The Last Warning

آخری تنبیہ

:Share

میں بہت بولتاہوں۔سب لوگ میرامنہ تکتے رہتے ہیں۔میں کسی کوموقع ہی نہیں دیتاکہ وہ بھی کوئی بات کرے۔ لوگوں کوگرفت میں لینے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔میں یہ بھی نہیں دیکھتا کہ میرا مخالف کون ہے۔بڑا ہے، چھوٹاہے،مردہے،عورت ہے،بچے ہیں،بس بلا تکان بولتا رہتا ہوں۔ہاں میں نے بہت مرتبہ پڑھاہے”جوخاموش رہاوہ نجات پاگیا”لیکن میں نے اس پرکبھی عمل نہیں کیا۔ شایدکرہی نہیں سکتا۔خودپسندی اوراپنی فوں فاں میں مگن،اپنے خیالات کا اسیر اور اپنی چرب زبانی پر نازاں۔

ایک دن بابے نے مجھ سے ایک عجیب سی بات کی’’دیکھ پگلے توبہت بولتاہے۔محفل کودیکھ کربات کیاکر۔جس نے دیکھانہیں اُسے کیادکھانا۔ہنساکر، ہنسایاکرلیکن ہربات ہرایک سے نہیں کرنی۔دیکھ توآنکھیں،کان کھلے اوراپنی زبان بندرکھ۔ تنہائی سے بات کر،محفل میں خاموش رہ،اکیلے میں محفل سجااورمحفل میں تنہاہو جا۔‘‘”واہ،واہ کیا بیکار سی بات کی آپ نے،اچھا،کوئی کام کی بات بتایاکریں۔خوامخواہ کی بات” میں نے انہیں خاموش کردیا۔”اوپگلے،تیرااچھابھی راہ پرآئے گا۔”

کتنی بدنصیبی ہے،میں اب تک گمراہ ہوں۔کتنی عجیب سی بات ہے،میں کچھ نہیں جانتااورجاننے کادعوے دار ہوں۔میں اپنے جہل کوعلم کہتاہوں،چرب زبانی کوذہانت،مکاری کو اخلاص،ہوس کومحبت،چالاکی کو ہنر، دھوکے کو کمال، کراہت کو جمال، اداکاری کو ہتھیارسمجھتاہوں۔میں ڈراہواہوں،سہماہوا ہوں،خوفزدہ ہوں لیکن خودکوبہت بہادرسمجھتاہوں۔ میری نیت کچھ اورہے اورعمل کچھ اور۔ میں صرف اپنی محبت میں گرفتارہوں اورخود کوآزاد سمجھتا ہوں۔میں اپنے نفس کی پیروی کرتاہوں اورسمجھتاہوں کہ میں رب کابندہ ہوں۔

میں رب سے محبت کادعویٰ کرتااوربیچ ”چوراہا” مخلوق کیلئے آزاربنارہتاہوں۔میرارونا مکر کا رونا ہے۔میرے آنسو فریب ہیں۔میری ہمدردی دکھاواہے۔ میرا ایثار تجارتی ہے۔میراخلوص بازاری ہے۔میں مجسم فنکاری ہوں۔تاجراورنراتاجر،جوجمع تفریق کرتارہتاہے، مکرو فریب کی دنیاکاباسی، ہوس نفس کا پجاری۔میں کسی کے کام نہیں آتااورتوقع رکھتاہوں کہ لوگ میرے حضوردست بستہ کھڑے رہیں۔میں سب کے حقوق غضب کرکے بھی اپنے حقوق کاطلبگارہوں۔میں دوسروں کوان کے فرائض یاددلاتارہتاہوں اوراپنے فرائض کوبھول گیا ہوں۔

میں نے نصیحت کرنے کاآسان کام اپنے لئے منتخب کرلیاہے اوراس پرعمل کرنے کامشکل کام مخلوق کیلئے رکھ چھوڑا ہے۔میں کالم اس لئے نہیں لکھتاکہ اس سے خلق خداروشنی پائے۔ میں یہ اس لئے لکھتاہوں کہ مجھے اس سے شہرت مل جائے،اورناموری کا مجھے چسکالگ گیاہے۔میں چاہتاہوں کہ لوگ میری بات سنیں چاہے میں ان کی کوئی بات بھی نہ سنوں۔ میں اوروں کوآئینہ دکھاتا رہتاہوں اورکوئی مجھے آئینہ دکھائے تومنہ سے جھاگ اڑانے لگتاہوں۔اب توالیکٹرانک میڈیامیں بھی میری شکارگاہ قائم ہوچکی ہے جہاں میری بے مہار گفتارکی بندوق بلاتامل مخالفین کے سروں کانشانہ لیکرچیتھڑے اڑانے میں ایک لذت محسوس کرتی ہے۔اینکرخاتون کو پروگرام شروع کرنے میں چندمنٹ دیرکیاہوئی کہ اول فول بکناشروع کردیااوریہ سارامعاملہ آن ائیرچلاگیالیکن مجال ہے کہ شرمندگی کاشائبہ تک بھی میری جبین نازپرآیاہو،اس کے باوجودمیں اس عوام سے توقع رکھتاہوں کہ مجھے راست گودانشورسمجھتے ہوئے مجھے اپنی محفلوں میں مہمان خصوصی کے طورمدعوکریں جہاں میں لوگوں کویہ درس دیتاہوں کہ تم کواس ملک نے کیادیاجبکہ میں نے تواپناحق اس ملک اور معاشرے سے بزور طاقت چھیناہے۔ہے ناں عجیب سی بات!

میں خودکوبہت باعلم اورلوگوں کومجسم جہل سمجھتاہوں۔میں چاہتاہوں کہ جب میں کسی تقریب میں جاؤں توسب لوگ میرے احترام میں کھڑے ہو جائیں اوراگر کوئی میرے پاس اپنا دکھ بیان کرنے آئے تومیں مصروفیت کو خود پر اوڑھ کر اسے چلتا کر دوں۔معصوم و مظلوم انسانوں کے چہروں پراداسی ناچ رہی ہو،بھوک نے انہیں بنجربنادیاہو،وہ دربدر خاک بسرہوں مگرمیں اپنی دانش وری کاکمال د کھارہاہوں اورپھربھی انسانیت کے دکھوں کاپرچارک بناہوا ہوں ۔وہ رت جگے کررہے ہوں اور میں چین سے سوتارہوں۔ وہ اپنے جائزکاموں کیلئےخوارہورہے ہوں اورمیرے ایک فون پرسارے کام ہوجائیں۔وہ دھوپ میں لائن لگاکرکھڑے ہوں اورمیں اندرجاکر افسرسے چائے پی کراپناکام کروالوں۔عجیب سی بات ہے ناں!

میں سیمینارپرسیمینارسجائے چلاجارہاہوں۔منرل واٹرپیتاہوں۔یخ بستہ پنج وہفت ستارہ ہوٹلوں میں طعام وقیام کرتاہوں۔لگژری گاڑی میں سفرکرتاہوں اور روناروتا ہوں مفلوک الحالوں کا۔میں نے آج تک فاقہ نہیں کیااورفاقہ زدوں کادکھ لکھتاہوں۔میں خودتوہرناجائزکے سہارے امیربن گیالیکن اب غریبوں کاہمدرد بناپھرتا ہوں۔جمہوریت کے نام پرپریس کی آزادی کاخوب فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے بخئے ادھیڑکراس معصوم عوام کے دلوں میں ہمدردی کی جوت جگاتاہوں لیکن درپردہ اپنی جبینِ نیازانہی کے حضور جھکاکر اپنے سارے کام کرواتاہوں۔حکومت وقت کے خلاف میرے الفاظ نرے لفظ ہیں،بے روح لفظ،میں لایعنی تحقیق میں لگارہتاہوں۔میں زندہ مسائل کونظراندازکرکے اپنے قاری کو فضول مباحث میں الجھائے رکھتا ہوں۔اس لئے کہ کہیں اصل مسائل کی طرف اس کی توجہ نہ چلی جائے اوروہ اس انسان کش نظام کے خلاف اٹھ کھڑانہ ہو۔عجیب ہوں ناں میں!

میں خوددوغلاہوں اور،اوروں کومنافق کہتاہوں۔میں نے اپنے ضمیرکاسوداکرلیاہے،میرے اندرسے بدبوکے بھبکے اٹھ رہے ہیں اور میں اوپرسے خوشبو لگائے پھرتاہوں۔میں اپنے اندرکے انسان کوسولی دے چکاہوں۔میں خوبصورت لباس میں درندہ ہوں۔میں صرف خودجیناچاہتاہوں۔مجھے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔مجھے اپناپیٹ بھرناہے،مجھے بھوکوں، ننگوں، ناداروں، مفلسوں سے کیا لینا دینا۔میں تواپنی سگی اولادکوپہچاننے سے انکارکردیتاہوں۔میں زرداروں کے آگے بچھاجاتاہوں اورکوئی نادارسلام کرے تومجھے ناگوارگزرتاہے۔میں سماجی بہبودکے کام اس لئے نہیں کرتا کہ مجھے یہی کرناچاہئے بلکہ اس لئے کرتاہوں کہ میری واہ واہ ہو۔میں اپنی تعریف سن کرنہال ہوتارہتاہوں۔میں نے بھی سوچ لیاہے کہ جس ملک نے مجھے یہ ساری راحتیں اور نعمتیں عطاکی ہیں،اب ایک قدم اورآگے بڑھ کرمیں بھی ان انقلابیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑاہوکررونمائی کاشرف حاصل کروں۔میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنی زبان وقلم کے توسط سے ان کے گلے کاہاربنوں جو اس عوام کوآزادی کے نام پرانقلاب کی نویدسنارہے ہیں۔

لیکن میں یہ بھول گیاہوں کہ اصل کوبقاہے۔جعل سازی کبھی پنپ نہیں سکتی۔بارآورنہیں ہوسکتی۔کوئی انقلاب نہیں لاسکتی لیکن میں ان کاخوشامدی ہوں جنہوں نے سفر کیلئے جیٹ طیارہ،سینکڑوں کنال کا گھر،لاکھوں روپے کے یومیہ اخراجات، گھر کے دالان میں کروڑوں روپے کی گاڑیوں کا ایک اسکواڈہر وقت تیار ،درجنوں اسلحہ بردارمحافظوں کی قطاررکھی ہوئی ہے،ان حالات میں گلے سڑے نظام کی پیوندکاری کب تک کی جاسکتی ہے؟مجھے آخری تنبیہ مل چکی ہے کہ آخراس انسان کش نظام کوفناہوجاناہے ، مجھے بھی اوران انقلاب کے داعیوں نے بھی۔سب اپنی اپنی قبرکاپیٹ بھریں گے۔موت ہمارے تعاقب میں ہے اورہم جینے کیلئے منصوبے بنارہے ہیں۔میں بندۂ رب نہیں بندۂ نفس ہوں۔
عجیب ہیں ناں ہم سب!
کچھ بھی تونہیں رہے گایارو۔بس نام رہے گااللہ کا۔
اجل سے خوفزدہ،زیست سے ڈرے ہوئے لوگ
کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ
یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے
رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سر دھرے ہوئے لوگ

اپنا تبصرہ بھیجیں