Do Deeds That Follow The Graves

اعمال کج کریں تعاقب قبورتک

:Share

یکم اور دو اگست 1953ء کی شب بارہ بجتے ہی ایک امریکی تہران میں واقع سی آئی اے کے سیف ہاؤس سے باہرنکل آیا۔اس نے موقع کی مناسبت سے بند گلے کی سیاہ قمیص اورسلیٹی رنگ کی پتلون پہن رکھی تھی،جبکہ پاؤں میں گیوہ نامی نرم ایرانی جوتے تھے۔ مکان کے باہر سیاہ رنگ کی عام سی کار کھڑی تھی۔امریکی اس کی پچھلی سیٹ پربیٹھ گیا۔یہاں ایک کمبل پڑاتھا،جواس نے اپنے اوپرڈال لیااورگاڑی کے فرش پرلیٹ گیاتاکہ کوئی اسے دیکھ نہ سکے۔ جلد ہی گاڑی ایک بڑی عمارت کے احاطے میں پہنچ گئی۔پورچ میں ایک دبلاپتلاشخص کھڑاتھاجس نے گاڑی رکتے ہی اس کادروازہ کھول دیا۔امریکی اٹھ کربیٹھ گیا۔دبلاشخص سیٹ پرآبیٹھااورامریکی کواپناہاتھ پیش کیا۔ گڈ ایوننگ مسٹرروزویلٹ،میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ میں آپ کے آنے کی توقع کررہاتھالیکن آپ سے مل کرخوشی ہوئی۔روزویلٹ نے جواب میں کہا “گڈ ایوننگ یور میجسٹی،مجھے خوشی ہے کہ آپ نے لمبے عرصے بعدبھی مجھے پہچان لیا۔اب مجھے معاملات طے کرنے میں آسانی ہوگی”۔

اس امریکی کاپورانام کرمٹ روزویلٹ تھاجبکہ اس کے پاس کارکی سیٹ پرایران کے32سالہ بادشاہ محمدرضاشاہ پہلوی بیٹھے تھے ۔روزویلٹ امریکی سی آئی اے اوربرطانوی خفیہ ادارے ایم آئی6کے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت چاہتے تھے کہ شاہ ایران کے جمہوری طورپرمنتخب وزیرِاعظم ڈاکٹرمحمدمصدق کو برطرف کردیں اوراس مقصد کیلئےوہ معاملات طے کرنے رات کے اندھیرے میں چھپ کرشاہ سے ملنے آئے تھے۔اس واقعے کاذکرانہوں نے اپنی کتاب “کاؤنٹرکوپ”ایران کے کنٹرول کیلئے جدوجہد” میں کیا ہے۔ امریکااوربرطانیہ کیوں ایک جمہوری حکومت کاتختہ الٹنے پرتلے ہوئے تھے؟وجہ بڑی سادہ اورپرکار تھی۔

1908ءمیں اینگلوپرشین آئل نامی ایک برطانوی کمپنی نے ایران کے خوزستان صوبے میں تیل کے وسیع ذخائردریافت کرلیے۔ چرچل نے یہ خبرسن کرکہاتھا “پری خانے سے آیاہوایہ تحفہ ہمارے خواب وخیال سے بھی ماوراہے۔”۔1914ءمیں برطانوی حکومت نےکمپنی کے51فیصد حصص خریدکر اسے قومیالیا بعد میں اس کانام بدل کراینگلوایرانین آئل کمپنی کردیاگیا۔اس کمپنی نے ایرانی شہرآبادان میں تیل صاف کرنے کاکارخانہ تعمیرکیاجواُس وقت دنیاکی سب سے بڑی ریفائنری تھی۔ اسی دوران رائل نیوی کے سربراہ ونسٹن چرچل نے فیصلہ کیاکہ بحری ایندھن کوئلے سے بدل کرتیل کرلیاجائے، جس سے تیل کی مانگ اورایران کی اہمیت راتوں رات آسمان تک پہنچ گئی۔رفتہ رفتہ ایران کے مختلف علاقوں میں تیل کے ایک سے بڑھ کرایک ذخائربرآمد ہوتے گئے اور اے آئی اوسی کی قوت اوررسوخ میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتاگیا۔

اس تیل سے ایران کوکیاملتاتھا؟ایران کاکل حصہ17فیصد تھا،کمپنی کا83فیصد۔ یہی نہیں،اپنے ٹیکس،ملازموں کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات بھی کمپنی اپنے83فیصد سے نہیں بلکہ کل رقم سے منہاکرتی تھی،جس سے ایران کاحصہ مزید کم ہوجاتاتھا۔1951ءمیں اس کمپنی نے کل چارکروڑپاؤنڈ (آج کے 105 کر وڑ پاؤنڈ) کمائے،لیکن اس میں سے ایران کوصرف70لاکھ پاؤنڈدیے گئے۔یہ صورتِ حال بادشاہ کیلئےتوقابلِ قبول ہوسکتی تھی لیکن کسی جمہوری رہنما کیلئے اسے ہضم کرنادشوارتھااورجس جمہوری رہنما نے اس سلسلے میں کچھ کرنے کافیصلہ کیااس کانام ڈاکٹرمحمدمصدق تھا۔ ڈاکٹرمصدق کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ اپنے دور میں ایران کے سب سے تعلیم یافتہ شخص تھے۔وہ پہلے ایرانی تھے جنہوں نے کسی یورپی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔وہ ایک عرصے سے ایرانی سیاست میں سرگرم تھے اوران کے سیاسی ایجنڈے میں ایران کابیرونی طاقتوں پرانحصارختم کرنا سرِفہرست تھا۔ایک طویل جدوجہدکے بعد28اپریل 1951ءکو انہیں ایران کی قومی اسمبلی مجلس نے12-79کی اکثریت سے ایران کا وزیرِاعظم منتخب کرلیا۔مصدق کے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد مجلس نے بھاری اکثریت سے ایک قراردادمنظورکی جس کے تحت’’آبادان‘‘ کی ریفائنری کوایران نے اپنی ملکیت میں لے لیا۔ایران کے اس عمل پربرطانیہ کاپارہ ساتویں آسمان تک چڑھ گیا۔وہ کسی طرح سے یہ سونے کی چڑیاہاتھ سے نکلتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

رات کے اندھیرے میں چھپ کرشاہ سے ملنے سے پہلے روزویلٹ نے میدان ہموارکرنے کیلئےخاصی دوڑدھوپ کی تھی۔امریکی اوربرطانوی حکام ایک عرصے سے شاہ پرزوردے رہے تھے کہ وہ ڈاکٹر مصدق کوبرطرف کردیں لیکن شاہ یہ قدم اٹھانے سے ہچکچارہے تھے۔ایک برطانوی سفارت کارنے روز ویلٹ کوتہران میں بتایا:’’شاہ میں کوئی اخلاقی جرأت نہیں اورڈران پربڑی آسانی سے غلبہ پالیتاہے‘‘لیکن شاہ کے تذبذب کی وجوہات واضح تھیں۔ انہیں معلوم تھاکہ ڈاکٹرمصدق کتنے مقبول رہنماہیں اوراگر ان کوبرطرف کردیاتوملک بھرمیں اس فیصلے کے خلاف احتجاج کی خوفناک لہرشاہ کاتختہ بھی بہاکرلے جاسکتی ہے۔

امریکی اوربرطانوی ایجنٹوں نے شاہ کونرم کرنے کیلئےان کی جڑواں تندخوبہن شہزادی اشرف سے رابطہ کیاجو پیرس میں رہتی تھیں۔پہلے تووہ بھی ڈانواں ڈول تھیں لیکن ایم آئی6کے اہلکارنارمن ڈاربی شائرنے ان کی خدمت میں منک کاکوٹ اورنوٹوں سے بھراتھیلاپیش کیا،تب کہیں جاکرشہزادی کی برف پگھلی اوروہ ایران جاکر اپنے بھائی کو قائل کرنے پر تیار ہو گئیں۔ان کے علاوہ سی آئی اے نے اپنے ایک فوجی کمانڈر نورمن شوارزکوف،جو ایرانی فوج کی تربیت کرتا رہا تھااورشاہ ان پراعتماد کرتاتھا،کے ذریعے بھی شاہ پراثراندازہونے کی کوشش کی۔اس ساری تیاری اورتگ ودوکے بعدکہیں جاکر شاہ اورروز ویلٹ کی ملاقات ممکن ہوسکی۔

برطانیہ نے پہلے توحملہ کرکے آبادان پرقبضے کامنصوبہ بنایا،اس وقت امریکامیں ہیری ٹرومین کی حکومت تھی،جو اس کے حق میں نہیں تھے کیونکہ امریکا پہلے ہی کوریامیں ایک خونی جنگ لڑرہاتھااورکسی اورمعاملے میں ٹانگ اڑانے کامتحمل نہیں ہو سکتاتھا۔ ادھرسے مایوس ہوکربرطانیہ یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف اوراقوامِ متحدہ میں لے گیامگردونوں جگہ سے اسے سبکی کاسامنا کرناپڑا۔پھراس نے خلیج میں جنگی جہازبھیج کرایران کامحاصرہ کرنے کی کوشش کی، ایرانی تیل خریدنے والے ملکوں کوقانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دیں،مگرڈاکٹر مصدق نے ہرایسی کوشش کے جواب میں کہا’’میں برطانیہ کوکوئی رعایت دینے پرایرانی تیل میں فرائی ہونازیادہ پسندکروں گا‘‘۔

جب ساری تدبیریں الٹی ہو گئیں توبرطانیہ نے پلان بی کے طورپر خفیہ ایجنسی ایم آئی6کے ذریعے ڈاکٹرمصدق کاتختہ الٹنے کی ٹھان لی لیکن وہ یہ کام اکیلے نہیں کرسکتے تھے،انہیں دنیاکی سب سے طاقتورخفیہ ایجنسی سی آئی اے کے وسائل اورمہارت کی ضرورت تھی۔ایک بارپھرڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدرٹرومین آڑے آئے۔وہ ایران کیلئےنرم گوشہ رکھتے تھے اورانہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ اس طرح حکومتیں گراناآگے چل کراُلٹا سی آئی اے کیلئےغلط مثال قائم کردے گا۔ اتفاق سے اسی سال امریکامیں صدارتی انتخابات منعقد ہوناتھے۔قانون کی روسے ٹرومین حصہ لے سکتے تھے لیکن اسی دوران امریکاکو کوریامیں خفت کاسامناکرناپڑاتھا،جس کی وجہ سے ٹرومین بہت غیرمقبول ہوگئے تھے۔انہوں نے سیاست سے الگ ہوجانے کافیصلہ کرلیا ۔ نومبرکوانتخابات منعقدہوئے اوربرطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی سے کئی پالیسی معاملات پراتفاقِ رائے رکھنے والے ریپبلکن پارٹی سے وابستہ سابق جنرل اور دوسری جنگِ عظیم کے ہیروڈوائٹ آئزن ہاورنے89کے مقابلے پر442الیکٹورل ووٹوں کی لینڈسلائیڈ فتح حاصل کرلی۔

چرچل اسی موقع کی تاک میں تھے۔ابھی آئزن ہاورکواقتدارمنتقل بھی نہیں ہواتھاکہ وہ”باہمی دلچسپی کے امور”پرگفتگوکیلئے امریکا آن پہنچے۔امریکاکواس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ برطانوی تیل ایران پی گیاہے،الٹاامریکی عوام اور قیادت دونوں کی بڑی تعداد نوآبادیاتی نظام ہی کے خلاف تھے۔اسی کومدِّ نظررکھتے ہوئے گرگِ باراں دیدہ چرچل نے پینترابدلااورنومنتخب صدر آئزن ہاوراورڈلس برادرز(جان ڈلس جنہیں آئزن ہاورنے وزیر خارجہ اورایلن ڈلس ، جنہیں سی آئی اے کا ڈائریکٹرنامزدکیاتھا)سے ملاقات کرکے انہیں باورکروایاکہ ڈاکٹر مصدق دراصل چھپے ہوئے کمیونسٹ ہیں اورانہیں مزیداقتدارمیں رہنے دیاتوایران پکے ہوئے سیب کی طرح سوویت یونین کی جھولی میں جاگرے گا۔اس زمانے میں امریکامیں منہ زورکمیونسٹ مخالف لہرچل رہی تھی اور میکارتھی ازم کادوردورہ تھا۔اینٹی کمیونزم جذبات اتنے ’’وائرل‘‘تھے کہ چارلی چپلن جیسے عظیم لیجنڈکاامریکی ویزامنسوخ کردیاگیاکیونکہ ان کے بارے میں شبہ تھاکہ وہ کمیونسٹوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

ڈاکٹرمصدق کے کمیونسٹوں کی طرف جھکاؤکی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ایران میں”حزبِ تودۂ ایران”کے نام سے ایک چھوٹی سی کمیونسٹ پارٹی موجود ضرورتھی لیکن ڈاکٹر مصدق کٹرقوم پرست ہونے کے ناطے ہرقسم کے مارکسٹ اورسوشلسٹ خیالات سے متنفرتھے اورانہوں نے صرف سیاسی آزادی کے طورپراس پارٹی کوقائم رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔امریکی لوہاگرم تھا ،بس چرچل کے چوٹ لگانے کی دیرتھی کہ آئزن ہاورنے پالیسی میں کایا کلپ کی منظوری دے دی اورسی آئی اے کوحکم ملا کہ کسی بھی قانونی یاغیرقانونی طریقے سے ڈاکٹرمصدق کاپتّہ صاف کردیاجائے۔

کرمٹ روزویلٹ سابق امریکی صدرروزویلٹ کے پوتے تھے۔سی آئی اے کی قیادت سے گرین سگنل ملنے کے بعدوہ امریکاسے لبنان پہنچے،وہاں سے بذریعہ کارشام میں داخل ہوئے اوردمشق سے سی آئی اے کے ایک اورایجنٹ کے ہمراہ عراق سے ہوتے ہوئے ایران میں داخل ہوگئے۔اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ خانقن نامی سرحدی چوکی پرتعینات ایرانی امیگریشن اہلکارکی انگریزی دانی کا یہ عالم تھا کہ اس نے روزویلٹ کا پاسپورٹ دیکھ کر اپنے رجسٹر میں ان کانام یعنی”مسٹر سکار آن دا فورہیڈ”’’مسٹرماتھے پرزخم کانشان‘‘درج کیا۔ تہران پہنچتے ہی روزویلٹ کام میں جُت گئے۔ان سے قبل وہاں سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی6نے”آپریشن ایجیکس” کے نام سے ڈاکٹرمصدق کے خلاف خوب دھماچوکڑی مچارکھی تھی۔ایجیکس ایک قسم کاکپڑے دھونے والا پاؤڈرہے اوراس آپریشن کے منصوبہ سازاسی طرح سے ڈاکٹرمصدق کاصفایاچاہتے تھے جیسے ایجیکس کپڑوں سے میل نکال باہرکرتاہے۔

تاریخ دان اسٹیون کنزراپنی کتاب”آل داشاہزمین”میں لکھتے ہیں کہ ایک طرف سی آئی اے نے جنرل فضل اللہ زاہدی کوایک لاکھ ڈالردے کرڈاکٹر مصدق کی جگہ اگلاوزیرِاعظم بننے پرراضی کرلیاتھا،تو دوسری جانب آپریشن ایجیکس کے ڈالروں کی مددسے تہران میں ہرطرف آگ لگادی۔ان کی نگرانی میں گلی گلی میں سی آئی اے اورایم آئی6کے فنڈڈمظاہرے ہورہے تھے،جن میں ہرقسم کے کن ٹٹے،نشئی،بدمعاش،حتیٰ کہ پہلوان تک حصہ لیتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں شاہ کی تصویریں اورلبوں پر”شاہ زندہ باد”اور “مرگ برمصدق”کے نعرے ہوتے تھے۔

دوسری طرف”لفافہ بردارصحافی”اخباروں میں بڑھ چڑھ کرڈاکٹرمصدق اوران کی پالیسیوں کے پرخچے اڑارہے تھے،جن میں انہیں نہ صرف کمیونسٹ بلکہ یہودی نسل سے قراردیاجارہاتھا۔کچھ کالم نگارانکشاف فرمارہے تھے کہ وہ دراصل اندرسے برطانیہ سے ملے ہوئے ہیں اورانہوں نے تیل کی صنعت کوقومیاکرایران کی بربادی کے عہدنامے پردستخط کردیے ہیں۔یہی نہیں،کئی کالم سی آئی اے کی جانب سے لکھے لکھائے آتے تھے اورمدیرانہیں اپنے اپنے اخباروں میں جوں کاتوں چھاپنے پرایک دوسرے سے بازی لینے میں سرگرم تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق تہران کے تین چوتھائی اخباراس سازش میں شریک تھے۔

سی آئی اے کے ایک اہلکار”رچرڈ کاٹم”نے اس واقعے کے کئی برسوں بعدایک انٹرویومیں بتایا:”میں کوئی بھی کالم لکھتاوہ اگلے دن ایرانی اخباروں کی زینت بن جاتا۔اس سے عجیب قسم کی طاقت کااحساس ہوتاتھا۔ان کالموں میں مصدق کوکمیونسٹوں کے ساتھ سازبازکرنے والااورجنونی ثابت کیاجاتاتھا‘‘۔ملاقات سے قبل روزویلٹ نے شاہ کوپیغام بھجوادیاتھاکہ وہ امریکی صدرآئزن ہاوراوربرطانوی وزیرِاعظم چرچل دونوں کی طرف سے ان سے ملنے آرہے ہیں،تبھی جاکرشاہ اندھیری رات کے پردے میں چھپ کرہونے والی ملاقات کیلئےراضی ہوئے تھے۔روزویلٹ نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے شاہ کوبتایاکہ اگروہ واقعی تسلی کرنا چاہتے ہیں کہ برطانیہ ان کے پیچھے کھڑاہے توچرچل نے انتظام کیاہے کہ اگلی رات بی بی سی اپنی نشریات ختم کرتے وقت’’اس وقت رات کے12بجے ہیں‘‘کی بجائے”اس وقت رات کے ٹھیک12بجے ہیں‘‘کہے گا۔ شاہ کی تسلی توہوگئی مگرانہوں نے جواب میں صاف صاف کہہ دیاکہ وہ کوئی مہم جوئی نہیں کرنا چاہتے اورمصدق کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتے کوچھیڑنے کے مترادف ہوسکتاہے۔

روزویلٹ نے شاہ کایہ رنگ ڈھنگ دیکھ کرانگلیاں ٹیڑھی کرلیں۔انہوں نے شاہ کودوٹوک الفاظ میں بتایاکہ اگرمصدق کوعہدے پر برقراررہنے دیاگیا توایران”دوسرا کوریا”بن جائے گااورمغربی طاقتیں کسی صورت میں ایسانہیں ہونے دیں گی اوراگر شاہ نہ مانے توروزویلٹ اسی وقت ایران سے چلے جائیں گے اور”کوئی اور راستہ”اختیارکرنے پرمجبورہوجائیں گے۔کوریاکے ذکرمیں یہ دہمکی پوشیدہ تھی کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی امریکااورکوریاکی جنگ ختم ہوئی تھی،جس میں20سے30لاکھ لوگ ہلاک اورکروڑوں متاثرہوئے تھے۔اس ڈنڈے کے ساتھ روزویلٹ نے گاجربھی پیش کردی۔اگرشاہ اس منصوبے میں ان کاساتھ دیں توبطورشاہ ان کے اختیارات میں اضافہ کردیاجائے گااوروہ مطلق العنان حکمران بن کردھڑلے سے ڈنڈے کے زورپرملک چلاسکیں گے اورکوئی پارلیمان یاجمہوری مجلس ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے قابل نہیں رہنے دی جائے گی۔

سی آئی اے کومعلوم تھاکہ ایران میں مُلّاکتنے طاقتورہیں اورانہیں اعتماد میں لیے بغیرکوئی کام ممکن نہیں۔اس وقت ایران کے چوٹی کے آیت اللہ مُلّا مصطفی کاشانی تھے جوشعلہ بیان مقررتھے اورملک کے طول وعرض میں ان کے ماننے اورچاہنے والے موجودتھے۔اس کے علاوہ وہ مجلس کے اسپیکربھی تھے اور تیل کی صنعت کوقومیانے کے بڑے حامی اوراستعمارمخالف رہنما تھے۔روزویلٹ نے ان کی خدمت میں دس ہزارڈالر(آج کاایک لاکھ ڈالر)کاتحفہ بھیجاتو مُلّاکاشانی کویو ٹرن لے کرمصدق کے خلاف تندوتیزمہم شروع کرنے میں دیرنہیں لگی۔ امریکی پے رول پرایک اوربارسوخ مُلّاآیت اللہ محمدبہبہانی بھی تھے۔ ایرانی محقق علی رہنمانے اپنی کتاب”1953کے پیچھے ایران میں بغاوت” میں لکھاہے کہ آیت اللہ بہبہانی کے ذریعے بلوائیوں میں ڈالرتقسیم کیے جاتے تھے ،اس حدتک کہ ان ڈالروں کو”بہبہانی ڈالر”کہا جانے لگا۔

امریکی اوربرطانوی ایجنٹوں نے اسی دوران کئی اعلیٰ فوجی افسران کوبھی خریدلیاتھا۔تہران پولیس کے سربراہ جنرل افشارطوس کے ہاتھ ان بکاؤایرانی حکام کی فہرست آگئی لیکن اس سے پہلے کہ وہ حرکت میں آتے،برطانوی ایجنٹوں نے انہیں قتل کروادیا۔ افشارطوس پربدترین تشددکیاگیا،پھرانہیں پھانسی بھی دی گئی اور19/اپریل1953ءکوگولی بھی مارکراس کی تشدد زدہ لاش شہرکے ایک چوک میں پھینک دی۔یہی نہیں،اخباروں نے اس کی بری طرح سے مسخ لاش کی تصویرپہلے صفحے پر شائع کی تاکہ ایک طرف دہشت پھیلے تودوسری طرف ڈاکٹرمصدق کی حکومت پراعتمادختم ہوجائے کہ جوحکومت اپنے پولیس چیف کونہیں بچا سکتی،وہ عام شہریوں کوکیاتحفظ دے گی۔

ایم آئی6کے اہلکار نورمن ڈاربی شائر نے خود”اینڈآف ایمپائر”نامی ٹیلی ویژن سیریزکیلئے1985ءمیں ایک انٹرویومیں اعتراف کیا تھاکہ افشارطوس کوایم آئی6نے قتل کیاتھا۔یہ ڈاربی شائرکوئی چھوٹا موٹااہلکارنہیں بلکہ ایم آئی6کی جانب سے آپریشن ایجیکس کے سربراہ تھااور اسی نے شہزادی اشرف کوایران جانے پرمائل کیاتھا۔

آدھی رات کی ملاقات میں روزویلٹ نے رضاشاہ کوبتایاکہ اس وقت ایران میں آپریشن ایجیکس پورے زوروشورسے جاری ہے اور اس کے مختلف مراحل ہیں۔
پہلا:مسجدوں،اخباروں اورسڑکوں پرمصدق کے خلاف پروپیگنڈاجاری ہے تاکہ ان کی مقبولیت میں دراڑیں ڈالی جاسکیں۔
دوسرا:شاہی فوجی دستے مصدق کی برطرفی کافرمان لے کران کے پاس جائیں گے۔
تیسرا:جنرل فضل اللہ زاہدی شاہ کی طرف سے بطوروزیرِاعظم تقرری قبول کرلیں گے۔
روزویلٹ نے شاہ کوبتایاکہ مصدق کی برطرفی کافرمان تیارہے،شاہ نے صرف اس پردستخط کرنے ہیں،بقیہ ساری تیاریاں مکمل ہیں۔

شاہ نے سوچ بچارکی مہلت مانگی اورروزویلٹ کواگلی رات دوبارہ یہیں آنے کوکہا۔اس کے بعدروزویلٹ اورشاہ کی کئی ملاقاتیں اسی وقت اوراسی جگہ ہوئیں اوربالآخرشاہ دستخط کرنے کیلئےتیارہوگئے لیکن انہوں نے روزویلٹ کے سامنے ایک شرط رکھ دی،وہ دستخط کرتے ہی تہران سے نکل کرسیدھے شمالی شہررامسر چلے جائیں گے جہاں ایک طیارہ تیار کھڑا ہو گا تاکہ”اگرحالات خراب ہو گئے تو ملکہ اور میں بغداد کیلئےپرواز کر جائیں”۔ شاہ اگلے روز فرمان پردستخط کیے بغیر رامسرچلے گئے تاہم فرمان وہاں پہنچایاگیااورانہوں نے اس پردستخط کردیے۔سی آئی اے اورایم آئی6کی مشترکہ سرتوڑمحنت ٹھکانے لگی ۔ اب آپریشن ایجیکس کے اگلے مرحلے پرعمل کاوقت آگیاتھا۔15/اگست کی صبح کرنل نعمت اللہ نصیری فرمان لے کرڈاکٹرمصدق کی رہائش گاہ پہنچے۔ ڈاکٹر مصدق نے یہ کہہ کر فرمان مستردکر دیاکہ شاہ کے پاس انہیں معزول کرنے کااختیارنہیں ہے۔

تاہم جنرل زاہدی نے اعلان کردیاکہ مصدق معزول ہوچکے ہیں اوراس وقت ملک کے اصل وزیرِاعظم وہ ہیں لیکن اس دوران مقبول رہنمامصدق کی حمایت میں شہری سڑکوں پرنکل آئے۔جگہ جگہ جھڑپیں چھڑگئیں۔گلی گلی بلوے ہونے لگے۔امریکی ڈالروں میں لتھڑے ہوئے آیت اللہ محمد بہبہانی کی قیادت میں مذہبی جلوس نکلنے لگے۔چاردن تک ملک افراتفری کی دھندمیں لپٹارہا۔لائنس یافتہ ہوابازمحمدرضاشاہ پہلوی،جورامسرکی محفوظ دوری سے واقعات پرنظررکھے ہوئے تھے،گڑبڑسونگھتے ہی اپنی دوسری شاہ بانوثریااسفندیاری بختیاری کے ہمراہ خودجہازاڑاکرپہلے بغداداورپھروہاں سے اٹلی بھاگ کھڑے ہوئے۔

تیسری دنیاکے ملکوں کی فوجیں اپنے ملکوں میں ایسی غیریقینی صورتحال برداشت نہیں کرسکتیں،اس لیے فوجی بیرکوں سے نکل آئے اور19/اگست کو ٹینکوں کے ایک دستے نے ڈاکٹرمصدق کے گھرکوگھیرے میں لے لیا۔یوں ایرانی وزیراعظم معزول ہوئے اورایرانی جمہوریت کی کونپل پنپنے سے پہلے ہی کچل دی گئی۔

شاہ،جو اس وقت روم کے لگڑری ہوٹل”ڈولچی ویٹا”میں سی آئی اے کے خرچ پربیٹھے حالات کاجائزہ لے رہے تھے،بازی پلٹتے دیکھ کر22اگست کوخود بھی پلٹ آئے۔ ہوائی اڈے پراوراڈے سے شہر جانے والی سڑک پرسیکڑوں مداحوں نے ان کاوالہانہ استقبال کیا،شاہ زندہ بادکے نعرے لگائے اوران کی شاہی گاڑی پرگلاب کی پتیاں نچھاورکیں۔اکثرحاضرین کی مٹھیاں گرم تھیں۔سی آئی اے کے ڈائریکٹرایلن ڈلس شاہِ ایران کے ہمراہ تھے ۔جنرل زاہدی نے نئے وزیرِاعظم کے عہدے کاحلف اٹھایا۔ ڈاکٹر مصدق پرغداری کامقدمہ چلا،اورظاہرہے غداری کی سزاموت ہوتی ہے،سوملی مگرشاہ نے ازراہِ ہمدری اسے تین سال کی قیدِتنہائی اوربعدازاں گھر پرعمربھرکی نظربندی میں بدل دیا۔

کرمٹ روزویلٹ کاایران میں کام ختم ہوگیاتھا۔وہ کسی فاتح سپہ سالارکی سی شان سے امریکاپہنچے اوروائٹ ہاؤس میں صدرآئزن ہاورکواس کامیاب آپریشن پر بریفنگ دی۔ فائیواسٹارجنرل آئزن ہاور،جوواقعی سپہ سالارتھے اوردوسری جنگِ عظیم کے دوران یورپ میں اتحادی فوج کے سپریم کمانڈررہ چکے تھے، اورانہوں نے اس جنگ کے دوران لاکھوں نہیں،کروڑوں لوگوں کومرتے اورملکوں کوکھنڈربنتے دیکھاتھا،اس کامیابی پرحیران اورمتاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکے۔انہیں اچنبھا تھاکہ جوکام فوجیں کمرتوڑ جانی ومالی نقصان اٹھاکرکرتی ہیں،وہ سی آئی اے نے اتنے کم خرچ میں ایک بھی امریکی جانی نقصان کے بغیر کردکھایا۔گویااردو محاورے کی روسے”ہینگ لگے نہ پھٹکری،رنگ بھی چوکھا آئے”۔

اگلے برس سی آئی اے نے گوئٹے مالاکے صدرہاکوبوآربینزکی جمہوری حکومت کا تختہ اسی آزمودہ فارمولے کے تحت اُلٹا،پھر پیراگوئے کی باری آئی اور پھر ، اور پھراورپھر۔۔اورہاں،میں اینگلوایرانین آئل کمپنی کاتوبتاناہی بھول گیا،یہ صبح کی بھولی اگلے سال شام ڈھلے ہی ایران لوٹ آئی،البتہ اب کی بار اس نے ایک کنسورشیم کاچولاپہن کراپنانام”برٹش پیٹرولیم”رکھ لیاتھا۔برٹش پیٹرولیم آج بھی قائم ودائم ہے۔فرق صرف اتناپڑاہے کہ اس کی سابقہ شاہانہ چمک دمک برقرار نہیں رہی،پھربھی اس کاحالیہ سالانہ ریونیو282/ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے۔

برطانیہ اورامریکانے اپنے مفادات کیلئے کس طرح ایرانی تیل کی دولت پرقبضہ کرنے کیلئےسازشوں کاجال بچھایااورکیسے وہاں کے سرکردہ لوگوں کی قیمت لگا کرانہیں خریداگیا،اس کی داستان کے کچھ پہلوخودہی وہاں کے کرداروں نے افشاء کردیئے ہیں لیکن یہ معاملہ اب تک رکانہیں۔تیسری دنیاکے وسائل پرقبضہ کرنے کیلئے اب بھی سازشیں ہوتی ہیں،کبھی ایران اورعراق کی طویل آٹھ سال جنگ میں نہ صرف ان دونوں ممالک بلکہ خطے میں دیگرعرب ممالک کواسلحہ کے ساتھ دیگراشیاء کی فروخت سے ان کےوسائل کوبری طرح لوٹاگیااوربعدازاں براہ راست اس خطے پرقبضہ کرنے کیلئے ایک گہری سازش کے تحت خودہی عراق کوکویت پرقبضہ کرنے کیلئے اکسایاگیااوربعدازاں خطے کے عرب ممالک کامسیحابن کرعراق سے کویت کاقبضہ واگزار کروانے کیلئے اپنے اتحادیوں سمیت وہاں پہنچ گیااوراسی بہانے وہاں اپنے دیرینہ مفادات کے حصول کیلئے مستقل فوجی اڈّے بناکران کی حفاظت کاچکمہ دیکراپنے پاؤ ں مضبوط کرلئے ہیں۔ ایسی ہی کہانیاں ہمارے ہاں بھی دہرائی گئی ہیں اورہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی آخری قسط ثابت ہوگی۔

سات اورآٹھ اکتوبر1958کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر(جنرل)اسکندرمرزانے آئین معطل،اسمبلیاں تحلیل اورسیاسی جماعتیں کالعدم قراردے کر ملک کی تاریخ کاپہلامارشل لالگادیااوراس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کومارشل لاایڈمنسٹریٹرمقرر کردیاجواپنی سرکاری ذمہ داریوں سے ہٹ کرسیاسی سازشوں کی بناء پرقائداعظم کی سرزنش بھگت چکے تھے۔قائداعظم کی رحلت کے بعدیہ معاملہ چونکہ پہلی پہلی کوشش تھی،اس لیے اس اوّلین مارشل لاء میں “میرے عزیز ہم وطنو”وغیرہ کے عنوان سے ریڈیو (ٹی وی توخیرابھی آیاہی نہیں تھا)پرکوئی تقریرنہیں ہوئی۔بس ٹائپ رائٹرپرلکھا ایک فیصلہ رات کے ساڑھے دس بجے سائیکلوسٹائل کر کے اخباروں کے دفتروں اورسفارت خانوں کوبھیج دیاگیاالبتہ یہ ضرورہواکہ چند فوجی دستے احتیاطاً ریڈیوپاکستان اورٹیلی گراف کی عمارت کو گھیرے میں لینے کیلئے بھیج دیے گئے تاکہ سند رہیں اوربوقتِ ضرورت کام آئیں۔ مبصرین کی اکثریت کے مطابق یہی وہ”ناگزیر”فیصلہ تھا جس نے ملک پرایسی سیاہ رات طاری کردی جس کے کالے سائے آج 62 سال بعد بھی پوری طرح سے نہیں چھٹ سکے ہیں۔

اسکندرمرزاکے تحریرکردہ فیصلے کی سائیکلوسٹائل کاپیاں آنے والی عشروں میں باربارتقسیم ہوتی رہیں، بس کردار بدلتے رہے، کہانی وہی پرانی رہی۔مثال کے طور پردیکھیے کہ اس رات تقسیم ہونے والے فیصلے میں رقم تھا:”میں پچھلے دوسال سے شدیدتشویش کے عالم میں دیکھ رہاہوں کہ ملک میں طاقت کی بےرحم رسہ کشی جاری ہے،بدعنوانی اور ہمارے محبِ وطن، سادہ ، محنتی اورایمان دارعوام کے استحصال کابازارگرم ہے،رکھ رکھاؤکا فقدان ہے اوراسلام کوسیاسی مقاصد کیلئے آلۂ کاربنادیاگیاہے۔سیاسی جماعتوں کی ذہنیت اس درجہ گرچکی ہے کہ یقین نہیں رہاکہ انتخابات سے موجودہ داخلی انتشار بہترہوگااور ہم ایسی مستحکم حکومت بنا پائیں گے جوہمیں آج درپیش لاتعداد اور پیچیدہ مسائل حل کرسکے گی۔ہمارے لیے چاندسے نئے لوگ نہیں آئیں گے۔یہی لوگ جنہوں نے پاکستان کوتباہی کے دہانے تک پہنچادیاہے،اپنے مقاصد کیلئے انتخابات میں بھی دھاندلی سے بازنہیں آئیں گے۔یہ لوگ واپس آکربھی وہی ہتھکنڈے استعمال کریں گے جنہیں استعمال کرکے انہوں نے جمہوریت کو مذاق بناکررکھ دیاہے۔”

محمدعلی بوگرہ،جوامریکامیں پاکستانی سفیرتھے،انہیں بلاکروزیراعظم بنادیاگیا۔ بعدمیں آنے والے مارشل لازمیں یہی سکرپٹ سرقہ ہوہوکراستعمال ہوتارہا ۔ اسکندر مرزا کے بقول جمہوریت مذاق بن کررہ گئی ہے لیکن اصل مذاق یہ تھا کہ جب یہ مارشل لا لگا،اس کے تین ماہ بعد انتخابات طے تھے۔بظاہرایسالگ رہاتھاکہ اس وقت کے وزیرِاعظم ملک فیروزخان نون کاحکومتی اتحادجیت جائے گااوریہ بھی نظرآرہاتھاکہ شاید اس کے قمری نہیں بلکہ زمینی ارکان صدر اسکندرمرزاکودوبارہ صدرمنتخب نہ کریں چنانچہ صدرِ مملکت کوعافیت اسی میں دکھائی دی کہ جمہوریت ہی کوراکٹ میں بٹھاکرخلامیں روانہ کردیں۔اس کی تائید بیرونی ذرائع سے بھی ہوتی ہے۔مارشل لا کے نفاذسے کچھ ہی عرصہ قبل برطانوی ہائی کمشنرسرالیگزینڈرسائمن نے اپنی حکومت کوجوخفیہ مراسلہ بھیجااس میں درج تھا کہ صدرِپاکستان نے انہیں بتایاہے کہ اگرانتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت میں ناپسندیدہ عناصرموجودہوئے تووہ مداخلت کریں گے ” ناپسندیدہ عناصر”سے مراد وہ ارکانِ اسمبلی جوسکندرمرزاکو دوبارہ صدربنانے کیلئے ووٹ نہ دیں۔

اسکندرمرزاکوجمہوریت اورآئین کاکس قدرپاس تھا،اس کی ایک مثال ان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کی آب بیتی”شہاب نامہ”کی زبانی مل جاتی ہے ۔ “22ستمبر1958کوصدرِپاکستان اسکندرمرزانے انہیں بلایا۔ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلدتھی۔ انہوں نے اس کتاب کی اشارہ کرکے کہا،’تم نے اس ٹریش کوپڑھاہے؟”جس آئین کے تحت حلف اٹھاکروہ کرسیِ صدارت پربراجمان تھے اس کے متعلق ان کی زبان سے ٹریش کا لفظ سن کرمیرا منہ کھلے کاکھلارہ گیا۔23 مارچ 1956کومنظورہونے والے جس آئین کومرزاصاحب نے کوڑاقراردیاتھاوہ آئین پاکستان کی دستوراسمبلی نے انہی کی ولولہ انگیزقیادت میں تیارکیاتھا۔اس آئین کے تحت پاکستان برطانیۂ عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کرایک خودمختارملک کی حیثت سے ابھراتھااوراسی آئین نے پاکستان کواسلامی جمہوریہ قراردیاتھالیکن ایک اڑچن یہ تھی کہ اس آئین کے تحت صدرکاعہدہ وزیرِاعظم سے برترقراردیاگیاتھااوراس میں58 ٹو بی قسم کی کچھ ایسی شق ڈالی گئی تھی کہ صدروزیرِاعظم کوکسی بھی وقت یک بینی دوگوش نکال باہرکرسکتے تھے۔

اسکندرمرزانے شق کی شمشیرِبرہنہ کاوہ بےدریغ استعمال کیاکہ اس کے مقابلے پر58ٹوبی کندچھری دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے جن وزرائے اعظم کا شکارکیاان کی فہرست دیکھیے:
محمد علی بوگرہ:17اپریل تا 12 اگست 1955 (ان سے استعفیٰ آئین منظورہونے سے پہلے لیاگیاتھا)
چوہدری محمدعلی: 12 اگست55تا12ستمبر56
حسین شہیدسہروردی:12/اکتوبر56تا17ستمبر57
آئی آئی چندریگر:17اکتوبر57تا16دسمبر57
ملک فیروز خان نون:16دسمبر57تاسات اکتوبر58
پاکستانی وزیرِاعظموں کی اس میوزیکل چیئرکے بارے میں نہروسے منسوب یہ فقرہ اکثردہرایاجاتاہے کہ”میں تواتنی جلدی دھوتیاں بھی نہیں بدلتاجتنی جلدی پاکستانی وزیرِاعظم بدل لیتے ہیں۔”

اسکندر مرزا کی محلاتی سازشوں کی ایک جھلک ایک بارپھرشہاب نامہ کے صفحوں میں سے دیکھیے:
اسکندرمرزاکوگورنرجنرل بنے تین روزہوئے تھے کہ شام کے پانچ بجے مجھے گھرپرمسٹرسہروردی نے ٹیلی فون کر کے پوچھا”پرائم منسٹرکے طورپرمیرا حلف لینے کیلئے کون سی تاریخ مقررہوئی ہے؟”یہ سوال سن کرمجھے بڑاتعجب ہواکیونکہ مجھے اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔یہی بات میں نے انہیں بتائی تو مسٹر سہروردی غصے سے بولے،تم کس طرح کے نکمے سیکریٹری ہو؟ فیصلہ ہوچکاہے اب صرف تفصیلات کا انتظارہے۔فوراًگورنرجنرل کے پاس جاؤ اور حلف لینے کی تاریخ اوروقت معلوم کرکے مجھے خبردو۔میں انتظارکروں گا ۔مجبوراًمیں اسکندرمرزاصاحب کے پاس گیا۔وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ برج کھیل رہے تھے ۔موقع پاکرمیں انہیں کمرے سے باہرلے گیااورانھیں مسٹرسہروردی والی بات بتائی۔یہ سن کروہ خوب ہنسے اوراندرجاکراپنے دوستوں سے بولے،تم نے کچھ سنا؟ سہروردی وزیرِاعظم کاحلف لینے کاوقت پوچھ رہاہے۔”اس پرسب نے تاش کے پتے زورزورسے میزپرمارے اور بڑے اونچے فرمائشی قہقہے بلندکیے۔کچھ دیر اچھی خاصی ہڑبونگ جاری رہی۔اس کے بعدگورنرجنرل نے مجھے کہا”میری طرف سے تمہیں اجازت ہے کہ تم سہروردی کوبتادو کہ حلف برداری کی تقریب پرسوں منعقد ہوگی اورچودھری محمدعلی وزیرِاعظم کاحلف اٹھائیں گے۔”

وہاں سے میں سیدھا مسٹرسہروردی کے ہاں پہنچااوران کویہ خبرسنائی۔ایسادکھائی دیتاتھاکہ ان کے ساتھ کچھ وعدے وعید ہوچکے تھے۔اس نئی صورتِ حال پروہ بڑے جھلائے اورمیرے سامنے انہوں نے بس اتناکہا،”اچھا،پھروہی محلاتی سازش۔”لیکن جیساکہ ہوتاآیاہے،آخرکارصدرِمملکت کی محلاتی سازشیں خودانہی پر بھاری پڑگئیں۔اسکندرمرزانے نہ صرف سفارش کر کے جونیئرافسرایوب خان کوآرمی چیف لگوایاتھا بلکہ مارشل لاسے صرف تین مہینے پہلے ان کی مدتِ ملازمت میں دوسال کی توسیع کی تھی۔انہی ایوب خان نے مارشل لاکے20دن کے اندراندر اسکندرمرزاکوجہازمیں لدوا کرخلاتو نہیں،البتہ پہلے کوئٹہ اورپھر برطانیہ بھجوا دیا۔

آپ نے دیکھاہوگاکہ یہ سکرپٹ بھی پاکستان میں اتناچلاہے کہ گھس پٹ گیاہے کہ جوجس آرمی چیف کولگاتاہے وہی اس کے قدموں تلے سے قالین کھینچ لیتا ہے۔توکون تھے یہ مبینہ بازنطینی محلاتی سازش سازاسکندرمرزا جنہوں نے پاکستانی وزارتِ عظمیٰ کودھوتی بناکررکھ دیا تھا؟یادرہے کہ سکندرمرزا اسی میرحعفر کے پڑپوتے ہیں جس نے انگریزوں کے ساتھ مل کرٹیپوسلطان کے ساتھ غداری کی تھی ۔اپنے اقتدارکی کہانی کی کچھ تفصیل ایوب خان کی اپنی کتاب”فرینڈزناٹ ماسٹرز”میں ملتی ہے جس میں وہ برملااعتراف کرتے ہیں کہ “وہ اس وقت لندن ایئر پورٹ پرتھے جب انہیں گورنر جنرل سکندر مرزانے فون کرکے ہنگامی حالات میں امریکاسے واپس بلایا ، اس وقت ان کے ساتھ سکندرمرزا،چوہدری محمدعلی اوروزیراعظم محمدعلی بوگرا بھی تھے” ۔یادرہے کہ ستمبر1953ء میں آرمی چیف …… جنرل ایوب خان …… امریکی فوجی امدادکے حصول کیلئے دورہ امریکاپرگئے تھے۔ واپسی پرانہیں پاکستان کاوزیردفاع بھی بنادیاگیاجوایک اچھوتاواقعہ تھاکہ ایک حاضرسروس فوجی جنرل کوایک سویلین عہدہ تفویض کیاگیا۔27اکتوبر1959ء کوانقلاب کی پہلی سالگرہ پرجنرل ایوب خان کی کابینہ نے ان کوفیلڈ مارشل کاعہدہ تحفے کے طورپرپیش کیا تھا۔یادرہے کہ جنرل ایوب خان نہ صرف صدربلکہ 20 اکتوبر1966ءتک پاکستان کے وزیردفاع بھی تھے اوراس طرح یہ عہدہ بارہ سال تک ان کے پاس رہاتھا اور اس دوران انہیں اربوں ڈالرزکی فوجی اوراقتصادی امدادملی تھی جوامریکابہادرکوفوجی اڈے دینے کے عوض ملتی رہی تھی اورجو پاکستان کے دس سالہ شاندار ترقیاتی دورکی بنیاداورملک میں کرپشن اوراقربا پروری کی ایک بد ترین مثال بن گئی تھی۔

اورایساہی کتاب لکھنے کاشوق پرویز مشرف نے”ان دی لائن آف فائر”لکھ کر پوراکیاہے۔یہ کس قدراتفاق ہے کہ ایوب خان کی کتاب کو الطاف گوہرنےترتیب دیااورمشرف کی کتاب کوہمایوں گوہرنے……گویاباپ بیٹے نے خوب خدمات انجام دیں ہیں۔بلکہ قحط الرجال کایہ عالم بھی دیکھنے کاملاکہ ایوانِ اقتدار کیلئے محمد علی بوگرہ،اورایوب خان کوبھی امریکاکے دورے سے واپس بلایاگیااوربعدازاں ایک وقت یہ بھی آیاکہ جب سارے پاکستان میں کوئی ایساوفادار نہیں ملاتوتین مہینوں کیلئے معین قریشی کوبھی امریکاسے بلاکراس منصب پربٹھادیاگیا۔ چندسالوں کے بعداس کہانی کوپھردہرایاگیا۔ دوتہائی اکثریت کے خماراورگھمنڈکی وجہ سے کچھ ایسے غلط اورگھناؤنے فیصلے سرزدہوئے جس کی پاداش میں اپنے ہی بنائے آرمی چیف کے ہاتھوں جلاوطن ہوناپڑگیااور مشرف نے ”سب سے پہلے پاکستان ”کے نعرے کی آڑمیں خودکوعقل کل سمجھ لیالیکن اسی ایوانِ اقتدارسے ایسی رخصتی ہوئی کہ اب خودجلاوطنی کی زندگی بسرکررہے ہیں۔لیکن یہ اقتدارکا ہما اس قدرناقابل اعتبارہے کہ ایک مرتبہ پھر”غیرملکی اقامے”کی وجہ سے نہ صرف اقتدارسے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ اب خودجلاوطنی سے ملک میں اسی اقتدار کیلئے تحریک برپاکررکھی ہے۔ اب ایک مرتبہ پھرملک میں لانگ مارچ شروع ہیں اور مختلف بولیاں بولی جارہی ہیں لیکن اس مرتبہ جاری آڈیشن کونئے سافٹ ویئر میں تبدیل کئے جانے کی توقع ہے۔پاکستان پہلی مرتبہ خطے میں ٹرائیکاکے مقابلے میں سپر ٹرائیکاکاحصہ بن چکاہے اورافغان انخلاء کے بعد امریکا کواڈے دینے سے انکارسے لیکراب روس کادورہ کرکے یوکرین کے معاملے پرغیرجانبداررہنے کاجوفیصلہ کیاہے،اس کی تعذیب کاآغازکردیاگیاہے لیکن ہم ثابت قدم رہے توایک نئی آزادی کی صبح غلامی کی ظلمتوں سے نجات کاپیغام لیکر آئے گی ان شاءاللہ۔

قارئین!اگرآپ غورکریں توتیسری دنیاکے ممالک کی حکومتوں کوگرانے کے پیچھے آج بھی یہی کہانی دہرائی جاتی ہے،بس سمجھنے کی ضرورت ہے!
اعمال کج کریں گے تعاقب قبور تک
پیچھا نہ اس کے بعد بھی چھوڑیں گے دور تک

اپنا تبصرہ بھیجیں