How long is this spectacle?

یہ تماشہ کب تلک؟

:Share

ہاں ایساہی ہوتاہے۔میں کاچکرکبھی ختم نہیں ہوتا۔بس میں کاچکر۔دھوکاہی دھوکااورخودفریبی۔دربارِعالیہ میں مسندِنشین خوشامدپسندحکمران اور چاپلوس مشیرانِ کرام ،جھوٹ،غلط پالیسیوں کااجراء اورعوام کادرووغم یکساں کیسے ہوسکتے ہیں!ہوہی نہیں سکتے۔نہیں جناب آپ نے بجاارشاد فرمایاآپ ہی تو صحیح فرماتے ہیں آبِ زرسے لکھنے کے قابل ہیں آپ کے ارشاداتِ عالیہ۔درنایاب ہیں آپ،نجات دہندہ اورزمین پرخداکاسایہ۔رحمتِ باری تعالی اور اوتارِزمانہ ہیں آپ سرکارآپ جئیں ہزاروں سال سداجئیں کانعرہ۔اورخود فریبی میں رچابسافریب خوردہ انسان۔اتنی آوازوں میں کون اپنے آپ میں رہتاہے۔جامے سے باہرہوہی جاتاہے۔

لیکن کون جیاہے سدا!کوئی بھی نہیں۔سب کوچلے جاناہے۔زندگی پرموت کاپہرہ ہے۔نہیں بچاکوئی۔کوئی بھی تونہیں بچالیکن کون سمجھائے جب قلب سیاہ ہوکر پتھربن جائے چاہے دھڑکتاہی ہو،اس سے کیاہوتاہے!ہاں پتھرتوپتھرہوتاہے۔فریب ہی فریب اوردھوکاہی دھوکا۔زمین پرپاں ٹکنے ہی نہیں دیتایہ دھوکا۔چاہے کچھ کرلیں ہاں کچھ بھی،نہیں بچ سکاکوئی بھی موت کے منہ سے۔بے حس وسفاک موت،کسی کوخاطرمیں نہ لانے والی۔ہاں وہ کسی کی بھی دھمکی نہیں سنتی،کسی کے نام ونسب، منصب وجاگیرسے اجنبی موت لیکن پھربھی جیئے جیئے سداجیئے کاخمار۔ایسانشہ جوسارے نشے کودوآتشہ اورسہ آتشہ کردے۔ آہ نہیں بچا کوئی۔آگ وخون کی بارش کرنے والے بھی اورمظلوم،معصوم اورمقہوربھی۔نہیں کوئی نہیں بچالیکن پھرسب ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔تب خیال آتاضرورہے لیکن ساعت ولمحات بیت چکے ہوتے ہیں،سب ٹھاٹھ پڑارہ جاتاہے،پھرپل کی خبرنہیں ہوتی حالانکہ سامان سوبرس کا دھراہوتاہے۔

وہ مجھے اکثرکہتاہے کوالٹی لائف ہونی چاہیے۔ہاں وہ اسی طرح کی زندگی بسرکرتاہے۔ہرچیزوافراوروقت نپاتلالیکن کیایہ ہے کوالٹی لائف!اچھی نوکری کیلئے بہترین تعلیم حاصل کرنا ۔پھرپیسے جمع کرنااورکرتے ہی چلے جانا۔پھرایک خوب صورت لڑکی سے شادی۔ایک آسائشوں بھراگھراوراس کے لان میں بچھی ہوئی آرام دہ کرسی پرجھولتے ہوئے گپ شپ ۔بس یہ ہے آج کی کوالٹی لائف۔کیایہی ہے زندگی!میراایک دیہاتی دوست بہت ہنستااورکہتا تھا:کچھ لوگوں کی زندگی پتاہے کیسی ہوتی ہے؟میں کہتانہیں،توکہنے لگا:ان کی زندگی ہوتی ہے”نہ ہم کسی کے نہ ہماراکوئی”۔کسی سے کوئی مطلب ہی نہیں بس میں،میں اورمیں کاچکر۔

زندگی موت کی امانت ہے۔ان کایہ جملہ ہروقت میری سماعتوں میں رس گھولتاہے۔میں اکثران سے ملتاتھا۔بس ہروقت ایک ہی بات تھی ان کی،پیٹ کی نہ ماننایہ کبھی نہیں بھرتا۔ دنیابھرکی نعمتیں اس پیٹ میں ڈال لے،اگرایک وقت کافاقہ آگیاتوہٹ دھرمی سے کہنے لگتاہے میں نے توآج تک کچھ کھایاہی نہیں ۔ پیٹ بھی ایک جہنم ہے۔کیاتشبیہ ہے یہ۔ زندگی موت کی امانت ہے،مت بھولنا۔ہم اگربھول بھی جائیں تب بھی کیاہوگا؟کچھ نہیں۔خودکو فریب دیں گے۔موت توہمیں نہیں بھولتی۔زندگی کے ساتھ ہم سفرموت،کبھی نہیں مہلت دیتی۔آکررہتی ہے۔

بس ایک فرق ہے۔کس نے کس طرح موت کااستقبال کیا۔بس یہ ہے اصل۔ایک دن انہوں نے مجھے کہاتھا:دیکھ،سامان اول توہوناہی نہیں چاہیے اور اگر ہوبھی تو بس مختصر۔ دیکھ ،موت کی گاڑی زندگی کے ساتھ ہی روانہ ہوتی ہے،تجھے کسی اسٹیشن پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کاکوئی وقت ہی نہیں جو تجھے معلوم ہولیکن آتی بروقت ہے۔اس لیے بس چھوٹی سی گٹھڑی سے زیادہ جمع نہ کرنا،موت کی ٹرین آئے توبس ہنس کھیل کرسوارہوجانا۔ ہوناتو ہے ، توپھرہنس کھیل کرکیوں نہیں اورپھران کانعرہ مستانہ گونجتا”کوئی بھی نہیں بچے گا ،آآمجھے توتیارپائے گی”۔ انسان اوربندہ عاجزلیکن طاقت کے زعم میں لتھڑاہوا۔فریب خوردہ سمجھ ہی نہیں پاتا،بس اتنی طاقت کے نشے میں چورچلاتا رہتاہے:یہاں سے ماریں گے،وہاں ماریں گے،کوئی نہیں بچے گا،نہیں چھوڑیں گے،بس ماریں گے ہم، ہلاک کردیں گیاورپھرآگ وخون کی بارش برستی ہے اور موت کاہرکارہ پروانہ اجل تقسیم کرنے لگتاہے اورپھرسب رخصت ہوجاتے ہیں، سب نے ہوناہے رخصت۔

مجھے یادآیا،اس کی گردن تن سے جداکرنے لگے توپکارنے لگا:رب کعبہ کی قسم،میں توکامیاب ہوگیا۔ہاں یہ بھی ایک موت ہے،بارود کی بارش میں معصومیت کاقتل عام۔کوئی بھی نہیں بچے گاجناب۔زندگی موت کی امانت ہے اورمہلتِ عمل بہت تھوڑی۔ دنیادھوکاہے،سراسردھوکا۔ کسی کی رہی نہ رہے گی،اپنے اپنے حصے کی آگ اوراپنے اپنے حصے کے پھول لیکرسب چلے جائیں گے۔بس دیکھ کہیں تواپنے لیے آگ ہی آگ توجمع نہیں کررہا۔اس کی ماں نے اس ریگستان کی ٹھنڈسے بیتاب ہوکراس سے کہاتھا:جاآگ لا۔بہت دیربعدوہ خالی ہاتھ لوٹا ماں کے حضوردست بدستہ عرض گزاری:ماں کہیں سے آگ نہیں ملی”تب ماں نے تلخ ہوکرپکارا”جاکرجہنم سے ہی لے آتا۔”توپھرماں کے حضوراپناسرخم کرکے عرض کی”ماں وہاں بھی گیا تھا،وہاں کے نگراں نے مجھے کہاجااپنارستہ لے، ہرانسان اپنی آگ دنیاسے خودلیکریہاں آتاہے” ۔

اب ایک بارپھرحکومت اوراپوزیشن آمنے سامنے آگئے ہیں،مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں،ملک دیوالیہ کی ہوشرباخبروں سے عوام کوہیجان میں مبتلاکر دیاگیاہے اورملک کوبچانے کاواحدراستہ نئے انتخابات کانعرہ لگاکرلانگ مارچ کی رونق بڑحائی گئی لیکن کسی کوبھی اندرونی کہانی سے آگاہ نہیں کیاگیاکہ یہ ملین ڈالر رازصرف کپتان کاتیارکردہ اسی کے دل میں پوشیدہ ہے اوروہ اپنے اس طلمساتی لائحہ عمل کولانگ مارچ کے اپنے خطاب میں اپنے یوتھیوں کے سامنے رکھیں گے۔سوچنے کی بات تویہ ہے کہ جب ملکی خزانہ ہی خالی ہے توانتخابات پراربوں روپے کے اخراجات کے بعدوہ کون سی سلیمانی ٹوپی ہے ، جس کوپہن کرملکی خزانے کی ابترحالت کوبہترکیاجاسکے گا؟ایک مہینے سے اس تجسس کے غبارے میں خوب ہوا بھری گئی اوریہ معاملہ تواس وقت اہمیت کے لحاظ سے آسمان کوچھونے لگاجب بدقسمتی سے کپتان پروزیرآبادمیں قاتلانہ حملہ ہوگیاجس میں ایک قیمتی جان چلی گئی اورکئی افرادزخمی ہوگئے جس میں کپتان بھی شامل تھا۔اللہ کاشکرہے کہ کپتان کی جان بچ گئی وگرنہ ابھی تک پاکستان کی سیاسی روایات میں شہیدہمیشہ زندہ اوراس کے شیدائی شرمندہ رہتے ہیں۔

اسلام آبادکوفتح کرنے والالانگ مارچ اپناپڑاؤ فیض آبادراولپنڈی بھی نہ کرسکااوراسے سکستھ چوک میں پناہ ملی۔دھرنے کیلئے خیمہ بستی آبادہونے سے پہلے اجڑگئی اورآخرمیں کپتان نے اپنے اس اعلان میں لانگ مارچ کواپنے ہاتھوں یہ کہہ کرختم کردیاکہ وہ ملک کی تمام اسمبلیوں سے مستعفی ہورہے ہیں گویاجو ملک کی قومی اسمبلی ختم کرنے آئے تھے،اپنے ہی ہاتھوں اپنی اسمبلیوں کے کریاکرم کرکے لوٹ گئے ہیں۔ ملک کے معاشی حالات کو ٹھیک کرنااگر مقصود ہے توسپریم کورٹ ”بینکنگ کورٹ ”بنانے کا حکم دے چکی ہے کہ قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کروائے جائیں اور سرکلر 29 کاغلط استعمال کرکے قرضے معاف کرنے والے بینکوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے اورملک کی لوٹی ہوئی دولت کودوبارہ قومی خزانے میں جمع کروایا جائے کہ یہ قوم کی امانت ہے لیکن حکومت اوراپوزیشن دونوں نے اس معاملے پرکیوں خاموشی اختیارکررکھی ہے؟شنیدہے کہ یہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے پیٹی بند بھائیوں پرآنچ نہیں آنے دیں گی اورصرف پاکستانی عوام کوپرفریب نعروں میں الجھاکرمسنداقتدارکیلئے یہ سیاسی جنگ جاری رہے گی۔آخرمیں صرف اتنابتانامقصودہے کہ خزانہ خالی ہونے اور اس معاشی ابتری میں بھی یہ لانگ مارچ غریب عوام کے ٹیکسوں کاپچاس کرو ڑ ڈکارگیاہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں