکودیکھئے،اداجعفری کی مسجداقصیٰ پرنگاہ ڈالیے،منظورعارف کے آئینے کے داغ دیکھئے،احمدفرازکے بیروت کو دیکھئے،رئیس امروہوی کافدیہ اورمحمودشام کی بنت اقصیٰ دیکھئے،آپ کوسطرسطریہ دکھ تازہ ملے گا۔انہوں نےاس دکھ کواگلی نسلوں تک امانت کےطورپرپہنچایالیکن آج کیوں قحط الرجال ہے،یہ میں نہیں بلکہ بھارت کی بدنام زمانہ جیل میں صعوبتیں برداشت کرنے والی میری مجاہدہ بہن سیدہ آسیہ انداربی اوراس کے ساتھ قید فہمیدہ اورنسرین پوچھ رہی ہیں اورمیرے پاس ماسوائے شرمندگی،اس کاکوئی جواب نہیں۔آخرکہاں سے ڈھونڈکرلاؤں اس کاجواب؟ہم نے اس عالم دین کوکشمیر کمیٹی کابرسوں سربراہ رکھاجوعلی اعلان کہتارہاکہ”پاکستان بننے کی غلطی میں ہماراہاتھ نہیں”لیکن پاکستان کے قومی خزانے سےوہ خود اوراس کے دیگرعزیزواقارب تمام مراعات وصول کررہے ہیں۔
خودبدلتےنہیں،قرآں کوبدل دیتےہیں
ہوئےکس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!

ہم نےتواپنے رب کی اس دھرتی پرسینے پرہاتھ رکھ کرہزاروں کے مجمع میں کشمیرکے وکیل ہونےکادعویٰ کیاتھا،کشمیرکی آزادی کیلئے ہرجمعہ کی دوپہرکو ایک گھنٹے کےعلامتی مظاہرہ کااعلان کیاتھا،لیکن ہواکیا؟چندمنٹ کافوٹوسیشن کرکے وکیل کہاں چھپ گیا؟بلکہ کشمیرکے بارے میں جہاد کانعرہ بلندکرنے سے بھی منع کردیا تھا۔کیاپاکستان کومدینہ ریاست بنانے کادعویٰ کرنے سے پہلے یہ سوچانہیں تھاکہ مدینہ کواسلامی اورفلاحی ریاست بنانے کیلئے بدراوراحد کے علاوہ بھی کئی دیگر معرکوں میں میرے آقانبی اکرمﷺکوخودعملی جہادکرناپڑا۔مجھے سمجھ نہیں آرہاکہ میں اپناغم اوردردکس سے بیان کروں؟

اس امانت میں صرف دردکااحساس ہی نہیں وقت کےموسموں کے بدلنے کی آس بھی ہے۔مستنصرحسین تارڑکے’’خانہ بدوش‘‘کا آخری پیراگراف پڑھیے: ’’میں سینکڑوں فلسطینیوں سے مل چکاتھامگراحمدایک مختلف انسان تھا۔وہ حقارت سے اسرائیل کاذکرکرتا تھابلکہ ایک سپاٹ اورکاروباری انداز میں۔وطن اس کیلئےایک اغواشدہ بچہ تھاجوجذباتی ہونے سے نہیں مل سکتاتھا۔اس کی تلاش میں اس کے نقش نہیں بھولنےتھے اورایک سردمنصوبہ بندی سےخرکارکیمپ تک پہنچناتھا‘‘۔ یہی نقش ہم بھولتے جارہے ہیں۔یہ نقش کیسے یادرہتے ہیں؟ماؤں کی لوریاں انہیں تازہ رکھتی ہیں،نصاب تعلیم تذکیرکاکام کرتاہے،ادیب اور شاعرکاقلم اسے سنوارتارہتاہے۔ ماؤں کے پاس اب وقت نہیں،باپ کی جانے بلا،فلسطین اورکشمیرکیاہے؟نصاب تعلیم اجنبی ہوچکا،اورادیب وشاعرگونگے ہو چکے۔

ایک یلغارہےجس نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لےلیا۔فلسطین کی بات کرنااب دقیانوسی رویہ ہے کہ عرب جوخودکوفلسطین کاوکیل سمجھتے تھے،نہ صرف اس کامقدمہ ہارچکے بلکہ خودکواس وکالت نامے سے آزادکرکےاس کانام بھی سنناانہیں گوارہ نہیں۔ان کی ترجیحات تواپنے اقتدارکوطول دینا،قومی دولت کواغیارکے خزانوں میں محفوظ کرناکہ مشکل وقت میں کام آئے گی۔انہیں صدام اورمعمرقذافی کےعبرتناک انجام سے ڈرایاجاتاہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جب بھیڑکوذبح کر دیاجائے تواس کی بلاسے کہ اس کی بوٹیوں کاسائزکیاہوگایاپھراس کے گوشت کاقیمہ بنایاجائے گا۔

وہ ممالک جوخودکوجمہورئت کی “ماں”کہتے ہیں،انہوں نے اپنے ہاتھوں مصراورالجزائرکے جمہورکاگلاگھونٹ دیا ۔مرسی حکومت کے ساتھ انسانی حقوق کے علم برداروں کاسلوک یقیناًآئندہ نسلوں کاسرجھکادینے کیلئے کافی ہوگا۔ہزاروں سال پرانی بابل ونینواکی تاریخ کے حامل عراق کوتاراج کرکے تاتاریوں کے مظالم کوبھی شرمندہ کردیاگیا۔ عرب ممالک میں بادشاہت کے نظام پرسب ہی معترض ہیں لیکن ان کے حکمرانوں کااستقبال”ریڈکارپٹ” پرکرتے ہوئے جمہوریت گنگ ہوجاتی ہے۔ جمہورئت کے علمبردارمغرب میں شخصی آزادیاں ایک چیلنج بن چکی ہیں،یہاں کسی بھی خاتون کوبرہنہ ہونے کااختیارتوہے لیکن اپنی مرضی سے اسکارف نہیں پہن سکتی۔مذہب کی توہین کرتے ہوئےلمحہ بھرکیلئے شرم محسوس نہیں کرتے۔

کون نہیں جانتاکہ معمر قذافی کوامریکااورمغربی ممالک کے ساتھ اقتصادی روابط نہ رکھنے کی سزا دی گئی، بظاہرتولیبیا پریہ کہہ کرحملہ کیاگیاکہ وہاں کے عوام کوقذافی سے بچایاجارہاہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ معمرقذافی نہ یورپی ممالک اورنہ امریکاکواپنے اقتصادی معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتےتھےبلکہ وہ عالمی منڈی میں تیل کے بدلےڈالرکے مقابلے میں سونے کاسکہ چلانے کیلئے کوشاں تھے اورتمام تیل پیداکرنے والے ممالک کواس فارمولے پرقائل کرنے کی کوششوں میں کامیاب ہورہے تھے۔قذافی کی کوشش تھی کہ وہ چین،ترکی اورایشیائی ممالک سمیت ان ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلق رکھیں جوامریکاکے اثرسےپاک تھے۔قذافی کے خلاف یہ بات اڑائی گئی کہ ان کی ایئرفورس بن غازی میں عوامی مظاہروں کے خلاف استعمال ہورہی ہے،الجزیزہ ٹی وی پر یہ خبربھی چلی کہ بن غازی میں بمباری کے نتیجے میں50ہزارلوگ مارے گئے،اگرچہ یہ خبرواپس لے لی گئی لیکن اس خبرکے نتیجے میں لیبیاکے اوپر نوفلائی زون قائم کردیاگیا۔بعدمیں اسی نوفلائی زون کوتوڑتے ہوئے بمباری شروع کردی گئی اورقذافی کے گھرپربمباری کرکے ان کے ایک بیٹے کوبچوں سمیت شہیدکردیاگیا۔اس موقع پرپوری عرب اوراسلامی دنیادیکھتی رہ گئی اورکچھ نہ کرسکی۔یہ جہاں امریکا کی جانب سے لیبیاکےعوام کوبچانےکیلئےکھلی بدمعاشی اورجارحانہ مداخلت تھی وہاں تمام مسلمان ملکوں کے سربراہوں کوان کی اوقات بتادی گئی اوررہی مغرب کی خاموشی،آج ان کے ضمیروں پر بوجھ بن کرتازیانے برسارہی ہے۔اپنے اس جرم کااعتراف خودمجھ سے مغرب کے کئی دانشوروں نے کیاہے۔

بالآخربھارت کااپنی اقلیتوں سےغلیظ،متعفن آمریت کے سلوک کے بارے میں خود75کانگرس امریکی ارکان نےجوبائیڈن کوخط لکھ کراس کی جمہوریت پر تھوک دیاہ ے لیکن کیاجمہوریت کےعلمبرداروں کے کانوں پرکوئی جوں رینگی؟ سیدعلی گیلانی نےاپنی سوانح حیات’’وولرجھیل کے کنارے‘‘میں دل کے زخم دکھانے سے توگریزکیالیکن بین السطورمیں چشم کشا منظرناموں کی نشاندہی کردی ہے۔بھارتی بنئے کے سینے پربیٹھ کراپنے لاکھوں چاہنے والوں اور سرفروشوں کے درمیان علی الاعلان یہ دعویٰ رقم کردیاکہ’’ہم ہیں پاکستانی،پاکستان ہماراہے‘‘ لیکن ہم نے ان کوکشمیرکاوکیل بن کرکھلادھوکہ دیا۔کیاکشمیریوں کاقصوربھی یہ ہے کہ وہ تاریخ ِعالم میں اُن چند پُرعزم ،بلندحوصلہ،حق پرست،حریت پسنداورجذبۂ اِستقلال سے سرشار اقوام میں سرِ فہرست ہیں جو8لاکھ سے زائد بھارتی درندوں کے ظلم سے نہ تو خوفزدہ ہیں اورنہ ہی ان کی جارحیت کےسامنے سرتسلیم ِخم کیاہے ۔ 1947ءسےلیکرآج تک ان پرزندگی تنگ کردی گئی ہےجوبلاشبہ ہندو بنئے ڈوگرہ راج کا تسلسل ہے ۔گمنام اجتماعی قبریں،بے گناہ شہداء،معصوم یتیم، بیوہ ونصف بیوہ عورتیں،نابینابنادیئےگئےبچے،جوان،معذوروبے سہارا بوڑھے اور لہولہان وادیٔ کشمیر بھارتی مظالم کامنہ بولتا ثبوت ہیں لیکن وہ آج بھی اقوام عالم کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ جوان دنوں بڑی طاقتوں کی ایک لونڈی کاکردار اداکررہاہے ، سے اپناوہ جائزحق مانگ رہے ہیں جو اس ادارے میں اقوام عالم کے اتفاق رائے سے دنیاکی چندبڑی طاقتوں کے بطورضامن، ان کودینے کاوعدہ کیاتھا۔آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم کشمیری خاموش زبانوں،نابیناآنکھوں،بہتے زخموں،لُٹی عزتوں اوربے بس ہاتھوں میں جوان لاشے اٹھائے ضمیر ِعالم کوجھنجھوڑنے کی ناکام مگرپُر امید کوشش میں مصروف وشکوہ کناں ہیں۔

1948ءمیں اقوامِ متحدہ نے اس دن انسانی حقوق کے تحفظ اورآگاہی کیلئے48ممالک کی رضامندی سے30دفعات پرمشتمل عالمی منشورجاری کیاتھا-اس منشورکے تحفظ ،بہتری اورعمل درآمدکویقینی بنانے کیلئے ایک مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق بھی قائم کیاگیاتھا-انسانی حقوق کے اس عالمی منشورمیں بنیادی انسانی حقوق مثلاًانسانی آزادی،مساوی حیثیت،آزادانہ نقل وحرکت،آزادی اظہار،باوقارزندگی،سماجی تحفظ کاحق،مذہبی آزادی اورتشدد، ظلم وستم،غیرانسانی اورتوہین آمیزسلوک یا سزاکانشانہ نہ بنائے جانے کویقینی بنایاگیاہے-گوکہ اِس دن دنیابھرمیں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آوازبلندکی گئی،مگرسوا ئے پاکستان ودیگرچندممالک کے،اقوامِ عالم نے کشمیرو فلسطین میں ہونے والی اندوہ ناک انسان دشمنی کوہمیشہ کی طرح پسِ پشت ڈالے رکھاہے۔

مسلمانوں کے دکھ پررونااب انتہا پسندی بن چکا۔اب تومطالعہ پاکستان بھی مسخروں کے مزاح کاعنوان بن چکا،بیانیہ اب وہی ہے جو مغرب سے آتاہے اور اس بیانیہ میں بتادیاگیاہے کہ مسلمانوں کے حقوق انسانی نہیں ہوتے۔ہم نے اپنے نصاب کوجانے کن کن فضولیات سے بھررکھاہے۔کیااس میں فلسطین کے محموددرویش کی دونظمیں ہم شامل نہیں کرسکتے؟آپ محموددرویش کوپڑھ کرتودیکھیں۔میں انگریزی ادب کابھی طالب علم رہاہوں اورورڈز ورتھ،کیٹس، بائرن،شیلے، ییٹس،براؤننگ،ہارڈی،جان ڈن،شیکسپیئر،ملٹن سمیت کتنوں کوپڑھ رکھاہےلیکن جوبات محمود درویش میں ہے وہ ان میں کہاں ۔محموددرویش،نزادقبانی،سمیع قاسم ،فوزی اسمر،حناابوحنا،توفیق زیاد،توفیق فیاض،امین حبیبی،ایک کہکشاں آبادہے،ہمیں جس کاعلم ہی نہیں۔سمیع قاسم کی نظم’’ارم‘‘توکمال ہے۔ابداعلی ھذاالطریق ،رایاتنابصرالضریر۔ہمیشہ سے اس راستے پر ہمارے پرچم اندھوں کیلئےبصارت بنے ہیں۔محموددرویش نے کیاخوب لکھا: ’’ویشتمنااعادینا،ھلا!ھمج ہم،عرب۔نعم عرب‘‘۔ہمارے دشمن آوازے کستے ہیں،یہ عرب ہیں،یہ اجڈ ہیں اوروحشی۔ ہاں سن رکھوہم عرب ہیں۔درویش کے’’اناشیدکوبا‘‘کاتوجواب نہیں۔

ذدا نزادقبانی کی یہ نظم دیکھیے:’’آل اسرائیل!ایسااترانابھی کیا؟گھڑی کی سوئیاں آج رک گئیں توکیاہواکل یہ پھرسے چل پڑیں گی۔ زمین کے چھن جانے کاغم نہیں،بازکے پربھی جھڑجایاکرتے ہیں۔طویل تشنگی کابھی ڈرنہیں کہ پانی ہمیشہ چٹانوں کی تہہ میں ہوتا ہے۔تم نے فوجوں کوہرادیالیکن تم شعورکو شکست نہیں دے سکے۔تم نے درختوں کی چوٹیاں کاٹ ڈالیں جڑیں مگرباقی ہیں‘‘۔ہم آج بے بس سہی،مگرجڑیں توباقی ہیں۔ان جڑوں کی آبیاری توہم کرہی سکتے ہیں۔ہم اپنے دکھوں کامداوانہیں کرسکتے لیکن ہم ان دکھوں کو سنبھال کرتورکھ سکتے ہیں۔ہم اس امانت کواگلی نسل کوتوسونپ سکتے ہیں۔کیاعجب ہماری نسلیں ہماری طرح بے بس نہ ہوں۔ وقت کا موسم بدل بھی تو سکتا ہے۔

محموددرویش نےکہاتھا:’’اے میرے وطن میری زنجیروں نے مجھے عقاب کی سختی اوررجائی کی نرمی سکھائی،معلوم نہ تھا ہماری کھال کے نیچے طوفان جنم لیں گے اوردریاؤں کاوصل ہوگا۔انہوں نے مجھے کوٹھڑی میں قیدکیا،میرے دل نے وہاں مشعلیں فروزاں کردیں،انہوں نے دیوارپرمیرانمبرلکھالیکن دیواریں مرغزار ہوگئیں،انہوں نے میرے جلاد کی تصویربنائی،روشن زلفوں سے اسےچھپالیا،میں نے شکست کواٹھاکرپٹخ دیااورفاتحین نے توصرف زلزلوں کوجگایاہے‘‘۔ہم کیسے بھول جائیں’’جہاں ہمارے حضورؐ ﷺبلندہوئےتھے،وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔

یہ دکھ ہماری اگلی نسل کی امانت ہے۔آپ کے آنگن میں بچے کھیل رہے ہوں گے۔انہیں بلائیے،پاس بٹھایئےاوریہ دکھ ان کی رگِ جاں میں انڈیل دیجیے کہ ’’جہاں ہمارے حضورﷺبلندہوئے تھے،وہاں ہم پست ہوگئے‘‘۔اورہاں ان تمام نوحوں میں بھارتی درندوں کی بے رحم سنگینوں کاشکار،خونِ حق سےتربتر کشمیر ہم نے کہاں کھودیا؟اس کی یادیں اب کیوں دھندلارہی ہیں؟اب بھی وہاں کے نوجوان اپنے سروں پرسبزہلالی پرچم کواپناکفن سجا کرراہِ عدم کوروانہ ہونے میں تفاخر محسوس کررہے ہیں۔وقت رخصت ان کے چہروں کی مسکراہٹ پتہ دے رہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے خالق کے حضوراس کے انعامات سے خوش وخرم اورراضی ہو کرابدی اوردائمی زندگی کی کامیابی کے پروانوں کے تمغوں سے سرفرازکر دیئے گئےہیں۔ ایساکیوں نہ ہوکہ وہاں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی نشانی،مردِبطل حریت سیدعلی گیلانی کی للکاراورانکاررگوں میں منجمدخون کوایسی حرارت بخش رہاہے جس سےجہاں ہزاروں نوجوانوں کے دلوں میں شوقِ شہادت کے جذبوں سے معمور جوانیاں میدانِ عمل میں اترآئی ہیں وہاں ارضِ جنت سے آسیہ اندرابی نمودارہوکرمتعصب شیطانوں اورظالم کافروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرآتش حریت سے پکاررہی ہے کہ ہمارے کشمیرسے نکل جاؤکہ میراکشمیرتوکبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہااورجونہی ہندوستانی ہائیکورٹ کشمیری مسلمانوں کے مذہبی رسوم ورواج کے خلاف گائے کے ذبیحہ پرپابندی کاظالمانہ حکم صادرکرتی ہے تویہ مومنہ اسی لمحے چوک کے اندراپنے نگرانی میں اللہ کے راستے میں صدقہ کے طورپرگائے کوذبح کروانے کے عمل کے بعدخون آلود چھری کولہرتے ہوئے عدالت کے اس بہیمانہ قانون کے پرزے اڑاکراپنے رب کوراضی کرنے کیلئے اس کی کبریائی بیان کرکے ایک مثال قائم کردیتی ہے۔

آج اسی آسیہ کواس کی دو نوجوان ساتھیوں سمیت بھارت کی سب سے بدترین جیل کی کال کوٹھڑیوں میں قیدتنہائی میں ڈال کراس کے عزم کوشکست دینے کی بدترین کوشش کی گئی جواب بھی جاری ہیں جبکہ بزدل بنیاءجانتاہےکہ آسیہ نےساری عمرثابت قدمی کی وہ زریں مثال قائم کی ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس کے شوہرڈاکٹرقاسم کوبے گناہی کے جرم میں آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے کے باوجوداس کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہیں آئی۔ اس علیل مجاہدہ کوجیل کی کوٹھڑی میں جہاں انتہائی ضروری ادوّیات سے محروم کردیاگیا،وہاں کال کوٹھڑی میں قیدتنہائی میں ناقص اورمضرصحت غذابھی سلاخوں سے پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کرپھینکی گئی،یقیناً میری مجاہدہ بہن اپنے رب کے اس وعدے پرایمان کی حدتک یقین لاچکی ہے،اورآخرت تمہارے لیے پہلی (حالت یعنی دنیا)سے کہیں بہترہے،اورتمہیں پروردگارعنقریب وہ کچھ عطا فرمائے گاکہ تم خوش ہوجاؤ گے(سورة الضحى: 4-5)اسی لئے وہ آج ہندودرندوں کے تعذیب وابتلاء کوانتہائی بہادری سے برداشت کررہی ہے۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سوبارلے چکاہے توامتحاں ہمارا

مجھ تک جب ایسی مستندخبریں پہنچتی ہیں کہ ہمارامیڈیاکس قدر آسانی سے ان کوبھولنے کے جرم عظیم کامرتکب ہورہاہے تومیرے شب وروزمجھے انتہائی بے چین ،پریشان اورکرب میں مبتلاکردیتے ہیں۔میرے آقانبی اکرمﷺجنہیں میرے رب نے:سب جہانوں کیلئے رحمت بناکرمبعوث فرمایا،ان کے سینہ مبارک پر نازل الہامی اورآخری کتاب قرآن حکیم کایہ پیغام کیوں بھول گئے کہ:اورتم کوکیاہواہے کہ اللہ کی راہ میں اوران بیکس مردوں اورعورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جودعائیں کیاکرتے ہیں کہ اے پروردگارہم کواس شہرسے جس کے رہنے والے ظالم ہیں،نکال کرکہیں اور لے جا۔اوراپنی طرف سے کسی کوہماراحامی بنا۔اوراپنی ہی طرف سے کسی کوہمارامددگارمقررفرما(نساء:75)۔کیاکبھی تنہائی میں خوداحتسابی کاسامناکرناپڑاکہ اس مختصرعارضی زندگی کے چندروزہ اقتدارکابالآخرحساب تودیناہوگا۔اللہ کے اس برحق پیغام نے کبھی دل پرلرزہ طاری کیاکہ:
اوراعمال کاوزن کیاجانااس دن برحق ہے،پس جس شخص کے اعمال نامے بھاری ہوں گے،پس یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔اور جس کے اعمال نامے ہلکے ہوں گے یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نفسوں کوخسارے میں ڈالااس واسطے کہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے۔(الاعراف:8-9)ربِّ ذوالجلال کایہ حکم بھی پڑھ لیں:پھرجس کے نیک اعمال کاپلہ بھاری ہوگاتووہ پسندیدہ زندگی میں ہوگااورجس کاپلہ ہلکا ہوگاتواس کاٹھکانہ گڑھاہوگا۔اورتجھے کیا معلوم وہ کیا ہے ،وہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔(القارعہ:6-11)

پاکستان میں نظام مصطفیٰ کونافذکرنے اورریاست مدینہ بنانے کاکہہ کراقتدارحاصل کرنے والے والے تمام کان کھول کرسن لیں اور میرے رب کایہ اٹل فیصلہ بھی ذہن نشیں کرلیں کہ:کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ وہ بس اتناکہہ دینے سے چھوڑدیئے جائیں گے کہ”ہم ایمان لائے اوران کوآزمایانہ جائے گا؟اللہ کوتویہ ضروردیکھناہے کہ سچے کون ہیں اورجھوٹے کون!(سورة العنکبوت:2۔3)اورہاں یہ بھی سن لو:اوراس سے بہترکس کی بات ہے جس نے لوگوں کواللہ کی طرف بلایااورخودبھی اچھے کام کیے اورکہابے شک میں بھی فرمانبرداروں میں سے ہوں!(سورة الفصلات: 33۔41)

یقیناًان حالات میں دل بے اختیارپکاراٹھتاہے کہ’’جہاں ہمارے حضورؐ ﷺبلند ہوئے تھے، وہاں ہم پست ہو گئے‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں