The Time Of Test

آزمائش کاوقت

:Share

سوبدائی بہادرمنگولوں کے عظیم بادشاہ چنگیزخان کاایک نامورسالارگزراہے۔خانہ بدوش منگول لٹیرے تموجین سے خان اعظم چنگیزخان بننے تک کےسفرمیں سوبدائی (بعض مورخین اسے سوبوتائی بھی لکھتے ہیں)کاسب سے اہم حصہ رہاہے۔عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ اگرسوبدائی چنگیز خان کا کمانڈرنہ ہوتاتوشایدمنگول اس قدرحیران کن فتوحات نہ حاصل کرپاتے۔سوبدائی نے بیس کے قریب جنگیں اوربے شمار لڑائیاں لڑیں مگر کسی میں شکست نہیں ہوئی۔ کہاجاتاہے کہ بطورکمانڈر (سالار)اس نے جس قدرعلاقہ فتح کیا،انسانی تاریخ میں اس کی کوئی اورمثال نہیں ملتی۔ سوبدائی انتہائی زیرک اورشاطرجنگجوتھا۔اس نےعسکری تاریخ میں کئی نئی اوراچھوتی چالیں متعارف کرائیں۔منگول لشکر کاسب سے اہم عسکری حربہ”تولوغمہ” تھا۔کہاجاتاہے کہ اس کابانی بھی سوبدائی بہادرہی تھا۔اہم معرکوں میں منگول لشکرجنگ شروع ہونے کے کچھ دیربعدپسپاہونا شروع کردیتا۔مخالف سمجھتے کہ منگول شکست کھاکربھاگ رہے ہیں۔یوں وہ زیادہ جوش وخروش سے آگے بڑھ آتے۔ادھرمنگول لشکرکادرمیانی حصہ (قلمب) پیچھے ہٹ جاتامگردونوں بازواپنی جگہ پرقائم رہتے۔جب مخالف فوجی خاصاآگے آجاتے توپیچھے ہٹنے والے منگول سپاہی پلٹ کر حملہ کردیتے،اس کے ساتھ ہی دونوں بازوبھی دشمن لشکرکوگھیرے میں لے لیتے۔اس حربے سے منگولوں نے کئی بڑی فوجیں تباہ کیں۔یہ اور بات ہے کہ خودمنگولوں کے زوال کاباعث بھی یہی حربہ بن گیا۔اسلامی تاریخ کے ایک بے مثل جنگجو بیبرس نے اسی حربے کوخودمنگولوں پراستعمال کرکے عین جالوت کے مقام پرہلاکوخان کے سالارقط بوغاکوشکست دی۔منگولوں کو 38برسوں میں ملنے والی یہ پہلی شکست تھی۔

سوبدائی نے چین اورمشرقی یورپ میں شاندار فتوحات حاصل کیں۔اس نے پولینڈاورہنگری کی فوجوں کوصرف دودنوں میں تباہ بربادکردیا۔ سوبدائی بیک وقت دو تین معرکوں کی ہدایات دینے کی شہرت رکھتاتھا۔منگول کہتے تھے کہ سوبدائی پرچالیں دیوتاؤں کی جانب سے اترتی ہیں۔ چنگیزخان کے بعداس کابیٹااوغدائی خان اعظم بنا۔روس،بلغاریہ اوردوسرے علاقوں پرحملہ کیلئےاس نے منگول شہزادے باتوخان کی رہنمائی کیلئےسوبدائی کوبھیجا۔ سوبدائی اس وقت بوڑھاہونے کے ساتھ اس قدرموٹاہوچکاتھاکہ گھوڑے کیلئےاس کاوزن اٹھاناممکن نہیں رہا۔اس کے باوجودباتوخان سوبدائی کوایک رتھ میں بٹھاکرساتھ لے گیاتاکہ جنگ کے دوران سوبدائی کی شاطرانہ چالوں سے فائدہ اٹھاسکے۔اوغدائی کے بعداس کابیٹا قویوق خان اعظم بنا۔اس نے سوبدائی کوبلابھیجا۔سوبدائی نے پیرانہ سالی کے باعث مستعفی ہونے کی درخواست کی تونوجوان قویوق نے تجربہ کارسالارسے پوچھا”سوبدائی بہادر! میں فیصلہ سازی میں کمزورہوں۔مجھے بتاؤکہ میراعظیم داداکیاکرتاتھا؟”

سوبدائی بہادر نے اپنے گنجے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے ترچھی آنکھوں سے خان اعظم قویوق کودیکھااوراپنی روایتی صاف گوئی سے،جس کی وہ شہرت رکھتاتھا،بولا،خان اعظم چنگیزخان کے پوتے اورخاقان اوغذائی کے بیٹے،مجھے تمہاری بات سن کر خوشی نہیں ہوئی۔یادرکھو!بادشاہ کبھی اپنے فیصلوں میں گومگوکاشکارنہیں ہوتے۔مستقبل کے اندیشوں اورممکنہ خطرات سے گھبراناسپاہیوں کونہیں تاجروں کوزیب دیتاہے۔تمہارے داداچنگیزخان کی فتوحات کاسب سے بڑارازتربیت یافتہ فوج اورجنگی چالوں سے زیادہ اس کافولادی عزم اورواضح اہداف تھے۔خان اعظم کے بے شماردشمن تھے۔خود منگولوں میں سے کئی سرداراس کے مخالف تھے۔اس کے باوجودخان کبھی بھی سازشوں سے نہیں گھبرایا۔میری عمربھرکا تجربہ یہ بتاتاہے کہ مضبوط عزم اورواضح اہداف رکھنے والاسالاریابادشاہ کبھی شکست سے دوچارنہیں ہوگا۔
امیرتیمورایک شاندارجنگجواورداناشخص تھا۔اس کی سوانح پڑھ کراحساس ہوتا ہے کہ اپنے تمام ترمظالم اورشخصی کمزوریوں کے باوجودوہ ایک غیر معمولی شخص تھا۔امیرتیمورکا مشہور قول ہے کہ کمزوری یاطاقت کوئی الگ شے نہیں۔مخالف کی کمزوریاں کسی شخص کوطاقتور بنادیتی ہیں۔اسی طرح اس کی اپنی کمزوری دشمن کوطاقتوربناتی ہے۔

تیمورنے اپنی سوانح میں ایک دلچسپ قصہ لکھا۔تاتاریوں کایہ بے مثل سورماکہتا ہے کہ ایک بارمیں نے ایک نہایت خوبصورت لڑکی کواپنی دلہن بنایا۔ شادی کے بعدمیں کوئی سال بھرگھرمیں رہا۔میری زندگی کایہ واحدحصہ ہے جب کسی معرکے میں حصہ نہیں لیا۔ایک دن ناشتہ کرنے کے بعد اپنے کمرے میں کھالوں کے نرم بسترپرلیٹاہواتھا،میری نظردیوارسے لٹکی تلوارپر پڑی ۔ یہ تلوارمیں نے خاص طورپرکئی دھاتوں کے امتزاج سے بنوائی تھی جوہلکی ہونے کے ساتھ نہایت تیزدھارتھی۔مجھے خیال آیاکہ کہیں اسے زنگ نہ لگ گیاہو۔جب اسے اتارکرمیان سے نکالاتومجھے وہ خاصی بھاری لگی۔ میں حیران ہواکہ تلوار رکھے رکھے بھاری کیسے ہوگئی؟پھراچانک ہی مجھے احساس ہوا کہ میں اتناعرصہ ورزش اورعسکری مشق نہ کرنے سے کمزورہوگیا ہوں۔ میں نے اسی دن اپنے اہلخانہ کوسمرقند بھیج دیااور لشکرکولے کر اگلے معرکے کیلئےروانہ ہوگیا۔امیرتیمورمنگولوں سے نفرت کرتاتھا۔وہ خودکو چنگیزخان سے بڑاسالارگردانتاتھا۔مگروہ منگول قائدکے ایک قول کوہمیشہ دہراتاتھا کہ”سپاہی کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔بہادری،جرأت اوردلیری کاراستہ،جسے مضبوط عزم ہی سے عبورکیاجاسکتاہے۔

فرانس کےلیجنڈری لیڈرچارلس ڈیگال نے جب الجزائرکامسئلہ حل کرناچاہاتوملک بھرمیں طوفان کھڑاہوگیا۔ڈیگال کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ الجزائر کے ایشوپر آپ کی حکومت ختم ہوجائے گی۔پارٹی کے اندربھی سازشیں ہورہی ہیں،سسٹم بچانازیادہ ضروری ہے،آپ مفاہمت سے کام لیتے ہوئے کوئی درمیانہ راستہ نکالیں۔فرانسیسی مردآہن کاچہرہ یہ سن کرسرخ ہوگیا۔اس نے بے ساختہ جواب دیا”لیڈرمسائل لٹکایا نہیں،حل کیاکرتے ہیں۔ممکن ہے “سٹیٹس کو”کی پالیسی جاری رکھنے سے میں چندبرس زیادہ حکومت کرجاؤں مگرمیرے ملک کی بنیادیں ضرورکھوکھلی ہوجائیں گی”۔

سچ تویہ ہے کہ اب قوم پاکستان کی موجودہ صورتحال پرسیاسی قیادت سے فولادی عزم اورواضح ویژن کی توقع کررہی ہے جہاں تاجرانہ رویہ ترک کرکے اسلام کاسپاہی بنناہوگا۔عوام اپنی عدلیہ سے بھی مایوس نہیں ہوناچاہتے کہ یہ ان کی روشن امیدوں کا آخری سہاراہے۔اسی قوم نے فاسق کمانڈوکے مظالم کے باوجودعدلیہ کی حرمت بچانے کی جنگ لڑی ہے اوروہ اپنےججوں کو عزم وہمت اورجرأت کااستعارہ سمجھتےتھےاوریہ بھی درست ہے کہ وہ اب تک اپنی مراعات کے علاوہ قوم کومکمل انصاف دینے میں بری طرح نہ صرف ناکام ہوئے ہیں بلکہ ان کی اپنی تقسیم سےقوم کی مایوسی میں حددرجہ اضافہ ہو گیا ہے۔9مئی کے المناک واقعات پرفوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے پراعتراض اٹھ رہاہے لیکن قوم کایادہے کہ جب ارضِ وطن میں دہشتگردی عروج پرتھی تواسی عدلیہ نے ان کےمقدمات سننے سے انکارکردیاتھاجس کے بعدفوجی عدالتوں نے یہ بارگراں اٹھایاتھا اگراس وقت عدلیہ نے اپنا کردار نبھایاہوتاتوشائدہم اس روزِبدسے محفوظ رہتے۔

بابل کے بادشاہ بالش ضرکی غلطیوں پراسے ایک غیبی ہاتھ نے واضح الفاظ میں نوشتہ دیواردکھایاتھا”تمہیں آزمایاگیامگرتم تول میں پورے نہیں اترے اور ہلکے ثابت ہوئے۔” پاکستانی سیاست میں بھی آزمائش کاوقت آپہنچا۔اس میں صرف عوام کے دلوں کی آواز سننے والاہی سرخروہوسکے گا۔تاریخ کایہ ابدی سبق ہے کہ صرف وہی لیڈرفتح یاب ہوتاہے جوفولادی عزم اورواضح ویژن کے ساتھ میدان میں قدم رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں