خاموشی کی زبان آپ سمجھتے ہیں؟ نہیں…..تواس میں میراکیاقصور!خاموشی میں ایک چیخ پوشیدہ ہوتی ہے،ایک احتجاج ، ایک طوفان،اورجب خاموشی بول پڑے توگھمسان کارن پڑتا ہے ،پھرکوئی نہیں بچتا……جی،کوئی بھی نہیں۔وہ جومحلات میں آسودہ ہیں اوروہ جوکھولیوں اورجھونپڑیوں میں تڑپ رہے ہیں،سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔بس دیکھوایک انتظارکے بعد کیا ہوتاہے،حادثہ یک دم تونہیں ہوتاناں!برسوں وقت اس کی پرورش کرتاہے،پالتاپوستا ہے،پھرایک دن لاواپھٹ پڑتاہے،پھروہ دہکتی آگ کچھ نہیں دیکھتی ،مال ومنال،عزت وآبرو، ذلت ورسوائی،زرداراوربے زرکچھ بھی نہیں ۔ ہمارے حکمران قوم کے جذبات کے ساتھ کھلواڑکرکے خودکومسیحاثابت کرنے کاسہرااپنے سرسجانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔قوم کوبھیڑ بکریاں سمجھ کر، ان کے مصائب کابڑی دلسوزی سے ذکرکرکے ہیرو بننے کی اداکاری کمال کی حدوں کوچھورہی ہے جبکہ آپ کے اعمال کے آئینے توبکھرے پڑے ہیں اوروہ ہمیں شکل دکھانے سے بازنہیں آتے۔آئینے کی لاکھ کرچیاں کردیں،وہ کبھی اپناکام نہیں چھوڑتے۔وزیراعظم نے اپنے خطاب کوایک شعرپر ختم کرکے دکھوں اورغموں سے نڈھال قوم کاخوب مذاق اڑایاہے:
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تووقت ہے سورج ترے نکلنے کا
وزیراعظم کے اس خطاب نے مجھے چونکادیاکہ ان کویہ علم ہی نہیں کہ اب وہ ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پرہیں جہاں ان کے اشاررے کی تعمیل اورتکمیل کیلئے غلام قطاردرقطارمیں کھڑے منتظر ہیں کہ ظل سبحانی کے منہ سے جھڑنے والے ہرپھول کو مقتدرحسینہ کے جوڑے میں سجانے کیلئے بے تاب ہیں لیکن ان کے خطاب میں اب بھی دھاڑتا ہوااپوزیشن لیڈرسامنے آگیا۔ان کے خطاب میں جذبات،الزامات،خواہشات اورماضی کو کوسنے کے بھاری بھرکم الفاظ کے سواکچھ تھاہی نہیں!میں تویہ امید لگائے بیٹھا تھاکہ ملک کودرپیش مسائل میں سرفہرست بیرونی قرضوں سے نجات کاکوئی فارمولہ سامنے آئے گا،مہنگائی کے ہاتھوں پس جانے والی قوم کے مسائل کوجس دلسوزی سے ذکرکیاہے،ان کے علاج کیلئے کسی پلان کااعلان ہوگا،کسی ٹھوس لائحہ عمل اوراس کے حصول کیلئے کوئی روڈمیپ سامنے لایاجائے گالیکن وہ تواپنے دکھ دردکے اظہارکے ساتھ ساتھ قوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر تعزیت کرتے دکھائی دیئے۔کاش انہیں کوئی جاکریہ بتائے کہ وہ اب اپوزیشن لیڈرنہیں بلکہ وزیراعظم ہیں اورقوم کے جتنے مسائل اوردکھ دردکاجوتذکرہ فرمایاہے،اب ان کے علاج کی ذمہ داری ان کی ہے۔
وزیراعظم نے بڑے دبنگ لہجے میں فرمایاکہ اشرافیہ کواپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے؟توآپ کیااشرافیہ نہیں،اگرنہیں توکس کی طرف آپ کااشارہ ہے،کھل کراس کانام کیوں نہیں لیتے اوراس اشرافیہ پرہاتھ کون ڈالے گا؟اشرافیہ کے بجٹ میں اضافہ آخرکس کے حکم سے کیاجاتاہے؟آپ ہی توان کے اخراجات کوبجٹ میں بڑھاتے ہیں توشکائت کس سے کررہے ہیں؟کیایہ وہی اشرافیہ نہیں جن کی بیرون ملک جائیدادیں اورپلازے بنے ہوئے ہیں؟سوئس بینکوں میں اربوں ڈالرپڑے ہوئے ہیں۔آپ کے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار جب آپ کے بھائی کے دورحکومت میں وزیرخزانہ تھے،توانہوں نے قوم کوسوئس بینکوں سے دوسوارب ڈالرواپس لانے کی خبرسنائی تھی کہ بس معاہدہ ہونے ہی والاہے؟کہاں ہیں وہ دوسوارب ڈالر؟قوم کویہ بتایاجائے کہ اتنے بڑے منصب پربیٹھ کرقوم کو جھوٹے دلاسے دینے اورلالی پاپ دینے والے اب پھرسے اتنے بڑے منصب پرکیوں فائزہیں؟پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعدان کو پاکستان کی ڈوبتی معیشت کامسیحابناکرواپس وطن لایاگیااورانہوں نے وزیرخزانہ کامنصب سنبھالتے ہی سب سے پہلے پاکستان میں عدالتی احکام پرضبط شدہ اپنی ساری جائیدادکوبحال کروایا، کئی برس لندن میں گزارے ہوئے جعلی جلاوطنی کے ایام کی بطورسینیٹر پوری تنخواہ وصول کی اورملکی معیشت کوبحال کرنے کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ایسا رویہ اختیارکیاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے خودآپ نے میڈیاکے سامنے آکراعتراف کیاکہ ہماری ناک سے لکیریں نکلوائی گئی ہیں اوران کے پاؤں چھونے پڑگئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے نااہل فردکوکس کارکردگی اورتجربے کی بناءپرملک کاوزیرخارجہ جیسااہم منصب عطاکیاگیا،کیا پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ اس عہدے کیلئے اپنے بڑے بھائی کے سمدھی ہوناہی کافی ہے۔پاکستان کے آئین میں کہیں نائب وزیراعظم کے عہدے کاذکرتک نہیں لیکن آپ ریاض سعودی عرب میں ورلڈ اکنامک فورم میں اسحاق ڈار صاحب کے ساتھ شریک تھےلیکن آپ کی غیرموجودگی میں چھٹی کے دن اتوارکواسحاق ڈارکے نائب وزیراعظم کی تقرری کانوٹیفکیشن جاری ہوگیا،کیاقوم کے دکھوں کا اس قدردلسوزی کے ساتھ ذکرکرنے والے وزیراعظم اس کی کوئی توجیہ بیان کرسکتے ہیں کہ25کروڑپاکستانیوں کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں کیاگیا؟
ایک طرف آپ ملکی معیشت کی بربادی کارونارورہے ہیں جس میں یقیناًآپ سمیت دوسرے مقتدرسیاستدان اورافرادشامل ہیں لیکن دوسری طرف اسمبلی اورسینیٹ میں بیٹھےغرباءاور مساکین کے کھانے تک میں جوخصوصی مراعات دی جارہی ہے،انہیں پٹرول کی مدمیں الاؤنس دیئے جارہے ہیں،بجلی،گیس کے بل میں سبسڈی دی جارہی ہے،جہازوں کے کرایوں میں خصوصی مراعات،رہنے کیلئے شاہانہ ہوسٹل مہیاکئےگئے ہیں،پھربھی ان کے بجٹ میں اضافہ کیوں کیاگیاہے؟کیابجٹ میں یہ تمام مراعات آپ کے حکم سے نہیں کی گئیں؟یاپھریہ بجٹ بنانے والے کوئی اورہیں،لیکن اپنے خطاب میں اپوزیشن لیڈرکے فرائض انجام دے رہے ہیں!پارلیمنٹ کے بجٹ میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیاہے۔ووٹ لینے سے پہلے یہاں کے مکیں توعوام کی خدمت کانعرہ لگارہے تھے اورخدمت تو اپنی جیب سے کرنے کی بجائے اس کاسارابل عوام کاخون نچوڑکر کیوں وصول کیاجارہاہے؟
اپنے خطاب میں بجلی کی چوری کی شکائت کررہے ہیں۔۔۔آخرآپ کس سے شکائت کررہے ہیں،اگربجلی چوری ہورہی ہے توبجلی چوروں کوکون پکڑے گا؟فری بجلی کون استعمال کررہا ہے؟کون اس کوروکےگاَ؟مجھے کسی ایسے ملک کی مثال دیں جہاں بجلی، گیس اوردیگریوٹیلیٹیزمیں کوئی مراعات لے رہاہو۔کیاآپ کوعلم ہے کہ دنیابھرمیں اسرائیل کاوزیراعظم نیتن یاہو لعنت ملامت کی زد میں ہے لیکن وزیراعظم کے دفترکابروقت بل ادا نہ کرنے کی پاداش میں سال میں تین دفعہ بجلی منقطع کردی گئی لیکن آپ اپنے خطاب میں قوم کے غریب افراد کے ساتھ جہاں ہمدردی کااظہارفرمارہے تھے،وہاں ان کویہ بھی بتادیاجاتاکہ آپ ہی کے پش کردہ بجٹ کے مطابق رواں مالی سال99 کروڑ30لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔وزیراعظم ہاؤس کیلئے گزشتہ بجٹ کی نسبت26 کروڑ73 لاکھ روپے زیادہ مختص کیے گئے ہیں۔آئندہ مالی سال کیلئے ایک ارب26کروڑروپے سے زائدکابجٹ مختص کیاگیاہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس نے مختص بجٹ سے ایک کروڑ80 لاکھ 48ہزارروپے زیادہ خرچ کیے ہیں۔اسی طرح گذشتہ سال کے بجٹ میں ایوان صدر کیلئے 80کروڑروپے مختص کیے گئے تھے لیکن ایوان صدرنے اپنے بجٹ سے گیارہ کروڑروپے زیادہ خرچ کیے۔
وزیراعظم صاحب!آپ تواپنے خطاب میں اشرافیہ کے شاہانہ اخراجات کوکم کرنے کاکہہ رہے تھے،کیا یہ شاہانہ اخراجات کی مد میں نہیں آتا؟کیایہ اخراجات آپ اپنی جیب سےاداکریں گے یاپھرقوم کے ٹیکس سےاداہوگا؟توپھرشکائت کس سے کررہے ہیں؟آپ کے دل میں ملک کے غریب آدمی پرٹیکس کے بڑھ جانے کابہت بڑابوجھ ہے۔یہ بتائیں کہ بجٹ میں یہ ٹیکس کس کے حکم سے لگایاگیاہے؟بجٹ آپ کی حکومت نے پیش کیاہے یاپھرجیل سے عمران خان نے یہ بجٹ آکربنایاہے؟
گھرمیں جو آگ لگی ہوئی ہے اورخلقِ خدا کودن دیہاڑے کندچھری سے جوذبح کیاجارہاہے،آپ کے پیش کردہ بجٹ میں آپ نے کون سی رعائت دی ہے۔ایک عام شہری اپنے درداور کرب کو کس کے سامنے جاکربیان کرے کہ آپ کے شاہانہ پروٹوکول کودیکھ کر آپ سب مقتدر اشرافیہ توکسی اور سیارے کی مخلوق لگتے ہیں جویہاں صرف ہم پرحکومت کرنے کیلئے آتے ہیں،اپنی باری لیکر اپنی راہ لیتے ہیں اورآپ کادوسراساتھی ایک خاص ایجنڈے پرکام کرنے کیلئے آجاتاہے۔ ابھی کل ہی ایک عالمی شہرت یافتہ میرے ایک انگریزپروفیسرنے مجھے ایک ویڈیوارسال کی جس میں ہمارے صدرآصف زرداری اپنے علاقے میں42گاڑیوں کے حفاظتی حصارمیں عیدکی نماز کیلئے تشریف لے جارہے تھے۔میراسرشرم سے اس لئے جھک گیاکہ ایک طرف توہم بھکاریوں کی طرح عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے گڑگڑارہے ہیں اوردوسری طرف تعیشات کایہ عالم ہے۔جس جمہوریت کا نعرہ آپ الاپ رہے ہیں آپ توسال میں برطانیہ کے کئی چکرلگاتے ہیں،یہاں کے وزیراعظم کاکوئی پروٹوکول دیکھا ہے،اس کی کارپرتوجھنڈہ بھی نہیں ہوتااور10/ ڈاؤننگ سٹریٹ میں وزیر اعظم کافلیٹ تین بیڈروم پرمشتمل ہے اورگھرکے کام کیلئے کوئی ملازم نہیں اوریہاں کے وزراءاوردیگرعہدیدارعام شہریوں کی طرح پبلک ٹرانسپورٹ پرسفرکرتے ہیں۔معاملہ صرف یہاں تک نہیں بلکہ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کوچلتی کارمیں سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر جرمانہ عائدکردیا گیااورجرمانے سے قبل انہوں نے اپنی اس غلطی پر ساری قوم سے معافی مانگی اورپولیس نے باقاعدہ اس سارے واقعہ کی تصدیق بھی کی۔کیاآپ نے اپنے بجٹ میں اس طرف کوئی توجہ فرمائی ہے کہ سالانہ کروڑوں روپے پروٹوکول پراٹھنے والے اخراجات سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔آخرجب آپ حکومت میں نہیں ہوتے توتب آپ کے ساتھ ایساشاہانہ پروٹوکول نہیں ہوتا۔
لیکن مجھ جیسا ایک عام انسان اپنے درداورکرب کووہ لفظ بھی عطا نہیں کرسکتاجوآپ کے شاہانہ اندازکوتبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتاہواورآپ کی طرح میڈیا پر قوم کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے ایسالاجواب خطاب بھی کرسکے حالانکہ برسہا برس سے صحافت کی صحرانوردی میں عمرگزری ہے۔بیان کاسلیقہ بھی موجوداورمیڈیاسے بھی پرانارشتہ ہے لیکن کیاکروں…… دردتو دردہ ے ناں، جوہرانسان کے دل اورسینے میں ہوتاہے،پھروہ یہ دردلیکرکہاں جائے،کس سے بیان کرے،کس کودکھائے یہ زخم؟وزیر اعظم صاحب! میں آپ سے جوبات کروں گا،آپ کہیں گے، نیاکیاہے اس میں؟لیکن ظل الٰہی!ہردرددوسرے سے جداہے،ہرایک اپنے غم میں تنہا ہے۔سناہے کہ دردبانٹنے سے کم ہوجاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تویہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔
پچھلی کئی دہائیاں میں نے بہت کرب میں گزاری ہیں۔یوں لگتاہے کہ اب میرے قلم میں بھی اتنی طاقت نہیں رہی اس کا سہارالے کر یہ بوجھ ہلکا کر لوں ۔اب توہرروزٹی وی پرایسے دل دہلادینے والے مناظردیکھنے کوملتے ہیں کہ سوچتاہوں کہ اگررب کے محبوب پیغمبرﷺکی دعاؤں کاسہارانہ ہوتاتو یقیناً ہماری قوم کایہ مخصوص گروہ ہرروزطوفانِ نوح اورپتھروں کی بارش کا شکاررہتامگرمجھ جیسے ہزاروں یہ سوچنے پرمجبورہیں کہ یہ سلسلہ کب تک یونہی چلے گا؟رزقِ حلال کمانے والوں کی دن بدن سانس کی ڈوری ساتھ چھوڑتی نظرآرہی ہے۔
دوسری طرف تپتی جھلسادینے والی دھوپ میں ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنے لاپتہ پیاروں کی بڑی بڑی تصاویراٹھائے درجن سے زائدعورتیں،معصوم بچے اوران کے لواحقین مارچ کرنے بعد اب اقوام متحدہ کو اس معاملے میں ملوث کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں کہ انہیں اب یہاں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں،اس کے ساتھ ساتھ ان سینکڑوں تارکین وطن جن کی جائیدادوں پرقبضہ مافیااپنے خونی پنجے گاڑچکاہے،اب وہ بھی اپنی درخواستیں لیکراقوام متحدہ کے دروازہ پرنوحہ سنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
میں سوچاکرتاتھاکہ سقوطِ مشرقی پاکستان کاصدمہ کیسے برداشت کیاہوگااہل وطن نے۔اتنابڑاصدمہ سہہ کربھی وہ زندہ بچ گئے، کیسے مرمرکے جئے ہوں گے وہ،میں توان کے حوصلوں کوہمیشہ رشک کی نظرسے دیکھاکرتاتھا۔مشرقی پاکستان کے بنگالی بھی توہم کوقبضہ مافیاکانام دیتے تھے۔اب تک رہ رہ کر سینے میں جودرداٹھتاہے توسوچتاہوں کہ1971ءمیں یہی دردمحسوس کیاہوگا اہل وطن نے۔یہ کسک،یہ چبھن یہ ڈپریشن،مرمرکرجیناکہیں گے اسے آپ یاجی جی کے مرنا۔آپ اسے جوبھی کہہ لیں۔ہم توزندہ ہیں، ہمیں تواپنے حصے کاقرض چکاناہے۔اس پاکستان کوبچانے کیلئے پہلے بھی قربانیاں دیتے آئے ہیں لیکن اس مرتبہ بڑی قربانی کے آثاردکھائی دے رہے ہیں اوروہ قربانی اس تمام اشرافیہ کی ہوگی جس کیلئے قوم کی قوت برداشت کبھی بھی ختم ہوسکتی ہے!یاد رکھیں کہ فرانس کے خونی انقلاب نے بھی بے بس نڈھال عوام کی ختم ہوتی ہوئی قوت برداشت کی کوکھ سے جنم لیاتھااورپھرہر اس فردکا سردھڑسے الگ کردیاگیا تھا جس کے نرم ہاتھ اورکالرسفیدتھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اہل قلم بھی قوموں کی تقدیر کارخ بدل دیتے ہیں،اوران اہل قلم کوغنیمت جانیں جوآج بھی ایسے خطرناک سیلابوں کے آگے بندھ باندھنے کی کوشش کررہے ہیں وگرنہ ہم جیسے تارکین وطن نے احتجاج کے طورپرصرف زرمبادلہ بھیجنے سے ہاتھ روک لیاتوپھرکیاہوگا؟آگ کے شعلے بہت تیزی سے بلندہورہے ہیں۔خطرے سے آگاہ کرناتوخطرے سے بچنے کی تیاری کرناہے ناں۔آپ کوان خطرات سے آگاہ کرنااپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ یہ اشرافیہ،قبضہ مافیاجومختلف عہدوں پربراجمان مقتدرلوگوں کی ملی بھگت سے قوم کولوٹ رہاہے،یہ پاکستانی طالبان،بلوچستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث وطن دشمن افراد،اجرتی قاتلوں اوربھتہ خوروں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں جنہوں نے ملک کے ہرادارے کواپنے گھرکی لونڈی بنا رکھاہے۔ وزیراعظم صاحب!اٹھئے خدارا،اپنے پاکستان کومزید تباہی سے بچالیں،بس آپ کی ذمہ داری اورصرف آپ کی ذمہ داری ہے۔کسی مبلغ یااسکول ہیڈ ماسٹرکی طرح قوم کونصیحتیں کرنے کاوقت نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اوریہ سلسلہ خود آپ کو اپنے گھرسے شروع کرنا ہو گا ۔
کیامحترم وزیراعظم صاحب کواس بات کاعلم ہے جب وہ امریکا کے ایک ہسپتال میں انتہائی نازک حالت میں دنیاومافیہاسے بے خبراپنے رب سے یہ عہد کررہے تھے کہ”اگرمجھے اللہ نے زندگی دی تومیں پاکستان میں حق داروں کی داد رسی کیلئے اپنی جان تک قربان کردوں گا”۔میں یہاں اللہ سے کئے گئے اس عہد کی یاد دہانی کروارہاہوں۔میں نہیں سمجھتاکہ آپ کویہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جناب آپ اب وزیراعظم ہیں، آپ کے حکم سے ملک کاکاروبار چل رہاہے،آپ خودکہتے ہیں کہ ہمیں عوام نے اس منصب کیلئے منتخب کیاہے توکیایہ بھی ہم بتائیں گے کہ آپ کوکس نے اورکیوں منتخب کیاہے۔ یقین مانیں کہ قوم آپ کے خطاب پرمزیدبیوقوف بننے کیلئے تیار نہیں!وزیراعظم صاحب!آپ نے اپنی تقریرکوجس شعرپرختم کیا تھا،اس سے اگلے دو اشعار میں آپ کوسنادیتاہوں!
کہیں نہ سب کوسمندربہاکے لے جائے
یہ کھیل ختم کروکشتیاں بدلنے کا
بگڑگیاجویہ نقشہ ہوس کے ہاتھوں سے
توپھرکسی کے سنبھالے نہیں سنبھلنے کا