تاریخ شاہدعادل ہے کہ جمیع مسلمانانِ عالم اِیمان بالغیب اور قدرتِ اِلٰہیہ کے ظہور پراِیمان رکھنے کی وجہ سے بغیر دلیل معجزاتِ مصطفی ﷺکے ہمیشہ قائل رہے۔ عہدِ حضور ﷺ، عہدِ صحابہ اور بعد میں آنے والے اُن مسلمانوں کا اِیمان قابلِ رشک اور قابلِ داد تھا کہ ظہورِ قدرتِ اِلٰہیہ کے ناقابلِ فہم و اِدراک ہونے کے باوجود اُن کا اِیمان کبھی متزلزل نہیں ہوا،اُن کے آئینۂ دل پر کبھی بھی شبہات کی گرد اور وسوسوں کی دُھول نہیں پڑی،اُن کے آئینۂ شعورمیں بھی کبھی کوئی بال نہیں آیا۔
آج سے1400سال قبل عقلی بنیادوں پر دورانِ معراج آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدود سے گزرکرلامکاں تک جاپہنچنااوراسی لمحے میں اس کھربوں نوری سال کی مسافت کوطے کر کے واپس سرزمینِ مکہ پرتشریف لے آناتو کُجازمین کی بالائی فضامیں پروازکاتصوّربھی ناقابلِ یقین محسوس ہوتاہے اوردُوسری طرف آج کااِنسان اللہ ربّ العزّت کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت عالمِ اَسباب کے اندررہتے ہوئے اپنی کی سی اِتباعِ معجزۂ معراج میں کائنات کو مسخر کرنے کاعزم لے کرنکلاہے۔اگرچہ آج کااِنسان صبح وشام فضائے بسیط میں محوِپروازہے لیکن اگرواقعۂ معراج کواپنی تمام ترجزئیات کے ساتھ حیطۂ شعورمیں لایاجائے توخلائی سفرکے مخصوص لوازمات کے بغیرکرّۂ فضاسے باہرایتھر (Ather) میں کروڑوں نوری سال کاسفرطے کرنے کاتصوّر آج بھی ناممکن دِکھائی دیتاہے۔
ہوائی سفرکی مشکلات پربتدریج قابوپایاجا رہاہے اوراَب یہ سفرکسی حد تک محفوظ خیال کیاجاتاہے لیکن خلائی سفرمیں اِنسان کوفنی اور تیکنیکی پیچیدگیوں کاہی سامنانہیں کرنا پڑتابلکہ نفسیاتی اُلجھنیں بھی اُس کا دامن تھام لیتی ہیں۔خلاء کاسفرخطرات سے خالی نہیں،لیکن جذبۂ تسخیرِکائنات عزم کوعمل کے سانچے میں ڈھالتاہے تواِنسان چاندکی سطح پراپنی عظمت کاپرچم نصب کرنے کے بعداپنے خلائی سفرکے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہوجاتاہے۔بیسویں صدی میں یہ کارنامہ سراِنجام دیاجاچکاہے۔
خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے(National Aeronautic Space Agency (NASAکی طرف سے تسخیرِماہتاب کیلئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالومِشن کے تحت جولائی 1969ء میں چاندکا پہلاکامیاب سفرکرنے والےاپالو11کے مسافرامریکی خلانورد’نیل آرمسٹر انگ‘(Neil Armstrong) اور’ایڈون بُز‘ (Edwin Buzz) تاریخِ اِنسانی کے وہ پہلے اَفراد تھے جو چاند کی سطح پر اُترے جبکہ اُن کا تیسرا ساتھی ’کولنز‘ (Collins) اُس دوران مصنوعی سیارے کی مانند چاند کے گرد محوِ گردش رہا۔ اِس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز (Kennedy Space Center (KSC میں موجود سائنسدان اُنہیں براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چندپتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر،روانگی سے محض دودن بعدخلانوردوں کایہ مہم جوقافلہ واپس زمین پرآگیا۔ اِس مہم کے دوران پل پل کی خبرٹی وی اورریڈیوکے ذریعہ زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی جاتی رہی۔
عالم اِنسانیت کی اِن خلائی فتوحات اورتسخیرِماہتاب کاذِکرچودہ صدیاں قبل صحیفۂ کمال یعنی قرآنِ مجید میں پوری وضاحت کے ساتھ کردیا گیاتھا۔ اِرشادِ خداوندی ہے:قسم ہے چاندکی جب وہ پورادکھائی دکھائی دیتاہے، تم یقیناًطبق درطبق ضرورسواری کرتے ہوئے جاؤگے،تواُنہیں کیاہوگیاہے کہ قرآنی پیشینگوئی کی صداقت دیکھ کر بھی اِیمان نہیں لاتے۔(الانشقاق: 18 – 20)
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
قرآنِ حکیم کے علاوہ بائبل سمیت دیگر صحائفِ آسمانی اور مذہبی کتب میں اِس قدر درُست سائنسی حوالے بالکل نہیں ملتے۔درج بالا آیتِ مبارکہ میں تسخیرِ ماہتاب کاجوواضح اِشارہ ہے، بیسویں صدی کے اِنسان نے اُس اِشارے کی عملی تفسیراپنی آنکھوں سے دیکھی۔آج کے اِنسان نے کامیابی وکامرانی کی اَن گنت منازِل طے کرلی ہیں۔علومِ جدیدہ اِنسان کے ذِہن کوکشادگی بخش رہے ہیں۔اُلجھی ہوئی گرہیں کھل رہی ہیں اورکائنات اپنی ازلی صداقتوں کے ساتھ نکھرکر ا ُس کے سامنے بے نقاب ہوتی چلی آرہی ہے لیکن اپنی تمام ترمادّی ترقی کے باوجودابھی تک اِنسان روشنی کی رفتارسے سفرکرنے کی صلاحیّت حاصل نہیں کرسکا ۔روشنی1,86,000میل(تین لاکھ کلومیٹر)فی سیکنڈکی رفتارسے سفرکرتی ہے اورسائنس کی زبان میں اِس قدررفتارکاحصول کسی بھی مادّی شئے کیلئے محال ہے .
اب جدید سائنس بھی اپنی تحقیقات کوبنیادبناکراِس کائناتی سچائی تک رسائی حاصل کرچکی ہے کہ رفتارمیں کمی وبیشی کے مطابق کسی جسم پروقت کاپھیلنااور سکڑ جانااو جسم کے حجم اور فاصلوں کاسکڑنااورپھیلناقوانینِ فطرت اورمنشائے خداوندی کے عین موافق ہے۔ربِّ کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں طئی زمانی اورطئی مکانی کی بعض صورتوں کاذِکرفرماکربنی نوع اِنسان پریہ واضح کردیاہے کہ اِنسان توبیسویں صدی میں اپنی عقل کے بل بوتے پروقت اورجگہ (Time & Space) کے اِضافی (Relative) تصوّرات کواپنے حیطۂ اِدراک میں لانے میں کامیاب ہوگالیکن ہم ساتویں صدی عیسوی کے اوائل ہی میں اپنی وحی کے ذریعہ اپنے محبوب رسولﷺپر اِن کائناتی سچائیوں کومنکشف کررہے ہیں۔
لاکھوں کروڑوں کلومیٹرزکی وُسعتوں میں بکھری مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کواِصطلاحاً”طئ مکانی”کہتے ہیں۔صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کواِصطلاحاًً ” طئی زمانی”کہتے ہیں۔ خدائے قدیروخبیر اپنے برگزیدہ انبیائے کرام میں سے کسی کومعجزہ اورکرامت کے طورپرطئی زمانی اور کسی کوطئی مکانی کے کمالات عطاکرتاہے لیکن حضور رحمتِ عالم ﷺکا سفرِ معراج معجزاتِ طئی زمانی اور طئی مکانی دونوں کی جامعیت کامظہرہے۔ سفرکاایک رخ اگر طئی زمانی کاآئینہ دارہے تواُس کادوسرارخ طئی مکانی پرمحیط نظرآتاہے۔معراج النبی ﷺکے دوران میں اِن معجزات کاصدورنصِ قرآن و حدیث سے ثابت ہے،جن کی صحت میں کسی صاحبِ اِیمان کیلئے اِنحراف کی گنجائش نہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام ملکۂ سبا’’بلقیس‘‘کے تخت کے بارے میں اپنے درباریوں سے سوال کرتے ہیں :(حضرت سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا :اے درباروالو!تم میں سے کون اُس(ملکہ)کاتخت میرے پاس لاسکتاہے،قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردارہوکر میرے پاس آجائیں۔(النمل، 27 : 38)
ملکۂ سبا بلقیس کا تخت دربارِ سلیمان علیہ السلام سے تقریباً 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ ملکۂ سبا جو مطیع ہو کر اُن کے دربار میں حاضر ہونے کیلئے اپنے پایۂ تخت سے روانہ ہو چکی ہے، اُس کا تخت اُس کے آنے سے قبل ہی سرِدربار پیش کر دیا جائے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے :ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا : ’’میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بے شک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانتدار ہوں۔(النمل، 27 : 39)
قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طئی مکانی کے تحت یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے 900 میل کی مسافت سے تختِ بلقیس لاکر حاضر کر دے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو اِتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی۔ اس موقع پر آپ کا ایک صحابی ’آصف بن برخیا‘ جس کے پاس کتابُ اللہ کا علم تھا، خود کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ اِس اَنداز کو قرآنِ کریم نے اِس طرح بیان فرمایا :
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے۔ پھر جب سلیمان (علیہ السلام) نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا یہ میرے رب کا فضل ہے۔(النمل، 27 : 40)
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک برگزیدہ صحابی آنکھ جھپکنے سے پیشتر تختِ بلقیس اپنے نبی کے قدموں میں حاضر کر دیتا ہے۔ یہ طئی مکانی کی ایک نا قابلِ تردِید قرآنی مثال تھی کہ فاصلے سمٹ گئے، جسے قرآن حکیم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک اُمتی سے منسوب کیا ہے۔ اگر اِس کرامت کا صدور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبئ آخرالزّماں ﷺکی اُمت کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی کیا حد ہو گی! مردِ مومن کا اِشارہ پاتے ہی ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِ پا آ جاتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
قرآن ہر علم، حکمت اور دانائی کا سرچشمہ ہے جو کائنات کے رازہائے سربستہ کو ذہنِ اِنسانی پر مُنکشف کرتا ہے اور اُس میں شعور و آگہی کے اَن گِنَت چراغ روشن کرتا ہے۔ طئی زمانی کا ذِکر بھی ربِّ اَرض و سماوات کی آخری اِلہامی کتاب میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اَصحابِ کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات طئی زمانی کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ اِن دونوں واقعات میں خرقِ عادت اور محیّرالعقول میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات اِسی کرۂ ارضی پر وُقوع پذیر ہوئے اور طئی زمانی کے حصول کیلئے سماوِی کائنات (Outer Cosmos) میں روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کیا گیا، مگر پھر بھی ظہورِ قدرتِ اِلٰہیہ کا نظارہ کیا عجب ہے کہ وقت تھم گیا اور مادّی اَجسام بھی محفوظ رہے اور صدیوں پر محیط عرصہ بھی بیت گیا۔
قرآنِ حکیم طئی زمانی کی مثال اصحابِ کہف کے حوالے سے یوں بیان کرتا ہے کہ تین سو نو سال تک وہ ایک غار میں لیٹے رہے اور جب سو کر اٹھے تو انہیں یوں گمان ہوا گویا وہ محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے رہے ہیں۔ قرآنِ مجید اِس محیرالعقول واقعہ کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :
اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا : ’’تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو‘‘؟ اُنہوں نے کہا : ’’ہم (یہاں) ایک دن یا اُس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں‘‘۔(الکہف، 18 : 19)
309 سال گزر جانے کے باوجود اُنہیں یوں محسوس ہوا کہ ایک دن بھی نہیں گزرنے پایا اور اُن کے اجسام پہلے کی طرح تروتازہ اور توانا رہے۔ طئ زمانی کی یہ کتنی حیرت انگیز مثال ہے کہ مدتِ مدید تک اصحابِ کہف اور اُن کا کتا غار میں مقیم رہے اور مُرورِ ایام سے اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔ قرآنِ مجید کے اِس مقام کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن کے جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے کلیتاً محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 سالوں کے شمسی موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اَجسام تروتازہ رہے۔ تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا اور وہ بیدار ہونے پر صدیوں پر محیط اُس مدت کو محض ایک آدھ دِن خیال کرتے رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص نشانی اور قدرتِ الٰہیہ کا ظہور تھا جس سے عادتِ الٰہیہ کے پیمانے سمٹ گئے۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے :اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔(الکہف، 18 : 17)
اللہ کی وہ خاص نشانی جس کا ظہور اُس نے اصحابِ کہف کی کرامت کے طور پر کیا، یہ ہے کہ اُس نے اپنے مقربین کو ظالم بادشاہ کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی 300 مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کیلئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا۔
خدائے رحمٰن و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلا دیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کردی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کردیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن بھی طئی زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں پچاس ہزار سال کا دِن اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا، جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہو گا۔ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
طئ زمانی کی ایک اور مثال قرآن حکیم نے حضرت عزیر علیہ السلام کے قصے میں بیان کی ہے۔ انہوں نے حصولِ حق الیقین کیلئے اللہ تعالیٰ سے طئی زمانی کے بارے میں سوال کیا۔ اُن کے سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بطورِ مشاہدہ اُن پر ایک سو سال کیلئے موت طاری کر دی اور پھر بعد ازاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے۔ قرآن کہتا ہے :
سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کیلئے) اُسے سو برس تک مُردہ رکھا۔ پھر اُسے زندہ کیا۔ (بعد ازاں) پوچھا : ’’تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)‘‘؟(البقره، 2 : 259)
ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوتے رہنے کے بعد جب حضرت عُزیر علیہ السلام کو اللہ ربّ العزّت کی طرف سے نئی زِندگی عطا ہوئی، تواُن سے یہ پوچھا گیا کہ کتنا عرصہ لیٹے رہے؟ تو انہوں نے جواب دیا :
’’میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں‘‘۔ فرمایا : ’’(نہیں) بلکہ تو سو برس پڑا رہا (ہے)‘‘۔(البقره، 2 : 259)
حضرت عزیر علیہ السلام کو اصل صورتحال سے آگاہ کیا گیا کہ اُنہیں تو لیٹے ہوئے 100 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اُن کے پاس کھانے کا جو سامان تھا وہ بھی جوں کا توں تر و تازہ رہا اور اُس میں کوئی عفونت پیدا نہ ہوئی۔ حضرت عزیر علیہ السلام کی توجہ اس طرف دِلانے کیلئے اِرشاد ہوا :
پس اب تو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں۔(البقره، 2 : 259)
قدرتِ خداوندی ہے کہ ایک طرف تو حضرت عزیر علیہ السلام کے طعام اور مشروب میں عفونت اور سرانڈ تک پیدا نہ ہوئی اور وہ جوں کے توں تر و تازہ رہے جبکہ دُوسری طرف اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کے سامنے اُس گدھے کی ہڈیاں اکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔
جدید ترین سائنسی تحقیقات بھی طئ زمانی کی تصدیق کر رہی ہیں اور اِس کوشش میں ہیں کہ کسی لاعلاج مریض پر مصنوعی موت طاری کر کے اُسے طویل مدّت تک سرد خانے میں محفوظ رکھا جائے اور جب اُس کے مرض کا علاج دریافت ہو جائے تو اُس کے جسم میں دوبارہ سے زِندگی کی لہر دوڑا کر اُس مریض کا علاج کیا جائے اور ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد اُسے ایک بار پھر روزمرّہ کے معمولات کی ادائیگی کے قابل بنا دیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اُس وقت تک اُس کی اپنی اولاد میں سے کئی نسلیں موت سے ہمکنار ہو چکی ہوں۔ اِنسان کا یہ خواب اَب خواب نہیں رہے گا۔
جدید سائنس اپنے اِرتقاء کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید میں درج سائنسی حقائق کی توثیق کرتی چلی جا رہی ہے۔ مغرب کے سائنسدان اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود قرآن کو اِلہامی کتاب تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ آج نہیں تو کل عقلی بنیادوں پر تشکیل پانے والا ذہنِ جدید تعلیماتِ اِسلامی کی سچائیوں کے اِعتراف میں پیش پیش ہو گا، اِس لئے آنے والی ہر صدی اِسلام کی صدی ہے۔ مغربی دُنیا کے پاس اِسلامی تعلیمات کی حقّانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اِس کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے کے سِوا کوئی چارہ نہ ہو گا اور مصطفوی اِنقلاب کا سورج مغرب کے اُفق پر بھی اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو گا۔ زمین پر اُترنے والا ہر لمحہ اللہ کی توحید اور حضور ﷺکی رسالت کی گواہی دے رہا ہے۔
قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیر علیہ السلام کی اِس مثال میں طئ زمانی کا کیا منظر تھا کہ 100 سال کا عرصہ گزر گیا اور اس کے باوجود اُن کے مادّی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچا اور وہ موسموں کے تغیر و تبدّل سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رہا۔ وقت اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر بھی اِس طرح سمٹ گیا کہ اُن کی تروتازگی میں بھی کوئی فرق نہ آیا، لیکن وُہی ایک صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اِس طرح گزری کہ اُس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ حتیٰ کہ اُس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اِحیائے موتیٰ کا نظّارہ کرانے کیلئے اُن کے گدھے پر تجلّی کی تو 100 سالہ مُردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، اُن پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زِندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو طئ زمانی اور اِحیائے موتیٰ کے منظر دِکھلا دیئے۔
خدا کی ذات اگر بنی اِسرائیل کے ایک پیغمبر کو اپنی قدرتِ خاص کے کرِشمے دِکھا سکتی ہے تو اپنے حبیب نبئ آخر الزّماں ﷺ کی خاطر اِس سے بڑھ کر معجزے کیوں برپا نہیں کر سکتی؟ اِس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ شبِ معراج صاحبِ لولاک فخرِموجودات حضوررحمتِ عالم ﷺ کو زمان و مکاں(ٹائم وسپیس) کی مسافتیں طے کروانے کے بعد خدائے لم یزل نے اپنے قرب و وصال کی بے پایاں نعمتیں عطا فرما دیں۔ مقامِ قَابَ قَوْسَيْن پر اپنی ہمکلامی اور بے حجاب دِیدار کا شرف اِس طرح اَرزانی فرمایا۔علامہ اقبال کیا خوب فرماگئے:
وہ دانائے رسل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
سنائیؔ کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لُولوئے لال