ہمارا پاکستان دنیا کا عجیب وغریب ملک ہے۔بلا شبہ برصغیر کی تقسیم جدید تاریخ کا ایک چونکا دینے والاواقعہ تھاجس کے نتیجے میں یہ قائم ہوا۔ جمہوری طریقے سے اسلامی فلاحی نظام کیلئے قائم ہونے والی اس مملکت میں آمریت بھی بے حساب ہے اور جمہورکی جمہوریت نوازی کی بھی کوئی حد نہیں لیکن رب نے جس وعدے پرعطافرمایاتھا،اس کی طرف ابھی تک کوئی کوشش نہیں کی گئی۔اندازہ اس سے لگا لیں کہ قوم اکیسویں صدی میں بھی پورے اطمینان سے چار فوجی حکومتیں بھگتاچکی ہے۔یہاں جمہوریت سے لگن بھی ایسی ہے کہ پاکستان کی پہلی نصف صدی ہی کے اکاؤنٹ میں نصف درجن ملک گیر جمہوری تحریکیں موجود ہیں۔آزادی صحافت کیلئے مسلسل جدوجہد کی ایک شاندار تاریخ اس کے علاوہ ہے۔
دانشوروں اور صحافیوں کی اکثریت”بدتر منتخب حکمراں بہترین آمر سے بہتر ہے”کے فلسفہ جمہوریت کی ایسی پیروکار کہ این آراوکے پردے میں لپٹی ہوئی سابق کرپٹ حکمرانوں کیلئے اس زور سے بانہیں کھولے کھڑی تھی کہ ملک کے پاپولر سیاستدان اپنی تمام کرپشن اور سول آمریت سمیت اس میں سما گئے اوراب موجودہ حکومت اپنی باری بھگتارہی ہے ۔ یہاں ڈکٹیٹر چین سے حکومت کر سکتے ہیں نہ منتخب حکمران،جو اقتدار کے روزِ اوّل سے خاتمہ حکومت تک خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اپوزیشن ”جمہوریت ”سے تنگ آکر آمریت کو یاد کرنے لگ جاتی ہے ،جب فوجی آمریت جلوہ گر ہوتی ہے تو الیکشن ہی سارے مسائل کا حل قرار پاتے ہیں۔پھر فرشتے اور لٹیرے مل کر جمہوریت کی صدائیں لگاتے ہیں۔پھر پیارے پاکستان میں فوجی سیاست کرتے ہیں اور سیاستدان تجارت لیکن سیاست کی تجارت،بلکہ ہمارے پاپولر ووٹ بینکر تو سیاست کو صنعت کے درجے پرلے آئے ہیں، اسی لئے فرینڈلی اپوزیشن بھی اپنی باری کا انتظار کر رہی ہے۔
کچھ عملیت پسند تاجر کھلے عام کہتے ہیں اور بہت سے سوچتے ہیں کہ جیسے روزگاروں میں سب سے افضل تجارت ہے،اسی طرح تجارت میں سب سے منافع بخش کاروبار سیاست کا ہے ،پیسہ پہنچاؤ، جلدی بھیجو،جتنا بھیجو،قوم ہمارے ساتھ ہے”کی سیاسی،تجارتی تھیم پریہ کاروبارچلتا ہے تورکتا نہیں ۔ روکنے کیلئے فوج بلانا پڑتی ہے یاوہ خود ہی تشریف لے آتی ہے۔ رہے عوام،بس جوق درجوق،ووٹ بھگتانا،فوجی انقلاب پردیگیں چڑھانا،مٹھائیاں بانٹنا،پہلے خوشی اورپھرمہنگائی سے مرجانایا تحریکِ جمہوریت میں شہیدہوجانا،ان کا سیاسی مقدرٹھہرتاہے۔یہ توہوا سیاست و حکومت میں باوردی نجات دہندوں اور سیاسی تاجروں کاحصہ اوراس میں عوام کی شرکت کا ۶۸سالہ حساب۔اس حساب سے پیارے پاکستان کی جو کتاب تیار ہوئی ہے اسے کھولوتو ایک سے بڑھ کرایک عجوبہ پڑھنے کو ملتا ہے۔حیرت کا وہ وہ ساماں کہ سطر سطر پڑھ کر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے ”یہ ہے ہمارا پاکستان”۔
شہروں میں مال وجان اتناہی غیرمحفوظ جتنی دیہات میں جاگیرداری مضبوط،کراچی آپریشن سے قبل، کیااسلام آبادکیاکراچی،دونوں شہروں میں قیامِ امن کے عالمی اجارہ داروں کی سفارتی املاک محفوظ تھیں نہ لاہوراورپشاور میں فائیواسٹارہوٹلز۔جاگیر دار،سیاستدانوں کالبادہ اوڑھے، سیاست کے تاجروں اور باوردی نجات دہندوں،ان کی زندہ باد،’مردہ بادکرنے والے ابلاغ کاروں نے مل جل کرباہمی اخوت اور کمالِ مہارت سے اپنے پیارے عوام کیلئے ایسا نظامِ بد تشکیل دیا ہے کہ ملک کے اہل ترین افراد کو سات سمندر پاربھاگنے پرمجبورکردیا،جو بچ گئے انہیں کونے میں لگادیا گیا،اہلیت اورنااہلیت ماپنے کے پیمانے تبدیل کر دیئے گئے۔نااہل اور نکمے عرش پر پہنچا دیئے گئے اور اہل و مخلص فرش پر بٹھا دیئے گئے ہیں۔
واہ ری پاکستان کی جمہوریت!تیرے راج میں غریبوں کیلئے قصبوں دیہات میں بلا فیس بن استاد مع تنخواہ گھوسٹ اسکول(کہ مفت تعلیم کا اس سے بہتر اور کیا انتظام ہو سکتا تھا)اور ”معززین وقت” کے بچوں کیلئے پانچ سے پندرہ ہزار ی فیس کے اسکول بھی،جہاں خوراک،لباس اورتعلیم و تفریح کو ترستے بچوں کا مستقبل سنوارنے کیلئے سیکڑوں آقا اور ان کی آقائی کو مضبوط بنانے والی فوج تیار کی جا رہی ہے۔پیارے پاکستان میں بڑی بڑی کاروں والوں کیلئے شا یانِ شان موٹر وے بھی ہے اور بے کاروں کے ٹھوکریں کھانے کیلئے گویا ہر گلی ”ٹھوکر وے” ہے۔
اس عجیب و غریب مملکت میں اربوں کی لوٹ مار کرکے بیرونِ ممالک کے بینکوں میں محفوظ کرنے والے تو این آر او کے طفیل حکومت کے سب سے اعلیٰ عہدوں پر براجمان اقتدار کے مزے لوٹنے اور پاکستانی بینکوں سے کروڑوں کے قرض خور کسی بھی حساب کتاب سے آزاددبئی،یورپ وامریکاکے محلات میں مقیم اور چارچار پانچ لاکھ کے قرض خواہ بینکنگ کورٹس کے کٹہروں میں خوفزدہ کھڑے ہیں کہ کب ان کے پانچ پانچ مرلے کے مکان بحق سرکار ضبط کئے جاتے ہیں اور کب ان کے ضامن کو ہتھکڑی لگتی ہے۔اس ملک میں سابقہ حکومت جس کو اپنی لیڈرکے قتل ہوجانے پرہمدردی کاایک کثیرووٹ بینک حاصل ہوگیاتھا،وہ بھی قوم کو لوڈ شیڈنگ اور اندھیرے سے نجات دلانے کے پرفریب نعروں سے اقتدارمیں آئی مگر اقتدار میں آکر کرائے کے بجلی گھروں کے نام پر ملک کے دو سو ارب روپے کسی سے پوچھے بغیر ملک میں لوٹ مار کا ایک اور ایٹم بم چلادیا جس سے آج تک بجلی کا بل بھی عوام پر بجلی بن کرگررہاہے ۔یہ بجلی گھر گوروں کے پاس گروی ہیں،غریب عوام کادامن بجلی سے جلاکرخاکستر کر رہے ہیں اوران کے اپنے بینک بیلنس میں اس بجلی سے ایک تازہ چمک اور روشنی میں بے تحاشہ اضافہ ضرورہوگیاہے۔یہ ہے پاکستان کا حال!جس کا کوئی حساب نہیں ۔ یہاں دوجمع دوچارنہیں ،اس کاجواب کبھی دس اورکبھی صفرہوتاہے ۔ اس کابانی قائداعظم جیسا تاریخ سازہے اوراس کاقیام سرسیؒد اور اقباؒل کی دانش کاکمال ہے۔
ہمارے ہاں دیہاتوں کی معمولی پنچائت مختاراں بی بی پر حملہ آور ہونے ،معصوم بچیوں کو ونی کرنے اورہمارے سردار کے حکم پر زندہ تسلیم سولنگی کو کتوں کے آگے بھنبھوڑنے کیلئے چھوڑدیئے جانے کے احکام جاری کر دیئے گئے لیکن ہماری حکومتیں ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکیں لیکن دس ایڈوانی،بیس واجپائی ،سینکڑوں من موہن سنگھ اورہزاروں مودی مل کر ڈاکٹر قدیر خان کے پاکستان پر حملہ آور ہونے کا سوچ نہیں سکتے(شکر الحمد اللہ)اس لئے کہ ہم عجیب قوم ہیں ،پاکستان ایک عجیب ملک ہے۔
میرے عزیز پاکستانی بہن بھائیو!ہمیں آزادی کی نعمت ملے ہوئے ۶۸سال ہوگئے ہیں لیکن پھربھی ہمارایہ حال ہے،سوچو!یہ حساب چلے گا؟ نہیں چلے گا۔کبھی دو جمع دو سے صفر اور کبھی دس نکالنے والا حساب ختم کرو،اس کتاب کو بند کرو۔آؤ مل کر ایک نیا باب تحریر کریں جس میں دو جمع دو کا جواب چار ہی نکلے،’پھر ہمارے بچے ایک اورباب رقم کریں گے جودرست ہوگا اورپھران کے بچے حساب میں ماہرہوجائیں گے۔ یہ وقت ہوگاجب ہماری کتاب دنیا پڑھے گی۔آؤ یہ کتاب رقم کریں، اسے رقم کرنے کیلئے اپنے اللہ سے رہنمائی لیں اوراس سے کیاہواوعدہ پورا
کریں یعنی قرآن کومن وعن نافذکرنے کریں۔اپنے (ووٹرز)ہی اورابلاغ کاروں کے تراشے ہوئے بت توڑ دیں۔آؤ! تقویٰ، نیکی،اخلاص،
،اہلیت اوردیانت ڈھونڈیں اورڈھونڈ کر اسے عرش پر بٹھائیں اور بدی کو فرش پر دے ماریں۔
جاگ جاؤ پاکستانیو!اللہ ہمارے ساتھ ہے۔اللہ اکبر اللہ اکبر و اللہ الحمد!!!
Load/Hide Comments