We Should Also Be Considered Ss Human Beings

ہمیں بھی انسان سمجھاجائے

:Share

جب بھی اسرائیل اپنی بھرپورسفاکی اورطاقت کے نشے میں چور ہوکر راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ کو انتہائی بہیمیت کے ساتھ نشانہ بناتاہے توامریکا میں ڈیمو کریٹک اورری پبلکن دونوں جماعتوں کاایک ہی بیانیہ سننے میں آتاہے کہ اسرائیل کواپنے دفاع کاحق حاصل ہے ۔کوئی بھی یہ دلیل نہیں دے رہاکہ ناجائز ریاست اسرائیل یاکسی بھی اورملک کو اپنے لوگوں کے دفاع کاحق حاصل نہیں،پھریہ الفاظ سال بہ سال،جنگ بہ جنگ کیوں دہرائے جارہے ہیں؟اوریہ سوال کبھی کیوں نہیں اٹھایاگیاکہ جائزحق دارفلسطینیوں کے حقوق کیاہیں؟اورہم اسرائیل اورفلسطین میں تشددکانوٹس صرف اس وقت کیوں لیتے ہیں جب فلسطینیوں کے داغے ہوئے راکٹ اسرائیل میں گررہے ہوتے ہیں؟اس بحرانی کیفیت میں امریکاکودیرپاجنگ بندی یقینی بنانے کے حوالے سے بہت کچھ کرناچاہیے ۔ہمیں یہ بات سمجھناہوگی کہ اگراسرائیل کی طرف داغے جانے والے حماس کے راکٹ ناقابل قبول ہیں توپھرآج کایہ سنگین تنازع ان راکٹس سے پیدانہیں ہوا۔

2022ء کاسال آخری سانسیں لے رہاہے اوربین الاقوامی میڈیابحی اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ فلسطینیوں کیلئے یہ سال نہایت خون ریز رہا ہے۔ اس برس اب تک اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں صرف مقبوضہ غربِ اردن میں 150 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے۔ حقوقِ انسانی کی تنظیمیں مکمل شواہد کے ساتھ اسرائیل پر طاقت کے غیر متناسب استعمال کا الزام لگاتی ہیں۔ بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں کئی فلسطینی خاندان ایک مدت سے جبری نکالے جانے کے خطرے سے دوچارحالت میں جی رہے ہیں۔ ایک ایسا قانونی نظام وضع کرکے نافذ کر دیا گیاہے جس میں انہیں جبراًبے گھرکرنا ممکن ہے۔چندہفتوں کے دوران انتہاپسند یہودی آباد گاروں نے ان فلسطینیوں کوبے گھرکرنے سے متعلق اپنی کوششیں تیزکردی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کوان کی زمینوں یا علاقوں سے بے دخل کرنے کایہ عمل سیاسی اورمعاشی دباؤکے ایک بڑے نظام کامحض ایک حصہ ہے۔ہم ایک مدت سے دریائے اردن کے مغربی کنارے اورمشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی آبادگاروں کے قبضے اورغزہ کی اقتصادی ناکہ بندی دیکھتے آئے ہیں،جس نے فلسطینیوں کیلئے حالات کوناقابلِ برداشت بنایاہے۔غزہ کی آبادی کم وبیش بیس لاکھ ہے اوروہاں70فیصدنوجوان بے روزگارہیں۔ان میں مستقبل کے حوالے سے قطعاًکوئی واضح امیدبھی باقی نہیں رہی۔

ساتھ ہی ساتھ ہمیشہ کی طرح ہریہودی حکومت کواسرائیل میں آبادفلسطینیوں کیلئے بہترمستقبل کے امکانات کوکم سے کم کرنے اورانہیں زیادہ سے زیادہ بدنام کرنے کی کوشش کرتے دیکھاہے۔نیتن یاہوکی حکومت نے فلسطینیوں کے علاقوں پرقبضہ کرکے وہاں یہودیوں کوآباد کرنے کی پالیسی پرعمل جاری رکھااوراب نئے وزیراعظم یائرلپڈکی موجودگی میں دوریاستوں والاحل اب کم و بیش ناممکن ہوکررہ گیاہے۔ایسے قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کے تحت اسرائیل کے یہودی اورغیر یہودی شہریوں کے درمیان بہت واضح خطِ امتیازکِھنچ گیاہے۔

کیاان تمام حقائق سے حماس کے حملوں کوجوازنہیں ملتا؟حماس نے(مقبوضہ) بیت المقدس میں پائی جانے والی بے چینی اوربدعنوان،ناکام فلسطینی اتھارٹی کی ناکامیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے انتخابات کرانے کی زحمت بھی گوارانہیں کی ہے جبکہ ان کاوقت ہوچکاہے۔یہ حقیقت سب پر واضح ہے کہ اسرائیل اورفلسطین دونوں سرزمینوں میں اسرائیلی حکومت واحدخودمختار اتھارٹی ہے مگراس نے امن اورانصاف کیلئے فعال ہونے کے بجائے غیرمساوی اورغیرجمہوری تصرف اورغیرقانونی جبری پالیسیوں کو یقینی بنانے پرزیادہ توجہ دی ہے۔اسرائیل میں ایک عشرے سے بھی زائدمدت میں انتہائی دائیں بازوکی حکومت کی قیادت میں عدم رواداری اورمطلق العنانیت پرمبنی نسل پرست قوم پرستی کوفروغ دینے کیلئے مجرمانہ کام کیاگیا ۔ اقتدارکوطول دینے اور کرپشن پرمحاسبے سے بچنے کیلئے نیتن یاہونے اتماربین گوِراور اس کی انتہاپسندجیوئش پاورپارٹی کوجائزحیثیت دینے کی بھرپور کوشش کی ۔انہیں حکومت کاحصہ بنایا گیا۔یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جن نسل پرستوں نے (مقبوضہ) بیت المقدس کی سڑکوں پرٹولوں کی شکل میں فلسطینیوں کوقتل کیاوہ آج اسرائیل کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں۔

یہ خطرناک رجحانات اسرائیل کے حوالے سے کسی بھی طورمنفردیاحیرت انگیزنہیں۔یورپ،ایشیا،جنوبی امریکااورامریکامیں،مطلق العنان قومی تحریکوں کوتیزی سے ابھرنے اور مقبولیت پانے کی تاریخ سے کسی نہیں کچھ نہیں سیکھا۔یہ تحریکیں بہت سوں کیلئے خوشحالی، انصاف اورامن یقینی بنانے کی کوشش کرنے کی بجائے نسلی اورلسانی بنیادپرپائی جانے والی نفرت کوبروئے کارلاکرچندایک کیلئے اقتدار اور کرپشن کی راہ ہموارکی ہے۔ساتھ ہی ساتھ ان دنوں سیاسی کارکنوں کی ایک ایسی نسل بھی ابھرتی دیکھ رہے ہیں جوانسانی ضرورتوں اورسیاسی مساوات کی بنیادپر معاشروں کی تعمیرچاہتی ہیں۔جس کی ایک مثال امریکاکی سڑکوں پرجارج فلائڈکے قتل کے بعدایسے بہت سے کارکنوں کواحتجاج کرتے ہوئے دیکھاگیا۔اب یہ کارکن ہمیں اسرائیل اورفلسطینی علاقوں میں بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

جوبائیڈن سے اقوام عالم کویہ توقع ہے کہ دنیاکے حوالے سے انصاف اورجمہوریت پرمبنی طرزِفکروعمل اپنائی جائے۔معاملہ غریب ممالک کوویکسین کی فراہمی کاہو یاماحول میں پیداہونے والی خرابیوں سے لڑنے کایاپھرسیاسی معاملات کی درستی کا،امریکاکوہر محاذپر کلیدی اورقائدانہ کرداراداکرناہے۔ امریکا کوتنازعات کے خاتمے کی راہ ہموارکرتے ہوئے اشتراکِ عمل اورمعاونت کی راہ ہموار کرنی ہے لیکن حالیہ فلسطین اوراسرائیل کے معاملے میں ان کے بیانات نے بڑامایوس کیاہے۔ امریکااسرائیل کوہرسال چارارب ڈالرکی امداددیتاہے۔ایسے میں ”یائرلپڈ” کی انتہاپسندحکومت اوراس کے غیرجمہوری اور نسل پرستانہ اقدامات کے حوالے سے جوبائیڈن کومعذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے تھا۔انہیں اب اپناراستہ تبدیل کرکے برابری کے اصول پرمبنی طرزِفکروعمل اپنانی چاہیے، جو شہریوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی قانون کوبالا دست اورمضبوط کرتی ہواورساتھ ہی ساتھ امریکی قانون کوبھی بالادستی عطا کرتی ہوجس کے تحت امریکی فوجی امدادکسی بھی حالت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب معاشروں کونہیں ملنی چاہیے۔

نئی اپروچ یہ ہونی چاہیے کہ جس طوراسرائیل کوسلامتی کے ساتھ اورسکون کی حالت میں رہنے کاحق حاصل ہے بالکل اسی طور فلسطینیوں کوبھی محفوظ اورخوش حال زندگی بسرکرنے کا حق حاصل ہے۔میں اس بات پرپورایقین رکھتاہوں کہ اسرائیلیوں اورفلسطینیوں کوبہترمستقبل کی تیاری میں مدددینے کے حوالے سے امریکا بہت اہم کرداراداکر سکتاہے ۔ اگر امریکاعالمی سطح پربنیادی حقوق کے حوالے سے تواناآوازبنناچاہتاہے توہمیں انسانی حقوق پربین الاقوامی معیارات کی بالا دستی ہرحال میں یقینی بنانی چاہیے،چاہے ایساکرناسیاسی اعتبارسے کتناہی مشکل ہو۔ہمیں محسوس کرناہوگاکہ فلسطینیوں کے حقوق اوران کی زندگیوں کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی اسرائیلیوں کے حقوق اورزندگی کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں