Cholistan Project: Benefits and Concerns

چولستان منصوبہ:فوائداورخدشات

:Share

پاکستان میں زراعت اورمعیشت کے استحکام کیلئےمختلف اقدامات کیے جارہے ہیں،جن میں چولستان کی بنجرزمینوں کوقابلِ کاشت بناناایک اہم منصوبہ ہے۔یہ منصوبہ پاکستان گرین انیشی ایٹیوکاحصہ ہے،جس میں فوج کوکلیدی کرداردیاگیاہے۔چولستان،جورقبے کے لحاظ سے پنجاب کا26%حصہ ہے، چولستان کی بنجرزمینوں کوقابلِ کاشت بنانے اوربنجرزمینوں کو قابل کاشت بنانے کے منصوبوں کے پیچھے کئی اہم مقاصد اوروجوہات ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ فوج اورپنجاب حکومت چولستان کی بنجرزمینوں کوقابل کاشت کیوں بناناچاہتے ہیں؟

پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اورزرعی زمین محدودہونے کے باعث خوراک کی ضروریات پوری کرنے،خوراک کی فراہمی کویقینی بنانے اورخوراک کی پیداوارمیں اضافہ کیلئےنئی زمینیں قابلِ کاشت بنائی جارہی ہیں۔
٭پاکستان کی آبادی ایک اندازہ کے مطابق23کروڑسے زیادہ ہے،اورخوراک کی طلب میں سالانہ 4% اضافہ ہورہاہے۔مستقبل میں غذائی تحفظ کیلئے چولستان کی1.6ملین ہیکٹرزمین کوآباد کرکے گندم،کپاس،اورسبزیوں کی پیداواربڑھانے کاہدف ہے۔
٭پاکستان اپنی زرعی برآمدات کوبڑھانے کاخواہاں ہے،اوراس منصوبے کے تحت جدیدزرعی تکنیکوں کااستعمال کرکے عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی صلاحیت بڑھانے کیلئے زرعی برآمدات میں اضافہ کی کوشش کی جائے گی۔
٭معاشی ترقی کیلئے زراعت کے شعبے کوجدید خطوط پر استوارکرکے بیرونی زرِمبادلہ کے حصول میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔فوج پہلے ہی معیشت کے مختلف شعبوں میں متحرک ہے،اوراس منصوبے میں فوجی اداروں کامعاشی کرداراوران کی شمولیت سے زرعی ترقی میں تیزی لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
٭چولستان کی سرحدی حیثیت اوراسٹریٹجک اہمیت(بھارت کی سرحد کے قریب)ہے۔فوج کی جانب سے بنیادی ڈھانچے(روڈز، کمیونیکیشن نیٹ ورک)کی تعمیر سے دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
٭پاکستان کی قومی غذائی سیکیورٹی پالیسی2018میں زرعی زمینوں کے استعمال پرزوردیا گیاتھااورپاکستان اکنامک سروے2022۔23میں چولستان کو”غیرمستعمل زمینوں کی بحالی”کے حوالہ سے خبردارکیاگیاتھاکہ مستقبل میں پانی کی کمی کی بناءپرقحط کا سامناہوسکتاہے،اس لئے اس خطرے سے بچنے کیلئے پیشگی انتظامات کرناازحدضروری ہیں۔
٭قومی سلامتی پالیسی2022-2026میں ماحولیاتی تحفظ کوقومی سلامتی سے جوڑاگیاجس کیلئے(15مارچ2023)میں فوج کے زرعی منصوبوں پرتفصیلی رپورٹ بھی شائع کی گئی تاکہ اس منصوبہ کی آگاہی اورادراک پیدا کرکے اس پراتفاق رائے پیداکیاجاسکے۔
٭پنجاب کے دیگرزرخیزعلاقوں پرآبادی کے دباؤکوکم کرنابھی مقصودہے۔چولستان کاریگستانی علاقہ دفاعی نقطہ نظرسے بھی بہت اہم ہے،جہاں فوجی مفادات کیلئے فوج کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیرکوترجیح دی جاتی ہے۔
٭فوج کی جانب سے بڑے پیمانے پرمنصوبوں کوتیزی سے عملی شکل دینے کی تنظیمی صلاحیت،ٹیکنالوجی،مالی وسائل،اور انجینئرنگ ماہرین تک فوری رسائی ممکن ہے اورسیکورٹی فوکس کی بناءپرماحولیاتی تحفظ کوقومی سلامتی سے جوڑنے کانظریہ بدرجہ اتم موجودہے۔
٭اس منصوبے کے تحت پانی کے بہتروسائل مہیاکرنے کیلئے نئی نہریں تعمیر کی جارہی ہیں،جن سے پانی کی دستیابی بہترہوسکتی ہے۔تاہم،یہ اقدام سندھ اورپنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے کومزیدسنگین بناسکتاہے۔
٭گرین پاکستان انیشی ایٹیوایک ایسامنصوبہ اورایک قومی مہم ہے جس کامقصدجنگلات کی بحالی،پانی کے وسائل کامؤثراستعمال،اور جدیدزراعت کوفروغ دیناہے جس کامقصدملک بھرمیں غیرآبادزمین کوقابلِ کاشت بناناہے۔
٭پنجاب میں سب سے زیادہ40لاکھ ایکڑزمین لیزپردی جارہی ہے لیکن مقامی70فیصدکسانوں کامؤقف ہے کہ انہیں صحیح معاوضہ نہیں دیاجارہا۔
15 فروری کو چولستان میں گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت نئے زرعی منصوبوں کا افتتاح کیا گیا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پنجاب پاکستان کا زرعی پاور ہاؤس ہے، جدید زراعت کے طریقے صوبے کے کسانوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید زراعت پنجاب کو پاکستان کا فوڈ باسکٹ بنائے گی۔ آخرگرین پاکستان کا منصوبہ کیا ہے جس کیلئے ہنگامی اور انقلابی اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔

٭ملک میں ایک ارب درخت لگائے جائیں گے اورہرسال جنگلات میں اضافہ کیاجائے گاجوملک کوموسمیاتی خطرات کے تدارک کا سبب بنے گا۔
جدید خطوط پراستوارمبنی نظام کے تحت ملک میں پانی کے ضیاع کو30فیصد کم کیاجائے گا۔
٭جدیدزراعت کوفروغ دینے کیلئے نئے سائنسی اورآزمودہ اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
٭فوج کے کورکمانڈرزکوصوبائی سطح پرمنصوبوں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔مثال کے طورپر،سندھ میں فوجی انجینئرزکی زیرنگرانی نہری نظام کی تعمیرکاسلسلہ شروع کیاجائے گاتاکہ کسی بھی صوبے کوکسی قسم کااعتراض نہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبہ میں فوج کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں کیونکہ:
٭فوج اپنی منظم حکمتِ عملی، انتظامی صلاحیت، انفراسٹرکچر اور وسائل کی بدولت بڑے پیمانے پر منصوبوں کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حکومت کو امید ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کارے کے فروغ کیلئے فوج کی نگرانی میں چلنے والے منصوبے شفافیت کی ضمانت دے سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ فوج کی موجودگی سے ان علاقوں میں سیکیورٹی کے مسائل کم ہو سکتے ہیں اور زمین کے قبضے، قانون و امن و امان سے متعلق تنازعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں ہائبرڈ نظام سے مراد سویلین حکومت اور فوج کے درمیان طاقت کا اشتراک ہے۔ معیشت کے شعبوں (خاص طور پر زراعت اور سیاحت) میں فوج کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو ’ایس آئی ایف سی‘ (سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل) کے ذریعے تقویت ملی ہے۔ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل اور ہائبرڈ نظام کے قیام کا بنیادی مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، اس پر شدید تنقید کی جا رہی ہے:
٭سویلین حکومت کے ساتھ فوج کا معاشی اور انتظامی امور میں براہ راست مداخلت کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
٭ایس آئی ایف سی کے تحت فوجی افسران کی جانب سے لینڈ ایکوائزیشن کے فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ اس میں مقامی کسانوں کو مشاورت سے باہر رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی کی 2023 کی رپورٹ میں فوج کے معاشی کردار پر جو تجزیہ کیا گیا ہے، اس کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا۔ اس کے علاوہ انسٹی ٹیوٹ فار ریجنل میڈیا کی جانب سے ایس آئی ایف سی کی غیرشفافیت پر رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے۔
٭صرف دو معاہدوں کے نتائج سے ایس آئی ایف سی کی کارکردگی کو پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلا معاہد قطر کے ساتھ “کیوآئی اے” اور دوسرا سعودی عرب کے ساتھ “اے سی ڈبلیو اے”، ابھی تک تاخیر کا شکار ہیں اور ان معاہدوں کا اعلان ہونے کے باوجود ان پر دستخط نہیں ہو سکے۔
پاکستان فیڈرل بورڈ آف ریونیو 2023 ٭سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا مؤقف کہ ایس آئی ایف سی نے صوبائی خودمختاری کو نظرانداز کیا ہے اور
کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تنازعہ ابھی تک توجہ اور حل طلب ہے۔ علاوہ ازیں سندھ اسمبلی کی جانب سے دسمبر 2023 میں ایس آئی ایف سی کے خلاف قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔
٭کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس ادارے کے قیام سے سویلین ادارے مزید کمزور ہو رہے ہیں اور معاشی فیصلوں میں فوج کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے اور سویلین اداروں کی بیدخلی کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ کیونکہ ایس آئی ایف سی کی 11 رکنی کونسل میں 6 ارکان فوج سے وابستہ ہیں۔فوجی کنٹرول کی گرفت مضبوط نظر آ رہی ہے۔
٭سویلین اداروں کے بجائے فوجی افسران کی فیصلہ سازی سےغیر شفافیت کا احساس ابھرتا ہے ٭منصوبوں کی تفصیلات عوامی سطح پر واضح نہیں کی جاتیں جس سے
٭زمینوں کی لیز پر فراہمی کے دوران مقامی کسانوں کو نظرانداز کرنےمقامی آبادی کے حقوق متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
٭جون 2023ء میں قائم ہونے والی “ایس آئی ایف سی” کا مقصد غیرملکی سرمایہ کاری کو آسان بنانا، اقتصادی اصلاحات کو تیز کرنا، اور زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اور سیاحت جیسے شعبوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنا بتایا گیا ہے لیکن اس کے قیام کے باوجود،معاشی فوائد کی غیر یقینی صورتحال نظر آ رہی ہے اور اب تک کوئی بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری دیکھنے میں نہیں آئی۔ صوبوں سے زمینوں کی لیز پر حصول کے عمل میں بھی تنازعات پیدا ہور ہے ہیں۔
٭بیوریوکریٹک رکاوٹوں یعنی سرکاری اداروں کی جانب سے اجازت ناموں میں تاخیر کی بناء پر منصوبہ پر شکوک وشبہات کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
٭حکومتی تبدیلیوں کے باعث معاہدوں پر عملدرآمد میں رکاوٹوں سے پالیسی عدم استحکام کا تاثر بڑھ رہا ہے۔
٭غیرملکی کمپنیوں نے ٹیکس کے نئے قوانین اور پیش آنے والے مسائل پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
٭غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کے قانونی اور کاروباری ماحول کے حوالے سے چین اور یو اے ای کے سرمایہ کار شکایات کا اظہار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کے منصوبے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔
٭چینی کمپنیوں کو یہ شکائت ہے کہ ابھی تک سی پیک معاہدوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اور ڈیما باراج ڈیم میں تاخیر سے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان مسائل پر 2023 میں رائٹرز کی رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے۔
٭یو اے ای کی سرمایہ کاری میں یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ دبئی کی کمپنی ایمریٹس گروپ کو پنجاب میں سولر پارک کے منصوبے میں ٹیکس کے مسائل بدستور قائم ہیں اور ان کے حل میں تاخیر سے سرمایہ کاری خطرے میں ہے۔
٭اس سلسلے میں عرب نیوز (جنوری 2024) میں یو اے ای کے سرمایہ کاروں کی شکایات بھی شائع ہو چکی ہیں جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے امیج کو نقصان ہو رہا ہے۔۔
٭ایس آئی ایف سی کے تحت زرعی اور سیاحتی منصوبوں پر ملک کے مختلف علاقوں میں ردِعمل ملا جلا ہے
٭فوج کے زیرِ انتظام سیاحتی منصوبے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور کچھ مقامی افراد کا گلگت بلتستان میں سیاحتی ترقی پروگرام پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ منصوبہ مقامی افراد کو بے دخل کر سکتا ہے اور ان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
٭سندھ میں کسانوں کے احتجاج اور تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے اور سندھ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ گرین انیشی ایٹیو کے تحت پانی کے استعمال میں پنجاب کو ترجیح دی جا رہی ہے، جس سے سندھ کے زراعت پیشہ افراد متاثر ہو رہے ہیں۔
٭چولستان میں نہروں کی تعمیر کے باعث سندھ کے کسانوں کا موقف ہے کہ دریائے سندھ کا پانی پنجاب کی طرف موڑا جا رہا ہے، سندھ کی جانب سے اسے ’’پانی کی چوری‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔
٭سندھ کا مؤقف ہے چولستان میں نہروں کی تعمیر کے باعث دریائے سندھ کا 44 فیصد پانی پنجاب استعمال کرے گا جبکہ سندھ کو صرف 10 فیصد پانی ملے گا جو کہ انڈس واٹر ٹریٹی 1960 کے آرٹیکلز کے خلاف ہے۔
٭سندھ کی حکومت کا کہنا ہے کہ پنجاب کی جانب سے نہروں کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس سلسلے میں سندھ اسمبلی کی جانب سے جاری کردہ سفارشات پر بھی عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
بنیادی حقوق اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت ٭مقامی کمیونٹیز کا مطالبہ ہے کہ انہیں منصوبوں میں مقامی کمیونٹی کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے براہ راست ان کی شمولیت کو لازمی دیتے ہوئے ان کے تحفظات کو سنا جائے۔
٭لیکن اس منصوبے کے باعث سندھ اور پنجاب میں پانی کی تقسیم پر کشیدگی بڑھ رہی ہے، کیونکہ نئی نہریں تعمیر کیے جانے سے سندھ کے پانی کے حصے پر اثر پڑ سکتا ہے۔
٭پاکستان میں فوج کے معاشی کردار اور زرعی منصوبوں پر ہونے والی تنقید ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ چولستان اور دیگر علاقوں میں بنجر زمینوں کو قابلِ کاشت بنانے کا منصوبہ یقینی طور پر پاکستان کی زرعی ترقی کیلئےایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے انتظامی، سیاسی اور ماحولیاتی پہلوؤں پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایس آئی ایف سی کے دائرہ کار اور فوج کے معاشی کردار پر جاری بحثیں مستقبل میں بھی پاکستان کے پالیسی سازوں کیلئےایک اہم چیلنج بنی رہیں گی۔

فوج اور پنجاب حکومت کے چولستان کے منصوبوں کو قومی مفاد قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ اقدامات صوبائی تنازعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ’ایس آئی ایف سی‘ جیسے اداروں میں فوج کی شمولیت سے سویلین حکومت کی خودمختاری متاثر ہو رہی ہے۔ مستقبل میں ان منصوبوں کی کامیابی کیلئےشفافیت، مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ، اور بین الصوبائی ہم آہنگی ضروری ہے۔

یہ تفصیلات پاکستانی میڈیا، سرکاری دستاویزات، اور بین الاقوامی رپورٹس پر مبنی ہیں۔ مزید تحقیق کیلئے پاکستان اکنامک سروے 2023-24، اور انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کی تحقیقات پر مبنی رپورٹس بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں