اک شخص اندھیرے میں اجالے کی طرح تھا

:Share

یوں نہ پھرہوگاکوئی نغمہ سرامیرے بعد
اورہی ہوگی گلستاں کی فضامیرے بعد
راہ سنساں مکاں خستہ مکیں ا فسردہ
کیسا ویراں ہوا شہروفامیرے بعد
سروقدوسجیلا،بلندوبالاکسرتی بدن،سرخ وسفیدرنگت،کشیدہ قامت،گلابی ومعصوم چہرہ،فراخ جبیں،منفرد وحسیں،خوبصورت سرمگیں آنکھیں جن میں بلاکی چمک بلکہ ہیرے کی دمک،پھران میں شب زندہ داری کی وجہ سے لال لال ڈورے،جائزہ لیتی ہوئی نگاہیں،ستواں اوراونچی ناک،خوبصورت نازک پتلے ہونٹ، کشادہ وغنچہ دہن، سرخ رخسار بمثل قندھاری انار،سلیقے وقرینے کی ملائم وریشمی ریش مبارک جس میں سیاہی سے سفیدی ہم آغوش،قریب تھاکہ سینہ ڈھانپ لے، ترشی ہوئی مونچھیں،سرمنڈاہوامگرقراقلی ٹوپی سے ڈھکاہوا،لہجے میں سوزوعاجزی،آوازمیں اقبال، چال میں کمال،طبیعت میں جلال،سرتاپااستقلال، رفتار میں حکومت،گفتارمیں سطوت،عظمت کشمیر کی معنوی صفات کاعکسِ جمیل،صباکی طرح نرم اور رعد کی طرح گرم،ایک جیتی جاگتی کہانی ،ارض کشمیرجنت نظیرکی نشانی،ایک حصار جس کی قربت سے حشمت کااحساس ہوتا ہے اورجس کی دوری میں عقیدت نشوونماپاتی ہے،گویا شکل میں شہنشاہ توعادات میں بے پناہ!یہ ہے ان کی جھلک جن کانام نامی ہے حبیب اللہ ملک!
جن کی یادوں سے رگِ جاں میں دکھن ہونے لگے
ذکر چھڑجائے تو پتھرکادل بھی رونے لگے
53برس قبل آج ہی کے دن3دسمبر1965ءجمعتہ المبارک بوقت تین بجکرتیرہ منٹ بمقام سول ہسپتال کمرہ نمبر5(لائلپور)فیصل آبادمیں ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت نے اس عارضی زندگی کی بہاروں سے منہ موڑ لیاکہ جیسے انہوں نے جان لیا ہوکہ اب میراٹھکانہ ایسے داربقاء میں ہے جہاں سدابہار خوشبوؤں کے گلستان ہیں۔ جس طرح ہرچیزکی قدروقیمت کاایک معیارہے اسی طرح اس جہاں کے گلستاں میں داخلہ کاٹکٹ بھی ایساارزاں نہیں۔زندگی جیسی قیمتی دولت دیکرموت نصیب ہوتی ہے اورپھرموت ہی تووصل حبیب اوربقائے حبیب کاسبب اورذریعہ ہے۔بقائے حبیب سے بڑھ کراورنعمت بھی کیاہوگی! کیاخوب کہ آج ہزاروں دلوں کاحبیب اپنے حبیب کے حضورحاضرہوگیا۔
اب یادرفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے اتنی دوربسائیں ہیں بستیاں
کہتے ہیں دنیامیں ایسی جھیلیں بھی ہیں جن کاپانی بیک وقت شیریں بھی ہے اورنمکین بھی،ان کے ایک حصے میں میٹھااورشیریں پانی بہتاہے اور دوسرے حصے میں نمکین اورکڑوا کسیلا۔قدرت کاکیسامعجزانہ کمال ہے کہ ان میں پانی کی دونوں سطحیں الگ الگ رہتی ہیں اورہرحصے کاپانی اپنا ذائقہ برقراررکھے ہوئے ہے۔جب بھی ان کامبارک خیال آتا ہے تومیرے ذہن میں ایک ایسی ہی جھیل کاتصورجاگ اٹھتاہے۔کئی سال گزرگئے، ہزاروں دفعہ قصدکیاکہ ان تصورات اورخوبصورت یادوں کوالفاظ کی زبان دوں لیکن ایک غیرمرئی خوف کی بناء پرایسانہ کرسکا،شائدبزدل،خوفزدہ اور کمزور ہوں کہ ان تمام یادوں کااحاطہ نہ کرسکوں گا لیکن آج تو حد ہو گئی،بعض اوقات گم گشتہ یادوں کے بارودکے ڈھیرمیں حالات وواقعات کا آتش گیرمادہ جمع ہوتا رہتا ہے لیکن دھماکے کیلئے کوئی چنگاری میسر نہیں آتی یایوں سمجھ لیں احتیاط کی بناءپرچنگاری سے محفوظ رکھنااصول حیات ٹھہرجاتا ہے لیکن آج انجانے کیوں دل نے ایسی چنگاری دکھائی کہ تمام یادوں کوایک دھماکے سے اڑاکررکھ دیا ہے۔
3دسمبر1965ءبروز جمعتہ المبارک کومیں جب آپ کے پاس فیصل آبادکے سول ہسپتال کے کمرہ نمبر5میں بیٹھاتھا توآپ نے نیم کھلی آنکھوں سے پوچھاکہ “آج کون سادن ہے؟تایاجان نے جواب دیا کہ آج جمعہ ہے توآپ نے اپنی رفیق حیات کی طرف نگاہ اٹھائی جوفوراً آپ کی نگاہوں کا مطلب بھانپ گئیں ۔آپ کوبسترپرہی وضوکروادیاگیا۔آج پچھلے دس دنوں کی نسبت طبیعت میں خاصاسکون تھا ۔چہرے پرکمزوری کے باوجودرونق بھی لوٹ آئی تھی۔ دیرینہ ساتھی حافظ صاحب سے خصوصی فرمائش پرکافی دیر تک قرآن کریم سنتے رہے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ حافظ صاحب خوش الحانی کے ساتھ سورة الحشرکے آخری رکوع کی آیات پر پہنچے توآپ کی آنکھوں سے ساون بھادوں شروع ہوگیا۔میں نے فوراً اپنامنہ کھڑکی کی طرف کرلیاکہ برداشت کایارا نہ تھا۔ آپ نے ہم سب کوجمعہ کی نمازمسجد میں پڑھنے کاحکم دیا۔
سب ہی ہسپتال سے ملحقہ مسجدکی طرف چل دیئے لیکن نجانے کیوں میرے قدم من من بھر کے ہوگئے تھے۔رکھتاکہیں تھا،پڑتے کہیں تھے۔ مڑمڑکر نگاہیں کمرے کاطواف کررہی تھیں،ایک انجاناسا خوف دل کوبے قرارکررہا تھا۔پچھلے دس دن والدہ محترمہ ایک پل کیلئے آپ سے جدانہیں ہوئی تھیں شائد جان گئیں تھیں کہ پھرملاقات نہیں ہوگی ،برسوں کاساتح ختم ہونے والاہے.میرے میٹرک کے امتحان چل رہے تھے بس یوں سمجھیں کہ خانہ پری اورآپ کے احکام کی اطاعت ہورہی تھی ۔میری امتحانات میں ہمیشہ یہ حالت رہی کہ مقررہ وقت ختم بھی ہوجاتا تھا اورمجھے لکھنے سے فرصت نہیں ملتی تھی لیکن اب کئی دنوں سے صورتحال بالکل مختلف تھی۔ اب شائد سب سے پہلے میں ہی اپنے پرچے سے فارغ ہوکرہسپتال کی طرف بھاگتاتھا۔میرے اسکول کے تمام اساتذہ کرام اورخصوصی طورپر میرے ہیڈماسٹر جناب ذکاء اللہ صاحب کوپوری توقع تھی کہ امسال پورے ضلع میں نمایاں کامیابی میں میرانام ضرورہوگالیکن اس انجانے حادثے کی کس کوخبر تھی۔یہ توشائد آپ ہی کی دعاؤں کاکمال تھاکہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی کرم فرمایاوگرنہ میری محنت اورکارکردگی توآپ کی بیماری کی خبر نے سلب کرلی تھی۔
آپ جب سے ہسپتال میں صاحبِ فراش تھے،ساراشہرامڈآیاتھا،کئی دفعہ ہسپتال کے عملہ نے اس طرف توجہ دلائی کیونکہ ڈاکٹروں کی ایک پوری جماعت ہمہ وقت موجودرہتی تھی،ہسپتال کادوسراعملہ بھی کوئی ایمرجنسی ڈیوٹی کی طرح حاضررہتاتھا،بعض اوقات آپ کے چہرے سے محسوس ہوتاتھا کہ آپ ناقابل برداشت تکلیف کابڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں لیکن منہ سے کبھی اس کااظہار نہیں ہورہا تھا۔
آپ پچھلے چند ہفتوں سے مقبوضہ کشمیر سے آئے ہوئے بے خانماں مہاجرین کے استقبال کیلئے ملک کی اگلی سرحدوں پرپہنچ گئے تھے۔آپ فیصل آباد سے تیسری مرتبہ پوراٹرک گرم کپڑوں اوردیگر ضروری اشیاء کالیکرنہ صرف امدادی کاموں میں مصروف تھے بلکہ اپنے بھائی عصمت اللہ ملک اور دوسرے عزیزو اقارب کوبھی ڈھونڈرہے تھے۔میرے ننھیال کی ایک خاصی تعداد جونہی پہنچی توان کولیکرفوری فیصل آبادپہنچے مگرتیسری مرتبہ بھی اپنے بھائی کے بغیر بہت مایوس لوٹے۔آپ کے اندرونی کرب کابخوبی آپ کے چہرے سے پتہ چل رہا تھا۔ایک شام آپ نے مہاجرین کی بے بسی اورغریب الوطنی کاایسا نقشہ کھینچا کہ سننے والے سب افرادآبدیدہ ہوگئے۔کئی ایک خاندان کی آبادکاری کے باوجودآپ کادل مسلسل مہاجرین کشمیر میں اٹکاہواتھا شائد اپنے مہاجر ہونے کے مصائب دوبارہ دل میں تازہ ہوگئے تھے۔آپ پھر سے مہاجرین کی آبادکاری کی کوششوں میں مصروف تھے کہ کمرکی اچانک دردنے بے حال کر دیا۔رات بھر کمرکی سخت دردمیں مبتلارہے۔دوسری صبح اپنے دوست حکیم ریاست علی سے جوذکرکیاتواس نے بغیردیکھے زائد المعیادپنسلین کاانجکشن بائیں بازومیں لگادیا، گویاآپ کے اس دنیاسے رخصت ہونے کااعلان جاری ہوگیا۔وہ دن بڑی مشکل سے گزرا،دردکی شدت نے بے حال کردیا،فوری ہسپتال پہنچایاگیا۔معلوم ہواکہ دردمیں افاقے کی بجائے زائدالمعیاد ٹیکے نے سارے جسم میں شدید قسم کاانفیکشن پیداکردیا ہے۔سب ڈاکٹر حیران تھے کہ پچھلے چوبیس گھنٹے کس طرح گزر گئے حالانکہ اس انفیکشن کے بعدتوزندگی چند گھنٹوں کی مہمان ہوتی ہےیقینادمِ واپسی کے معین دن کاانتظارتھا۔
فوری طورپرسارے جسم کامکمل خون تبدیل کردیاگیاپہلے تین دن طبیعت سخت خراب رہی لیکن چوتھے دن طبیعت کافی سنبھل گئی لیکن یکایک طبیعت اچانک خراب ہوگئی اورڈاکٹروں نے بازوکاٹنے کامشورہ دیاکہ دوبارہ اس انفیکشن کوسارے جسم میں پھیلنے سے روکنے کیلئے اورکوئی چارۂ نہ تھا۔چچاجان جوخودایک معروف اورماہرڈاکٹرتھے اورپہلے ہی دن سے سایہ کی طرح اس سارے عمل کی نگرانی کررہے تھے،فوری آپریشن کی اجازت دے دی گئی۔ دوسری طرف مقامی اخبارات میں یہ خبر شائع ہونے سے حکیم ریاست علی کی گرفتاری کا مطالبہ زورپکڑگیا۔شہربھرمیں غم وغصہ کی ایسی لہراٹھی کہ حکیم صاحب اپنامطب بند کرکےاپنے اہل وعیال سمیت شہرسے فرار ہوگئے۔ایک دن اچانک حکیم صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہسپتال آپ کے قدموں پرسررکھ کرگڑگڑاکر معافی مانگ رہے تھے اورمجھے یاد ہے کہ آپ بسترمرگ سے بھی ان کوتسلیاں دے رہے تھے۔ہم سب کی طرف منہ کرکے ارشادفرمایا:
“میں نے حکیم صاحب کواس غیردانستہ عمل پرمعاف کردیاہے،آج کے بعدجوبھی ان کوتکلیف پہنچائے گااس کامیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا” بھلایہ کیسے ممکن ہوسکتاتھاکہ آپ کے ساتھ تعلق کوختم کیاجائے،آپ کے تعلق پرتوپوری دنیاکوقربان کیاجاسکتاہے۔اغیارکوآپ کے تعلق پرفخر تھا پھر بھلااہل خاندان سے کون ایسی جرأت کرسکتاتھا۔حکیم صاحب کوعزت کے ساتھ رخصت کردیا گیا۔مولوی اسماعیل اپنی ریڑھی پرباہر بیٹھا آپ کی صحت کیلئے گڑگڑاکر دعائیں مانگ رہا تھا۔آپ نے کس محبت کے ساتھ اس کوبھیک مانگنے سے منع کیاتھا حالانکہ وہ دونوں ٹانگوں بلکہ جسم کے نچلے مفلوج دھڑ کے ساتھ سڑکوں پرگھسٹ کر بھیک مانگاکرتاتھا۔آپ نے نہ صرف اس کیلئے ریڑھی کابندوبست کیابلکہ اپنے ہوٹل کے باہراس کو ایک چھوٹاسا”کھوکھا”سامان کے ساتھ لگوادیا کہ محنت کے ساتھ رزق کماؤ حالانکہ آپ کواس جگہ کیلئے کئی دفعہ ہزاروں روپے کی آفربھی ہوچکی تھی۔وہ خودفرمایاکرتے تھے کہ ممکن ہے کہ یہ میراعمل میری عقبیٰ وآخرت کی نجات کاوسیلہ بن جائے۔
آپ کابرسوں سے دستورتھاکہ علی الصبح فقیروں اورمحتاجوں کی ایک لمبی قطارکوہوٹل سے روزانہ چائے اورناشتے کابندوبست کررکھاتھااوراس عمل کواپنے فرضِ منصبی سمجھ کراداکرتے تھے۔ملازمین کوسختی سے ہدائت تھی کہ اس عمل میں کوئی سستی اوربداخلاقی کااظہار نہ کرے۔پھرملازمین سے بھی اولادجیسی شفقت اور محبت تھی۔کشمیرسے محبت کاایک ایسااعلیٰ ثبوت کہ تمام ملازمین جن کاتعلق بھی کشمیر سے تھا برسوں سے کام کررہے تھے،گویااپناایک چھوٹاساکشمیربسائے بیٹھے تھے۔ شہرکے شرفا،دانشوروںاورعلماءسے دوستی کایہ عالم کہ میلوں دورسے ان حضرات کی روزانہ آمدپرمحفل سجائی جاتی تھی جہاں شہرکامقامی مسئلہ ہویاقومی سیاست کا،اس میں پھرپوراجتماعی دلچسپی اورشرکت فرماتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ قومی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کابھی ازحداحترام تھامگرایوب خان کی حمائت محض اس لئے کہ اسلام میں عورت کوگھرکی حکمرانی کا درس دیا گیا، حالانکہ ہم سب محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی کیلئے دعاگو تھے۔ایک دفعہ اہلیہ جوکہ سیاست کے حرف سے بھی واقف نہیں تھیں ،محض عورت ہونے کے ناطے محترمہ فاطمہ جناح کی حمائت میں کچھ ہمدردی کے الفاظ کہہ ڈالے ،بس پھر کیا تھاکہ جھیل کامیٹھاپانی کچھ لمحوں کیلئے توکڑواہوگیا لیکن فوری اپنے اس رویہ پرمعذرت کرتے ہوئے دلجوئی فرمادی۔
علمائے دین کاازحداحترام اوران کی مجالس میں بیٹھناباعثِ افتخارسمجھتے تھے۔یقیناًیہ مجلس احرارکے قائدجناب حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم کی تربیت،ان سے قلبی محبت اورفیض کانتیجہ تھاکہ جہاں اہلحدیث مسلک کے سرکردہ وسرخیل مولاناصدیق صاحب اورمولاناعبدالقادر روپڑی سے قریبی مراسم تھے جومرتے دم تک قائم رہے وہاں بریلوی مسلک اورسابقہ احرارکے مشہورزمانہ رہنماء صاحبزادہ فیض الحسن سے بھی یاداللہ تھی اور مجلس ِاحرارکے ناطے ان کی خطابت کے بھی بہت معترف تھے۔دیوبندمسلک کے مشہورزمانہ عالم دین مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل سے توخصوصی محبت اورایک خاص برادرانہ تعلق تھا ،اسی لئے آپ کانمازِ جنازہ بھی انہوں نے پڑھایا۔ان کی نمازجنازہ میں جہاں ہرمکتب فکرکے علماء کی ایک کثیرتعدادتھی وہاں جنازہ میں ساراشہرامڈآیاتھا۔
دیکھ لو آج پھر نہ دیکھو گے
غالب بے مثال کی صورت
بات پھیل گئی مگریادیں بدستورپرے جمائے صف در صف کھڑی ہیں۔کس کو لوں اورکس کی چھوڑوں!مجھے اس بات کاتوعلم ہے کہ محبت کے پھول آنکھوں کے گملوں میں ہوتے ہیں جوپلکوں کی حفاظت میں سینچے جاتے ہیں لیکن برسوں کی فصل پک کرآج ان صفحات پرجمع ہورہی ہے۔شائدایساآج بھی نہ ہوتااگر یہ3دسمبر کادن انمٹ نقوش لئے مطالبہ اور تقاضہ نہ کرتا۔دراصل دکھوں کے چراغ جب انسان اپنی ہتھیلی پرلیکر پھرتاہے تواس کااجالا چہرے پرسہانی یادوں کے داغ نمایاں کردیتا ہے اور پھر بعض اوقات انسان محبت میں ایک تماشہ بن جاتاہے لیکن اگر یہی دکھ کاچراغ چھپ کردل میں جلایاجائے تواس کی روشنی سے روح روشن اور مہک اٹھتی ہے۔پھرانسان دوسروں کے دکھ دردمیں شریک ہوجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ تقریباً پچھلی پانچ دہائیوں سے زائدآپ کی یادوں کے چراغوں کی لو دھیمی ہونے کانام ہی نہیں لیتی!
اندربھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
میں جانتا ہوں آپ کیوں اورکہاں چلے گئے ہیں اس کے باوجودکم وبیش ہرروزاپنے دل میں ایسے ان گنت سوالات کلبلاتے ہوئے دیکھتاہوں۔اب توآپ کے ہاں اڑوس پروس میں کئی اپنے ہی چلے آئے ہیں۔ایک طرف ماں کی محبت کوپہلومیں لٹارکھاہے اوراس کے ساتھ ہی اپنی رفیقہ حیات کو بھی بلا رکھا ہے ۔جہاں تایاجاناورچچاجان اس محفل میں شریک ہیں وہاں نوجوان بیٹے اعجازملک جس کی توابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں اورعین جوانی میں احسان ملک بھی آپ کے ساتھ محفل سجائے تشریف فرماہیں۔
معشوق ریاض اٹھ گئے اس بزم سے کیاکیا
جاتی ہوئی دنیاہے رہے نام خداکا
مجھے آپ کی کہانی سنانے کا ناصحانہ اندازاچھی طرح یاد ہے کہ کس حکمت ودانائی کے ساتھ ہمارے دلوں میں مطلوبہ نصیحت گھرکرجایاکرتی تھی ۔آپ نے کبھی بھی اپنی غریب الوطنی کے مصائب کونہیں چھپایا بلکہ ہمیشہ اس کوعبرت کے اندازمیں یادبھی رکھا اورہمارے دلوں میں بھی اتارا۔ پاکستان کوایک معجزاتی ریاست اورجان سے زیادہ عزیز رکھنے کی تلقین کی کہ دنیامیں اس سے بڑی اورکوئی نعمت نہیں جولاکھوں جانوں کی قربانی اورایثارسےحاصل کیاگیا۔شب وروزکی محنت نے زندگی کے تمام انعامات سے نوازرکھاتھا لیکن کشمیرکی یاداکثرآبدیدہ کردیتی تھی۔ہم سب کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔کنبہ پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔توفیقِ ایزدی سے جب گھربنوایاتوخاندان کے کئی بے گھرافراد کوگھرکے ایک حصےمیں رہنے کی تمام آسائشیں مہیافرمادیں۔آپ کی ساری عمرکوشش رہی کہ کسی بچے کی جائزخواہش ،،حسرت،،نہ بن جائے کہ وہ یہ کہنےپرمجبورہوجائے کہ “کاش!ایساہوتا۔”آپکویہ سننا پسند نہ تھا ۔خودبھی قناعت برتی اورعملاً اس کی تلقین بھی کی۔
ایک مرتبہ موسم گرماکی تعطیلات میں اسکول کے طلباء کاایک گروپ مطالعاتی سیرکیلئے سوات اورگلگت کیلئے تیارہوا۔میں نے بھی اپنانام لکھوا دیا۔آپ سے اجازت مانگی توآپ نے بڑے اصرارکے بعد اجازت تودے دی لیکن کیادیکھتاہوں کہ آپ مجھے رخصت کرنے کیلئے خودریلوے اسٹیشن پر تشریف لے آئے اور علیحدگی میں میرے ہیڈماسٹر جناب ذکاء اللہ صاحب اوردوسرے اساتذہ کرام سے کافی دیرمحو کلام رہے۔یہ عقدہ بعدمیں کھلاکہ ایک خاصی رقم زادِ راہ کیلئے خاموشی سے ہیڈماسٹر صاحب کے حوالے کردی کہ میری کسی خواہش کوحسرت میں تبدیل نہ ہونے دیاجائے۔ پھلوں کے کئی ٹوکرے بھی ساتھ لائے جس سے تمام طلباء ساتھی بھی خاصے لطف اندوزرہے۔جب مہینہ بھر کی سیرسے واپس پہنچا تو گھر والوں سے معلوم ہواکہ آپ نے ہرشب خصوصاًپھل کھانے کی مجلس میں بہت یادفرمایابلکہ بے تابی کایہ عالم تھاکہ میں نے جوخطوط لکھے تھے ان کودن میں کئی مرتبہ سنتے تھے۔میں نے اس سفرمیں “سواتی سٹائل”کی ایک ٹوپی خریدی جوآپ نے میری دلجوئی کیلئے کئی دن اوڑھے رکھی حالانکہ مجھے علم تھاکہ آپ ہمیشہ قراقلی ٹوپی استعمال فرماتے تھے۔
خواب بن کر رہ گئیں ہیں کیسی کیسی محفلیں
خیال بن کررہ گئے ہیں کیسے کیسے آشنا
اپنی والدہ کی دلجوئی کاکس قدرخیال تھا۔ساری عمر آپ کے پاس قیام رہاحالانکہ دوسرے بچوں کے گھربھی قریب تھے۔ایسی بے مثال محبت ،ایک دفعہ سردیوں میں ان کیلئے ایک گرم چادرسوروپے میں خریدی،گھرمیں والدہ کی خدمت میں پیش کی تووالدہ نے فوراًمحبت میں اوڑھ لیا۔ان کے دل میں نجانے کیاآیاکہ انہوں نے اس گرم چادرکی قیمت پوچھ لی۔آپ کافی ٹال مٹول سے کام لیتے رہے لیکن بالآخرجب بتانے پرمجبورہوگئے توانتہائی غیر معمولی قیمت محض اس لئے بتائی کہ اصل قیمت سن کر والدہ فضول خرچی گردان کرناراض نہ ہوجائیں۔
ہمارے بعد اندھیرارہے گامحفل میں
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کیلئے
آپ کی بڑی خواہش تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرونِ ملک کاسفرکروں۔اس کیلئے اپنے قریبی دوست محمد حنیف صاحب کوبسترِ مرگ سے تلقین بھی کی۔میں بھی سن رہاتھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی اس خواہش نے مجھے بے شماررکاوٹوں کے باوجودسہارا دیئے رکھااوراب ایک ایسا وقت بھی آیاکہ آدھی دنیاکی سیاحت کر چکا ہوں لیکن پھربھی ہرسال کوئی نہ کوئی بیرونی سفر انتظارمیں رہتاہے۔
آپ تواپنے ہرتعلق رکھنے والے کے دل میں اپنی بے پناہ یادیں چھوڑ کراپنے محبوب رب کے ہاں حاضر ہوگئے ہیں۔مجھے معلوم ہے کہ موت کوئی نئی چیز
نہیں، اس کاذائقہ توہرکسی نے چکھناہے،موت کے قانون سے نہ توکوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ ولی،جوبھی آتاہے اپنامقررہ وقت پوراکرکے اس دنیاسے رخصت ہوجاتاہے ، کسی کاحالتِ ایمان میں اس دنیاسے رخصت ہوجانااس کے حق میں ایک بڑی نعمت ہے۔پھراس دنیامیں آناہی درحقیقت جانے کی تمہیدہے مگربعض جانے والے اپنی دائمی جدائی کاایساغم دے جاتے ہیں جوبڑاہی جانکاہ اور ہوشرباہوتاہے بلکہ اس صدمے سے سنبھلنے میں عمر صرف ہوجاتی ہے۔آخر آپ بھی تواپنی والدہ محترمہ کاتین مہینے سے زائدانتظارنہ کرسکے اورانہی کے پہلومیں ہمیشہ کیلئے جابسے۔
ہے رشک اک جہان کوجوہرکی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگاردے
بعض لوگوں کے جانے کی اطلاع پڑوسی کوبھی نہیں ہوتی،اگرہوبھی جائے تودوچارآنکھوں کے علاوہ ان پررونے والا کوئی نہیں ہوتا،بعض لوگوں کے جانے سے دوچارخاندان غمزدہ ہوتے ہیں لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے جانے سے ایک عالم غمگیں اوراندوہگیں ہوجاتاہے،جس تک بھی خبرپہنچتی ہے اس کی چشم نم اوردل غم سے لبریزہوجاتاہے۔جن کے رخصت ہونے سے محبت والفت کی مسندسونی ہوجاتی ہے ،پیاروشفقت کی بساط الٹ جاتی ہے ،پوراکنبہ ان کی دعاؤں اوربرکات وتوجہات سے محروم ہوجاتاہے۔
آپ کی موت ایک انسان کی موت نہیں بلکہ ایک عمل کی موت ہے جس کاخلاء ابھی اوربرسوں رہے گا۔آپ کی موت توایک انکساری وتواضع کی موت ہے،شرافت ونجابت کی موت ہے،شفیق باپ،محبت کرنے والے شوہر اورپرخلوص رفیق کی موت ہے۔ایک ایسے عظیم انسان کی موت ہے جن کے نقشِ پا سے زندگی راستہ ڈھونڈتی ہے۔ایک ایسے بلندپایہ خلیق باپ کی موت ہے جس سے محبت کا ایک باب مکمل طورپربندہوگیاہے ۔آپ کے دل کی دھڑکن نے بندہوکرسینکڑوں دلوں کی دھڑکن کوبری طرح پامال کیاہے۔
آپ ہمارے لئے پندونصائح کامینارہ نورتھے جس کی روشنی میں مشکلات کامقابلہ کرنے کی ہمت عودکرآتی تھی۔آپ خودشمع کی مانندپگھل کر اک جہاں کوروشنی مہیاکرتے تھے۔دنیاکی سخت دھوپ میں نہائت فرحت بخش سایہ بن کرہرکسی کے سر پرموجودتھے،خودبے قرارہوکرہرکسی کو سکون کی دولت تقسیم کرتے رہتے تھے۔بولتے تومنہ سے ایسے ا نمول موتی جھڑتے کہ ہرکسی کوسمیٹنے میں اپنی جھولی تنگ نظرآتی۔اگرخاموش رہتے تووقاروسکینت کااعلیٰ نمونہ ہوتے تھے۔کس کس خوبی کاذکرکروں اوراب کس کس محرومی کی نشاندھی کروں،گویا اب توتپتی دھوپ میں ان سنگلاخ پتھروں پرننگے پاؤں چلنے کی بھی ایک عادت سی ہوگئی ہے۔
غم مختلف شخصیتوں پرمختلف اندازمیں اثراندازہوتا ہے ۔کچھ لوگوں پرغم کی خبربجلی کے کرنٹ کی طرح گرتی ہے،کچھ لوگوں پرغم کادھاراچل کرانہیں بھگودیتاہے، کچھ لوگ غم کی خبرسن کرخالی الذہن ہوجاتے ہیں،پھرغم بوندبوندگرتاچلاجاتاہے۔آپ کوبھی جب منوں پھولوں میں سجا ہوا دیکھاتھاتودفعتاًمیں خالی الذہن ہوگیاتھا۔ مجھے پتہ تھاکہ اب غم بوند بوند گرے گا،گرتارہے گا،میراسب سے بڑامحسن جوچلاگیاتھا۔میری زندگی کاسب سے بڑامشاہدہ،وہ جومجھ پراللہ کی عظیم ترین کرم نوازی تھا،جس کے جانے کے بعدمیں بالکل اکیلا رہ گیا،جیسے کسی مٹی کے پیالے سے دودھ نکال لیاجائے اوراب صرف خالی برتن رہ جائے!
آپ توایک عطیہ خداوندی تھے جس سے ہم سب استفادہ کرتے رہے اوراب اللہ نے آپ کوواپس بلالیاہے۔آپ نے سفرآخرت کیلئے بھی کیسادن پایا۔ جمعتہ المبارک کی نمازپڑھ کرہم سب تیزی سے لوٹے تومعلوم ہواکہ مسلسل ایک گھنٹہ بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات کودنیاکی گرم سرد ہواؤں کامقابلہ کرنے کی نصیحتیں فرماتے رہے،بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے معاملات کی صفائی طلب کرتے رہے،آسمان کی طرف نگاہیں اٹھاکر بڑی بے بسی سے دعا کی۔
“اے غفورالرحیم!اپنے کھوٹے اعمال کے ساتھ تیرے دربارمیں تیری رحمت کاامیدواربن کرحاضرہورہاہوں،اگرتومعاف کردے توکوئی بڑی بات نہیں، دنیاوی سفربھی زادِراہ کےبغیر تیرے سہارے طے کیاہے اوراب بھی ایسا ہی معاملہ ہے ۔”علامہ اقبال کی یہ رباعی دہراتے رہے:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہا ے ٔ من پذ یر
گر تو می بینم حسابم نا گز یر
از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر
کمرے میں موجودافرادکوگواہ بناکر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنے رب سے جاملے۔انااللہ واناالیہ راجعون
اداسی جوایک سیاہ بادل کی طرح میرے دل میں اترتی چلی جارہی ہے،نیچے ہی نیچے…….نیچے ہی نیچے،میں دل تھام کران کیلئے دعاکرتاہوں کہ:
اے غفورالرحیم!آپ رب ہیں ہم عبدہیں،آپ مسجودہیں ہم ساجدہیں،آپ دینے والے ہم لینے والے ہیں،آپ رحمٰن ہیں ہم طلبگارہیں، غلطیوں سے در گزرفرمااوروالدمحترم کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔اللھم آمین
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھودیئے
ڈھونڈاتھاآسماں نے جنہیں خاک چھان کر
(والد محترم کی53ویں برسی کے موقع پر

اپنا تبصرہ بھیجیں