اور ایسے لوگ بھی توبے شمارہیں جواللہ کی عطاکردہ بے شمارنعمتوں سے کچھ حصہ ان کودے دیتے جوبے وسیلہ ہیں تاکہ ان کے چہروں پربھی مسکراہٹ آ جائے ،ان کی آنکھوں سے اداسی ایک دن کیلئے ہی سہی،مفقودہو جائے اورخوشیاں رقص کرنے لگتیں۔مجھے مدینہ منورہ کاوہ یتیم بچہ بھی یادآجاتاہے جس کے سرپر رحمت العالمین رسول اکرم ﷺنے ہاتھ رکھاتو اسے دنیا کی سب سے بڑی نعمت مل گئی تھی۔کیااس کے امتیوں کورحمت العالمین رسول اکرم ﷺکی یہ سنت یاد نہیں رہی؟تم نیکی کونہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں(خداکی راہ)میں خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیزرکھتے ہو۔اور پھرفرمایا”کیاقرآن میں یہ نہیں کہا گیا کہ”أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ”تم نے دیکھااس شخص کوجو آخرت جزاوسزاکوجھٹلاتاہے؟وہی توہے جویتیم کو دھکے دیتاہے،اورمسکین کوکھانادینے پرنہیں اکساتا”۔
یعنی نہ اپنے نفس کواس کام پرآمادہ کرتاہے،اورنہ اپنے گھروالوں سے کہتاہے کہ مسکین کوکھانادیاکریں،اورنہ لوگوں کو مسکین کی مددپراکساتاہے۔سبحان اللہ! رب العزت نے یتیموں اور مسکینوں سے بدسلوکی کرنے اورکھانانہ دینے یادوسروں کو اس کیلئے آمادہ نہ کرنے کاتعلق”یوم دین”کوجھٹلانے سے جوڑاہے۔یعنی یتیموں اورمسکینوں کی مددنہ کرنے والے وہ ہیں جویوم آخرت اورجزاوسزاپرایمان نہیں رکھتے اورظاہرہے انہیں مسلمان نہیں کہاجاسکتا۔توگویامسلمان ہونے اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ یتیموں کوگلے لگایاجائے،ان سے شفقت سے پیش آیاجائے اوریتیموں،ناداروں اور مسکینوں کوخودبھی کھا ناکھلایاجائے اوردوسروں کواس پرآمادہ کرنے کیلئے باقاعدہ مہم بھی چلائی جائے۔
ان آیات مبارکہ کی روشنی میں آج اپنے اپنے کرداراورعمل کاجائزہ لیجئے۔بیشک بنیادی ذمہ داری توحکمرانوں کی ہے جوعوام سے ٹیکس اسی لئے وصول کرتے ہیں کہ عوام کی فلاح وبہبودپر خرچ کیاجائے۔بینکوں کے ذریعے سال پورانہ ہونے اورنصاب کونہ پہنچنے والی رقم پربھی زکوٰةکا ٹ لی جا تی ہے تاکہ ناداروں پرصرف کی جائےلیکن پھربھی ناداروں،غریبوں اورمسکینوں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے۔ایساکیوں ہے؟کیامسلمانوں کے حکمران یوم آخرت پریقین نہیں رکھتے،یانظام زکٰوة صحیح طورپر نافذنہیں کرسکے۔
اپنے اطراف میں نظرڈالئے آپ کوکتنے ہی نادار،مسکین اوریتیم بچے کوڑے پررزق تلاش کرتے نظرآجائیں گے۔ ایسے بچے تواب ہرجگہ اورہرشہرمیں آپ کو ملیں گےجوکچرے میں پھینکے گئے گلی سڑی غذاسے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں”کیاتم نے دیکھاان لوگوں کوجوجزاوسزاکوجھٹلا رہے ہیں ؟”کیاہم بھی توان میں شامل نہیں؟ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں،ایک اسلامی ملک میں جگہ جگہ ننگے بھوکے لوگوں کی بھیڑنظرآئے اور معاشرہ ان سے آنکھیں چرا لے؟فرمان الہیٰ تویہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک نیکی کونہیں پہنچ سکتے جب تک وہ اپنی ایسی چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کر دیں جوان کوبہت عزیزومحبوب ہیں۔ہم روزے رکھ کر،نمازپڑھ کر،حج اورعمرے کی ہرسال سعادت حاصل کرکے خودکونیکوکاروں میں شمارتوکرتے ہیں، پڑوسی بھوکاہو،محلے میں یتیم،مسکین اورناداربیوائیں بے سہاراہوں اورہم عمرے کیلئے دوڑے چلے جائیں جوفرض نہیں ہے۔حج بھی زندگی میں صرف ایک بارمخصوص شرائط کے ساتھ فرض کیاگیاہے،پھربھی کتنے ہی لوگ فخریہ گنواتے ہیں کہ انہوں نے کتنے حج کرلئے۔گھرکے باہرنام کی تختی پرجلی حروف میں”الحاج”لکھوارکھا ہے۔ہرکسی سے”حاجی صاحب”سننے میں سرشاری محسوس کرتے ہیں لیکن یہ توبتائیں کہ اللہ کی راہ میں کتناخرچ کیا،کتنے یتیموں، ناداروں اورمسکینوں کوسہارادیا،اپنی کتنی محبوب اشیاء اللہ کی راہ میں خرچ کردیں، ایساہوتاتوآج کوڑے کے ڈھیر پریہ بچے نظرنہ آتے جنہیں دیکھ کریہ تمیز کرنامشکل ہوگیاہے کہ یہ انسان کے بچے ہیں یاپھراسی کوڑے کرکٹ اورکچرے کاحصہ!
اللہ کاشکرہے کہ کئی تنظیمیں ان حالات میں بھی یتیم،مسکین اورناداربیواوں کی نہ صرف خودمددکررہی ہیں بلکہ دوسروں کوبھی اکسارہی ہیں۔شاید اسی لئے زلزلے آآکرپلٹ جاتے ہیں اور آسمان سے بارش بھی برس جاتی ہے کہ کھیتیاں سوکھنے نہ پائیں لیکن ہرکوشش ناکافی ہے کہ غربت میں اضافے اور یتیموں، مسکینوں ناداروں کی تعدادبڑھانے کی منظم مہم اس سے کہیں زیادہ شدیدہے۔آگے بڑھئے آپ کواپنے عزیزوں رشتہ داروں میں ایسے سفید پوش،نادار غریب تو مل ہی جائیں گے جوآپ کی توجہ اورمدد کے طالب ہیں۔مشکل یہ ہے کہ اپنے کسی عزیز یارشتہ دارکو دیتے ہوئے دل کے کسی گوشے میں برتری کا احساس ہر نیکی برباد کردیتا ہے ،لیکن اگر یہی کام اس طرح کیاجائے کہ یہی کام اپنے کسی ایسے دوست کے ذریعے کریں جوان کیلئے اجنبی ہو تو پھر دونوں اطراف میں خیرباقی رہتی ہے۔
اس وقت حالات بہت ہی خراب ہیں،تنگ گلیوں اورسسکتی خیمہ بستیوں میں زندگی کے روزو شب سے لڑتے ہوئے،مرتے اورجیتے ہوئے ان لوگوں کو بھی دیکھیں،جنہیں کچھ ضرورت ہے کہ ان کاسب کچھ لٹ چکاہے،ہم اپنی زیست کے پیہم مسرت خیزلمحوں سے ایک ساعت ہی بھیک دے دیں،انہیں صرف یادہی کر لیں۔کیا اپنوں ہی ہاتھوں اجاڑے جانے والوں، یتیم بنائے جانے والوں بچوں کیلئے بھی ہمارے پاس کچھ ہے؟یاد اپنی جگہ لیکن یادکرلینے سے نہ پیٹ بھرتاہے نہ تن ڈھکتاہے اورنہ ہی ہم نیکی کوپہنچ سکتے ہیں کہ ہم نے تواپنی محبوب اورعزیزچیزوں،مال ومتاع کواپنی بغل میں داب رکھاہے کہ کہیں خرچ نہ ہو جائے۔ عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کادیاہواہے اوراللہ ہم سے مانگتاہے،اپنے لئے نہیں،ہمارے ہی بہن بھائیوں کیلئے،تب بھی ہمارے ہاتھ ہماری گردنوں سے بندھے ہوئےہیں ۔کیاتم نہیں دیکھااس شخص کوجوروزجزا وسزاکو جھٹلاتاہے جویتیم کودھکے دیتاہے اورمسکین کاپیٹ نہیں بھرتا۔دیکھئے یہ ہم خودتونہیں؟