14/اگست: تجدیدِعہدکادن

:Share

کل میرے پاکستان کی73ویں سالگرہ ہے،مجھے اس کی دوستی پرفخرہے۔جب میں اس کے ہمراہ ہوتاہوں تومجھے ایک گونہ اطمینان ہوتاہے۔پاکستان کی ایک بد قسمتی یہ بھی رہی ہے کہ اس کوجوساتھی ملے،اس کے خلوص،اس کی محبت،اس کی ہمدردی،اس کی وسیع القلبی کابے جااستعمال کرتے رہے ۔ پاکستان یہ سب چکرسمجھتاتھامگراپنی طبعی شرافت کی وجہ سے اس نے یہ سارے معاملات اللہ پرچھوڑرکھے تھے۔جب میں اپنے گھرسے باہر نکلاتومیں نے جگہ جگہ اجتماعات دیکھے جس میں مقررحضرات پاکستان سے اپنی دوستی اورمحبت میں ایک دوسرے سے بڑھ کررطب اللسان تھے ۔ میں ایک جلسے سے دوسرے پھردوسرے سے تیسرے میں پاکستان کوتلاش کرتارہامگرایسالگتاتھاکہ شائدوہ اپنی اس73ویں سالگرہ کی تیاریوں میں نہ توشریک ہوناچاہتاہے اورنہ دوسروں کوشریک ہونے دیناچاہتاہے۔

ان پریشان کن خیالات کولیکرمیں نےگلی گلی اس کوڈھونڈناشروع کیا،جیسے جیسے میری تلاش بڑھتی گئی،میری امیدکمزور پڑتی گئی اوروقت بھی تنگ ہوتاچلاگیا۔مجھے یہ بھی فکرلاحق تھی کہ شام کوبچوں اورپوتوں نے بھی پاکستان سے مل کر مبارک باددیناتھی،اگرمجھے پاکستان نہ ملاتومیں اپنے بچوں کو کیاجواب دوں گا،ویسے بھی بچے پاکستان سے میری دوستی کو ایک خواب ہی سمجھے تھے اورمیں نے بڑے وثوق سے ان کویقین دلایاتھاکہ میں تم کوبتاؤں گاکہ میں اور پاکستان کتنے اچھے دوست اورساتھی ہیں۔اچانک خیال آیاکہ پاکستان جب گھبراتاہےیاکسی بات پراس کوصدمہ ہوتاہے تووہ ایک ہی جگہ ملتا ہے۔یہ خیال آتے ہی میں الٹے پاؤں بھاگتاہواگھرآیااوراپنے بچوں،پوتوں کوساتھ لیکرقائداعظم کے مزارکی طرف روانہ ہوگیا۔ بابائے قوم کے مزارکے احاطے میں آیاتوکیادیکھتاہوں کہ پاکستان باباکی قبرسے لپٹاہچکیاں لے رہا ہے۔

قدموں کی آہٹ پرپاکستان نے اپناچہرہ قبرسے الگ کیااوراپنی سوجھی ہوئی آنکھوں سے میری طرف لپکا۔میں نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ پھیلائے ،بغل گیرہوتے ہی میں نے کہاکہ پاکستان تم اپنی سالگرہ کے جلسوں میں کیوں نہیں تھے؟اس نے مجھے فوراًاپنے سے الگ کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے میراکندھاپکڑکرزورسے جھٹکادیاکہ تم بھی مجھے یہی کہنے کیلئے آئے ہو؟کیا کوئی اپنی سالگرہ اس منافقت سے مناسکتاہے؟میں نے کہا کہ میں تمہاری بات نہیں سمجھا،اس پرپاکستان نے مجھے یہ کہاکہ کیامجھے میرے باپ نے اسی لئے جنم دیاتھاکہ ملک کی دولت کوبے دریغ لوٹ کربیرون ملک منتقل کردیاجائے،رشوت،چور بازاری ہو،امتحانوں میں نقل اورغنڈہ گردی ہو،ہزاروں میل دورسے وہی استعمارآکرتم پرحکم چلائیں جن سے میں تمہیں باوقاراندازمیں آزاد کرواکے گیاتھا،میری تصویر کو اپنی پشت پر لٹکا کر میرے سامنے میری غیرت کو سرِعام نیلام کیاجائے اور”یوٹرن” کو سیاسی حکمت کانام دیکرقوم کودھوکہ دیاجائے اورتم سب منہ میں گھنگھنیاں ڈال کرکسی مصلحت کی بناءپر اف تک نہ کرو،حتیٰ کہ دنیاکی تمام برائیوں کواپنے ہاں رائج کرکے خودکوترقی یافتہ سمجھو؟؟؟؟؟

میں جب ایک سال اورکچھ دن کاتھاتومجھ سے میرے بابابچھڑگئے،اس یتیم کوپالنے کیلئے میرے چچاؤں نے بھرپورکردارادا کیا اورآہستہ آہستہ وہ لوگ بھی مجھ سے بچھڑگئے۔ایک پھوپھی تھی جومیری غمخواراورہمدردتھی،باپ کی کمی جب مجھے محسوس ہوتی تومیں ان کی گودمیں سررکھ دیتااور بے انتہاسکون پاتا۔افسوس وہ بھی مجھ سے جداہوگئیں،میں غیروں کے رحم وکرم پرآگیا،جوچچااوررشتہ دارکروڑپتی تھے،نواب تھے،صاحبِ حیثیت تھے،انہوں نے اپناتمام دھن مجھ پرلٹادیااور مرتے وقت ان کی زبان سے میرے لئے دعائے خیرکے کلمات ہی نکلے کہ اے اللہ!پاکستان کی حفاظت کرنا(آمین)۔اب تم خود ہی بتاؤ کیاوہ لوگ عظیم تھے جنہوں نے ایک یتیم کی پرورش کرنے کیلئے اپنی جان ومال داؤپرلگادیئے یاوہ لوگ عظیم ہیں جومیری جائیداد،میری دولت کولوٹتے رہے اوراپنے ناموں اوراپنی اولادوں کے نام منتقل کرتے رہے اورپھرڈھٹائی دیکھو کہ اس یتیم کو بجائے سنوارنے اوربنانے کے ایک بازوسے بھی محروم کردیااورپھربھی میری محبت کاجھوٹادم بھرتے ہیں۔اب تم خودہی بتاؤکیا میں ان کی محفلوں میں شریک ہوسکتاہوں؟

میں نے کہادیکھومیرے ساتھ میرے بچے اورمیرے پوتے بھی آئے ہیں اورمیں بڑے فخرسے اپنی اورتمہاری دوستی کے متعلق بتاتاہوں تویہ مانتے نہیں۔پاکستان نے اپنے بازومیرے بچوں اورپوتوں پررکھے اورکہااے بچو!تمہارے اورتمہارے ابو جیسے لوگ مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں اورانہی جیسے لوگوں کی وجہ سے میں اب تک مملکتِ خدادادہوں ورنہ اپنوں کی ریشہ دوانیوں کاشکارہوکرکب کاختم ہوگیاہوتا۔مجھے آج بھی یادہے جب تمہاراباپ میراایک بازو کٹ جانے کی خبر سن کر زمین پرگرگیاتھاتواس کے سرپرایک چوٹ آئی تھی تومیرے ہی دوسرے سلامت مگرزخمی ہاتھ نے اس کوسہارادیکر زمین سے اٹھایااوراس کے زخم پراپنی محبت کامرہم رکھااوریہ احساس اسی وقت پیداہوتاہے جب کسی کیلئے زندگی جیسی قیمتی چیز بھی قربان کردی جائے۔وہ لوگ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں جوایمانداری،وفاداری اورخلوص کے ساتھ میری خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کسی قسم کاصلہ نہیں چاہتے۔

پاکستان نے ان کومسرت سے دیکھتے ہوئے کہاکہ بچو!میری خدمت یامجھ سے محبت کے اوربھی بے شماراندازہیں جومیں تم کوبتاناچاہتاہوں۔لال بتی پررکنا،قانون کی پاسداری کرنا،اپنے اختیارات کاناجا ئزاستعمال نہیں کرنااورمظلوموں کے حقوق دلانا، یہ بھی مجھ سے محبت کے اندازہیں۔اپنے کام کوتندہی سے کرنا،میرے باباکے فرمان”ایمان،اتحاد،تنظیم”کی پاسداری کرنا اور جس منصب پرفائزہواس کوایمانداری سے انجام دینابھی میری محبت ہے۔میری پوتی نے کہا کہ پاکستان!میں نے آج صبح اسکول میں آپ کے بابا کے احسانات پرتقریرکی تھی اورمجھے یہ دیکھ کربہت افسوس ہواکہ میں جب تقریرکررہی تھی تو اسٹیج پربیٹھے بزرگ بجائے میری بات سننے کے باتوں میں مشغول ہوگئے اورمیری تقریرکے بعدجب یہ اعلان ہواکہ اب ان کی خدمت میں ایک گانااوررقص پیش کیاجائے گاتووہ خوشی کے مارے اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کرکھڑے ہوگئے اور مسلسل تالیوں کے ساتھ وہ زمین پرپاؤں مارنےلگے۔

پاکستان نے سردآہ بھری اورمیری پوتی کے سرپراپناکانپتاہاتھ رکھ کرکہابیٹی!تم صحیح کہہ رہی ہو،ہمارے بڑوں نے اپنے مقصدِ حیات کارخ صحیح راہ پرنہیں ڈالاجس کے نتیجے میں ہم اپناتمدن اورثقافت،آداب واطوارفراموش کربیٹھے،پھرپاکستان نے کہا بیٹا!یہ میرے باباکی عظمت ہے کہ آزادی کی جنگ میں جہاں لاکھوں افرادقربان ہوتے ہیں انہوں نے ایک گولی چلائے بغیر اورایک قطرہ خوں بہائے بغیراتنی بڑی اسلامی مملکت وجود میں لے آئے،یہ الگ بات ہے کہ فرنگی اورہندوبنئے کی سازشوں نے میرے ہزاروں بچوں کوہجرت کرتے ہوئے کاٹ دیالیکن اس کے باوجودوہ جب مجھ سے ملے توان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسوتھے۔

پھرپاکستان نے میرے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوئے کہابیٹا!تم استادہومگر تمہارا یہ علم اورپیشہ تمہارے لئے دولت کمانے کا ذریعہ نہ بنے بلکہ تمہار ےساتھیوں اوردوسرے شہریوں کیلئے باعثِ خدمت ہو،یہی تمہاری محبت کااظہارہوگا۔پھرننھے معصوم پوتے کی طرف دیکھتے ہوئے کہاکہ یہ عمرمعصومیت کی ہے اوراس کی معصومیت کو بچانااوراس کی حفاظت کرنایہ تم بڑوں کاکام ہے۔یہ ابن الوقت لوگ جواس وقت میرے نام کی بیساکھی لیکرسیاسی میدان میں اونچااڑناچاہتے ہیں،وہ زیادہ عرصے تک پنپ نہیں پائیں گے۔

بچو!میں تمہیں آج ایک رازکی بات بتاتاہوں کہ تمہارے ابواورداداکی محبت جووہ مجھ سے کرتے ہیں،ایک عجیب سی محبت ہے۔یہ دنیامیں جہاں جہاں بھی گئے میرے نام کوبلندہی کرتے رہے!ایک بات اوربتا دوں کہ آج صبح تمہارے ابونے اپنے تمام ساتھیوں کوکانفرنس روم میں جمع کیااور میرے بھائی اقبال کی لکھی ایک نظم”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنامیری”سب نے مل کرپڑھی،پھرہرایک نے باری باری میری تاریخِ آزادی اور لوگوں کی مجھ سے عقیدت اورمحبت کے اوپراپنے خیالات کا اظہارکیا۔محبت کایہ اظہارکسی کے زور،کسی زبردستی،کسی لالچ کے بغیرتھا،سب ساتھیوں کے چہروں پرجذبات کی حرارت ،آنکھوں میں فرطِ محبت سے امڈے ہوئے آنسواورکپکپاتے ہوئے لب اس بات کی غمازی کررہے تھے کہ یہ اوران جیسے بے شمارلوگ اب بھی مجھ سے بے غرض محبت کرتے ہیں توبچو!تم بھی اپنے ابواوران کے ساتھیوں جیسے بنو کیونکہ تم ہی سے ان کی کل اورمیری نئی صبح وابستہ ہے۔ پاکستان کی آوازگلوگیرتھی اوروہ خاموش کھڑااپنے باپ سے کہہ رہاتھا!

“بابا!تم نے میراایک تشخص بنایا،تمہارے ساتھیوں نے اس میں رنگ بھرااورکچھ نادانوں نے اس رنگ کواپنی حماقتوں سے مٹانے کی کوشش کی۔ اچانک رات کے وقت شب خون مارکرکئی ایک طالع آزماں نے تمہاری کرسی پرقبضہ جماکراسے اپنی مرضی سے چلاتے رہے،جمہوریت کے نام پر حکومت کرنے والوں نے بھی تمہارے گھرکوخوب لوٹااوراب اپنی آئندہ نسل کو حکومت کیلئے تیارکررہے ہیں۔جمہوریت کے نام پرہی احتساب کا نطام ظلم میں تبدیل کردیاگیااوراس سیاسی لڑائی میں ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سفاک ہندوکشمیرکولے اڑا۔حکمرانوں نے کشمیرکی وکالت کانعرہ لگاکرعوام کے جذبات کوسردکرنے کیلئے ایک بے معنی تحریک شروع کرنے کااعلان توکیالیکن خودکبھی بھی اخلاص سے اس پرعمل پیرانہ ہوا۔

لاکھوں جانوں کی قربانی دینے والوں کوبھی مایوس کردیااوراب نئے پاکستان کے نقشے پرآڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کرقوم کے ٹرک کوایک نئی سرخ بتی پر ساکت وجامدکردیاہے۔ ہماراوزیرخارجہ کی کارکردگی تویہ ہے کہ بھارت کوسلامتی کونسل کا ممبرخوداپنے ووٹ سے بنایااوراب بھارت کی مذمت کرتے ہوئے قوم کویہ پیغام دیاجارہا ہے کہ ” کشمیراگرحاصل کرناہے تو پہلے ایک مضبوط قوم بنناہوگا”لیکن کیایہ بھول گئے کہ مذمت صرف کمزور لوگ کیاکرتے ہیں،مضبوط لوگ تومرمت کیا کرتے ہیں۔ 5/اگست کو کشمیر کے سلسلے میں یوم استحصال کے دن ایل اوسی کادورہ کرتے ہوئے بڑے فاتحانہ اندازمیں یہ بیان داغ دیاکہ کشمیریوں نے5/اگست کے بھارتی اقدام کومستردکردیاہے اورپاکستان نے بھی کشمیرہائی وے کانام تبدیل کرکے سرینگرروڈرکھ دیاہے۔کیاپچھلے 72سالوں سے کشمیرہائی وے نام رکھ کر ہم مقبوضہ کشمیرکی زمین کاایک انچ بھی حاصل کرسکے ہیں جواب سرینگر روڈ نام رکھ کرکشمیرکوفتح کرلیں گے؟

قوم کوالفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھاکرکون سی خارجہ پالیسی کوکامیاب کرناچاہتے ہیں؟یہاں بچے بچے کوپتہ ہے کہ کشمیرکی زادی کیلئے کن چیزوں کی ضرورت ہے؟خودکشمیری آزادی کیلئے جہادمیں مصروف ہیں جن سے آپ نے ناطہ توڑلیا ہے۔ 73سالوں میں سب سے زیادہ ناکام خارجہ پالیسیوں کاریکارڈقائم کرتے ہوئے اپنے تمام دوستوں سے اس طرح ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کہ کل کے ہمارے مخلص دوست اب ہمارے دشمنوں کی گودمیں جابیٹھے ہیں۔

ایسانقصان تواس فاسق کمانڈوکے ہاتھوں سے بھی نہیں پہنچاتھاجواپنے آپ کوایک کمانڈوجنرل بھی کہتاتھااورجس نے آپ کی کرسی پرقبضہ جما کر مسلسل آٹھ سال سے زائدبے پناہ مظالم ڈھائے۔میرے بچوں اوربچیوں کوایک استعماری طاقت کے ہاتھوں ڈالروں کے عوض فروخت کرکے بڑے فخرسے اپنی کتاب میں اپنے ان مکروہ اقبالِ جرم کواپنی کتاب میں بڑے تفاخرسے تحریر کرکے پانے ہی منہ پرطمانچے رسیدکرتارہا۔اس نے بھی متنازعہ کشمیر جس کوآپ نے میری شہ رگ قرار دیاتھا،اس کو خاموشی سے ہندوبنئے کے سپرد کرنے کی کوشش کی،میری غیرت وحمیت کواس نے بھی تارتارکردیاتھااور جاتے ہوئے اپنی کھال کو بچانے کیلئے ایک رسوائے زمانہ قانون این آراوکے تحت آپ کی کرسی اورمیری تقدیروقسمت کو انہی کے سپرد کرگیاجن پر اس ملک کے لوٹنے کے بے شمارالزامات تھے۔بابا!مگراب بھی بہت سے لوگ میری محبت میں تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے تیارہیں اورمجھے امیدہے میرانام،میری شناخت انشاء اللہ ختم نہیں ہوسکتی!

پھرپاکستان نے اپنا آنسوؤں سے ترچہرہ اٹھایا،میرااورمیرے بچوں کاہاتھ پکڑا،ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرپاکستان پائندہ باد او قائد اعظم زندہ باد کے پرجوش نعرے لگائے،قومی ترانہ پڑھ کرمزارسے باہرآئے۔سب نے باری باری پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملایااور تجدیدِعہدکرکے ہم لوگ اپنے گھر کو واپس ہوئے(پاکستان پائندہ باد)

اپنا تبصرہ بھیجیں