Common Enemy

مشترک دشمن

:Share

دنیاامن وسلامتی کی آرزومندہے،کم سے کم زبان سے توسب اسی امن اورسلامتی کے دعویدارہیں لیکن اس امن وسلامتی کی ایک شرط ہے،ایک بنیادہے ۔جب یہ بنیادمیسرنہ آئے،اوریہ شرط پوری نہ ہوتوہماری انسانی دنیاکاامن اورسلامتی فقط ایک دعویٰ اورخالی آرزوہی رہے گی۔وہ شرط اوربنیادعدل و مساوات ہے۔جب تک عدل و قائم نہ ہو اور سب کے ساتھ برابر کا سلوک نہ ہو تو امن و سلامتی کا دعویٰ جھوٹاہے اوراس کیلئے آرزو بھی خام خیالی ہے کیونکہ امن و سلامتی سے پہلے عدل ومساوات ضروری ہے اورعدل و انصاف کے بغیرقیامِ امن ناممکن ہے۔

سوئے اتفاق اوربد قسمتی سے دنیامیں تصادم کی فضاہے،ظلم وناانصافی ہے اورسب سے یکساں سلوک مفقودہے۔یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ یہ ظلم اور ناانصافی صرف مسلمانوں سے روارکھی جارہی ہے۔ظالمانہ تصادم کی فضاکاعملی شکاربھی مسلمان ہیں۔ اس سے بھی عجیب ترین بات یہ ہے کہ اس تصادم اورظلم و فساد کی جڑ بھی مسلمانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے اور بدنصیبی یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ کیفیت چپ چاپ برداشت کر لی ہے، کم سے کم دنیابھر کے مسلم حکمران توبالکل چپ ہیں،اس پراحتجاج بھی نہیں کر رہے جیسے کچھ دیکھتے نہ ہوں،جیسے کچھ سمجھتے نہ ہوں۔اس المناک صورت حال کاسبب یہ ہے کہ یہاں عوام اورحکمرانوں کے درمیان وسیع خلیج حائل ہے۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہمارے یہ حکمراں اسلام مخالف قوتوں کے رحم وکرم پرہیں اورعالمِ اسلام ظالم لٹیروں کی زدمیں ہے۔

اگرصحیح اسلامی نظام کی فضاہوتی تودنیابھرکے مسلم عوام اوراسلامی دنیاکی یہ حالت نہ ہوتی۔آج بھی اگرمسلم عوام اوران کے حکمراں متحدہوکراس امتیازی سلوک کے خلاف زوردارآوازیں اٹھائیں تویہ فضابدل سکتی ہے۔امن وسلامتی کے جھوٹے دعویداراپنی اپنی قوم کے سامنے رسواہوکربے اثرہوسکتے ہیں کیونکہ حسنِ اتفاق سے ان کے اپنے اپنے ملک کے عوام جمہوری قوتوں کے رحم وکرم پرہوتے ہیں اوریہ عوامی جمہوری قوتیں جس طرح اپنے جھوٹے حکمرانوں کو برداشت نہیں کرتیں،وہ پسماندہ قوموں سے ظلم وناانصافی اورڈبل معیارکی بھی مخالف ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ اسلامی دنیاکے عوام دنیا کے جمہوری عوام تک رسائی اورربط کی صورت پیداکریں توپھروہی ہوسکتاہے جوعراق میں بش اورٹونی بلیئرکے ساتھ ہوا۔

گوعراق ابھی تک مکمل آزادنہیں ہوالیکن عراقی عوام آزاد ہوگئے ہیں کیونکہ انہوں نے ظلم کومستردکردیاہے اوران کی اوران کے قاتل کی حقیقی صورتحال دنیا کے جمہوری عوام تک پہنچ گئی ہے جواپنے حکمرانوں سے حساب لے سکتے ہیں اورلیتے ہیں۔اگرآپ کی نظرتاریخ پرہے توآپ محض مسلمان ہونے کے سبب اس ظالمانہ تہمت اورتصادم سے بچ بھی سکتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر جارحانہ چڑھائی سے صلیبی جنگوں کاآغازکس نے کیابلکہ یہ بھی کہ یہ کس نے کروایا ؟ چارسوسال تک انسانیت کاخون پانی کی طرح بہتارہاجن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی،مال لوٹاگیا،ملک چھینے گئے،یہ سب سلوک مسلمانوں سے تھااور یورپ کے صلیبیوں نےکیاتھا۔پہلی اوردوسری عالمی جنگیں کس نے شروع کیں؟پرانے سامراجیوں نے۔آج یہ ظالمانہ تصادم کی فضاکس نے پیدا کی؟ آج کے نئے سامراجیوں نے۔مگریہ سب کچھ کس نے کرایا؟مسلمانوں کے اصلی دشمن یہودیوں نے،جی ہاں!خفیہ وسیہ کاریوں میں صہیونیوں کاجواب نہیں۔

یقین نہیں آتاتودیکھ لیجئے ہٹلرکے آنے تک مسیحی دنیاخصوصاًیورپ یہودیوں کادشمن تھا،ان سے نفرت کرتاتھا،اپنے معاشرے سے انہیں نکال باہرکرناچاہتا تھا۔دونوں عالمی جنگوں میں اگرسودخوروں کے قرضے نہ ہوتے تویہ جنگیں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی تھیں۔سودی کاروبار کس کے پاس تھا؟انہی یہودیوں کے ہاتھ میں۔دونوں جنگوں میں لگنے والے یہودی سرمائے نے مغرب کو پنجۂ یہودمیں جکڑدیاتھا۔دوسری عالمی جنگ کےبعدآج تک ساری دنیا سودکے جال میں پھنس گئی ہے اوریہ جال یہودیوں شکاریوں کے ہاتھ میں ہے!

گزشتہ صدی کے دوران سودخوروں نے سودی پیسے سے مسلمان حکمرانوں کوخریدناچاہاتھا مگرمنہ کی کھائی،یہی پیسہ مغرب کے حکمرانوں کوجکڑنے کیلئے دیا گیا۔ پہلے یورپ کوپھر امریکا کو،چنانچہ آج سب پنجہ یہودمیں ہیں لیکن یہودی وسیہ کاری ملاحظہ ہوکہ وہ انہی پرانے اورنئے سامراجیوں سے مسلمانوں کوپٹوا رہا ہے اور مسلمان سوتے رہے یاسلادیئے گئے،آج بھی سورہے ہیں یاسلائے جارہے ہیں۔اسلام اورمسلمانوں سے یہودی عداوت اورحسدایک فطری ردِّعمل ہے۔اس عداوت اورحسدکی ایک لمبی تاریخ ہے جو طویل اور تلخ بھی ہے۔ایک وقت تھاجب مکہ اورعرب کے تمام بت پرست اوریہودی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد تھے،آج بھی متحدہیں،پہلے مشرکین مکہ اوریثرب وخیبرکے یہودی اسلام کے خلاف متحدتھے۔آج بھی تل ابیب اورنئی دہلی نے ایک مدت کے بعد ایک دوسرے کوپہچان لیاہے۔پہلےاتحادخفیہ تھالیکن ایڈوانی اورشیرون نے اسے ایک کھلی حقیقت بناکرمسلمان دنیاکوپیغام دیااب مودی ونیتن شیروشکر ہیں کہ کل بھی دونوں کادشمن مشترک تھااورآج بھی مشترک ہے۔

اس اشتراک،عداوت اورحسدنے یہودوہندوکومسلمانوں کے خلاف ایک بنارکھاہے۔یہودوہنوددونوں کی خواہش ہے کہ نئے اورپرانے سامراجی انہیں تعاون کیلئے اپنے مہرے بنائیں توخونِ مسلم میں ہاتھ رنگ کرمن کوشانتی ملے اورلوٹ مارمیں سے کچھ حصہ بھی ملے مگرقدرت نے نئے سامراجیوں کو ننگا کردیاہے اورامریکا اورمغرب کے جمہوریت پرست عوام انہیں تاریخ کی گمنامی میں دھکیل رہے ہیں مگریہ یہودوہنوداب بھی نہیں بدلے۔وہ عدل وانصاف کی ہرآوازپرتلملا اٹھتے ہیں،وہ ہرصورت میں فلسطین اور کشمیرمیں کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کاخون بہاتے رہیں۔مسلمانوں کیلئے یہ موقع ہے کہ مغرب کے امن پسنداور انصاف کے داعی تنظیموں سے اپنارابطہ ازسرِنومرتب کریں۔صہیونیوں کوپہلے خطرہ صرف پاکستان کے ایٹمی اسلحے سے تھامگراب تازہ خطرہ فروری میں پاکستان کی حربی صلاحیت کے بعدان کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہے۔

مودی کشمیرمیں وہی کھیل کھیل رہاہے جواسرائیل کاجنونی دہشتگرد فلسطین میں کھیل رہاہے۔آزادی مانگنے والاہر کشمیری بھارت کے نزدیک پاکستان کا ایجنٹ ہے جس کیلئے اس کی9لاکھ فوج مارنے میں حق بجانب ہے۔پاکستان میں جاری سیاسی ابتری نے پاکستان کے معاشی حالات کوخطرات سے دچارکردیا ہے جس کیلئے بھارت انتہائی مکاری اورہوشیاری کے ساتھ مقبوضہ کشمیرمیں غیرملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے ناجائزتسلط کوقانونی شکل دینے میں کوشاں ہے لیکن کشمیری اب اس بات سے آگاہ ہوچکے ہیں کہ اگرافغانستان جیساملک دنیاکی سب سے بڑی سپرطاقت اوراس کے اتحادیوں کوشکستِ فاش پرمجبورکر سکتاہے توبھارتی بنیا تواس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کشمیریوں نے اپنے خون کے ساتھ جوحریت کی داستانیں رقم کی ہیں اور اپنی آزادی کی خاطر جو بیش بہاقربانیاں دی ہیں،وہ کبھی رائیگاں نہیں ہوسکتیں اوروہ دن بہت قریب ہے جب کشمیری اپنی اس فصل کوآزادی کی نعمت میں وصول کرکے رہیں گے انشاء اللہ!

اپنا تبصرہ بھیجیں