میں کس منہ سے اس بزرگ سیدصاحب کاشکریہ اداکروں جوہمیشہ مشکل وقت میں بھولاہواسبق یاددلادیتے تھے۔جب بھی دل بہت بے چین ہوتاتو فوری طورپران سے فون پر رابطہ پر ہمیشہ کی طرح دانش وحکمت کے ایسے موتی جھڑتے کہ روح تک اداس اورسرشار ہوجاتی اورہرمرتبہ تنگ دامنی کامعاملہ آن کھڑاہوتالیکن اب منوں مٹی میں پاکستانی جھنڈے میں ملبوس اللہ کے ہاں اپنی دائمی منزل پراپنی وفاداریوں کے صلے میں یقیناجنت میں بیٹھے اپنی جاودانی کامیابی پرمسرورہوں گے۔ان کے فراق میں ان کے موصول پیغامات سے دل کی پیاس بجھاتارہتاہوں۔تین دن قبل ایک اہم کانفرنس میں شرکت کاموقع ملاجہاں آزادی کے نامورہیروز اوران کی جدوجہدآزادی کی جب بات ہوئی تو میرے حصے کاتفاخرمردمجاہدسیدعلی گیلانی کاتذکرہ آیاتو ایک عرصے کے بعد پھوٹتی سحراچھی لگی،صبح نورکی تازگی دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی،اورسجدہ شکراداکیا۔یوں محسوس ہورہا تھاکہ روح کا ساراآلام دھل گیاہے اور روٹھے ہوئے الفاظ ایک دفعہ پھرایک قطار میں مسکراتے کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں،پھرسے ہمدم،ہمدرداورغمگسار،بڑھ کرگلے ملنے کیلئے متمنی،جونہی میرے بیانئے نے محبت سے بازو پھیلائے فورابغیرکسی تاخیرکے برچھی کی طرح سینے میں اترگئے۔
یہ سب ایک بوڑھے،بیماروعلیل اورایک سفیدریش کے حامل بزرگ کی وجہ سے ہواجن سے برسوں پہلے حرم میں نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ تین ہفتے ان کی میزبانی کاشرف بھی حاصل ہوا۔اس کے بعدملاقات کی آرزوبرسوں سے دل کو بے چین کئے رہی اوریہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ دل کی مراداب اس زندگی میں توپوری نہیں ہوسکتی اوراس بات سے بھی واقف تھاکہ کبھی نہ توان سے پہلے کی طرح بات ہوسکے گی اورنہ ہی ان کودیکھ سکوں گالیکن اس کے باوجودفون پریابلاواسطہ ان سے عمربھررابطہ رہا۔سید علی گیلانی مرحوم جنہوں نے اس کارزارمیں قدم رکھنے سے قبل اپنے رب سے یہ عہدکیا: کہو،میری نماز، میرے تمام مراسِم عبودیت، میراجینااورمیرامرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہے جس کاکوئی شریک نہیں۔(انعام:162)
اپنی زندگی کے بیشترقیمتی سال بھارتی مکارہندوبنئے کی بنائی ہوئی جیلوں میں گزاردیئے اوربرسوں گھرمیں نظربندی کی حالت میں ہی ان تمام ظالموں کی خواہشات کے منہ پرتھوک کراپنے اس رب کے ہاں حاضرہوگئے جس نے قرآن میں اپنے ایسے بندوں کویہ بشارت دی کہ: اے نفسِ مطمئن،چل اپنے رب کی طرف اِس حال میں کہ تواپنے انجامِ نیک سیخوشاوراپنے رب کے نزدیک پسندیدہ ہے۔شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں اور داخل ہوجامیری جنت میں۔ (الفجر:27-30)
زندگی کی آخری دہائی میں جہاں رابطے کے تمام ذرائع پرمکمل پابندی کے ظلم وستم برداشت کئے وہاں ان کی اولادپربھی زندگی تنگ کردی گئی۔درجنوں مرتبہ جس کے مکان پرراکٹ برسائے گئے،جسے خلقِ خداکے قلب ودماغ سے اتارنے کی ان گنت سازشیں کی گئیں لیکن وہ اتناہی زیادہ قلب وروح کی جان بنتاچلاگیا۔جسے تھکاڈالنے،دھمکانے اورخریدنے کاہرحربہ آزمایاگیالیکن وہ ہردفعہ تازہ دم،کسی خوف سےعاری اورکسی بھی خطرے کی پرواہ کئے بغیرمایوسی کودھتکارتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتا ہی چلاگیا .اوربالآخراس مظلوم نے اسی بے بس شہرسرینگرمیں نظربندی کی حالت میں اپنے رب سے ملاقات کیلئے رخصت ہوگیا جہاں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعوی کرنے والے اس بزرگ سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ کرفیوکا اعلان کرکے اس کے نمازجنازہ پربھی پابندی لگادی گئی اورکفن کے طورپرپاکستانی پرچم کواتارنے کاحکم دیتے ہوئے مردمجاہدکی وصیت کے خلاف شہداکے قبرستان میں دفن ہونے تک کی اجازت نہ دی گئی لیکن تاریخ نے دیکھاکہ دنیابھرمیں ان سے محبت کرنے والوں نے اپنے آنسوؤں کے ساتھ ان کی غائبانہ نمازجنازہ پڑھی اورمیں نے سینکڑوں ایسے افرادکوبلک بلک کرروتاہوادیکھا جنہوں نے کبھی ایک باربھی ان کونہ دیکھااورنہ ہی براہ راست ان سے ہمکلام ہونے کاشرف حاصل ہوا۔
پابندی سے قبل اس مردمجاہدکوکرفیوکی پابندیوں کی بناپربرسوں مسجد میں نمازِ جمعہ پڑھنے کی اجازت ملی،نہ ہی وہ اپنے کسی عزیزیاہمدم کے ہاں کسی بھی خوشی یا غمی میں شریک ہونے دیا گیا ، گویا اسے کشمیریوں سے دوررکھنے کی ایک سازش پر عمل جاری رہالیکن اس تمام آلام ومصائب کے باوجودوہ اس شان اورعزم صمیم سے کھڑارہاکہ عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برستی رہی اوراس کی ایک اپیل پرسارے کشمیرکے مردوزن اورجوان دیوانہ وارگولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونااپناایمانی فرض سمجھتے رہے۔
دوسروں کاذکرہی کیا،ایک وقت ایسابھی آیاکہ مقبوضہ کشمیرکی جماعت اسلامی نے بھی اس کاساتھ دینے سے انکارکردیااور حریت کانفرنس سے مطالبہ کیاگیاکہ ان کوالگ کرکے جماعت کے کسی اورلیڈرکونمائندگی کااختیاردیاجائے۔کمالِ جرات لیکن نہائت صبروتحمل کے ساتھ وہ اپنی راہ پرگامزن رہا۔سرینگرکے ایک مزدورکابیٹاجس نے اپنی بھرپورجوانی میں اپنے لئے ایک راہ چن لی تھی اورپھرعمربھرناک کی سیدھ میں اس راہ پرچلتارہااورکبھی کسی موقع پراس کے قدم نہیں ڈگمگائے،جسے دیکھ کرتوحیرت ہوتی تھی،جس کے بارے میں سنو تودل سے بے اختیار اس کی درازی عمرکی دعا ئیں نکلتی رہیں اورغورکریں تواھدنا الصراط المستقیم کامفہوم سمجھ میں آنے لگتاہے۔عمربھراس نے جھوٹ اورفریب کے سامنے جھکنے سے انکارکردیااور عمربھر اس کو کوئی مشتعل بھی نہیں کرسکا۔
وہ جانتاتھاکہ راہ کٹھن بھی ہے اورطویل بھی لیکن وہ پھربھی اپنی ترجیحات اورمقاصدپریکسورہا۔وہ رازاس پرآشکارہوگیاتھاکہ جس سے مسلم دنیاکے اکثررہنمااب بھی بے خبرہیں کہ عرصہ گیر امتحان میں اصل اہمیت کامیابی اورناکامی کی نہیں،حسنِ نیت اورحسنِ عمل کی ہوتی ہے۔آدمی نتائج کانہیں جدوجہد کامکلف ہے،نتیجہ تواللہ کے ہاتھ میں ہے۔پہلے تووہ خود اپنی پارٹی قیادت کے خلاف صف آرا ہوا،جدجہدکے طویل برس اوران گنت قربانیاں بھی اسے تھکانے میں ناکام رہیں۔پارٹی کے کارکنوں کوآوازدی جو ہمیشہ کی طرح اس پر اعتماد اپنانصب العین سمجھتے تھے کہ زندگی کی کتاب میں جاہ پسندی ،ریااورمفادکاکوئی باب نہیں۔ اپنا سارا اخلاقی دباڈال کراس نے جماعت کی قیادت کوبدل ڈالا،پھروہ حریت کانفرنس کی مصلحت کا شکار ہونے والی قیادت کے خلاف اٹھا ..ایک فرد،متعدد لیڈروں اورگروہوں کے خلاف جوپاکستان کوبھول کربھارت سے مذاکرات پرآمادہ ہوگئے تھے، جانتے ہوئے بھی کہ کن لوگوں نے انہیں آمادہ کیاتھا۔
اندلس کاجلیل القدرحکمران درباریوں کے ساتھ نوتعمیرمحل میں نمودارہواجس میں سونے کاقبہ جگمگارہاتھا۔جب دوسرے داد دے چکے توقاضی سعید کی طرف متوجہ ہوا”بادشاہ تم پر شیطان سوارہے قاضی نے کہا کہ سونے سے عمارتیں نہیں بنائی جاتی”آسمان اورزمین کے درمیان ایک سناٹاتھااوردل تھے جوخوف اوراندیشوں سے دھڑک رہے تھے۔جب بادشاہ کی آوازابھری ”سعید کو لوگ بے سبب ہسپانیہ کاضمیرنہیں کہتے،قبہ گرادیاجائے”۔
کبھی کبھی ایک تنہاآدمی اٹھتاہے اورمنظرکوبدل ڈالتاہے۔علی گیلانی فرشتہ نہیں تھا۔چندلمحوں کیلئے مان لیتے ہیں کہ ان کے اپنے تعصبات ہوسکتے تھے اورناقص فیصلے بھی،ان کی ہر رائے اورہراقدام سے اتفاق ضروری نہیں،نہ اس سے اختلاف کرنے والوں کی نیت پرشبہ کرنے کاکوئی جوازہے،ہو سکتا ہے ان کی عقلیں وہی کہتی ہوں جس پروہ عمل پیراہیں؟ دنیاکے بدلے ہوئے ناسازگار حالات اورپہاڑجیسی رکاوٹیں،لیکن بزرگ درویش ان سے مختلف ثابت ہوا۔وہ ایک صاحبِ یقین تھااورصاحبِ یقین کبھی مرجھاتااور مایوس نہیں ہوتا۔وہ اپنی ذات سے اوپراٹھ جاتاہے اورایک برترمقصدکیلئے ہرچیزکوتیاگ دیتاہے۔قوموں کوایسے لوگ انعام کے طورپرعطاکئے جاتے ہیں اورکوئی الٹالٹک جائے ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا،اسی لئے وہ جدوجہدآزادی کاکامیاب استعارہ بن گیا۔
سیدعلی گیلانی نے حریت کانفرنس کی درماندہ قیادت اوراس کے عقب میں سازشیں کرنے والے بھارتیوں اورشاطرامریکیوں کو بالآخرشکست سے دوچارکردیاجب استعمارسارازور کشمیریوں کو تنہاکرنے کیلئے صرف کررہاتھا،جبکہ پاکستانی حکومت بھی تھک چکی اوردیگرادارے بھی راستہ بھول چکے ہیں۔شاہ محمودقریشی نے بطوروزیرخارجہ امریکی ایماپرکشمیرکی بندر بانٹ کرنے کیلئے کشمیری لیڈرمیرواعظ کے ساتھ سازبازشروع کرتے ہوئے خصوصی طورپرواشنگٹن میں آصف زرداری کے ساتھ اس کشمیری لیڈرکی ملاقات بھی کروائی تھی تویہ مردِ مجاہد سیدگیلانی ہی تھے جنہوں نے بروقت اس سازش کی دہائی دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کی مددسے اس مذموم منصوبے کوکامیاب نہیں ہونے دیا۔ان دنوں بھی ٹیلیفون پرمیری جب ان سے بات ہوئی توانہوںنے پاکستانی حکمرانوں کوبھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے پراپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایاتھاکہ ممبئی میں دہشتگردی کاشورمچانے والابھارت اب بلوچستان،سرحد،کراچی اورپاکستان کے دیگر دوسرے بڑے شہروں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلسل دہشتگردی کاارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک مستقل سنگین خطرات پیداکررہاہے اور پاکستانی حکومت ان کے ساتھ دوستی کیلئے مرتی جارہی ہے۔میں ان کی آوازکاکرب بڑی شدت اور ندامت کے ساتھ محسوس کر رہاتھااوردکھ کی بات تویہ ہے کہ سقوط کشمیرکامعاملہ بھی عمران خان کے اسی وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی کے دورمیں ہوا۔
اب ضرورت اس امرکی ہے سقوط کشمیرکے ذمہ داران کے خلاف کڑی تحقیق کیلئے انہیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑاکرکے کشمیریوں کویقین دلایا جائے کہ کشمیرکاوکیل آئندہ انہیں کبھی بھی مایوس نہیں کرے گااور اس کے ساتھ ہی اقوام عالم کویہ واضح طورپربتائے کہ سفاک مودی کشمیرمیں خونی کھیل کی آڑمیں کشمیرکی آبادی کاتناسب بدلنے کی جوکوششیں کررہا ہے اس سے اگرخطے میں جنگ کاآتش فشاں پھٹ گیاتونہ صرف جنوبی ایشیامیں تباہی وبربادی ہوگی بلکہ یہ عالمی جنگ کابھی پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی کشمیرکے حالات سے متعلق شدید تشویش اورغصہ پایاجاتاہے بلکہ مودی کی فسطائیت کاکینیڈامیں خالصتانی سکھ کے قتل نے دنیاکے سامنے بھارت کامکروہ چہرہ عیاں کردیا ہے۔
5/اگست کوآرٹیکل370ختم کرنے کے بعدبھارت نے کشمیرکواپناحصہ بنانے کیلئے وہی حکمتِ عملی اپنائی ہے جوکبھی اسرائیل نے فلسطین پرقبضہ کرنے کیلئے بنائی تھی کہ سب سے پہلے کچھ اسرائیلی فلسطین جاکرآبادہوئے پھرانہوں نے اپنی آبادی میں اضافہ شروع کیااورمقامی فلسطینیوں سے منہ مانگی قیمتوں پرزمینیں اورجائدادیں حاصل کرناشروع کی اس کے بعد انہیں لالچ دیا اورپھر تیزی سے منہ مانگی قیمت پرزیادہ سے زیادہ زمینیں خریدنے لگے اورزیادہ ترفلسطینی علاقوں پراپناتسلط قائم کرلیا۔ بالکل یہی طریقہ اب بھارت نے آرٹیکل 370 کاخاتمہ کرکے مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنایاہے۔انڈین آرمی بلااجازت گھروں میں داخل ہوکرجسے چاہتی ہے اٹھالیتی ہے۔خاص طورپرجوان بچوں کوحریت پسندکہہ کراپنے ساتھ لے جاتی ہے اور پھرچند دن کے بعد ان کی تشدد شدہ لاشیں کسی اورعلاقے سے ملتی ہیں اسی طرح مسلم عورتوں کوگھروں سے اٹھالیاجاتاہے اورعصمت دری کے بعد یاتوماردیا جاتا ہے یاپھرانتہائی بری حالت میں مجبورخواتین کسی علاقے میں پھینک دی جاتی ہیں۔یہی نہیں کسی بھی گھرکو آگ لگانا گھرسے سامان لیجانااورتوڑپھوڑ کرنا توروزکامعمول بن گیاہے۔بین الاقوامی میڈیاکوکشمیرسے دوررکھا جارہاہے۔مودی نے فیصلہ کرلیاہے کہ تحریک حریت کوبندوق کے زورپرکچل دیا جائے۔مودی حکومت برہان وانی کی شہادت بعد نوجوانوں کے جذبہ آزادی دیکھ کرحواس باختہ ہوچکی ہے اوریہی وجہ ہے کہ پندرہ ہزارسے زائد نوجوانوں کو پکڑکرعقوبت خانوں میں پہنچادیاگیاہے جن میں دوہزارسے زائدخواتین بھی شامل ہیں۔
ایک مختصرحدیث سن لیں:”اہل ہندکے مسلمان پہلے اہل کفرہندسے جنگ کریں گے اوران کے امرااورروساکوگرفتارکریں گے پھرشام میں مریم کے بیٹے کاساتھ دیں گے”۔گویایہ پاکستان کی منزل یاتقدیرپہلے سے طے ہوچکی ہے۔جومرضی کرلیں۔اب یہ آپ پرمنحصرہے کہ تندی بادمخالف کاساتھ دیناہے یا منافقین غم گسارکا۔اب مخالفین جوکچھ مرضی کرلیں، جتنا مرضی زورلگالیں،قدرت کے اٹل فیصلوں کوٹالانہیں جاسکتا۔خطے میں ایسے حالات پیداکئے جارہے ہیں کہ پاک وہند کامحاذایساگرم ہوجس کے جواب میں مکمل جنگ ہواور میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مکمل ہوکررہے گا۔ حدیث کے دوسرے حصے کے مطابق شام میں جانے سے مراداسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ کی پیشگوئی ہے۔یہ وقت اورموقع کب آئے گا ، اس کیلئے فی الحال وقت کاتعین مشکل ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایساہوگاضرور،چاہے ہمارے اپنے دورمیں ہو،یاآنے والی نسل کویہ معرکہ درپیش ہوکیونکہ کتاب لکھنے والے نے اس حقیقت سے آگاہ کردیاہے اورلکھنے والے نے توزمانے کی قسم کھاکر،وقت کو گواہ بناکرخبردارکیاہے اورزمانے میں پیش آنے والے سارے واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ میرارب اپنے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کبھی نہیں کرتااوراس کے احکام کی تکمیل میں کہاجانے والا ”کن”فوری طور پر”فیکون”میں تبدیل ہوجاتاہے۔
سید علی گیلانی کی سوچ وفکراوران کے قافلے کومیرا،ایک عام پاکستانی کاسلام پہنچے۔انہوں نے اپنے عمل سے ہماری ساری مایوسی دھوڈالی ہے۔ہمارے لئے انہوں نے ایک تابہ فلک ایک مشعل فروزاں کردی ہے اورہمیں یاددلایاہے کہ انسانیت کامستقبل ابلیس اورمایوسی پھیلانے والے اس کے کارندوں کے پاس نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ جو امیدکا رب ہے اورجس کی کتاب برملایہ کہتی ہے کہ :
(اے نبیؐ) کیا للہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں حالانکہ اللہ جسے گمراہی میں ڈال دے اسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ، اور جسے وہ ہدایت دے اسے بھٹکانے والا بھی کوئی نہیں ، کیا اللہ زبردست اور انتقام لینے والا نہیں ہے ؟
ابھی میں یورپی یونین کے ہیومن رائٹس گروپ کے ساتھ ایک خصوصی ملاقات سے واپس لوٹ رہاہوں۔اس کانفرنس میں ایک خصوصی ملاقات میں انسانی بنیادی حقوق پرنگاہ رکھنے والی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل،واچ ڈاگ، ہیومن رائٹس انٹرنیشنل،اینٹی سلیوری انٹرنیشنل اورگلوبل رائٹس کو کشمیریوں پرہونے والی زیادتیوں سے جب آگاہ کیاتومعلوم ہواکہ یہ تمام ادارے بھی کشمیریوں کے انسانی حقوق اوردیگرحقوق تلفی کانہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ ان کی ثابت قدمی پربھی نازاں ہیں اور ایک بارپھرکشمیریوں کے حقوق کی بازیابی کیلئے سرگرم ہونے کایقین دلایاہے۔جناب سید صاحب! آپ تواپنے کرداراورعمل کے ساتھ جاوداں ہوگئے اوراپنے پیچھے نے والوں کوایک ایساراستہ دکھاگئے جہاں جان بھی چلی جائے تویہ سودہ مہنگانہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ کاتذکرہ ہمیشہ ہمیں بھولاہواسبق یاددلاتارہے گا۔