Sample Sharam

کامیابی کاراز…… مردہ ضمیر

:Share

گاڑی میرے گھرکے سامنے رکی،پہلے باوردی شوفراترا،پچھلے دروازے کی طرف بھاگااورسرعت سے ہینڈل کھینچ دیا۔اندرسے سرمئی سوٹ میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان نکلا،اس کے ہاتھوں میں گلدستہ تھا۔میں یہ سب کچھ اپنے گھر کے فرنٹ روم کی سامنے والی کھڑکی سے دیکھ رہاتھا۔اس نے عینک کے گہرے سیاہ شیشوں کے پیچھے سے ماحول کاجائزہ لیااورآگے بڑھ کر میری دہلیزپرقدم رکھ دیا۔اس نے جونہی گھرکی بیل بجائی تومجھے قدرے حیرت بھی ہوئی اورپریشانی بھی کہ یہ اجنبی کون ہے اورمیرے ہی گھرکااس نے انتخاب کیوں کیاہے؟

اگلے دومنٹوں میں وہ میرے سامنے بیٹھاتھا،وہ ایک خوشحال،وجیہہ اورمہذب آدمی دکھائی دے رہاتھالیکن اسے اپنے سامنے پاکر مجھے کوئی مسرت نہیں ہورہی تھی۔میں دراصل پچھلے6ہفتوں سے شدیدعلالت اورشدیدڈپریشن کاشکارتھا،خدادادپاکستان کی اوپر تلے کی ناکامیاں،سنگین معاشی بحرانوں، مہنگائی میں تڑپتے عوام اورحالات کے بے مہرتھپیڑوں نے میری جڑیں تک ہلادی تھیں۔ میں چڑچڑا،سنکی اوربیزارہوچکاتھا۔رات کے لباس میں بیٹھاایک کتاب پڑھنے میں منہمک تھا،میل ملاقات سے مجھے چڑسی ہو گئی تھی۔میں نے سوچاکہ یہ کتنے غلط وقت پربغیراطلاع دیئے میرے پاس آیاہے۔اس کے پھول میرے سامنے میزپر دھرے تھے جو دروازہ کھولتے ہی اس نے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ میرے ہاتھوں میں تھمادیئے تھے۔

اس نے دھوپ کاانتہائی قیمتی چشمہ اتارا،اورزندگی سے بھرپورمسکراہٹ میری طرف پھینک کربولا،آپ نے مجھے پہچانا؟میں نے غورسے اسے دیکھا ،چہرہ توشناسا تھالیکن وقت اوردوری کی دھندمیں ملفوف تھا۔اس نے میری کشمکش بھانپ لی،آپ پہچان بھی کیسے سکتے ہیں،15 سال تھوڑاعرصہ نہیں ہوتا؟ میں اسے خاموشی سے دیکھتارہا۔آپ میرے محسن ہیں،میری خواہش تھی،میں جب کامیاب بزنس مین بن جاؤں،میرے پاس بے پناہ دولت آجائے، لوگ میرے اوپر رشک کریں،توپھرمیں آپ کے قدموں میں حاضری دوں۔

میری وحشت حیرت میں تبدیل ہوگئی اورمیں سکتے کے مریض کی طرح اسے دیکھنے لگا۔وہ تھوڑاساجذباتی ہوگیا،سرمیں ایک ناکام شخص تھا،غریب تھا، جذباتی تھا، جس سونے کوہاتھ لگاتامٹّی ہوجاتا،جس نوکری کیلئے درخواست دیتاوہاں سے انکارہوجاتا۔میں نے سوچااس زندگی سے توموت اچھی ہے۔اس سے پہلے کہ میں مرجاتا، ایک دوست مجھے آپ کے پاس چھوڑگیا۔آپ نے میری ساری کہانی سن کرمجھے خودکشی کاایک انوکھاطریقہ بتایا۔آپ نے کہااس معاشرے میں زندہ رہنے سے بڑی کوئی خودکشی نہیں، تم اپنے اردگردموجودلوگوں جیسے ہوکران سب سے انتقام لے سکتے ہو۔آپ نے کہاکامیابی اور ناکامی، اچھائی اوربرائی فقط اسٹیٹ آف مائنڈ (اپنے دماغ کی سوچ)ہوتی ہے۔جیب تراشی ایک شخص کی ناکامی اوردوسرے کیلئے کامیابی ہوتی ہے،اسے ایک برائی کہتاہے اوردوسرے کے نزدیک وہ حصولِ رزق کاذریعہ ہوتی ہے۔

وہ سانس لینے کیلئے رکا،وہ مجھے اب ہلکاہلکایادآنے لگا۔دس سال پہلے وہ ایک کمزورلڑکاتھالیکن اب وہ سڈول جسم کاخوبصورت نوجوان تھا۔وہ گویاہوا،آپ نے کہاتھا کہ اصل قصوروارضمیرہوتاہے،یہ جوتم بہت خوشحال قسم کے لوگ دیکھتے ہوجن کی لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ یہ برسوں میں ارب پتی بن گیایہ بھی کبھی تم جیسے لوگ تھے،بس انہوں نےخود کومارنے کی بجائے اپنے اپنے ضمیرکوقتل کردیااوربس ایک ہی رات میں خوشحالی کے سفرپرگامزن ہوگئے۔ جیسادیس ویسا بھیس۔تم اسلام آبادمیں رہتے ہوجس کاصرف نام ہی اسلام پررکھاگیاہے لیکن اسلام کاسب سے بڑامذاق وہی اڑایاجاتاہے۔اس ملک میں ضمیرکی کوئی ضرورت نہیں،اس سوسائٹی میں ضمیر”اپینڈکس “کی طرح ہے،اگرہے توکوئی فائدہ نہیں،موجودنہیں توکوئی نقصان نہیں۔آپ نے کہاتھا کہ اپنے اردگرددیکھو،کتنے سیاستدان ہیں،کتنے مذہبی رہنما،بزنس مین، دانشور، ادیب اورصحافی ہیں،یہ سب اخبار، ریڈیواور ٹی وی پرکتناجھوٹ بولتے ہیں کہ عرش تک ہل جاتاہے لیکن تم ان کااعتماددیکھو،ان کے لہجے کی کھنک،ان کی آنکھوں کی چمک اوران کے چہرے کی دمک ملاحظہ کروتمہیں کسی جگہ کشمکش ، پریشانی اورشرمندگی نظرآتی ہے؟نہیں دکھائی دیتی،کیوں؟ کیونکہ ان لوگوں کے اندرضمیرجیسی چیزہی نہیں۔آپ نے کہاتھایہ ضمیرہی ہوتاہے جوانسان کوشرمندگی،پریشانی اورکشمکش سے دوچار کرتا ہے،جوآپ کے اعتمادمیں دراڑ ڈالتاہے،اگرضمیرنہیں توسکھ ہی سکھ،اطمینان ہی اطمینان اورسکون وچین ہی چین۔

وہ رکا،اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی اورلمباساسانس لیکربولا،سر!اس کے بعد آپ نے یہ بھی کہاتھاکہ اگرضمیر کے ساتھ زندہ رہوگے تومیں تمہیں یہ یقین دلاتاہوں کہ کامیاب تو تم پھربھی ہو جاؤ گے لیکن یہاں نہیں بلکہ وہاں،جہاں ہم سب کا انتظارہورہاہے۔ سر!میں نے آپ کی پہلی نصیحت پرعمل کیا،میں نے اپنے ضمیرکاگلہ دبادیا،میں نے اسے مٹی میں دفن کردیا۔آپ کی پشین گوئی یاتجربہ کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی،میں واقعی کامیاب ہو گیا۔مجھے لگامیں آپ کے ساتھ ملاقات سے پہلے قطب شمالی پربرف کی دوکان کھول بیٹھاتھایا چولستان کے باسیوں کوریت بیچ رہاتھا۔میں نے جب بازارمیں درست سودا بیچنا شروع کیا تودن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔میں آپ کامشکورہوں سر!وہ خاموش ہوگیا۔میں اس کے چہرے کوغور سے دیکھنے لگا،وہاں واقعی کوئی ملال،کوئی شرمندگی اورکشمکش نہیں تھی بالکل ہمارے آج کے حکمرانوں کی طرح!آئی ایم ایف کی شرمناک شرائط کوپاکستانی عوام پرمسلط کرنے کے باوجوددھتکاردیئے جاتے ہیں۔قوم کویہ بتایاجاتاہے کہ کس طرح ہماری قابل فخرفوج کاسابقہ سپہ سالارقمرباجوہ25صحافیوں کوبلاکراپنی بزدلی کااظہارکرتے ہوئے کشمیرکومودی کے حوالے کرنے کی سازش میں شریک تھااورمودی کے پاکستان کے دورے کی تاریخ بھی طے کرچکاتھا جبکہ وزارت خارجہ کواس کاعلم تک نہیں۔

اس نے آگے پیچھے دیکھااوربڑے اعتمادسے بولا،سر!آپ مجھے کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں،کوئی مسئلہ آن پڑا ہے؟“اینی پرابلم سر؟”میں نے ٹھنڈی سانس بھری اورتھکی مرجھائی آوازمیں کہا،ہاں میں پریشان ہوں،میں بھی اپنے ضمیر کے ہاتھوں تنگ آچکاہوں،اس نے قہقہہ لگایااور چمک کربولا ،آپ بھی میری طرح کریں،مطمئن اورخوشحال ہوجائیں۔میں نے بھی زوردار قہقہہ لگایااوراس کی طرف دیکھ کرکہا،بڑی کوشش کرتاہوں لیکن اللہ نے میرے اندرایک عجیب نسل کا ضمیرفِٹ کردیاہے،میں جہاں چھوڑکرآتاہوں،یہ بلی کی طرح واپس آجاتاہے،میرے گھرپہنچنے سے پہلے دہلیزپرکھڑاہوتا ہے اورپہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ مجھ پر حملہ آورہوتاہے اوربالآخرمجھے شکست سے دوچارکردیتاہے بالکل میرے چھوٹے بھائی احسان سیلانی کی طرح .

سر!پھرآپ کاشماران لوگوں میں ہوتاہے جواپنے مقدرمیں ناکامی لکھواکرآئے ہیں،جوکبھی کامیاب نہیں کہلواسکتے البتہ یہاں نہیں بلکہ وہاں بھی آپ کامیاب ٹھہریں گے،مجھے معلوم نہیں؟میرے لائق کوئی خدمت ہوتویہ میراکارڈرکھ لیں،کبھی یاد فرمائیں!اب میز پرپڑے پھولوں کے ساتھ یہ کارڈ بھی مجھے دیکھ کرطنزیہ ہنسی کو چھپانے کی کوشش کررہاتھا۔

رہے نام میرے رب کاجس نے فلاح اور کامیابی کا راستہ بڑا کھول کھول کر بتایا ہے!!!
نئے خداؤں سے مشروط دوستی کرلی
فقیہہ شہرنے تجدیدِبندگی کرلی
وہ بدنصیب جسے سب ضمیرکہتے تھے
سناہے اس نے کہیں چھپ کے خودکشی کرلی
اسے خلوص کہوں یا اپنی نادانی
جوکوئی ہنس کےملااس سے دوستی کرلی
بہار صحنِ چمن تک نجانے کب پہنچے
خزاں سے ہم نے سرِ دست دوستی کرلی

اپنا تبصرہ بھیجیں