The Mature Vision Of the Leader

قائدکی بالغ نظری اورہم!

:Share

قوم ہرسال یومِ پاکستان بڑے جوش وجذبے اورعقیدت واحترام سے مناتی ہے۔میڈیامیں اس دن کے حوالے سے بہت سیرحاصل معلومات پڑھنے اورسننے کوملتی ہیں اوراسی حوالے سے اسلامیانِ برصغیرکے متفقہ،جرأت مند اوربے داغ کردارکے مالک قائد اعظم نے قیامِ پاکستان کی صورت میں جو عظیم اورتاریخی کارنامہ انجام دیااس پرخراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے تقریبات کااہتمام کیاجاتاہے۔بی بی سی کے زیرِاہتمام ایک عالمی سروے میں قائد اعظم کوجنوبی ایشیاکاعظیم ترین رہنماتسلیم کیاگیاہے۔ان کی عظمت کے کئی پہلو ہیں جن کااعتراف دنیاکے تمام انصاف پسندحلقوں نے کیا ہے حتیٰ کہ منصف مزاج ہندومصنفین اور دانشوروں نے بھی ان کی جرأت واستقامت،بالغ نظری،دوراندیشی،جمہوریت و قانون پسندی اوردیانت وامانت کوخراجِ تحسین پیش کیااوربعض ہندو رہنماؤں نے یہ تک کہاکہ کانگرس میں ایک جناح ہوتاتوبرصغیرکی تقسیم نہ ہوتی۔

قائد اعظم نے علیحدہ وطن کامطالبہ اس وقت کیاجب سفیراتحادکی حیثیت سے برصغیرکی دونوں قوموں کواکٹھارکھنے اورہندو اکثریت کومسلم اقلیت کے سیاسی و اقتصادی حقوق جمہوری اصولوں کے مطابق تسلیم کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں اورانتہاپسند ،تنگ نظراورمسلم دشمن کانگریسی قیادت نے ثابت کردیاکہ وہ متحدہ ہندوستان میں ماضی کی حکمران مسلمان قوم کاوجودبرداشت کرنے اورآزادی کے بعداسے عزت واحترام کے ساتھ اپنے ساتھ رکھنے پر آمادہ نہیں۔قائداعظم نے ایک گولی چلائے بغیراپنی پر عزم قیادت اوراسلامیانِ برصغیر کی جمہوری جدوجہدکے ذریعے آزاد خود مختارریاست حاصل کی جس کے بارے میں وہ باربار یقین دلاچکے تھے کہ نئی ریاست اسلام کاقلعہ ہوگی اوراس کے سنہری اصولوں کااحیاءکرے گی،جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت کام کرے گی اورجدیدتقاضوں کے مطابق صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست ہوگی۔

اقبال نے دوقومی نظریہ کے تحت ایک آزادمسلم ریاست کوجوتصورپیش کیااورجسے قائداعظم نے حاصل کرنے کیلئے مردانہ وار جدوجہد کی،اس کے بارے میں بانی پاکستان نے باربارواضح کیا کہ وہ مسلمانوں کے معاش اورروزگارکامسئلہ حل کرے گی۔ایک موقع پرانہوں نے کھل کریہ کہاکہ مجھے ایسے پاکستان میں کوئی دلچسپی نہیں جوجاگیرداروں وڈیروں اورسرمایہ داروں کے حقوق کامحافظ ہو۔قائداعظم نے اپنی زندگی میں پاکستان کیلئے اسلامی جمہوری پارلیمانی نظا م پسند کیا،آئین کے بارے میں واضح طورپرکہاکہ اسلام کے جمہوری اصولوں کے مطابق مدوّن ہوگا۔نئی ریاست میں اقلیتوں کومکمل حقوق حاصل ہوں گے جواسلام نے انہیں عطاکئے ہیں اورفوج کاکردارمنتخب جمہوری حکومت کے ایک ماتحت ادارے کاہوگا۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قائدکی زندگی ہی میں فوج کے انگریزکمانڈرانچیف نے حکم عدولی کی اورقائداعظم کے احکامات کے تحت پاکستان کی شہہ رگ کشمیر میں فوجی دستے بھیجنے سے انکارکیاجبکہ بھارت کے فوجی کمانڈرانچیف نے جواہرلال نہرو کے احکام کی مکمل اطاعت کی اورسرینگرائیرپورٹ پرقبضہ کرکے مجاہدین کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیئے۔

قا ئد اعظم کی وفات کے صرف دس سال بعدجنرل ایوب خان نے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ کرملک میں فوج کی حکمرانی کا اصول متعارف کرایاجوبعد ازاں کسی نہ کسی شکل میں مروّج رہاجس کی وجہ سے یہ ملک اقبال اور قائد اعظم کی تعلیمات کے مطابق نہ توجدید جمہوری پارلیمانی ریاست بن سکااورنہ اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکی البتہ سیاسی غلط حکمت عملی کے نتیجے میں پاکستان کااکثریتی حصہ جداہوگیااورباقی ماندہ ملک میں لسانی،نسلی فرقہ واریت،صوبائی تعصبات اوراس خطے میں شیطانی مثلث نے ملک کوایسے خطرات سے دوچارکررکھاہے کہ ملک کی سلامتی کی ہروقت فکررہتی ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کوتاریخ کے حوالے سے بتایاجائے کہ کن مشکل حالات میں پاکستان کوحاصل کیا گیا اس کا اندازہ ہمیں قائداعظم کے اس خط سے ہوتا ہے جوانہوں نے25ستمبر1944ءکویعنی ملاقاتوں کے آخری دنوں میں گاندھی جی کولکھا۔قائداعظم لکھتے ہیں”آپ پہلے ہی قرارداد لاہور کے بنیادی اصولوں کومستردکرچکے ہیں،آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ مسلمان ایک قوم ہیں،آپ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ مسلمانوں کوحقِ خوداختیاری ہے اور وہی اسے استعمال کرسکتے ہیں،آپ یہ نہیں مانتے کہ پاکستان دوخطوں اورچھ صوبوں پرمشتمل ہے………آپ سے خط و کتابت اوربحث کے بعدمیں یہ کہہ سکتاہوں کہ انڈیاکی پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کی آوازصرف آپ کے لبوں پرہے،یہ آپ کے دل کی آواز نہیں ۔ ” گاندھی کے اس رویے سے ناکامی اس بات چیت کامقدربن گئی۔

29ستمبر1944ءکوویول نے اپنی ڈائری میں لکھاکہ”مجھے(اس گفت وشنید سے)بہترنتیجے کی توقع تھی۔اس سے ایک لیڈرکے طورپرگاندھی کی شہرت کو شدید دھچکالگاہے۔جناح کاکام بہت آسان تھاانہیں گاندھی سے صرف یہ کہتے رہناتھاکہ تم بکواس کر رہے ہواوریہ بات ٹھیک بھی تھی لیکن انہوں نے یہ بات گستاخانہ اندازمیں کی………میرے خیال میں اس سے اپنے پیروکاروں میں جناح کی عزت توشائدبڑھ گئی ہولیکن معقول آدمیوں کے درمیان ان کی شہرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔”ویول اوردیگرانگریز حکمرانوں کی نظر میں معقول آدمی وہ ہے جوان ہی کے دماغ سے سوچے اوراس پرعمل کرے ۔ ان کی معقولیت کی ڈکشنری میں آزادانہ فکروعمل کی کوئی گنجائش نہیں!

مذاکرات کی ناکامی کے بعدقائداعظم نے4/اکتوبر1944ءکوایک پریس کانفرنس میں اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کی۔ایک اخباری نمائندہ نے ان سے پوچھاکہ کیامستقبل قریب میں گاندھی جی سے آپ کی ملاقات کاکوئی امکان ہے؟قائداعظم نے مزاحاًکہاکہ مسٹر گاندھی جی کہتے ہیں کہ اس کاانحصاران کے دل کی آوازپرہے چونکہ میری وہاں تک رسائی نہیں،اس لئے میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ گاندھی جی کی نیت معاملات کوطے کرنے کی تھی ہی نہیں۔ قائداعظم سے گفت وشنیدکے دوران ہی انہوں نے راج گوپال اچاریہ سے کہاتھاکہ اس بات چیت سے میرااصل مقصد جناح کے منہ سے یہ کہلواناہے کہ پاکستان کاتصورہی غلط اورلغو ہے۔معلوم ہوتاہے کہ گاندھی کوقائداعظم کی صلاحیتوں کاصحیح اندازہ نہیں تھااس لئے ان کی تمام تدابیرغیر مؤثررہیں۔

1945ءمیں قائداعظم کونظرآرہاتھاکہ اب برطانوی حکومت کوہندوستان میں الیکشن کرانے ہی پڑیں گے چنانچہ انہوں نے اپنی مہم کاآغازکرتے ہوئے 16/ اگست1945ءکوبمبئی سے ایک بیان میں کہا”مسٹرگاندھی جب مناسب سمجھیں وہ کسی کے بھی نمائندے نہیں ہوتے، وہ ذاتی حیثیت میں بات کرتے ہیں، وہ کانگرس کے چارآنے کے بھی رکن نہیں،وہ اپنے آپ کوصفرکرلیتے ہیں اوراپنی اندرونی آوازسے مشورہ کرتے ہیں تاہم جب ضرورت پڑے تووہ کانگرس کے سپریم آمربن جاتے ہیں اوراپنے آپ کوسارے ہندوستان کانمائندہ سمجھتے ہیں۔مسٹر گاندھی ایک معمہ ہیں……..مسلمانوں اورمسلم لیگ کے خلاف کانگرس میں اتنازہراورتلخی ہے کہ انہیں نیچادکھانے کیلئے وہ ہرسطح سے نیچے گرسکتی ہے اورتمام اصولوں کو ترک کرسکتی ہے”۔

10/اکتوبر1945ءکوکوئٹہ مسلم لیگ کے زیرِاہتمام ایک جلسہ عام میں انہوں نے گاندھی جی کی سیاست کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا “لیڈری حاصل کرنا، پولیس لاٹھی چارج کے موقع پربکری کی طرح بیٹھ جاناپھرجیل چلے جاناپھر وزن کم ہونے کی شکائت کرنااور پھراس طرح رہائی حاصل کرلینا،میں اس قسم کی جدوجہدپریقین نہیں رکھتالیکن جب آزمائش کاوقت آئے توسب سے پہلے میں اپنے سینے پرگولی کھاؤں گا”۔21نومبر1945ءکوپشاورمیں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ کانگرس کوپاکستان کامطالبہ تسلیم کرناہوگایا مسلمانوں کوکچلناہوگالیکن اب کوئی طاقت دس کروڑمسلمانوں کوکچل نہیں سکتی”۔

24نومبرکوانہوں نے اسی شہرمیں کہا”جب تک میں زندہ ہوں مسلمانوں کے خون کاایک قطرہ بھی بے فائدہ نہیں بہنے دوں گا،میں مسلمانوں کوکبھی بھی ہندوؤں کاغلام نہیں بننے دوں گا…….انگریزاورہندودونوں مسلمانوں کے دوست نہیں ہیں۔ہمارے ذہنوں میں یہ بالکل واضح ہے کہ ہمیں ان دونوں سے لڑنا ہے…..ہم ان کی متحدہ طاقت سے لڑیں گے اورانشاء اللہ کامیاب ہوں گے”۔

3دسمبر1945ءکوگاندھی جی کی بنگال کے گورنر”کیسی”سے ملاقات ہوئی توگاندھی جی نے ان سے کہا”جناح ایک جاہ پسندآدمی ہیں اوران کی سوچ یہ ہے کہ وہ ہندوستان،مشرقِ وسطیٰ اوردیگرممالک کے مسلمانوں کے درمیان رابطہ قائم کریں،میں نہیں سمجھتاکہ جناح اپنے ان خوابوں سے باہرآسکتے ہیں”۔دراصل گاندھی جی کوالیکشن کے نتائج اوراس کے متوقع اثرات کااندازہ ہو رہاتھااس لئے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی انہیں اسلامی یکجہتی کی فکرپریشان کررہی تھی،واضح رہے کہ یہ وہی گاندھی جی ہیں جومسلمانوں میں بھی اپنی لیڈرشپ قائم کرنے کیلئے تحریکِ خلافت کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے،اب وہ بنگال کے پاکستان مخالف گورنرکے ذہن کومزیدزہرآلودکرنے کیلئے اپنے ترکش کے سارے تیراستعمال کررہے تھے۔

23مارچ 1946ءکوکیبنٹ مشن ہندوستان آیا۔3/اپریل1946ءکوگاندھی جی کی مشن سے گفتگوہوئی،انہوں نے صرف ایک دھوتی باندھی ہوئی تھی اوربہت صحت مند دکھائی دے رہے تھے۔گاندھی جی نے مشن سے کہا”جناح کوملک کی پہلی(عبوری)حکومت بنانے دیں،وزاراءملک کے منتخب نمائندوں میں سے ہوں،جناح جس کوچاہیں لیں لیکن وزاراءکواپنی اپنی اسمبلی سے اعتمادکاووٹ لیناپڑے گا۔اگر جناح حکومت بنانے سے انکارکردیں تو پھرکانگرس کویہی پیشکش کی جائے”۔آپ نے گاندھی جی کااندازدیکھاکہ وزیراعظم جناح صرف ان لوگوں کوچن سکیں گے جن پران کی اسمبلیاں اعتماد کااظہارکریں۔اپنی آبادی کی وجہ سے مسلم اقلیتی صوبوں کی اسمبلیوں میں ہندوؤں کی بڑی بھاری اکثریت تھی،ادھرعوام میں انتہائی مقبولیت کے باوجود مسلم اکثریتی صوبوں کی اسمبلیوں میں مسلمانوں کوآبادی کے لحاظ سے نشستیں نہ ملنے پرمسلم لیگ کوقطعی اکثریت حاصل نہ تھی اس لئے مجبوراًاسے تقریباً سارے کے سارے کانگریسی ہندویا غیرلیگی مسلمان وزیررکھنے پڑتے،ایسی پیشکش کوقائداعظم کیوں قبول کرتے اوراس کے بعدحکومت خودبخود کانگرس کے پاس چلی جاتی۔یہ تھی گاندھی جی کی پیشکش قائد اعظم کیلئے!
بروایں دام برمرغ دگرنہ
کہ عنقارابلنداست آشیانہ

پیتھک لارنس نے گاندھی جی سے کہاکہ اس طرح توجناح کے زیادہ تروزاراءغیر لیگی ہی ہوں گے،گاندھی جی نے کہا کہ اس سے توگریز نہیں،ایسی بات کوکون آگے بڑھاتا۔ لارڈماؤنٹ بیٹن نے متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے کے طورپر24مارچ کوحلف اٹھایااورفوراًسیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں شروع کردیں۔ گاندھی جی نے31مارچ سے14/اپریل1947ء تک ہرروزلارڈماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کی۔یکم اپریل کی ملاقات میں گاندھی جی نےتجویز کیا کہ مسٹر جناح کو متحدہ ہندوستان کاوزیراعظم بنادیاجائے……..اورجب تک وہ ہندوستانی عوام کے مفادمیں کام کرتے رہیں گے،کانگرس ان کے سا تھ پورے خلوص کے ساتھ تعاون کرے گی……..اس بات کافیصلہ کہ وہ عوام کے مفادمیں کام کررہے ہیں یانہیں،صرف اورصرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہی کریں گے، اگر جناح یہ تجویزنہ مانیں توپھرکانگرس کویہی پیشکش کی جائے۔ماؤنٹ بیٹن تسلیم کرتے ہیں کہ میں گاندھی کی یہ تجویزسن کر ہکابکارہ گیا۔انہوں نے گاندھی جی سے پوچھاکہ اس تجویزکے بارے میں مسٹرجناح کاکیا تاثرہوگا؟گاندھی جی نے جواب دیا اگرآپ انہیں یہ کہیں گے کہ یہ تجویزگاندھی کی طرف سے آئی ہے توجناح کہیں گے”مکارگاندھی”۔ماؤنٹ بیٹن نے مزے لے لے کرپوچھا”غالباًیہ بات درست ہوگی۔”اس پر گاندھی جی نے بڑے جوش سے کہا”نہیں نہیں میں یہ تجویزپورے خلوص سے پیش کررہاہوں۔”

قائداعظم سے بات کرنے سے پہلے ماؤنٹ بیٹن نے اسی دن یہ بات نہروکوبتائی تویہ سن کران کے مہاتما(گاندھی)ان کی جگہ قائدِ اعظم کووزیراعظم بنانے کی پیشکش کررہے ہیں،نہروکے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔نہرونے ماؤنٹ بیٹن سے کہاکہ گزشتہ برس گاندھی جی نے کیبنٹ مشن کے سامنے بھی ایسی ہی تجویزپیش کی تھی لیکن یہ مسئلے کاایک غیرحقیقی حل ہے۔گاندھی جی کودہلی میں چنددن اوررہناچاہئے کیونکہ چارمہینے تک مرکزسے دوررہنے کی وجہ سے وہ تیزی سے معاملات سے بے خبرہوتے جارہے ہیں۔نہروکی رائے سننے کے بعدماؤنٹ بیٹن نے قائداعظم سے بات کرنامناسب نہ سمجھااور اگرماؤنٹ بیٹن قائد اعظم سے یہ بات کربھی لیتے کیاہوتا؟وہ اپنی ذات کیلئے قوم کوداؤپرلگانے والے ہرگزنہیں تھے،اس قسم کی پیشکش کووہ بغیر کسی تامل کے ٹھکرادیتے۔

ان چند واقعات سے ظاہرہوتاہے کہ گاندھی جی کی نیت اورطریقِ کارکوقائداعظم خوب سمجھتے تھے اوراللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان کاہرلحاظ سے مناسب جواب دیا!کاش آج ہمارے حکمران اورسیاستدان قائداعظم کی بالغ نظری سے ہی کچھ سیکھ لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں