Effective and positive use of social media: a necessity

سوشل میڈیاکامؤثراورمثبت استعمال:ایک ضرورت

:Share

سوشل میڈیاانسانی زندگی کاایک اہم حصہ بن چکاہے جودنیابھرمیں لوگوں کے باہمی رابطوں اورمعلومات کی ترسیل میں انقلاب لے آیاہے۔یہ جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کاایک نمایاں مظہرہے ، جس نے نہ صرف مواصلات کوآسان بنایابلکہ عوامی زندگی کے ہرشعبے میں گہرااثرچھوڑاہے۔گزشتہ دنوں میڈیکل پیشہ میں انسانیت کی خدمت میں اپنی تحقیق کی بناء پرنمایاں عالمی حیثیت کے حامل میرے انتہائی محترم دوست نے مجھے لندن یوکے کے ایک بڑے تعلیمی ادارے(یوسی ایل اسکول آف مینجمنٹ)کے استادڈاکٹرکولن فشرکامضمون”سوشل میڈیاپرہمیں تقسیم کرنے کی متحرک قوتیں مزید خراب ہونے والی ہیں”پڑھنے کیلئے ارسال کرکے اس پر لکھنے کی دعوت دی جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ سوشل میڈیااس وقت دنیابھرمیں کس قدر مؤثرہوچکاہ ے کہ اب مغربی معاشرے کے دانشوروں کے خدشات بھی سامنے آرہے ہیں کہ سوشل میڈیابالخصوص”میٹا”کے پلیٹ فارمزپر نفرت انگیزتقاریراورجھوٹ کے سیلاب کے سامنے سچ کوبری طرح مسخ کیاجارہاہے۔

آیئے آج اس مضمون میں،ہم سوشل میڈیاکی تاریخ،اس کے موجودہ حالات،فوائداورنقصانات کے اثرات کاتحقیقی ریفرنسزکے ساتھ تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
سوشل میڈیاکی شروعات1990کی دہائی میں ہوئی جب انٹرنیٹ عام ہوا۔1997میں”سکس ڈگریز”کے نام سے پہلی سوشل میڈیاویب سائٹ منظر عام پرآئی،جہاں صارفین پروفائل بناسکتے تھے اوردوستوں کے ساتھ رابطہ کرسکتے تھے۔2004میں”فیس بک”کے آغازنے سوشل میڈیاکے منظر کویکسربدل دیا۔2006میں”ٹویٹر”اوراب”ایکس”نے مائیکروبلاگنگ کاتصورمتعارف کرایا،جبکہ “واٹس ایپ”(2009)اور”انسٹاگرام” (2010) نے تصاویراورپیغام رسانی کوعام کیا۔جدیدتحقیق کے مطابق،سوشل میڈیاکے استعمال میں2010کے بعدتیزی سے اضافہ ہوا، خاص طورپراب تو موبائل انٹرنیٹ کے فروغ کے بعدطوفانِ بدتمیزی کے سامنے سچ کی روشنی پرجھوٹ اورظلم کے اندھیرے سبقت لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔

سوشل میڈیاکااستعمال دنیابھرمیں بے حدبڑھ چکاہے۔”وی آرسوشل”اور”ہوٹ سوئٹ”کی2023کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 5بلین لوگ سوشل میڈیاپلیٹ فارمزاستعمال کررہے ہیں۔ان پلیٹ فارمزکے ذریعے لوگ خبروں،تفریح،تعلیم،اورکاروبارسمیت مختلف مقاصد کیلئےجڑے ہوئے ہیں۔پاکستان میں بھی سوشل میڈیاکارجحان تیزی سے بڑھ رہاہے۔پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)کی2022کی رپورٹ کے مطابق،ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد124ملین سے تجاوزکرچکی ہے،جن میں سے ایک بڑی تعدادسوشل میڈیااستعمال کرتی ہے۔فیس بک ،ٹویٹر،واٹس ایپ،انسٹاگرام،یوٹیوب،اورٹک ٹاک نوجوانوں میں بے حدمقبول ہیں۔ سوشل میڈیانے معلومات کی ترسیل کونہایت آسان،سہل اورتیزرفتاربنادیاہے۔ایک تحقیق کے مطابق80 فیصدلوگ خبریں حاصل کرنے کیلئےسوشل میڈیاپرانحصارکرتے ہیں۔

سوشل میڈیانے کاروبارکوایک نئی جہت دی ہے۔ای کامرس اورڈیجیٹل مارکیٹنگ نے کاروباری اداروں کواپنی مصنوعات اور خدمات دنیابھرمیں متعارف کرانے کاموقع دیاہے۔”ای کامرس جرنل”کے مطابق،سوشل میڈیاکے ذریعے کیے جانے والے کاروبار میں سالانہ30فیصداضافہ ہورہا ہے۔دوسری طرف سوشل میڈیاتعلیمی موادتک رسائی کاایک اہم ذریعہ بن چکاہے۔طلباءآن لائن لیکچرز،ویڈیوز،اوردیگرتعلیمی موادسے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔”یونیورسٹی آف کیلیفورنیا”کی ایک تحقیق کے مطابق،آن لائن تعلیم نے طلباءکی تعلیمی کارکردگی میں25 فیصدتک بہتری پیداکی ہے۔
سوشل میڈیانے دوردرازکے لوگوں کوایک دوسرے کے قریب کردیاہے۔یہ پلیٹ فارم دوستوں اورخاندان کے افرادکے ساتھ رابطے میں رہنے کیلئےبہترین معاون ہیں۔ہزاروں میل دوروالدین،عزیزواقارب سے رابطے کیلئے مہنگے داموں سے استعمال ہونے والے “زمینی اورموبائل فون”کو یکسرختم کرتے ہوئے سوشل میڈیانے درجنوں مفت پروگرامزکومتعارف کرواکے ایک انقلاب برپاکردیا وہاں اس میڈیانے ایک وقت میں درجنوں ممالک میں بیٹھے عزیزواقارب کوایک ہی وقت میں”ویڈیولنک”کے ساتھ منسلک کردیا۔ سوال یہ ہے کہ ان اداروں نے دنیابھرمیں اپنے صارفین کولاکھوں ڈالرخرچ کرکے یہ مفت خدمت کیوں فراہم کی ہے؟”ہارورڈ بزنس ریویو”کی ایک تحقیق کے مطابق،سوشل میڈیانے60فیصدلوگوں کی سماجی زندگی کوبہتربنایاہے۔

دوسری طرف سوشل میڈیاکے غیرضروری استعمال سے وقت کاضیاع ہوتاہے۔ایک تحقیق کے مطابق،اوسطاًہرصارف روزانہ دو سے تین گھنٹے سوشل میڈیاپرگزارتاہے۔سوشل میڈیاپر موجودغیرحقیقی معیارات اورمنفی تبصرے افرادکی ذہنی صحت پرمنفی اثر ڈال سکتے ہیں۔”امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن “اے پی اے”کی تحقیق کے مطابق،سوشل میڈیاکازیادہ استعمال ڈپریشن اور اینزائٹی میں25فیصداضافے کاسبب بن سکتاہے۔سوشل میڈیاپرشیئرکی گئی معلومات کے غلط استعمال کے خطرات ہمیشہ موجودرہتے ہیں۔”سائبرسیکیورٹی جرنل”کے مطابق، 2021میں دنیابھرمیں80فیصد ڈیٹالیک کے کیسزسوشل میڈیاسے منسلک تھے۔سوشل میڈیاپرجھوٹی خبریں اورافواہیں پھیلاناآسان ہو گیاہے،جوسماجی اورسیاسی مسائل کوجنم دے سکتی ہیں ۔”ریوٹرزانسٹی ٹیوٹ”کی ایک رپورٹ کے مطابق70فیصدلوگ غلط معلومات کوبغیرتحقیق کے شیئرکرتے ہیں۔

سوشل میڈیاکی سب سے بڑی خرابیوں میں سے ایک اس کاسیاسی مقاصدکیلئےغلط استعمال ہے۔تیسری دنیاکے ممالک،جیسے پاکستان،میں سیاسی جماعتیں اوردیگرعناصرسوشل میڈیاکا استعمال پروپیگنڈاپھیلانے اوراپنے مخالفین کوبدنام کرنےکیلئےکرتے ہیں۔جھوٹی خبروں اورگمراہ کن معلومات کے ذریعے عوام کوبھڑکایاجاتاہے،جس کے نتیجے میں سیاسی انارکی پیداہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں دشمن ممالک بھی سوشل میڈیاکے ذریعے سیاسی اورسماجی مسائل کوہوادینے میں ملوث ہیں۔”عالمی میڈیا”کی ایک رپورٹ کے مطابق،بعض ممالک منظم طریقے سے فیک اکاؤنٹس اوربوٹس کے ذریعے غلط معلومات پھیلاتے ہیں تاکہ پاکستان میں عدم استحکام پیداکیاجاسکے۔یہ پروپیگنڈامقامی تنازعات کوبڑھاوادینے اورعوام کوتقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتاہے۔

کمیونٹی نوٹس کے نظام اکثرمنظم گروہوں کے سیاسی ایجنڈوں کے ذریعے استحصال کے خطرے سے دوچارہوتے ہیں۔مثال کے طورپر،چینی قوم پرستوں نے مبینہ طورپرویکیپیڈیامیں چین-تائیوان تعلقات سے متعلق اندراجات کوچین کے حق میں تبدیل کرنے کیلئے کامیاب مہم چلائی ہے اوروہ کسی حدتک اپنے مقاصدکی تکمیل میں کامیاب بھی نظرآتے ہیں۔اسی طرح انڈین اوراسرائیلی خفیہ ایجنسیاں اپنے مذموم مقاصدکے حصول کیلئے سوشل میڈیاکوبے دریغ استعمال کررہی ہیں۔

جھوٹے بیانیے سیاسی اختلافات کوبڑھاوادیتے ہیں جس کی بناءپرسیاسی استحکام کوشدیدنقصان پہنچ رہاہے۔عوام کے درمیان نفرت پیداہونے کی وجہ سے معاشرتی تفریق میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔دشمن عناصرکی طرف سے چلائے جانے والے مہمات قومی سلامتی کیلئےخطرہ بنتے ہیں اوریہی خطرات ہمسایہ ممالک کے درمیان محبت والفت پیداکرنے کی بجائے ایسی دشمنی کی بنیاد رکھ رہے ہیں جن سے ملکوں کی سلامتی کے خطرات اس قدربڑھ جاتے ہیں کہ دشمن قوتیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگ کی صورتحال پیداکردیتے ہیں جن سے لاکھوں افرادکی زندگیاں داؤپرلگ جاتی ہیں۔یقیناًایک دن کی جنگ بھی ملکوں کوترقی کوسالوں پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

گزشتہ تین سال سے مصنوعی انٹیلی جنس نے سوشل میڈیاکےدیگرپروگرامزپرسبقت حاصل کرلی ہے۔اس کے فوائدمیں سرفہرست مصنوعی انٹیلی ڈیٹااینالیسز،پروڈکٹ ڈیزائن،اورآٹومیشن جنس پیچیدہ کاموں کوتیزی اورمؤثرطریقے سے انجام دیتاہے۔خاص طور پرصنعتی اورکاروباری شعبوں میں وقت اورلاگت کی بچت ہوتی ہے۔صحت کے شعبے میں مریضوں کی تشخیص،ایکس رے،ایم آرآئی اوراسکینزکے فوری نتائج حاصل ہوجاتے ہیں۔ روبوٹک سرجری اورذاتی نوعیت کے علاج کیلئے استعمال ہورہاہے۔

مصنوعی انٹیلی جنس تعلیم میں بہتری کی بنیادپرتعلیمی پلیٹ فارمزپرطلباءکی ضروریات کے مطابق مفیدموادفراہم کرتی ہے۔آن لائن لرننگ کوآسان اورزیادہ انٹرایکٹوبنایاجارہاہے۔ٹرانسپورٹیشن میں انقلاب لاتے ہوئے خودکارگاڑیاں پرمبنی نیویگیشن سسٹم کی مددسے سفرکومحفوط اور مؤثر بناتے ہوئے قیمتی وقت کی بچت کاکام لیاجارہاہے۔مصنوعی انٹیلی جنس نے خاص طورپرٹیکنالوجی اورڈیجیٹل معیشت میں نئی صنعتوں اورروزگارکے مواقع پیداکیے ہیں۔ مصنوعی انٹیلی جنس کے فوائدکے ساتھ اس کے نقصانات کوبھی جانناضرورہے۔مصنوعی انٹیلی جنس پرمبنی آٹومیشن کی وجہ سے خاص طورپرروایتی اورمینویل کاموں میں بہت سے ملازمتیں ختم ہورہی ہیں۔مصنوعی انٹیلی جنس میں سسٹمزکوتربیت دینے کیلئے بہت زیادہ ڈیٹاکی ضرورت ہوتی ہے،جس سے پرائیویسی کی خلاف ورزی کاخطرہ بڑھتاہے۔

الگورتھمزمیں تعصب یاغلط معلومات شامل ہوسکتی ہیں،جوغیرمنصفانہ فیصلوں کاباعث بن سکتی ہیں جس سے جانبداری اورعدم شفافیت کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔سائبرحملوں،جعلی ویڈیوز (ڈیپ فیکس)اوردیگرمجرمانہ سرگرمیوں کیلئےاستعمال کیاجاسکتاہے جس سے سیکورٹی کے خطرات کہیں زیادہ ہوگئے ہیں۔مصنوعی انٹیلی جنس پرزیادہ انحصارانسانی فیصلوں اورجذباتی سمجھ بوجھ کوکمزورکرسکتاہے جس سے اخلاقی اورمعاشرتی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کرجنگی نظاموں میں خودکارہتھیاروں کے استعمال سے انسانی جانوں کاخطرہ بڑھ سکتاہے جس کی واضح حالیہ مثال اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے وائرلیس سسٹم (واکی ٹاکی)میں مخصوص سمزکے استعمال سے پہلے کئی ماہ ان کے نظام کی جاسوسی کی گئی اوربعدازاں اسے ایک ہی اشارہ سے بلاسٹ کرکے سینکڑوں افرادکوہلاک کردیاگیااورسینکڑوں کی تعداد میں عمربھرکیلئے معذورکردئے گئے۔

اس میں شک نہیں کہ مصنوعی انٹیلی جنس اوردیگرسوشل میڈیاکے پروگرامزانسانی زندگی کو بہتربنانے کے بے شمارمواقع فراہم کرتے ہیں لیکن اس کے مؤثراورمحفوظ استعمال کیلئےمناسب قواعدوضوابط اوراخلاقی حدودکاتعین ضروری ہے۔معاشرے کوان کے فوائدسے مستفیدہونے کیلئےنقصانات کوکم کرنے کی حکمت عملی نہ اپنائی گئی تویہ کل دنیاکوتاریک کرنے کاپیشگی نوٹس بھی ہے۔

اسلامی نقطہ نظرسے،جھوٹ اورغلط اطلاعات کوایک سنگین گناہ قراردیاگیاہے کیونکہ یہ انسانی معاشرے میں انتشاراورفتنہ کا سبب بنتی ہیں۔قرآن مجید اوراحادیث میں بہتان تراشی اور جھوٹ بولنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جھوٹ بولنے والوں کوبدترین انجام کی وعیددی ہے:

جب تم نے اس کواپنی زبانوں سے نقل کیااوراپنے منہ سے وہ کہاجس کاتمہیں علم نہ تھا،اورتم نے اسے معمولی سمجھا،حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔ اور جب تم نے اسے سنا تھا تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں تو اس کا منہ سے نکالنا بھی لائق نہیں سبحان اللہ یہ بڑا بہتان ہے۔۔(النور:15-16)
اے ایمان والو!اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کرآئے توتحقیق کرلیاکرو،ایسانہ ہوکہ تم نادانی میں کسی قوم کونقصان پہنچابیٹھواورپھراپنے کیے پرشرمندہ ہو۔(الحجرات:6)
میرے آقاﷺکاارشادگرامی ہے:جوشخص کسی مسلمان پرجھوٹاالزام لگائے،اسے جہنم کے پل پرروکاجائے گایہاں تک کہ وہ اپنی بات سے رجوع کرے۔(سنن ابی داؤد)

آج دنیابھرکے دانشوراس بات پرمتفق ہیں کہ سوشل میڈیاپرپھیلائی ہوئی جھوٹی خبریں،اطلاعات اوردیگرمواد خانگی بربادی میں برا کرداراداکررہاہے اوریہی نہیں کہ اسی میڈیاکوکنٹرول کرنے والے اداروں کی مددسے کئی ملکوں کوتاراج کردیاگیاجس کی سب سے بڑی مثال عرب بہارکے نام پرچلائی گئی تحریک اورعراقی صدرصدام پردنیاکوتباہ کرنے والے ہتھیاروں کاجھوٹاالزام لگاکرنہ صرف لاکھوں عراقیوں کوتہہ تیغ کردیاگیابلکہ ہزاروں سال پرانی عراقی تہذیب کوملیامیٹ کردیاگیااوردوسری طرف لیبیاکے معمر قذافی جس نے اپنے ملک کے عوام کی سہولت اور مراعات کیلئے بے مثال خدمات انجام دیں اورلیبیاکوایک بہترین فلاحی ریاست میں تبدیل کردیا۔اس کامحض قصوریہ تھاکہ اس نے اپنے ملک کوبیرونی اثرات اوردباؤسے محفوظ کرنے کیلئے وقت کے فراعین کے سامنے سرجھکانے سے انکارکردیااوراپنے پٹرول کی فروخت کیلئے”امریکی ڈالر”میں لین دین سے انکارکردیاتھالیکن اسی میڈیا پرغلط خبریں چلائی گئیں کہ معمر قذافی کی ائیرفورس نے اپنے ہی شہربن غازی میں بمباری کرکے50 ہزارشہریوں کوہلاک کردیالیکن اگلے ہی دن اس خبرسے انکارکردیاگیالیکن اس خبرکی آڑمیں لیبیاپر”نوفلائی زون”قائم کرکے معمرقذافی کے خلاف مہم شروع کردی گئی جس کے نتیجے میں لیبیاجیسے خوشحال ملک میں خانہ جنگی شروع کروادی گئی اورآج لیبیاکاپٹرول مکمل طور پراستعمارکے قبضے میں جاچکاہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق،جھوٹ اورغلط اطلاعات کے پھیلاؤکی سختی سے ممانعت کی گئی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف معاشرتی امن تباہ ہوجاتاہے بلکہ اس سے جہاں اعتمادکافقدان پیداہوتاہے بلکہ فتنہ وفسادکوہواملتی ہے۔پاکستان جیسےممالک میں جھوٹی اطلاعات کے نتیجے میں نہ صرف سماجی تنازعات پیداہوتے ہیں بلکہ دشمن عناصران حالات سے فائدہ اٹھاکر سیاسی انارکی کوہوادیتے ہیں۔قرآن اورسنت کی تعلیمات کی روشنی میں،یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحقیق کے بغیرکسی خبرکونہ پھیلائیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ بہترین تعلیم وتربیت کے ذریعے معاشرتی تعلیم کے ذریعے عوام کواسلامی اصولوں کی اہمیت سے روشناس کرایاجائے اورتحقیقی شعورپیداکرکے قرآن کی تعلیمات کے مطابق،ہرخبرکی تحقیق کولازمی قراردیاجائے اوربہتان تراشی اورجھوٹ کے پھیلاؤکے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

اگرہم ان اقدامات کی طرف آج ہی اپناسفرشروع کردیں توآپ خوددیکھیں گے کہ سماجی مسائل اورحقوق کے بارے میں آگاہی پیدا ہونے سے لوگوں کے شعورکی بیداری سے روابط میں بہتری آناشروع ہوجائے گی اورتعلیمی ترقی کے مواقع بھی وسیع ہونا شروع ہوجائیں گے جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیاکازیادہ منفی استعمال سماجی تعلقات کومتاثرکررہاہے جس سے سماجی علیحدگی سے نوجوان نسل ذہنی دباؤاورتناؤکاشکارہورہی ہے اور جھوٹی معلومات اورپروپیگنڈامعاشرتی تفریق کاسبب بن رہے ہیں۔

یقیناًسوشل میڈیاکے مثبت نتائج سے قطعی انکارنہیں کہ اس سے لوگوں کے درمیان روابط میں بہتری آئی ہے اوروہ خاندان کے افرادجویکسرایک دوسرے کیلئے اجنبی بنتے جارہے تھے ، ان کوآپس میں ملانے میں ایک مثبت کردارسامنے آرہاہے۔سماجی مسائل اورحقوق کے بارے میں آگہی اور ادراک پیداہورہاہے،تعلیم کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں اوردنیا بھرکے کاروباری اداروں میں کام کرنے والے اب اپنے گھروں سے بیٹھ کردفاترکاکام سرانجام دیکراربوں ڈالرکی بچت کرنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں جس سے افرادکی زندگی میں جہاں سہولتوں میں اضافہ ہورہاہے وہاں ڈیپریشن میں کمی اورمعیارِزندگی بہترہورہاہے لیکن ہمیں یہ ہرگزنہیں بھولناچاہئے کہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات کے نتیجے میں نوجوان نسل ذہنی دباؤاورتناؤکاشکارہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹی معلومات اورپروپیگنڈے کی بناءپرمعاشرتی تفرقے کاشکارہوکرخودکشیوں کی طرف بھی جلدمائل ہو رہے ہیں جس سے کئی خاندان متاثرہورہے ہیں۔

اس کیلئے اب ضروری ہوگیاہے کہ سوشل میڈیاکے غلط استعمال کوروکنے کیلئےسخت قوانین نافذ کیے جائیں۔عوام کوجھوٹی معلومات کی پہچان اوران سے بچاؤکے بارے میں آگاہ کیاجائے۔سوشل میڈیاپلیٹ فارمزکوجدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فیک اکاؤنٹس اورغلط معلومات کی نشاندہی کیلئےاستعمال کیا جائے ۔سائبرکرائم کے ساتھ سختی سے نمٹنے کیلئے مزیدانقلابی تبدیلیوں کو متعارف کروایاجائے بلکہ سوشل میڈیاٹیکنالوجی کے ماہرین کوآگے بڑھ کر ایسے محفوظ پروگرام متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو اسے اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی بقاءکیلئے محفوظ بنا سکیں۔

سوشل میڈیاایک ایساپلیٹ فارم ہے جوزندگی کے ہرپہلوپراثراندازہورہاہے۔جہاں اس کے بے شمارفوائدہیں،وہیں اس کے نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سوشل میڈیاکااستعمال اعتدال اورمثبت مقاصدکیلئےکریں تاکہ اس کے نقصانات سے بچاجاسکے اوراس کے فوائدسے بھرپوراستفادہ کیاجاسکے۔تحقیقی اداروں کی رپورٹس اور ماہرین کی تجاویزکے مطابق،سوشل میڈیاکااستعمال منظم اورتعمیری ہوناچاہیے تاکہ اس کے مثبت اثرات کومزیدفروغ دیاجاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں