چین کے سب سے بڑے قائد ڈینگ ژیاؤ پنگ نے فروری 1979ء میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے 3لاکھ سپاہیوں کو جنوب مغربی ویتنام میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا، تب چین کے حوالے سے بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ محض ایک ماہ کی مدت میں چینی فوج نے شمالی اور مغربی ویتنام کے ایک درجن سے زائد شہروں پرآسانی سے قبضہ کرلیاتھا کیونکہ ویتنامی فوج قدرے چھوٹی اورجدید ترین ہتھیاروں سے بہت حد تک محروم تھی۔ پھر یہ ہوا کہ 16 مارچ کوچینی فوج یہ کہتی ہوئی ویتنام سے نکل گئی کہ اس نے ویتنامی قیادت کوسبق سکھادیاہے۔ظاہری طورپرتوبیجنگ ویتنام کواس بات کی سزادے رہا تھاکہ وہ خطے میں (سابق)سوویت یونین کوآگے بڑھنے کانام دے کرچین کی راہ مسدود کررہاہےلیکن حقیقت کچھ اورتھی۔ چینی فوج کی تاریخ پرگہری نظر رکھنے والے پیپلزلبریشن آرمی کے ایک سابق کرنل کاکہناہے کہ کہنے کوتو ویتنام کوسوویت یونین سے تعلقات بہتربنانے کی سزادی جارہی تھی مگرڈینگ ژیاؤپنگ دراصل چینی فوج کومنظم کرناچاہتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ چین کی فوج کسی بھی بڑی اور خطرناک صورتِ حال میں فوری ریسپانس دینے کی پوزیشن میں رہے اورعوام کا اس پراعتماد بھی بڑھے۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ سے انٹرویومیں انہوں نے کہا کہ چینی فوج ایک طویل مدت سے لڑی نہیں تھی اورڈینگ ژیاؤ پنگ چاہتے تھے کہ ویتنام پرحملے کی صورت میں چینی فوج کی کمزوریاں ظاہر ہوں تاکہ اُن کے تدارک کی تدبیر کی جاسکے۔
ویتنام پر لشکر کشی کی صورت میں صرف ویتنام کو نہیں، چین کو بھی اچھا خاصا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ غیر جانب دار ذرائع کہتے ہیں کہ اس عسکری مہم جوئی میں 80 ہزار ویتنامی مارے گئے تاہم 7 ہزار چینی فوجی بھی موت کے گھاٹ اترے اور زخمی چینی فوجیوں کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ تھی۔ ویتنام جیسے چھوٹے اور کمزور ملک کے ہاتھوں چینی فوج کو پہنچنے والے اتنے بڑے جانی نقصان سے ڈینگ ژیاؤ پنگ کو چینی فوج میں کم و بیش پندرہ لاکھ کی کٹوتی یقینی بنانے اور تربیت پر زیادہ زور دینے کا موقع مل گیا۔ چار عشروں کے بعد اب چین دوسری بڑی معیشت کا درجہ پاچکا ہے اور اس کی فوج جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے اور خاص طور پر چینی بحریہ بھرپور تربیت اور مشق کی مدد سے اس قابل ہوچکی ہے کہ دنیا بھر میں قومی مفادات کا بہتر انداز سے دفاع کرسکے۔1970ء کے عشرے کو یاد کیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ چینی فوج کو کس قدر بحران کا سامنا تھا۔ تب چینی فوج کو اندرونی سطح پر انتظامی حوالے سے غیر معمولی نا اہلی اور ناموزونیت کا سامنا تھا۔ چینی انقلاب کو جو خطرات لاحق تھے اُن کے تدارک کیلئےچینی فوج پر دباؤ بڑھ گیا۔ بہت سے شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں کو بھی فوج کے ہاتھ میں دینا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج کی نفری کم و بیش 60 لاکھ تک پہنچ گئی۔ چیئرمین ماؤ زے تنگ کے مخالفین کو کچلنے کیلئےفوج سے غیر معمولی حد تک مدد لی گئی۔ اہلِ دانش کو بھی کچلنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ یہ سب کچھ 1976ء میں ختم ہوا۔
ویتنام کے حوالے سے جو مہم جوئی کی گئی اس نے چینی فوج کیلئےشدید بحرانی کیفیت پیدا کی۔ ایک طرف تواخراجات بڑھنے سے تربیت اور انتظامی امورکیلئےکچھ زیادہ خرچ کرنے کی گنجائش معدوم سی ہوگئی اوردوسری طرف یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جدید ترین ہتھیاروں کی کمی یاانہیں چلانے کے حوالے سے دی جانے والی ناقص تربیت کے باعث اچھا خاصا جانی نقصان اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کا پیدا کردہ تھا۔ علاوہ ازیں کمانڈ کا بھی مسئلہ تھا۔ چینی فوج کومعلوم ہی نہیں تھاکہ کہاں کس کاحکم مانناہے گویابد نظمی کی کیفیت تھی۔ لازم ہوگیا کہ چینی فوج کا حجم کم کیا جائے اور اُسے نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری تھا کہ ڈینگ ژیاؤ پنگ کی قیادت میں چین کو باقی دنیا سے کٹ کر رہنے کے بجائے مل کر آگے بڑھنے کی پالیسی اپنانا تھی۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ تک تو یہ تھا کہ چینی قیادت باقی دنیا سے کٹ کر، الگ تھلگ، اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن تھی اور اسے اس بات سے کچھ خاص غرض نہ تھی کہ چین کے بارے میں باقی دنیا کیا سوچتی ہے۔ اصلاحات کے ابتدائی دو عشروں کے دوران چینی فوج کو ایک طرف سے دفاعی بجٹ میں کٹوتیاں جھیلنا پڑیں۔ اس کے علاوہ کم و بیش نصف درجن بار اسٹرکچرل اوور ہالنگ ہوئی یعنی فوج کا ڈھانچا ہی تبدیل کردیا گیا اور تقریباً 35 لاکھ فوجیوں کو غیر متحرک کیا گیا۔ ان فوجیوں کی بظاہر کچھ خاص ضرورت نہ تھی۔ فوج کا بجٹ کم کیا گیا تو مسائل پیدا ہوئے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ نے فوج کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ کاروبار کرے اور اپنے مالیاتی مسائل خود حل کرے۔ فوج کے کئی یونٹس نے اپنی زمین پر اگائی ہوئی فصلوں کو فروخت کرنا شروع کیا۔ کئی دوسرے یونٹس نے کمپنیاں قائم کرکے کاروبار شروع کیا۔ یوں فوج کیلئےمالی وسائل کے حوالے سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے میں مدد ملی۔ فوجی اسپتالوں اور ہوٹلوں کے دروازے جلد ہی عام شہریوں کیلئےکھل گئے۔ بیرکس اور گودام کرائے پر دیے جانے لگے اور فوج نے تعمیرات کے شعبے میں اپنی مہارت سویلین تجارتی شعبے کو پیش کیں۔
یہ سب کچھ بظاہر بہت پرکشش تھا۔ فوج کیلئےآسانی پیدا ہوئی۔ جب وہ اپنے لیے وسائل خود پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہوئی تو اس کی کاروباری صلاحیت بھی اچھی ہوگئی، مگر ایک بڑا نقصان یہ پہنچا کہ کرپشن کو عروج ملا۔ فوج کی گاڑیاں اور نمبر پلیٹس اسمگلنگ کیلئےبھی استعمال کی جانے لگیں۔ آج یہ ایک کھلا راز ہے کہ 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں چین کے ساحلی شہروں میں اسمگلنگ غیرمعمولی حد تک بڑھی۔ آبدوزیں اوربڑے جہاز،کاریں اور گھریلو استعمال کے برقی آلات اسمگل کرنے کیلئےاستعمال کیے گئے۔بحری جہازوں کے ذریعے ایندھن بھی اسمگل کیا گیا۔بہت سے سینئرفوجی افسران نے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئےاختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کیااوریوں کرپشن کادائرہ پھیلتاچلا گیا۔ معاملات اس حد تک بگڑے کہ 1998ء میں اس وقت کے چینی قائد جیانگ ژی من نے فوج کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔ اس کے نتیجے میں فوج کو جس خسارے کا سامنا ہوسکتا تھا، اس کے تدارک کیلئےدفاعی بجٹ نمایاں طور پر بڑھادیا گیا۔ تب تک چین کی معیشت اس قابل ہوچکی تھی کہ دفاعی بجٹ میں غیر معمولی اضافہ بھی جھیل سکے اور پھر 2013ء میں صدر شی جنگ پنگ نے پیپلز لبریشن آرمی کو کنٹرول کرنے والے انتہائی طاقتور سینٹرل ملٹری کمیشن پر اپنا تصرف قائم کرلیا۔ صدر شی جن پنگ نے فوج میں پائی جانے والی بدعنوانی پر قابو پانے کیلئےایک بھرپور مہم شروع کی۔ اس مہم کے نتیجے میں سینٹرل ملٹری کمیشن کے دو سابق چیئرمین بھی احتساب سے نہ بچ سکے۔ پیپلزلبریشن نے اکتوبر2017ء میں بتایاکہ پانچ برس میں 13ہزارسے زائد فوجی افسران کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کی بنیاد پر شدیدترین سزائیں سنائی گئی ہیں۔
ڈینگ ژیاؤ پنگ نے اوپن اپ کی پالیسی اپنائی، جس کے نتیجے میں چین کو مغرب میں قبول کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ واشنگٹن کے قدامت پسند تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مرکز برائے چائنیز اسٹریٹجی کے ڈائریکٹر مائیکل پلزبری کہتے ہیں کہ امریکا نے چین کی طرف غیر مخاصمانہ انداز سے دیکھنا شروع کردیا۔ویتنام میں چین کی فوج کوجوکچھ بھی برداشت کرناپڑاتھااس کے ازالے کے طور پرامریکا نے چین کوعسکری امداددینا شروع کی۔ اپنی کتاب’’دی ہنڈریڈ ایئر میراتھن‘‘ میں مائیکل پلزبری نے لکھا ہے کہ چین کوجدید ترین ہتھیاروں کی ضرورت تھی۔امریکا نے اسے مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر کی مالیت کے 6ویپن سسٹم فراہم کیے۔ بیجنگ میں چینی فوج کے بعض اعلیٰ ذرائع نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کو بتایا کہ امریکا نے چین کو ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ویتنام سے سابق سوویت یونین کے تعلقات کے حوالے سے خفیہ معلومات بھی فراہم کی تھیں۔
مائیکل پلزبری کے مطابق امریکی قیادت نے چینی قیادت کویہ پیشکش بھی کی کہ جینیٹک انجینئرنگ اور اسپیس فلائٹ جیسے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں مہارت پیدا کرنے کیلئےمراکز بھی قائم کرکے دیے جاسکتے ہیں۔
عسکری سطح کے تعلقات کی بہرحال ایک حد تھی، جس سے آگے نہیں جایا جاسکتا تھا۔ بعد میں چند ایک ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے سیاسی قیادت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ 1989ء میں تیان من اسکوائر کے واقعے کے بعد امریکا نے چین کو اسلحے کی فراہمی روک دی اور اس کے بعد1992 ء میں تائیوان کو امریکا نے 150/ ایف 16 طیارے فراہم کیے۔ یوں دونوں طاقتوں
کے تعلقات میں ایک بارپھرسردمہری پیداہوئی۔بہرکیف،امریکا کی عسکری برتری نے چین کو دفاع کے معاملات میں بہتر ہونے کی تحریک دی۔ کوسوو اور دیگر خطوں میں امریکا نے فضائی قوت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ چینی قیادت کے پاس فائٹر جیٹ کی ٹیکنالوجی اپ گریڈ کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ لندن کی ایوی ایشن انٹیلی جنس ویب سائٹ فلائٹ گلوب کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں چین کا مدار برّی افواج پر تھا، مگر اب چین کے پاس فائٹر جیٹس اور ہیلی کاپٹروں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے، جو امریکا اور روس کے بعد سب سے بڑی فضائی قوت ہے۔
چین نے بحری قوت کو بڑھانے پر بھی توجہ دی ہے۔ اس وقت چینی بحریہ کے پاس ایک طیارہ بردار جہاز ہے۔ ایک جہاز بہت جلد چینی بحریہ کا حصہ بنادیا جائے گا اور 2030ء تک مزید چار طیارہ بردار جہاز چینی بحریہ کا حصہ ہوں گے۔ قوت کے اعتبار سے اس وقت چینی بحریہ امریکا کے بعد سب سے بڑی بحری قوت ہے۔ چین کے پاس میزائل بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ان میں ڈی ایف 14 قسم کے میزائل بھی شامل ہیں، جن کی رسائی 7500 کلو میٹر تک ہے اور بعض ذرائع کہتے ہیں کہ چین ان میزائل کے ذریعے امریکا میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔
چینی فوج کے ذرائع اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ چین کی فوج اب تک ٹیکنالوجی کے معاملے میں پوری طرح خود کفالت کی منزل تک نہیں پہنچ سکی۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسے اب بھی بیرون ملک سے حاصل ہونے والے بہت سے پرزوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو چین نے روس سے بڑے پیمانے پر جیٹ فائٹرز خریدے اور ان کی ٹیکنالوجی بھی پائی اور دوسری طرف تیسرے ممالک کی مدد سے مغربی دنیا کے جدید ترین دفاعی نظام بھی خریدے۔ تیار مصنوعات کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی خریدنے پر بھی چین نے خاص توجہ دی ہے۔ مکاؤ سے تعلق رکھنے والے عسکری امور کے ماہر انتونی وانگ ڈانگ کہتے ہیں کہ چینی ماہرین نے ایک مدت تک مغربی دنیا کی ٹیکنالوجی کی نقالی کی مگر وہ مہارت پیدا کرنے سے دور رہے ہیں، جو فطری علوم اور عسکری معاملات میں بہت آگے لے جانے کیلئےدرکار ہوا کرتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ چین کو دفاع کے حوالے سے اب بھی بہت سے ترقی یافتہ اور بالخصوص مغربی ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ڈینگ ژیاؤ پنگ کی خواہشات کو عملی روپ دینے کی گھڑی آچکی ہے۔ چین کی فوج 2050ء تک دنیا کی سب سے بڑی فوج بننے کی تیاری کرچکی ہے۔ تائیوان سے بھرپور لڑائی کی بظاہر تیاری کی جاچکی ہے۔ بحیرۂ مشرقی و جنوبی چین میں بھی چینی فوج نے بھرپور مناقشوں کی تیاری کر رکھی ہے۔ اس بار چینی قیادت کوئی بڑی غلطی کرنے یا کسر چھوڑنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ دوبارہ حاصل کیے جانے والے چند جزائر پر چین نے فوجی اڈے قائم کیے ہیں۔ ان اڈوں کے ذریعے وہ پورے خطے پر نظر رکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ اور کسی بھی صورتِ حال میں چینی فوج فوری ریسپانس کی پوزیشن میں بھی آچکی ہے۔
افریقی ملک جبوتی کے بعد چین اب پاکستانی شہر گوادر میں پاکستان کے اشتراک کے ساتھ بحری اڈا بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ چین ان دونوں اڈوں کو بحرہند میں امن مشن یا امدادی کارروائیوں کے حوالے سے اپنی لاجسٹک پوسٹ شمار کرتا ہے۔ چین اورپاکستان نے ہزاروں فوجیوں کو اقوام متحدہ کے امن مشن میں بھی تعینات کر رکھا ہے اور صومالیہ کے پانیوں میں قزاقوں کے خلاف کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود بحری معاملات میں چین کے عزائم شک و شبہے کی نظر سے دیکھے جارہے ہیں۔ بین الریاستی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی تجارتی جنگ ایشیا میں بہت سے ممالک سمیت امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں کوبالآخرسی پیک منصوبے میں شراکت داری بڑھانے کی تحریک دے سکتی ہے۔
سنگاپور کے ایس راجا رتنم اسکول آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کے دفاعی امور کے ماہر کولن کو سوی لین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں امن مشن میں پیپلز لبریشن آرمی کی شمولیت کو دنیا نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے مگر تائیوان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں اور بحیرۂ جنوبی چین میں بندر گاہوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خطیر سرمایا کاری نے چین کے عزائم کے حوالے سے علاقائی ممالک ہی نہیں، عالمی برادری کو بھی تشویش میں مبتلا کیا ہے۔کولن کوہ سوی لین کہتے ہیں کہ صدر شی جنگ پنگ کی قیادت میں چین زیادہ پرعزم ہے۔ وہ اپنی بھرپور طاقت کو بروئے کار لانے کی تیاری کرچکا ہے اور اس حوالے سے ابتدا کیلئےبے چین ہے۔ اس کا اعتماد غضب کا ہے۔ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ چینی فوج اس حوالے سے مکمل تیاری کی حالت میں ہے۔
ادھرروس اورامریکاکی سردجنگ پھرعروج پرجاتی نظرآرہی ہے جس کایقیناًفائدہ چین کی فوج ہی اٹھائے گی۔ خدشہ ہے کہ امریکا سرد جنگ کے زمانے کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے ایک اہم بین الاقوامی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرنے جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ جسے انٹرمیڈی ایٹ رینج نیوکلئیر فورسز ٹریٹی (آئی این ایف) کہا جاتا ہے1987ء میں اُس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن اور سوویت یونین کے سربراہ میخائیل گورباچوف کے درمیان طے پایا تھا۔درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں کے اس معاہدے کا مقصد وسیع سطح پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنا ہے۔ عالمی ماہرین نے اس معاہدے کو ایک سنگِ میل قرار دیا تھا۔ حال ہی میں امریکا کا یہ کہنا ہے کہ روس کی جانب سے لگائے گئے کروز میزائل اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ روس نے امریکاکے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اکتوبر میں تصدیق کی تھی کہ امریکہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے اس معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا۔امریکی ریاست نویڈا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ‘ہمیں اس اسلحے کو بنانا ہوگا۔ ہم اس معاہدے کو ختم کرنے جا رہے ہیں اور ہم اس سے دستبردار ہو جائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق امریکا پہلے تو اس معاہدے کو چھ ماہ کےلیے معطل کرے گا اور اگر روس اس تنازعہ کو طے کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو پھر امریکا مستقل طور پر دستبردار ہو جائے۔ روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریاب کوو نے کہا ہے کہ امریکہ کی اس معاہدے سے دست برداری ناگزیر ہے اور امریکہ کے اس اقدام سے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی عالمی کوششوں کو شدید جھٹکا لگے گاتاہم جرمنی کی حکومت کے ایک ترجُمان نے کہا ہے کہ روس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاہدے کو بچانے کے لیے اقدامات کرے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن امریکہ کو اس معاہدے سے دستبرار کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ امریکی محکمہ دفاع اس کوشش کے خلاف ہے۔ برطانیہ کے ایک معروف تحقیقی ادارے رائیل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل میلکم چامرز نے کہا ہے کہ “یہ سن اسی کی دہائی کے بعد جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا شدید ترین بحران پیدا کرے گا۔اگر آئی این ایف معاہدہ ختم ہو جاتا ہے، اور اب جبکہ تخفیفِ اسلحہ کا معاہدہ، سٹارٹ کی معیاد 2021 میں ختم ہونے والی ہے، تو 1972 کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہو گا کہ دنیا کسی بھی تخفیفِ اسلحہ یا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے بغیر ہوگی۔
“سٹارٹ”یعنی سٹریٹجک آرمز ری ڈکشن ٹریٹی، جو تخفیفِ اسلحہ کا ایک عالمی معاہدہ ہے 1991 میں روس اور امریکا کے درمیان طے پایا تھا اور یہ 1994 میں نافذ العمل ہو گیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد اس وقت کی دو عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں اور دور تک مار کرنے والے میزائلوں اور وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی کمی کرنا تھا۔ گزشتہ روز امریکا اور روس کے نمائندوں نے بیجنگ میں آئی این ایف کو بچانے کی کوششوں کے سلسلے میں مذاکرات کیے تھے جو اب ناکام نظر آرہے ہیں۔ امریکاکا کہنا ہے کہ اگر روس نے اس معاہدے کی خلاف ورزی میں یورپ میں لگائے گئے میزائلوں کو تباہ نہ کیا وہ اگلے ہفتے آئی این ایف سے علیحدہ ہو جائے گا ۔ ماسکو نے امریکی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُس کے ’نو واٹور9ایم729 میزائیل‘ اس معاہدے کی حدود و قیود کے مطابق لگائے گئے ہیں۔
اگرروس اورامریکامیں اس سردجنگ میں اضافہ ہوتاہے تویقیناًاس کاجہاں فائدہ براہِ راست چین کوپہنچے گاوہاں اس خطے میں امریکااپنی موجودگی کویقینی بنانے کیلئے بحیرہ عرب میں اپنی بحری اڈّوں کواستعمال میں لاتے ہوئے وہاں سے گزرنے والے پٹرول اوردیگرتجارتی جہازوں کے راستوں پر اپناکنٹرول مزیدمضبوط کرکے روس اورچین کیلئے مشکلات کھڑی کرسکتاہے جبکہ چین کی دنیامیں سپرپاوربننے کی پالیسی اس کی بڑھتی ہوئی عالمی معاشی ترقی ہے جس کیلئے سی پیک اور”ون روڈون بیلٹ”جیسے منصوبوں کی تکمیل میں وہ شب وروزمصروف ہے۔ ادھرافغانستان میں امریکاکے انخلاء کے بعدسب سے زیادہ فکرمندبھارت ہے جس کی جہاں اپنے مربی امریکاکی خوشنودی اورایماء پر برسوں سے بھاری سرمایہ کاری غرق ہوتی نظرآرہی ہے وہاں افغانستان میں جاری صدارتی انتخابات میں بھارت پوری کوشش کررہاہے کہ اس کے حمائت یافتہ اشرف غنی یاعبداللہ عبداللہ کسی طریقے سے اقتدارحاصل کرلینے میں کامیاب ہوجائیں جبکہ افغانستاان کے انتخابات پرخطے کے دیگرممالک روس،چین،ایران کی نگاہیں بھی مرتکزہیں۔ چین کیلئے ضروری ہے کہ سی پیک کی کامیابی کیلئے افغانستان کوہرحال میں خانہ جنگی سے محفوظ رکھاجائے تاکہ سویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی چھ ریاستوں کے ساتھ زمینی راستہ بحال ہوسکے اوریہ اسی صورت میں ممکن ہے جب افغانستان میں امن وامان کی صورتحال مکمل طور پرہرقسم کے خطرات سے محفوظ ہو۔
Load/Hide Comments