جب جنگل میں ایک شہنشاہ کے طورپرحکمرانی کرنے،اپنی زوردارگرج سے چارسوارتعاش پیداکرنے اورچوکڑیاں بھرتے ہرنوں کا شکارکرنے والاشیر بوڑھاہوجاتاہے،فولادی میخوں جیسے اس کے لمبے نوکیلے دانت جھڑجاتے ہیں،اس کاپیٹ لٹک کرزمین کو چھونے لگتاہے،پیلاہٹ اس کی بجھی بجھی سی آنکھوں کے گوشوں میں جم سی جاتی ہے۔اس کے پوپلے منہ سے بدبودار مادہ رال کی شکل میں بہنے لگتاہے،اس کی اکڑی ہوئی دم پچھلی دونوں ٹانگوں کے درمیان دب کررہ جاتی ہے توایک دن وہ جنگل کے دلدلی حصے میں دھڑام سےگرجاتاہے۔وہ اپنے بیمارنڈھال بوڑھے جسم کی تمام ترتوانائیاں سمیٹ کر اٹھنے کی کوشش کرتاہے لیکن ڈگمگاکررہ جاتاہے۔اس کی گردن ایک طرف کولڑھک جاتی ہے اوروہ لاچارساہوکراپنے اعضاءڈھیلےچھوڑ دیتاہے۔اس کی جان یکایک نہیں نکل جاتی بلکہ اسے جانکنی کی طویل اذیت سے گزرناپڑتاہے۔
ایسے میں اکثراسے بیتے ہوئے دن یادآتے ہیں جب وہ جوان،طراراورطرحدارتھا۔جب ساراجنگل اس کی دہشت سے تھراجاتا تھا، جب وہ اپنی کچھارسے نکلتاتھاتوچرندوپرندپرکپکپی طاری ہوجاتی تھی۔جب وہ زقندیں بھرتاہوااپنے شکارپرجھپٹتااورآن واحد میں اپنے دانت اس کی گردن میں گاڑدیتاتھا،جب اس کے تیزپنجے ہاتھی کی موٹی کھال کوبھی ادھیڑکررکھ دیتے تھے۔ بوڑھامریل جان بہ لب شیراپنی سوچوں میں مگن بصدمشکل اپنی آنکھیں کھولتاہے تواسے اپنے اردگردچھوٹے چھوٹے ہرن، گیدڑ،لومڑیاں حتّٰی کہ خرگوش بھی حلقہ بنائے بیٹھے نظرآتے ہیں۔وہ سب ہنس رہے ہوتے ہیں۔ٹھٹھہ مخول کررہے ہوتے ہیں ۔ کوئی چوہاکسی بل سے نکل کراس کی پیٹھ پرسوارہوجاتاہے اوررقص کرنے لگتاہے۔شیراپنے دائیں اورپھربائیں پنجے کوحرکت میں لاکرچوہے کوپکڑنا چاہتاہے لیکن فالج زدہ بازوحرکت میں نہیں آتے۔
اس کے دل میں یہ احساس انگڑائی لیتاہے کہ میں شیرہوں،جنگل کابادشاہ ہوں،یہ سب میری رعایاہیں۔ کیاہواجومیں بوڑھا ہوگیاہوں، کیاہواجومیرے دانت جھڑگئے ہیں،کیاہواجومیں اپنے ہاتھ پاؤں نہیں ہلاسکتا۔اب بھی بادشاہ ہوں۔اس احساس کے انگڑائی لیتے ہی وہ منہ کھول کرپوری طاقت سے گرجنا چاہتاہے لیکن نہ جبڑاپوری طرح کھلتاہے،نہ پھیپھڑے پوری طرح پھولتے ہیں۔گرج بلی کی میاؤں بن کرحلق کے آس پاس تحلیل ہوجاتی ہے ،یہاں تک کہ حشرات الارض اورچھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے بھی نکل آتے اوربادشاہ سلامت کے جسدِبیمارسے لپٹ جاتے ہیں۔جاں بہ لب شیرنہ اپنے آپ کوکڑی دھوپ سے بچانے کیلئےکسی سایہ دار درخت کی پناہ لے سکتاہے نہ تیزطوفانی بارش سے بچنے کیلئےکسی غارکارخ کرسکتاہے۔پھرعافیت کاوہ لمحہ آتاہے جب جنگل کے بادشاہ کی سانسیں تھم جاتی ہیں۔وہ مرجاتاہے۔بھیڑیے،لگڑبھگڑ،گیدڑاورگدھ اس کی لاش نوچنے لگتے ہیں اورشام تک متعفن ہڈیوں کے ڈھیرکے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔
شیر،جنگل کابادشاہ ہونے کے باوجودایک جانور،ایک درندہ ہی ہوتاہے۔اس کے پاس عقل،فہم ،ادراک،سمجھ بوجھ اورتجزیے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔وہ خیروشرکی تمیزبھی نہیں رکھتا۔وہ جمہوریت اورآمریت کے فرق کوبھی نہیں سمجھتا۔وہ اس جذبہ واحساس سے بھی عاری ہوتاہے کہ جنگل کی مخلوق اس کے بارے میں کیاخیال کرتی ہے۔اسے کبھی یہ اندازہ نہیں ہو پاتاکہ کب لوگ اس سے محبت کررہے تھے اورکب پھولوں جیسی لطافت رکھنے والی یہ محبت،نفرتوں کے الاؤمیں تبدیل ہوگئی۔
لیکن انسان،چاہے وہ درندہ صفت ہی کیوں نہ ہو،چاہے اس میں حیوانیت کے تمام اجزاءہی کیوں نہ بھرجائیں،وہ بہرحال انسان ہوتا ہے۔وہ فہم،عقل، ادراک،سمجھ بوجھ اورتجزیے کی صلاحیت رکھتاہے۔اس کے سامنے ماضی کے تجربات کاایک لامتناہی سلسلہ ہوتاہے۔جسے بنیادبناکروہ اپنی منزل اوراپنے راستے کاتعین کرسکتاہے۔وہ عزت اورذلت کے فرق سے شناساہوتاہے۔وہ زندگی، موت اوراس کے بعدکی زندگی کے تقاضوں سے آگاہ ہوتاہے۔اسے معلوم ہوتاہے کہ بدنامی اورنیک نامی کیاہوتی ہیں ۔وہ جانتاہے کہ تذلیل اورتعظیم کسے کہتے ہیں۔وہ جانتاہے کہ زندگی،کبھی جان اورکبھی تسلیم جان کانام ہے۔اسے علم ہوتا ہے کہ عوام کی نگاہوں میں گرجانے کے بعدکوئی بڑے سے بڑاعہدہ بھی تکریم نہیں دے سکتا۔ہرانسان کے اندرایک میزان موجود ہوتی ہے جسے ضمیربھی کہتے ہیں۔یہ ضمیربڑی بے لاگ گواہی دیتاہے۔ہاں کبھی کبھی اس کوزنگ بھی لگ جاتاہے ۔اس کی گواہی میں کھوٹ آجاتاہے اور میزان کاتوازن برقرارنہیں رہتا۔
انسان کے حواس سلامت ہوں تواسے ادراک ہوتاہے کہ کون سافیصلہ کرناہے اورتاریخ کی کتاب میں کس حوالے کے ساتھ زندہ رہناہے۔شیرکومعذور اورمفلوج ہونے اوردھڑام سے زمین پر گر جانے کے باوجوداندازہ نہیں ہوتاکہ اس پرکیاگزررہی ہے یہاں تک کہ اس کی بادشاہت، مکھیوں، چیونٹیوں اورچوہوں کارزق ہوجاتی ہے لیکن انسان کے حواس خمسہ مقفل نہ ہوجائیں تو وہ اچھی طرح جان جاتاہے کہ تذلیل وتحقیر کی آخری حدکہاں سے شروع اورکہاں پرختم ہوتی ہے۔اس کے سامنے سارے راستے ہاتھ کی لکیروں کی طرح کھلے ہوتے ہیں۔بدلتے وقت کے تیوروں کوجانچنے کیلئےاس کے پاس بیسیوں پیمانے ہوتے ہیں ۔اگروہ خود فریبی کے مرض میں مبتلانہ ہوتوساراعالم اس کیلئےآئینہ خانہ بن جاتاہے۔وہ ہردیوار،ہردریچے میں جھانک کراپنے چہرے کے حقیقی خدوخال دیکھ سکتاہے۔وہ فیصلہ کرسکتاہے کہ میری آبرولوگوں کی گردنوں پرمسلط رہنے میں ہے یاترکہ توشہ سمیٹ کررخصت ہو جانے میں ہے۔اقتدارسے رخصت ہوجانے کے باوجوداگراس کے حواسِ خمسہ اس کاساتھ نہیں دیتے اوروہ ایک صائب فیصلے پرنہیں پہنچتا،توجان جائیے کہ وہ اللہ کی پکڑمیں ہے جس کاارشادہے کہ وہ نامراد لوگوں کے دلوں پرمہریں لگادیتا،ان کی سماعتیں چھین لیتااوران کی آنکھوں پرپٹیاں باندھ دیتاہے۔
کوئی آمر،شیرنہیں ہوتا۔وہ پرلے درجے کابزدل ہوتاہے جوخم ٹھونک کرمیدان میں آنے اورعوام سے سندِ قبولیت حاصل کرنے کے بجائے دیواریں پھلانگ کراقتدارپرقبضہ جماتااوربندوق کے زورپرجمارہتاہے۔آمریت کے لمبے نوکیلے فولادی میخوں جیسے دانتوں سے وہ عوام کوادھیڑتااور نوچتارہتاہے ۔ اس کے آس پاس بیٹھے،بچی کھچی ہڈیاں چچوڑنے والے اس کی درندگی اورآدم خوری کے قصیدے گاتے رہتے ہیں۔خلقِ خداکے سینے میں نفرتوں کاالاؤ بھڑکتارہتاہے۔ان کی دعائیں عرشِ معلّیٰ کے گردوپیش منڈلاتی رہتی ہیں اورپھرایک دن آمردھڑام سے گرتاہے اورحشرات الارض اس کاجسدِناسور چاٹنے لگتے ہیں۔حیرت اس بات پرہے کہ شیرنامی درندہ توعقل وشعورسے عاری ہونے کے سبب عبرتناک انجام سے دوچارہوتاہے لیکن دل ودماغ اورسمجھ بوجھ رکھنے والے آمروں کی سوچ پرپتھر کیوں پڑجاتے ہیں کہ دھڑام سے گرتے وقت انہیں کچھ خبرہی نہیں ہوتی؟اقتدارکے نشے میں اس قدربدمست ہوتے ہیں کہ اقتدارکی لالچ میں عالم نزع کے وقت بھی جوکچھ روزِسیاہ کیلئے بچاکررکھاہوتاہے،اپنے چہرے کی کالک سمیت مزیدرسوائی سمیٹنے کیلئے میدان میں کودجاتے ہیں۔