Pakistan, the Quran and our test

پاکستان، قرآن اور ہمارا امتحان

:Share

اللہ اکبر….وہ کون ساگھرہے آپ کی نگاہیں جس کی دیواروں کی بلائیں لیکرپلٹی ہیں جہاں آپ کاجسم بھی طواف میں تھااورآپ کا دل بھی ……دنیاکے بت کدوں میں کل بھی وہ پہلاگھرتھاخداکااورآج بھی ۔دوچارصدیوں کی بات نہیں بلکہ دنیاکاسب سے پہلاعبادت خانہ!بنی آدم میں کسی کے حافظے میں اس وقت کی یادیں محفوظ ہیں……..!

اس طویل عرصے میں بے حساب مندرتعمیرہوئے،لاتعدادگرجے آبادہوئے،کیسے کیسے انقلابات سے یہ زمین آشناہوئی،کیسی کیسی بلندیاں پستیاں ہوئیں،کون کون سی تہذیبیں ابھریں اور مٹیں….چاہے مصروبابل ہوں یاروم وایران لیکن عرب کے ریگستانوں میں چٹانوں اورپہاڑوں کے وسط میں سیاہ غلاف میں لپٹی یہ عمارت جس کورب نے”اپناگھر”کہا،اس کوزمانے کاکو ئی طوفان،کوئی انقلاب،کوئی زلزلہ اپنی جگہ سے نہ ہلاسکا ……..ابرہہ اس کومٹا نے اٹھاوہ خودمٹ گیا۔

اللہ کاخاص کرم ہے ان نفوس پرجن کورب العزت اپنے گھرکی زیارت کی توفیق مرحمت فرمادیں۔اس سفرحجازمیں باربارعملی طواف ِشوق کی تکمیل کہاں ممکن ہے،آپ کی نظروں سے اس گھرکاطواف ابھی مکمل نہیں ہوپاتاکہ روح کی ضدکہ یہیں حیات تمام ہوجائے….!ہرتکلف وتصنع سے مبرایہ سیاہ چوکورگھر….آپ کی نگاہ جب پڑتی ہے توجم کررہ جاتی ہے اورروح ایسی سرشار ہوتی ہے کہ عجزوانکساری سے سجدہ ریزہوجاتی ہے!!اوراس موقع پرموسیٰ کلیم اللہ یادآتے چلے جاتے ہیں جب اس کے گھرکی تجلی پرہوش وحواس قائم رکھنا مشکل ہے تواس رب کےگھرکی تجلی کیاکیاہلچل بپاکرتی ہوگی!جب گھرکی برق پا شیوں کا یہ عالم ہے کہ جودیکھتاہے وہ کچھ اوردیکھنابھول جاتاہے اورہمیشہ کیلئےیہی نظروں میں سماجاتاہے توگھروالے کے دیدارکی تاب انسانی بصارت بھلاکہاں لاسکتی ہے!
درمصحف روئے اونظرکن
خسرو،غزل وکتاب تاکے
“اس کے چہرے کی زیبائی کودیکھواے خسرو،شعروکتاب میں کب تک مشغول رہوگے”

رب کعبہ کایکتاگھرنظروں کے سامنے تجلیاں بکھیررہاتھاجسے پہلی مرتبہ کسی انجینئر،کسی ماہرتعمیرات نے نہیں بنایا،نہ لاکھوں روپے کاسامان ِتعمیراس پرلگا ،نہ جدیدمشینری استعمال ہوئی!اللہ کے گھرکامعمار…….؟؟ہاں وہ معماربھی لمحہ لمحہ ہمارے تصور میں آرہاہے جواپنے سرپربھاری بھاری پتھراٹھاکرلا رہا تھا،جس کے ہاتھ چونے،مٹی اورگارے سے بھرے ہوئے تھے۔عرب کی چلچلاتی ہوئی دوپہروں میں ریگستان کی آگ بھرساتی دھوپ کی پرواکیے بغیرروپے پیسے کی مزدوری سے بے نیاز،وہ مزدور …..جوگویااپنے پورے وجودکواس گھرکی تعمیرمیں لگا رہے تھے اورگھرکامالک بڑے چاؤسے بڑے پیار سے ذکرکرتاہے ان مزدوروں کاجب ابراہیم علیہ السلام اوراسماعیل علیہ السلام اس گھرکی بنیادیں اٹھارہے تھے:

ہاں!اس گھرکی زیارت کرتے ہوئے جب چشم تصورمیں نظریں اس پرٹھہرجاتی ہیں تولگتاہے کہ جوہاتھ اب تعمیربیت اللہ میں مشغول ہیں،پتھرپرپتھر رکھ رہے ہیں،ہاتھوں میں چونااورگاراہے اورچشم ِ اشکباراشکوں سے لبریز ….. کہ دل کاسوزوگداززبان پر آجاتاہے کہ”……… رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے بے شک توسب کچھ سننے اور جا ننے والاہے۔البقرہ۱۲۷

تویہ ہے دوستوں کی شان ……عشق کی منزلوں سے آگے کی منزلیں ……فدائیت کی منزلیں ……کہ سب کچھ لگاکر بھی دھڑکایہی لگاہواہے کہ مٹناقبول بھی ہوگاکہ نہیں …..؟؟؟ اگرایساگھرنہیں دنیامیں تواس گھرکے سے مزدورکب دیکھے ہیں دنیانے!دنیاکے کسی مزدورنے وہ مزدوری مانگی جوبیت اللہ کے مزدوروں نے مانگی تھی اورمزدوری کی طلب تودیکھئے،تنہااپنی ذات کیلئےنہیں،ہم بھی شریک تھے اس اجرت کی طلب میں”اے ہمارے رب!ہم دونوں کواپنافرما نبرداربنااورہماری اولادسے ایک امت اپنی فرما نبرداربنااور ہمیں ہمارے حج کے اعمال بتااورہم پررحمت سے تو جہ فرمااورتوبے شک رحمت سے توجہ کرنے والاہے ” (البقر ہ ۱۲۸)

گھربنانے والے کوجومزدوری ملی وہ مزدورجانے یامالک…..لیکن اس اجرت میں مجھے اورآپ کوجوحصہ ملااوراس گھرکی زیارت کرنے والوں کو،طواف کرنے والوں کو،سفرکرنےوالوں کو،اس گھرسے محبت کرنے والوں کو،اس کی تعظیم کرنے والوں کو…..کیاکچھ نہیں ملا،کیاکچھ نہیں مل جاتا،برکتوں اورعزتوں کے اس گھرسے۔ہرایک یہی خزانے لے کرپلٹتاہے اور. …..ساتھ آپ کادل بھی توانہی خزانوں سے مالامال ہے۔ایک شکرسپاس ہے آپ کے پاس بھی،اس وقت کہ آپ کانفس پاک ہوکراپنی خودی(انا)کو مٹاکراپنے رب کی معرفت کی منزلوں میں سرگرداں ہے۔رب کاگھرہے یہ!!!مقام تفریح تونہیں؟

یہ آگرہ کے تاج محل یافرانس کے ایفل ٹاورکانظارہ تونہیں تھا……. یہ گھروندے جوسیرتماشے اوردل کے بہلاوے کیلئےصدیوں سے موجودہیں لیکن وہاں آنے والے لاکھوں لوگ نہ عقیدت مندہوتے ہیں نہ انہیں چومتے ہیں نہ آنکھوں سے لگاتے ہیں نہ والہانہ طواف کرتے ہیں نہ سجدے کرتے ہیں نہ روتے اورگڑگڑا تے ہیں،نہ جھکتے اورگرتے ہیں نہ عشق وفدائیت سے سر شارپکارتے رہتے ہیں کہ”لبیک اللھم لبیک”آگیاہوں مولا،میں آگیامیرے رب میں حاضرہوگیا،تونے بلایاتھامیں کیوں نہ آتا؟میں آگیاسب کچھ چھوڑ کر آگیا،درویشوں اور درماندہ فقیرکے روپ میں تیرے درپہ آیاہوں،دنیاکی لذتوں کوٹھوکرمارکرآیاہوں۔

لاکھوں لوگ….ایک ہی وقت میں،ایک ہی لے ہے،ایک ہی دھن جس کاسوداسرمیں سمایاہے،دیوانہ وارطواف کرتے ہیں اورہم بھی احرام کا یونیفارم پہنے اس سلطانِ عالم کی فوج کاحصہ تھے اورجب نمازوں کے اوقات میں بھی اورصبح کے تڑکے میں بھی،جب ہربلندی اورہرپستی پر لبیک کی آوازیں گو نجتی تھیں تومیں اورآپ بھی ایک نشے میں سرشارہوجا تے ہیں،ایک کیفیت میں جذب ہوجاتے ہیں اورایک مرتبہ پھرچشم تصورمیں ہمیں اس خاک پرکبھی اس محبوب علیہ اسلام کے قدموں کے نشان نظرآتے ہوں گے جوکبھی آگ میں کودا توکبھی عزیزاز جان نورنظرکے حلقوم پرچھری پھیردی کہ آسمانوں پرملائکہ بھی ششدررہ گئے اوریک زبان ہوکرپکاراٹھے کہ واقعی اس نے خلیل اللہ ہونے کاحق اداکردیااورپسراطاعت کی معراج کوجاپہنچااور……اور……..یہ کیاکہ وقت ہمیں چودہ صدیاں پیچھے لے گیا،یکدم ہماراشعوراسی خاک پراس عظیم ہستیﷺپرقربان،اوریوں طواف کرتے کرتے ہماری وار فتگی میں یکبارگی اضافہ ہوتاچلاجاتاہے کہ یکایک یہ شعرحجاب بن کرنظروں کے سامنے آگیا کہ
توبردن درچہ کردی کہ درون خانہ آئی
چوبطرف کعبہ رفتم بحرم اہم ندااند
جب میں کعبہ کے طواف کیلئےگیاتومجھے حرم میں داخل نہ ہونے دیاگیا،کہاگیاکہ تونے حرم سے باہرتونافرمانی کی،اب بیت اللہ کس منہ سے آیاہے؟

تب ہماری سانسیں تھم تھم جاتی ہیں،گردشِ ایام کے جائزے پراورتوبتہ النصوح کامفہوم آپ پرآشکارہوجاتاہے۔دوران سعی آپ کو اس خاکِ پاک پرسیدہ ہاجرہ صدیقہ کے قدموں کے نشان بھی نظرآناشروع ہوجاتے ہیں جونبی کی ماں اورنبی کی بیوی ہونے کے شرف سے مشرف تھیں اوربرسہابرس سے قافلے اس عظیم خاتون کے قدموں کے نشانوں پردوڑرہے ہیں،کیساشرف ایک عورت کودیاہے اس دین نے کہ رب ذوالجلال نے اپنے محبوب ﷺکوبھی بی بی ہاجرہ کی سنت کی پیروی کرنے کاحکم دیا،کیامنظرہوگاجب رسول خدابھی اس مخصوص مقامات پراماّں ہاجرہ پرتفاخرکرتے ہوئے تیز تیزبھاگ رہے ہوں گے!یقیناحضرت ام المومنین حضرت عائشہ بھی بی بی حاجرہ کی سنت کی ادائیگی کے مناظراورعظیم عورت کے عظیم کردارپراپنے رب سے مناجات میں رازونیاز کرتی ہوں گی،جگرگوشہ رسولﷺسیدہ فاطمہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کاہاتھ تھامے رب کے حضورسرجھکائے اماں حاجرہ کے نقوشِ پائے کی نسبت پرتیزتیزچل رہی ہوں گی۔یقیناًیہ سب کارہائے عظیم کتابوں میں ہم درجنوں مرتبہ پڑھتے ہیں لیکن آج اپنی چشم ترسے ان کاجی بھرکرنظارہ کرتے ہوئے اپنے مقدرپررشک کرتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے کئی مرتبہ جبیں سرنگوں ہو جاتی ہے۔

کعبہ سے غم ِجدائی کاعظیم بوجھ گریہ وزاری کرکے ہلکاکرنے کاوقت بڑاہی مشکل اورآزمائش کاہوتاہے۔طواف وداع کرتے ہوئے دل ملول ومغموم اوررنج وحزن میں غرق ہوجاتاہے،کیوں نہ ہو،اب کچھ ہی دیرمیں کعبہ مشرفہ سے وداع جولیناتھی۔جوں جوں گھڑی کی سوئیاں آگے جارہی ہوتی ہیں،مکہ کی روح پروراورایمان افروزتجلیات رودادِ ماضی بن جائیں گی اوردل ان اندیشوں اور وسوسوں سے لبریزہوجاتاہے کہ عمربھرتمناؤں میں بسنے والے مرکزہدایت اورقبلہ دل کی ساری دلنوازیاں،جلوتیں اوردلربائیاں اب صرف یادوں،خوابوں اورخیالوں کی جنت بننے والی ہیں۔بہرکیف فرقت ِیارکے غم میں آنکھیں نم ،جذبات متلاطم،روح الحاح وزاری میں رقصاں،لب آہ وفغان میں لرزاں دیکھ کرروح کودلاسہ دیا،بے شک وداع کی یہ دل فگارگھڑیاں اللہ کے چہیتوں پرشاق گزرنی چا ہیے،انہیں کوچہ جانان سے جدائی کاغم ماہی بے آب کی مانندتڑپاناچاہیے،ان کی ہچکیاں بندھنی چاہیے ، انہیں سینہ کوبیاں کرنی چاہئے،کیاپتہ اب کبھی یہاں دوبارہ سربسجدہ ہونے کاشرف ملے گا،کیامعلوم اللہ اپنے گھرکاطواف کرنے کاکوئی نیابلاوابھیجے گا، کونسی ضمانت ہے کہ کعبتہ اللہ،حجراسود،رکن یمانی،ملتزم،درِکعبہ،مقامِ ابراہیم،زمزم، صفاو مروہ اورمقد ساتِ مکہ کے دیدارکا قرعہ فال ہمارے نام دوبارہ نکلے گابھی۔

یہ خیال آتے ہی یہاں پل پل غنیمت لگتاہے،لمحے صدیوں میں بدل جاتے ہیں اورایک مرتبہ پھرربّ ِکعبہ سے مانگنے،آہ وزاری کے ساتھ حاجت روائی،گناہوں سے بخشش اورعفوودرگزر والدین اوردوسرے مرحومین کیلئے گڑاگڑاکرمغفرت کی دعائیں،اپنوں اورغیروں کی بھلائی کیلئے دعائے خیر،طبیبِ ازلی سے ہرمریض کیلئے اورہرمرض سے شفایابی،قرضوں کی ادائیگی کیلئے غیبی مدد،بے روزگاری کی ذِلت سے نجات،عذابِ جہنم سے خلاصی،جنت کے انعامات و عطا،بیٹیوں کے موزوں بر،مناسب جوڑطلب اوران کے بہترنصیب،فتنہ ہائے زمانہ میں ایمان وامان کی عافیت، مسجد اقصیٰ کی فریاد،غزہ اورمقبوضہ کشمیرکے شہداء کی مناجات،ملت کی آبرومندی کی بھیک،ارضِ پاکستان کے ہرذرے کی خیر،پوری انسانیت کی بھلائی، باربارحرمین کی زیارت سے حصولِ فیوضات وبرکات کی اشک باردعاؤں کی درخواستیں اورالتجائیں پیش کرتے ہوئے ساراجسم کپکپارہاہوتاہے۔

دنیاوآخرت میں بہترمعا ملے کیلئے اپنی تردامنی پرندامت کے اشک بہاکروحدہ ولاشریک سے سر گوشی کرنے کاوقت آن پہنچتا ہے:اے ربِ ارض وسماء!کعبہ مطہرہ تمہاراگھرانہ، تیرے خلیل کانذرانہ،تیرے حبیبﷺکیلئے وجہ قرار،یہ تمہاری شانِ کریمی کہ تمام اہل ایمان بیت اللہ کے وارثین بنادئے ہیں،میں حقیروناکارہ،خطاونسیاں،گناہ وبرائی کامجموعہ لیکن ہوں توتیراہی بندہ،میری توبہ قبول کرلے،اب سے میرے ایمان وکردارکوایسالعل وگوہربنادے کہ بیت اللہ کے ورثاء میں میرابھی نام جڑجائے،میں عمربھرکعبے کی طرف رخ کرکے جیوں،اسی کی جانب رخ کرکے مروں ۔اے رحیم ورحمٰن!اپنے اس گھرکومیرے قلب وجگرکے نہاں خانے میں ایسے بسادے کہ کبھی اس سے جدائی کاکھٹکالگے نہ دوری مسافت کی دیوارحائل رہے، میرے اعمال سے ہمیشہ غلافِ کعبہ کی زینتیں اورملتزم وسنگ ِاسودکی عظمتیں جھلکیں۔آمین یارب العالمین!

لگتاتھاکہ کعبہ شریف کے گردجسم نہیں روح بھی چکرلگارہی تھی،اللہ سے پیاراس قدرامڈرہاتھاکہ ساحلوں اورکناروں کے بندٹوٹ رہے تھے۔طواف سے فارغ ہوئے توملتزم کے سامنے اللہ کے حضوردست بدعاہوگیا،حجراسودکوآنکھوں آنکھوں میں چوما،یادآیاکہ رسولِ کائناتﷺنے جنت کے اس پتھرکوبوسہ دیتے ہوئے حضرت عمرسے فرمایاتھاکہ یہ جگہ آنسو بہانے کیلئے ہے۔یہاں جوبھی اپنی نافرمانیوں اورروگردانیوں پہ بلک بلک کرروئے، اس کے گناہوں کے داغ دھبے یکسردھل جائیں گے۔حجراسودسے گزرکر رکن یمانی کی زیارت سے حریم قلب آسودہ کیا، حطیم سے تھوڑاسالپٹ گئے، میزابِ رحمت پرنظریں مرکوزکیں،غلافِ کعبہ کی کشش وجاذبیت میں کھوگئے۔دعاومناجات سے فارغ ہوئے توزمزم کے جام ِشریں سے روح کی پیاس بجھائی ۔یہ پانی اللہ کاعطیہ اور حضرت ذبیح اللہ کاصدقہ ہے،اس کے گھونٹ گھونٹ میں پینے والے کیلئے علم ِنافع،رزق ِواسع اورشفائے امراض کی ضمانت پنہاں ہے۔

اذانِ مغرب ہوئی تودل میں ہوک سی اٹھی کہ یہ کعبہ مشرفہ میں فی الوقت آخری نمازہے، بس کچھ ہی پل بچے ہیں،کچھ گنی چنی سانسیں اس خلد بریں میں لیناباقی ہیں۔بیت اللہ کا صحن ِ مبارک جہاں سعیدروح انسانوں کے اژدھام سے ہمہ وقت بھرارہتاہے،وہاں اللہ کے70 ہزارفرشتوں کاہمیشہ ہجوم اکھٹاہوتاہے۔خودہی سوچئے برکت ورحمت کے اس منبع ومرکز اورسرکارِ دو عالم ﷺ کے مولدو مسکن سے جب مفارقت کا لمحہ قریب آجائے تودل کاکیاحال ہوگا۔بہرحال نماز مغرب کے فرض سے فارغ ہوتے ہی ہم نے طواف ِ وداع کافریضہ انجام دیا۔اللہ کالاکھ لاکھ شکرکہ ساتوں اشواط میں تھوڑاہی وقت صرف ہواکیونکہ کعبہ کے بالکل قریب ہی یہ سعادت پائی۔

خوش قسمتی سے سنتیں اداکر نے کیلئے مقام ِابراہیم پرمصلیٰ ملا،سنتیں اداکیں، دعاکیلئے ہاتھ اٹھے ضرورمگریکایک روح کی زبان گنگ ہوگئی کہ کعبے سے رخصتی پرافسردہ خاطرتھا،جگرنوحہ کناں تھامگرمدینہ منورہ روانہ ہونے کی مسرت سے شادی مرگ ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ رہاتھا۔ان کیفیات کی رومیں بہہ کراللہ سے کس منہ سے کہتاکہ الٰہی!اِدھرکاقیام بڑھادے یاجلدازجلد گنبدِ خضرا پہنچادے۔بے شک اللہ رحمن ورحیم کاہم پریہ خاص لطف وکرم تھاکہ اس ذاتِ اقدسﷺکے بقعہ نور،پناہ گاہِ مہاجرین اور شہرانصارکی خوشبوں سے مشام ِجان معطرومسحورہونے کازریں موقع ہمیں نصیب ہوا ۔ خیرکعبہ پرپہلی نظرپڑتے وقت اورپھر رخصت لینے کی گھڑی پربصدجان ودل اللہ سے لبوں پردعامچلنے لگتی ہے:

بارالہا!مجھے اورمیرے اہل وعیال کواپنے گھراور اپنے محبوبِ کبریاﷺکے شہرشریں میں باربارولگاتاربلانا۔ دعاؤں کووردِلب کرتے ہوئے اورنیک خواہشات اورتمناؤں کانخلستان دل میں سجاتے ہوئے کعبہ شریف پرحسرت بھری نگاہیں مکرر،سہ کررڈالیں اوربوجھل قدموں سے مطاف چھوڑدیا،کئی بارپلٹ کر دیکھاتوایسے لگاجیسے کعبہ مہربان رخصت کرتے ہوئے کہہ رہاتھا: میری حیات بخش تجلیات وانوارات ایمانِ قوی،اعمالِ صالح، خوفِ خدا، جوابدہی آخرت کی نہ ختم ہونے والی عظیم پونجی ہیں،جوبھی اس پونجی سے توحیدوسنت کے بازارسے زندگی کاسودا سلف لائے،وہی لاریب زائرالحرمین کہلانے کے لائق ہے،دنیاکی بھلائی اورآخرت کے عزوشرف کابھی وہی حق دارہے۔

کتاب ِ ہستی کے سرورق پرجونام احمدﷺ رقم نہ ہوتا
تونقش ِہستی ابھرنہ سکتا،وجودِلوح وقلم نہ ہوتا
اب دل وجاں اورروح ایک عجیب سی خوشی سے سرشاراوربے چین ہے کہ آنکھیں بندکرکے کھولوں توسامنے گنبدِخضراہو،جس کیلئے آقائے نامدار ﷺکے شہرکی طرف رخصت سفر شروع کیاتواچانک میرے آقاﷺکے فرامین یادآگئے کہ آپ نے فرمایا:تم میں سے جس شخص کومدینہ میں موت آسکتی ہو،اسے چاہیے کہ وہ یہ سعادت حاصل کر ے،چونکہ یہاں مرنے والوں کی گواہی میں دوں گا۔(سنن ابن ماجہ)

بہشت ِمدینہ کی عظمت وسطوت ناپنے کاکوئی پیمانہ ہی نہیں مگراس مقدس شہرکی برتری وبالادستی کاایک اہم اشارہ یہ بھی ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق دعاکیاکرتے:اے اللہ!مجھے اپنے راستے میں شہادت عطاکراوراپنے رسول کے شہر میں موت عطاکر(صحیح بخاری)

اس پرشوق سفرکاپنچھی دل کی کتاب لئے بیٹھایہ سوچنے لگاکہ یہ دعامانگنے والی ہستی تاریخ اسلام کی ماتھے کاجھومرتھی،وہ جن کی آراءاورمشوروں کی بارگاہ ِ الہیہ میں اتنی پذیرائی ہوتی کہ وحی بن کراللہ کے رسول پرنازل کی جاتی،وہ فاروق اعظم رضی ا للہ تعالی عنہ جس کی تعریفوں میں دوست تودوست دشمن بھی رطب اللسان ہیں۔یہ خاص دعامانگ کراس فنافی الرسول شخصیت نے ہمیں جینے میں ہی نہیں بلکہ مر نے میں بھی ہمسائیگی رسول اختیارکرنے کی آرزوسکھادی۔آپ بالمعنی فرماتے ہیں اپنے نصیبے سے جوبہشت مدینہ میں داعی اجل کولبیک کہے،سمجھواس کابیڑہ پارہوگیا۔امیرالمومنین کی یہ دعااللہ کی بارگاہ میں یک بارقبول ہوگئی!

حبِّ نبیﷺکے نادرنمونے ہمیں صحابہ کی پاک زندگیوں میں کہاں نہیں ملتے؟ایک برگزیدہ صحابی حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں آتاہے کہ آپ اکثر بیماررہنے لگے، طبیعت کی ناسازی روزبروزبڑھتی چلی گئی۔صحابہ کباربیمارپرسی کرتے تویہ اپنے دل کا حال ان قدسی صفات پربھی ظاہرنہ کر تے،شکریہ کرکے بات ٹال دیتے۔آخرپیغمبردوجہاںﷺنے پوچھاتوصاف صاف عرض کی:یارسول اللہﷺ!ایک خیال دل میں آتے ہی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔سروردوعالم ﷺنے پوچھا:کیاخیال آتاہے؟ عرض کی:اے اللہ کے رسول ﷺ!اب زندگی میں جب تک آپ ﷺکادیدارنہ ہوچین نہیں آتا۔سوچتاہوں مرنے کے بعدکیاہوگا؟اگراللہ نے اپنے فضل عنایت سے مجھے جنت عطابھی کی تب بھی معلوم نہیں آپﷺکہاں ہوں گے اورمیں آپﷺکے روئے نازنین کی زیارت کئے بغیرجنت میں کیوںکرتسکین وطمانیت پاؤں گا؟معلوم ہی نہیں وہاں آپﷺکے چہرہ انورکادیدارکرنے کیلئے مجھے کیاکیا پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔حضورﷺنے فرمایا:ثوبان!تم جس سے محبت کرتے ہواسی کے ساتھ رہو گے۔پھرآپﷺنے قرآن کریم کی وہ آیت تلاوت فرمائی جواسی موقع پرعرش ِمعلی سے نازل ہوئی:جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صالحین ۔ کیسے اچّھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسّر آئیں ۔ (النساء:69)

یہ توصحابہ کبارکے عشق رسولﷺکے احوال وکوائف تھے۔اولیائے کاملین نے کامل اتباعِ سنت کرکے اپنے بیدادعشقِ رسولﷺ کی لاج رکھی۔حضرت بایزید بسطامی نے ایک مرتبہ بڑے اشتیاق سے خربوزہ منگوایالیکن اس خیال سے کہ پہلے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ آپﷺخربوزہ کیسے تناول فرما تے تھے،پتہ چلاکہ رحمت عالم ﷺ نے کبھی خربوزہ تناول فرمایا ہی نہیں۔بایزیدبسطامی نے خربوزہ کھانے سے ہی انکارکردیا۔
عاشقی صبرطلب اورتمنابے تاب
دل کاکیارنگ کروں خون ِجگرہونے تک
جونہی گنبدِخضراپر پہلی نظرپڑی تویقیناًدل کوتھامنابہت ہی مشکل ہوگیاکہ محسن انسانیت ﷺکے درپرحاضری،اپنی قسمت پررشک آنے لگاکہ ایسی عظیم الشان شخصیت جس پرخوداللہ اور اس کے ملائکہ کثرت سے درودپڑھتے ہیں اوراہل ایمان کوبھی حکم دیاگیا کہ وہ بھی کثرت سے درودپڑھتے رہا کریں۔ بیشک اللہ(تعالیٰ) اور اْس کے فرشتے نبی ( اکرمﷺ ) پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی (اکرمﷺ) پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو‘‘۔(احزاب:56)

ایسی فخرکائنات ہستی جس کے بارے میں غیرمسلم بھی کچھ اس طرح رطب اللسان ہیں:
٭مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِزمانہ کتاب میں دنیا کے ان سوعظیم ترین آدمیوں کاذکرکیاہے جنہوں نے دنیاکی تشکیل میں بڑاکرداراداکیا۔اس نے حضورﷺکوسب سے پہلے شمارپررکھاہے۔مصنف ایک عیسائی ہوکربھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمدﷺ پورے نسل انسانی میں سیدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔
٭تھامس کارلائیل نے۱۸۴۰ءکے مشہوردروس میں کہا کہ میں محمد(ﷺ)سے محبت کرتاہوں اوریقین رکھتاہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونموداورریاکاشائبہ تک نہ تھا۔ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہ اخلاص پیش کرتے ہیں ۔
٭فرانس کاشہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے محمد(ﷺ)دراصل سروراعظم تھے،۱۵سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیرتعدادنے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں،یہ حیرت انگیز کارنامہ تھاآنحضرت کی تعلیم کا ۔
٭جارج برناڈشالکھتاہے: موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحدصورت یہی ہے کہ محمد(ﷺ)اس دنیاکے رہنمابنیں۔
٭گاندھی لکھتاہے کہ بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کوسچائی کاراستہ دکھایااوربرابری کی تعلیم دی،میں اسلام کاجتنامطالعہ کرتاہوں اتنامجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوارسے نہیں پھیلا ۔
٭جرمنی کامشہورادیب شاعراورڈرامہ نگارگوئٹے حضور(ﷺ)کامداح اورعاشق تھا،اپنی تخلیق دیوانِ مغربی میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد(ﷺ)کااظہارکیاہے اوران کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاورکئے ہیں ۔
٭ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب تاریخِ ترکی میں انسانی عظمت کیلئےجو معیارقائم کیااس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے:اگرانسانی عظمت کوناپنےکیلئےتین شرائط اہم ہیں جن میں
(۱)مقصد کی بلندی
(۲) وسائل کی کمی
(۳)حیرت انگیرنتائج
تواس معیارپرجدیدتاریخ کی کو ن سی شخصیت محمدﷺسے ہمسری کادعویٰ کرسکتی ہے ۔
٭فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے:فلسفی،مبلغ،پیغمبر،قانون ساز،سپہ سالار،ذہنو ں کافاتح،دانائی کے عقائدبرپاکرنے والا،بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا،بیسیوں ریاستوں کوایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا….وہ محمدﷺہیں….جہاں تک انسانی عظمت کے معیارکاتعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پرپورااترنے والامحمد ﷺ سے بھی کوئی برترہوسکتاہے؟
٭ڈاکٹرشیلے پیغمبرآخرالزماں کی ابدیت اورلاثانیت کااقرارکرتے ہوئے لکھتے ہیں:محمدﷺگزشتہ اورموجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اورافضل تھے اورآئندہ ان کی مثل پیداہونامحال اورقطعاً غیرممکن ہے۔

مدینہ کے شمال میں واقع پہاڑجبل احدکے پاس اس مقام پرحاضری دینے کی جب سعادت ملی توساراتاریخی جنگی منظرآنکھوں کے سامنے آگیاجہاں عاشقان رسولﷺاپنے آقاکے گردگھیرا ڈالے پروانوں کی طرح آنے والے تیروں،بھالوں اورزہرآلودتلواروں کے وار اپنے سینوں پرروک رہے ہیں کہ میرے آقاکے دندان مبارک اس قدرزخمی ہوگئے کہ منہ مبارک خون سے بھر گیااورایک روایت کے مطابق سیدناجبریل علیہ السلام نے اس خونِ مبارک کوزمین پرگرنے سے پہلے اپنے پروں میں محفوظ کرلیاکہ اگریہ خون زمین پرگرجاتاتویہ زمین مارے ندامت کے بانجھ ہوجاتی۔

آج اسی میدان میں کے سامنے کھڑاہوں جہاں نبی کریمﷺکے پیارے چچاحضرت حمزہ دفن ہیں۔حضرت حمزہ جنگ احدمیں۷۰دیگر صحابہ کے ہمراہ شہیدہوگئے تھے،اورکفارنے ان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔رسول کریمﷺکو اپنے اس ہم عمرچچا سے بڑی محبت تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے شہید لاشے کودیکھ کرفرطِ غم سے آپ پھوٹ پھوٹ کررودیئے اورجب تک اس دنیامیں قیام فرمایاآپﷺہربدھ کوشہدئے احدکے مزارپرجا کر فاتحہ کہتے تھے!

زائرالحرمین اگراپنے دل وجاں اورروح کی طرف متوجہ ہوں تواس سفرحجازکاایک پیام ضرورسنائی دیتاہے،وہ اک پیام جومسجد حرام نے بھی رخصت ہوتے ہوئےدیاتھااورمسجدنبویﷺسے بھی وہی صداموصول ہورہی ہے جوعرفات کے میدا ن میں بھی آرہی تھی اورمنیٰ کی قربان گاہ میں بھی،جوزم زم کے قطروں نے بھی ہم سے سر گوشی میں کی ہے اورخاکِ حرم کے ذروں نے بھی آپ کے قدموں سے لپٹ کرکی ہے اوروہ صداتھی، بس ایک صدا،کیسی صداکہ”کونوانصاراللہ”جب دنیاظلم سے بھرگئی توکیاتم اپنے حصے کاکام کرنے نہ اٹھو گے!

راستہ بھی موجودہے اوراس کی دی ہوئی ٹانگیں بھی موجودہیں اوراس راستے پرچلنے کاقرض بھی موجودہے۔مالک نے جوزمین حوالے کی،مزارع نے اس پرہل نہ چلایااورزمین زہرآلود جھاڑیوں اورکا نٹوں سے بھرگئی۔سفرحجازنے یہی توکہاہے آپ سے کہ جیسے یہاں کے ہرچپے پراللہ کی بڑائی اوراس کاذکرہے اللہ کی ساری کائنات یونہی اس کی بڑائی چاہتی ہے۔معرکہ بدراورواقعہ کربلاآج بھی بپاہے۔ہم نے کبھی سوچاکہ مملکت خدادادپاکستان۲۷ رمضان کی مبارک ساعتوں میں کیوں معرضِ وجودمیں لایاگیا، ایسی رات جوہزارمہینوں سے بہتراورافضل ہے؟ہم نے اس کے حصول کیلئے بیش بہا جانوں کانذرانہ پیش کیا،صدی کی سب سے بڑی انسانی ہجرت میں لاکھوں خاندان ایک دوسرے سے بچھڑگئے اوراپنوں کے فراق میں قبروں کا رزق بن گئے۔ہم نے اپنے رب سے یہ وعدہ کیاتھاکہ ہم اس ارضِ وطن میں قرآن کی حاکمیت قائم کریں گے۔پچھلی سات دہائیوں سے ایفائے عہدکی تکمیل کرنے سے قاصرہیں۔اب پاکستان میں دوبارہ سیاسی اکھاڑاسج گیاہے لیکن کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشورمیں نہ توقرآن کی حاکمیت کے نفاذکا ذکر کیاہے اورنہ ہی بدقسمتی سے مجبورمقہورکشمیرکاکہیں تذکرہ ہے۔لیلتہ القدرکابرملاسوال ہے کہ ہمارے اندر کتناعزم ہے اس دین کے نفاذکی سختیاں جھیلنے کا۔۔۔۔!

سفرحجازکی یادیں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ آج ربّ کعبہ کے بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کرخالقِ کائنات کی غلامی میں واپس لانے کیلئے اپنا کردارکب اداکروگے؟
کچھ بھی تونہیں رہے گا،کچھ بھی تونہیں بس نام رہے گااللہ کا!

اپنا تبصرہ بھیجیں