اسلام اور کامیابی

:Share

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو
زمانہ بہت بدل گیا ہے۔گزرے دور کے تقاضے کچھ اور تھے اور عصر رواں کے مطالبے کچھ اورہیں۔ اب سفر کیلئے گھوڑوں اونٹوں کی بجائے سپر سانک جہاز اور تلوار کی بجائے خطرناک قسم کے ایٹمی ہتھیار میدان میں آگئے ہیں،بغیر پائلٹ کے میزائل برسانے والے ڈرون آگئے ہیں لیکن سچائیاں غیر متبدل ہوتی ہیں ، حقائق اَٹل ہوتے ہیں ، اقدارِ حیات میں کوئی پھیر بدل نہیں ہوتا ۔ عہد ِرفتہ کی طرح اس وقت بھی عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے نہ ایٹمی ہتھیاروں کی حاجت ہے نہ میزائلوں کی ضرورت ۔ عدل تو ایک درخت کے نیچے ننگی زمین پر بیٹھ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ انصاف کے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے کسی جدید کمپیوٹر یا کسی ایسے آلے کی بھی ضرورت نہیں ۔ ایفائے عہد، صدق مقالی اور حق نوازی قوموں کی دیانت اور غیرت کی پہچان ہے اور سچ بولنے کیلئے کسی ایسے سا ئنسی جدید آلات اور ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہوتی،یہ تو انسانوں کے بیدار ضمیرکا لازمی جزو ہوتا ہے۔وہ چاہے کسی مقام یا کسی بھی عہدے پر فائز ہوں، اُن کو دھوکے،جھوٹ ،دغابازی اور مکاری سے نفرت ہوتی ہے۔وہ تو سچ کے نشے میں اس قدر مست ہوتے ہیں کہ دھوکے،جھوٹ،دغابازی اور مکاری کی ترشی ان کے قریب تک نہیں پھٹکتی۔ وہ تو سچ کے سحر میں اس قدر گرفتار ہوتے ہیں کہ اس کیلئے اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں۔بڑے سے بڑا نقصان اور ہزیمت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔یہ سب کچھ غربت ، تنگ دستی اور کسمپرسی کی حالت میںبھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے کسی ایم آئی ایف یا عالمی بنک کی مدد درکار نہیں ہوتی۔ افسوس کہ جب سے زمانہ ٔ نبوت کی تراشیدہ یہ برحق ، صحت مند اور جان گداز اقدار ہمارے ہاں متروک ہوئیں اُس وقت سے ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔یہ وہ اقدار ہیں جن کی برکت سے اُمت پر رحمتوں اور عظمتوں کا سایہ اور دوسری قوموں کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت،رعب اور دبدبہ چھایا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ غیر مسلم دانشور بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام میں اگر ایک اور عمرؓ ہوتا تو ساری دنیا پر اسلام کا نظام عدل قائم ہو جاتا۔مغربی دنیا کایہ دانشور مائیکل ہارٹ ایک مشہور عیسائی خانوادے سے تعلق کے باوجود اپنی کتاب ’’تاریخ میںسو بڑے مؤثر آدمی‘‘میں پہلا مقام سیدنا محمدﷺ ،دوسرا مقام سیدنا حضرت عمرؓ اور تیسرا مقام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دینے پر مجبور ہو گیا۔
روم کا سفیر مدینے کی گلیوں میں اس نظام عدل کو قائم کرنے والے بادشاہ کے بارے میں استفسار کر رہا تھا تو اس کو بتایا گیا کہ ہمارے ہاں تو کوئی بادشاہ نہیں مگر ایک آدمی ( سیدنا عمر الفاروق ؓ ) کو ہم نے اپنا منتظم مقرر کر رکھا ہے۔اگر اس سے ملنے کی خواہش ہے تو وہ سامنے درخت کے نیچے ایک پتھر پر سر رکھے سو رہا ہے۔ ہر قسم کے خطرات سے بے پرواہ چند گھڑیوں کیلئے آرام کرنے والے کے چہرے کی طرف دیکھ کر بے اختیار پکار اُٹھا کہ یقینا اس عادلانہ نظام کی بدولت دنیا کی قیادت و سیادت ان کا حق ہے۔حالانکہ یہ تو وہی عرب تھے جن کے بارے میں ایران کے بادشاہ نے بڑے تمسخر کے ساتھ کہا تھا کہ ’’ اے عرب کے جاہل اور گنوار بدوؤں!کیا تم وہی نہیں ہو کہ جب تم کبھی کوئی شور وغوغاکرتے تھے تو ہم صرف اپنے چند سرحدی محافظوں کو کہتے کہ تمہارا دماغ درست کر دیں تو تم فوری دبک کر اپنے صحرائی خیموں میں چھپ جاتے۔ شاعرفردوسی نے اس منظر کو اپنے شاہنامہ میں اس طرح محفوظ کیاہے ؎
شیر شتر خوردن سو سمار
عرب را بجائے رسید است وکار
کہ تخت کیہاںرا کنند آرزو
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو
اونٹنی کا ددھ پینے اور جنگلی گوہ کا گوشت کھانے والو عربو!تم کو کیا سوجھی کہ تم ایران کے تخت کی آرزو کرنے لگ گئے ہو۔کیا منظر ہے یہ اے آسماں،تم پر تفو ہے۔
لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ ان جاہل،گنوار اور صحرا نشیں بدوؤں کی حالت کس سا ئنسی ترقی اور ٹیکنالوجی نے بدلی تھی۔ترقی اور ٹیکنالوجی تو اس وقت بھی اپنے زمانے کے مطابق اپنے عروج پر تھی۔وہ جو اہرام مصرکی پیمائشوں اور تقویمی گرہوں کو کھولتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انسان اس وقت بھی الجبرا اور سائنس کی معراج پر تھا۔روم اپنی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ایران کے دربار کی شان و شوکت اور تزک و احتشام دیکھنے کے لائق تھا۔بابل اور نینوا کے معلق باغات اور محلات کے پرشکوہ تذکرے اب تا ریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔پھر ایسا کیا تھا کہ میرے رب نے اس دنیا کی قیادت و سیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دی جن کے گال بھوک کی وجہ سے پچک اور پیٹ کمر کے ساتھ لگ گئے تھے،جن کی تلواروں کے نیام تک میسر نہیں تھی اور پرانے چیتھڑوں سے ان تلواروں کو ڈھانک کر رکھتے تھے۔وہ کیا صفات تھیں کہ ان کے ہاتھوں میں صرف سیاسی نہیں بلکہ دنیا کی علمی اورسائنسی قیاد ت بھی آگئی ۔
وہ جن کے شہر اور شہری سہولیات ساری دنیا کیلئے ایک نمونہ بن گئیں۔دنیا کو اس وقت معلوم ہوا کہ گلیاں اور سڑکیں پکی اینٹوں اور پتھروںسے کس طرح بنائی جاتی ہیں۔حمام میں گرم پانی بھی ہوتا ہے،گلیوں میں رات گئے چراغ بھی روشن کئے جاتے ہیں تاکہ راہگیروں کو رات چلنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔وہ جو فلکی سیاروں کی چالوں کیلئے رصد گاہوں کے امین بنے،جو الجبرا،فزکس،کیمسٹری اور طب کے امام ٹھہرے اور آج کی تمام سائنسی ترقی میں ان کے ایجاد کئے فارمولے ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیںاور پھر کئی صدیوں تک ان کا راج بھی رہا،کیا یہ سب دنیا کے کسی بھی مروجہ سا ئنسی اور تہذیبی اصولوں کے تحت ممکن ہوا تھا۔
ایسے ہی ایک قوم منگولیا کے ریگستانوں سے اُٹھی تھی، چنگیز خان نے اس قوم کے چند قبیلوں کو متحد کیا تھا اور پھر یہ قوم طوفان کی طرح اس پورے علاقے کو روندتی ہوئی گزر گئی لیکن آج اس قوم کا تاریخ میں ظلم ،بر بریت کی داستانوں کے علاوہ کوئی ذکر نہیں ملتا اور ساری دنیا میں ایک نفرت کی علامت کے علاوہ کچھ بھی ان کے حصے میں نہیں ہے مگر عرب کے ان جاہل،گنوار اور اَن پڑھ بدوؤں نے ایسا کیا کمال کر دیا تھا کہ دنیا کا کوئی بھی مؤرخ عصبیت کے باوجود آج بھی ان کوفن تعمیر ،فلسفہ، طب ،خطاطی اور دوسرے بیسیوں علوم کا ماخذ،محقق اور استاد مانتا ہے ۔یہ سب کمال اور ہنر ان کے دروازوں پر کیوں دستک دینے چلے آئے۔اس لئے کہ ان میں میرے پیارے ختمی الرسل محمدﷺ کے تزکئے نے وہ خصوصیات پیدا کر دی تھیں جن کی بنیاد پر خالق کائنات مہربان ہو تا ہے۔ وہ اپنے مربی سے جن کو وہاں کا بچہ بچہ امین و صادق کے ناموں سے جانتا تھا، اپنے رب کا یہ فرمان سن کر کانپ اٹھے تھے کہ خبردار!تمہیں کسی قبیلے کی محبت اس بات پر مجبور نہ کردے کہ تم انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ دو۔انہیں اس بات کا قوی یقین تھا کہ اگر ہم نے اس زمین پر اللہ کا بتایا ہوا نظام عدل قائم کر دیا تو وہ ہم پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کے خزانوں کی بارش کر دے گا۔یہی وجہ ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب فتوحات کا دروازہ کھلا تو ایک معرکہ میں مال غنیمت کے اس قدر ڈھیر لگ گئے کہ اطراف میں بیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ان نعمتوں کو دیکھ کر خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ اور ان کے ساتھیوں نے رونا شروع کر دیا کہ کہیں آخرت کی نعمتوں کی بارش دنیا میں تو نہیں شروع ہوگئی۔انہوں نے اپنے آقا و مربی ختمی الرسل محمدﷺ سے سن رکھا تھا کہ مومن بدکار ہو سکتا ہے،چور ہو سکتا ہے کہ گناہ اس سے سرزد ہو جائیںلیکن مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔انہوں نے اپنے آقا و مربی ختمی الرسل محمدﷺ سے یہ بھی سن رکھا تھاکہ جب ایک شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جسم سے ایک ایسی بدبو نکلتی ہے کہ رحمت کے فرشتے اس سے کئی فرسنگ دور بھاگ جاتے ہیں ۔یہی سچ بولنے کی صفت نے اس دور کی تاریخ میں لوگوں میں اعتراف جرم کی یہ جرأت پیدا کی انہوں نے خود زنا کے جرم کا اقرارکیا اور سزا یاب ہونے کیلئے اپنے آپ کو پیش کیا۔انہیں اپنے وعدوں کا پاس تھا کہ ان کا رب ان سے یہ کہتا ہے کہ تم سے تمہارے وعدوں کے بارے میں دریافت کیا جائے گا ۔یہ وہ کمال تھا جومیرے پیارے ختمی الرسل محمدﷺ نے ان کی زندگیوں میں پیدا کیا تھا ۔
انہیں یہ بھی واضح طور پر بتا دیا گیا تھا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور جب اس کے باس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔اس امت پر ہی نہیں بلکہ اس پوری دنیا کی ترقی کی بنیاد ہی ان تین ستونوں پر رکھی ہوئی ہے۔ ہماری عافیت دین حق کی انہی گم گشتہ اقدار کی طرف لوٹ جانے میں ہے ۔ ا سی مراجعت الی الاصل سے ہماری کامرانی مشروط ہے ، اور ہمارے ذمہ صداقت شعاری کی مشعل یہ کہہ کر سپرد کی گئی ہے کہ ہم جہاں بھی ہو عدل و انصاف سے کام لیں اور دنیا وآخرت کی فلاح کا سہرا خود اپنے سر باندھ لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں