A Silent Stick Of Nature

قدرت کی بے آوازلاٹھی

:Share

پاکستان جوکبھی کشمیرکاوکیل ہواکرتاتھا،ہم نے خوداپنے پا ؤ ں پرکلہاڑااس زورسے دے ماراہے کہ اب کشمیرکاکہیں بھولے سے بھی ذکرنہیں ملتااوریہی ہمارادشمن چاہتاتھااوروہ اب کشمیرمیں اپنے حیثیت کوعالمی طورپرمنوانے کیلئے دیگراقدامات کررہاہے لیکن مقبوضہ کشمیرمیں آج بھی حریت کی شمع خون سے سینچی جارہی ہے ۔آج بھی کشمیرکے موجودہ حالات کے سبب عام زندگی کے ساتھ ساتھ تعلیم،صحت یہاں تک کے لوگوں کی سکیورٹی بھی خطرے میں ہے اوراسکول کالج کے طالب علموں کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے پتھرہیں اوراب لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی مظاہروں میں شامل ہیں ۔ ان بچوں کومعلوم ہے کہ وہ سکیورٹی فورسزکی گولیوں کانشانہ بن سکتے ہیں۔2016ءکے بعد سے کشمیر میں بے پناہ تشددمیں اضافہ ہواہے جوابھی تک تھمنے کانام نہیں لے رہا۔جیسے ہی کسی گاؤں کے لوگوں کویہ خبرملتی ہے کہ ان کے ہمسایہ گاؤں میں مسلح فوجی مجاہدین کو مارنے پہنچے ہیں وہ نہتے ہی انہیں بچانے کیلئےدوڑ پڑتے ہیں۔کچھ نوجوان اب پتھر بازوں سے بندوق بازبن رہے ہیں اوراب کچھ تعلیم یافتہ اورپروفیشنل نوجوان بھی علیحدگی پسندوں سے وابستہ ہورہے ہیں۔اس طرح کے لوگوں کی تعداداب تیزی سے بڑھ رہی ہے اورانکاؤنٹر میں مارے جانے والوں کی تعدادمیں بھی دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے،یہ الگ بات ہے کہ ان تمام واقعات کومیڈیاکی نگاہوں سے پوشیدہ رکھاجاتاہے۔

سڑکوں پرمظاہرے شورش کی علامت بن چکے ہیں جس میں کشمیری نوجوان پتھرہاتھوں میں لیکرمسلح فوجیوں سے لڑنے کو تیارہوتے ہیں،یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان فوجیوں کارویہ ظالمانہ ہوگا۔فوجی کارروائیوں کے ضابطوں کی بھی کھلے عام خلاف ورزی ہورہی ہے۔پتھرپھینکناکوئی بیماری نہیں بلکہ انصاف کے حصول کیلئے احتجاج کی علامت ہے اوریہ بھی طے ہے کہ یہ نوجوان کسی ذاتی فائدے کیلئےخودکوموت کے منہ میں نہیں دھکیل رہے۔جیسا کہ حکام اس بات کا دعوی کرتے آئے ہیں۔آخریہ حالات پیدا ہی کیوں ہوئے۔لوگوں کاغصہ سڑکوں پرآنے کی وجہ سیاسی خواہشات پوری نہ ہونااورتنازعے ہوتے ہیں اوریہ سب کچھ فوجی کارروائی میں اضافہ،انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں اورپرامن مظاہروں کوروکنے کی کوششوں کی وجہ سے ہورہا ہے ۔مسلسل پرتشدد واقعات کشمیری نوجوان کوبے قابوکررہے ہیں وہ اکثر مظالم کاشکارہوتے ہیں جن کے بارے میں قومی سطح پربات ہی نہیں ہوتی۔اس سلسلے کوتبھی ختم کیاجاسکتاہے جب بنیادی وجوہات پربات ہولیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی مرکزی حکومت مودی سرکارفوجی کارروائی سے مخالفت کوکچلنے میں مصروف ہے۔

مرکزی حکومت ان کااعتمادحاصل کرنے کی کوشش نہیں کررہی تاکہ ان کے ساتھ بات چیت کرکے اس مسئلے کاحل نکالاجاسکے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ 5/اگست کے غیرقانونی عمل کے بعدکشمیراٹوٹ انگ بن چکاہے۔آج جوحالات ہیں ایسے ناامید صورتِ حال میں بغیرکسی جرم کے ہزاروں نوجون غائب کئے جاچکے ہیں ۔کئی تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان لکھ کر،پینٹنگزکے ذریعے اور بات چیت سے مخالفت کااظہارکررہے ہیں اوراب توعالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی حکومت سے مطالبہ کررہی ہیں کہ مودی سرکارکواس غلط فہمی سے نکلناہوگاکہ یکطرفہ طورپرکشمیرکواپناحصہ قراردیکروہ اس مسئلے کوختم کرچکے ہیں بلکہ اس عمل کے بعدراکھ میں جلتی چنگاریاں یقیناًایک دن ایسے خوفناک آگ کاالاؤبن کرسب کچھ بھسم کرکے رکھ دیں گے۔اس سے پہلے کہ بہت تاخیرہوجائے اورکشمیر کے بارے میں اقوام عالم کوبھی یہ سمجھناچاہئے کہ کشمیری نوجوان یہاں تک کیسے پہنچے اوراس بارے میں رائے عامہ بنانی چاہئے تاکہ حکومت پردباؤڈالاجاسکے اوراگرایسانہیں ہواتومسئلہ کشمیر کسی عالمی تباہی کا موجب بن کررہے گا۔

کشمیرکی جنت ارضی کومودی جیسے خونخوارقصاب نے جہنم زاربنادیاہے۔قابض بھارتی فورسزآئے دن کہیں نہ کہیں آپریشن کے بہانے اپنے خونی آتشیں اسلحے سے بے گناہوں کی جان لینے میں لمحہ بھرکیلئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔میں آج تک یہ سانحہ بھول نہیں پایاجب قابض بھارتی درندوں نے ضلع شوپیاں میں ظلم واستبدادکی انتہاء کردی۔ان درندوں نے آپریشن کے نام پرکشمیریونیورسٹی کے ایک استادسمیت گیارہ کشمیریوں کوانتہائی بیدردی سے گولیاں مارکرشہیدکردیا جس کے بعدصرف چوبیس گھنٹوں میں بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھ شہیدہونے والوں کی تعداد13ہوگئی۔اسسٹنٹ پروفیسر رفیق بٹ کشمیریونیورسٹی جبکہ باقی شہید نوجوان طاب علم تھے۔بھارتی فوج نے شوپیان میں کریک ڈاؤن کے نام پرپہلے پانچ نوجوان پروفیسر ڈاکٹررفیق بٹ،صدام احمد،بلال احمد،عادل ملک اورتوصیف احمدکی شہادت تسلیم کرتے ہوئے دعویٰ کیاکہ ان سب کاتعلق حزب المجاہدین سے تھا۔نئی شہادتوں پرپوری وادی میں احتجاجی ہنگامے پھوٹ پڑے اورکشمیریوں کی بڑی تعدادسڑکوں پرنکل آئی اورشدیداحتجاج کیا۔بھارتی فوج نے ان مظاہرین پرپھرگولی چلادی جس سے مزیدپانچ نوجوان شہیدہوگئے۔قابض فورسزنے احتجاج کرنے والے درجنوں مظاہرین کوحراست میں لے لیاجن پرمزیدتشددکیا جارہا ہے اوربعض نوجوان ابھی تک واپس اپنے گھروں کوواپس نہیں لوٹے۔اس واقعے سے ایک روزقبل بھی بھارتی فوج نے چٹہ بل کے علاقے میں ریاستی دہشتگردی کامظاہرہ کرتے ہوئے چارطلباء کوشہید کردیاتھا۔اس طرح ایک دن میں پندرہ مزیدنوجوان جام ِ شہادت نوش کرگئے۔

بھارتی بربریت توایک معمول ہے جوآئے دن مقبوضہ وادیٔ میں ناقابل بیان اشتعال پیداکرتے رہتے ہیں۔کشمیری عوام نئے مظالم کے خلاف سڑکوں پرآرہے ہیں۔اہل کشمیرکی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ بھارت اپناتسلط ختم کرنے کیلئے کشمیری عوام سے بات کرے ۔حریت پسندتنظیمیں دوطرح سے بھارت کے سامنے کھڑی ہیں۔ایک صف سنئیرسیاستدانوں کی ہے اوردوسری صف ان ناراض نوجوانوں نے ترتیب دے رکھی ہے جوبھارتی مکار ہندو کی جانب سے سیاسی عمل کومسلسل دھوکہ سے سبوتاژکرنے کے بعداب صرف اپنے حقوق کیلئے مزاحمت اورجنگ کوحصول آزادیٔ کاذریعہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حق خودا رادیت کی حمائت کی۔بانی پاکستان محمدعلی جناح کی کشمیرکے معاملے میں پالیسی بڑی واضح تھی،اسی لئے انہوں نے ”کشمیرکوپاکستان کہ شہ رگ قراردیاہے”۔یہی وجہ ہے کہ کشمیرکے تنازع کوبین الاقوامی سطح پراٹھانے میں پاکستان نے کبھی غفلت کامظاہرہ نہیں کیا۔حالیہ واقعات میں معصوم کشمیری باشندوں کی شہادت پاکستان کیلئے بے حدافسوسناک ہے۔پاکستان کے عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں تاہم افسوسناک حقیقت قارئین کے علم میں لاناضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین ان دنوں اپنی خودغرضانہ سیاست میں کشمیرکی تازہ اورانمول قربانیاں فراموش کئے ہوئے ہیں۔پاکستان کوان دنوں سیاسی اوراقتصادی انتشارمیں مبتلاکرکے انتخابات کے دنگل کابگل توبجایاجارہاہے جودوردورتک دکھائی نہیں دے رہے لیکن افسوس صدافسوس کہ کسی جماعت کے کسی بھی رہنماء نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پرایک لفظ تک اپنے منشور میں شامل نہیں کیا۔ابھی حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنماء نے اپنے دس نکات قوم کے سامنے رکھے ہیں۔اپنے طویل خطاب میں ایک بھی لفظ کشمیرمیں ہونے والے مظالم کے متعلق کہنے سے قاصررہے اورنجانے وہ کیوں کشمیرکوبالکل بھول گئے ہیں؟اب مسئلہ کشمیران کیلئے کسی اہمیت کے لائق نہیں رہالیکن یہ بات تمام سیاستدان یادرکھیں کہ جس کسی پاکستانی سیاستدان یارہنماء نے مسئلہ کشمیر سے بے اعتنائی برتی ،وہ تاریخ کے کوڑے دان کی نذرہوگیا۔

دنیاکے ایک بڑے دہشتگرداورریاستی دہشتگردی کے سرخیل مودی کی قیادت میں2014ء سے برسراقتدارہے۔اس دوران پاکستان نے ہرعالمی فورمز پرمسئلہ کشمیراٹھایا،سارک تنظیم پربھارت نے یہ شرط عائدکی تھی کہ اس کے توسط سے رکن ممالک کے باہمی تنازعات کامعاملہ نہیں اٹھایاجاسکتا۔

دراصل ایسی شرط رکھنے کامقصدتنازع کشمیرکوزیربحث لانے سے انکارتھاحالانکہ اس تنازع کوطے کرنے کاسب سے مؤثرپلیٹ فارم خطے کے ممالک کی ایک اپنی تنظیم ہوسکتی تھی۔ہرسال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کااجلاس ہوتاہے۔اس موقع پرتمام رکن ممالک کے سربراہان شرکت کرتے ہیں۔یہ عالمی رہنماء علاقائی اورعالمی امن،تجارت اورترقی کیلئے اپنانقطہ نظراورکوششیں خطاب کی صورت میں دنیاکے سامنے رکھتے ہیں۔پاکستان کی طرف سے مسلسل عالمی برادری کویاددہانی کروائی جاتی ہے کہ کشمیریوں کی مشکلات کونظراندازنہ کرے اورمسئلہ کشمیراب دوایٹمی قوتوں کے درمیان نہ صرف خطے بلکہ دنیاکے امن کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتاہے۔

1948ءمیں بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرونے حریت پسندوں کی پیش قدمی روکنے میں فوجی ناکامی کے بعداقوام متحدہ سے رجوع کیااوراقوام عالم میں چندبڑی طاقتوں کی ضمانت کے ساتھ تحریری طورپریہ وعدہ کیاکہ بھارت کشمیرمیں استصواب رائے پرتیارہے۔اس کامطلب یہ تھاکہ کشمیری عوام اپنی آزادانہ حیثت کے متعلق جوفیصلہ کرنا چاہیں ،بھارت اس کااحترام کرے گا۔اس وقت کشمیرکے اہم رہنماءشیخ عبداللہ،نہروکے اتحادی تھے۔نہروکو یہ یقین تھاکہ شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کرانہیں کام کرنے کاموقع مل گیا توکشمیرمیں بھارت نوازافرادکی آبادی بڑھائی جاسکتی ہے اس کیلئے ہندواکثریت والے علاقوں سے بھارت نواز لوگوں کومسلم اکثریتی علاقوں میں آبادکیاجانے لگا۔بھارت نے جب برسہابرس تک ٹال مٹول سے کام لیااوراستصواب رائے سے متعلق عالمی ادارے کی قراردادسے لاتعلقی ظاہرکرناشروع کردی توسیاسی اندازمیں کام کرنے والے کشمیری رہنماؤں کی نئی نسل نے ہتھیار اٹھائے اور90ء کے عشرے میں کشمیری تنظیموں نے مسلح مزاحمت شروع کردی۔

اس وقت9لاکھ سے زائدفوجی صرف کشمیرمیں موجودہیں۔بھارتی افواج انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ۔کشمیریوں کوجبراًلاپتہ کر دیاجاتاہے اور اس وقت آٹھ ہزارسے زائد کشمیری نوجوان قابض فوجیوں نے لاپتہ کررکھے ہیں۔اجتماعی ہلاکتوں کے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں،خواتین کی بے حرمتی کوجنگی ہتھیارکے طورپراستعمال کیاجارہاہے۔ شنیدیہ ہے کہ ان تمام شقی القلب مجرموں کورہاکردیاگیاہے جنہوں نے ہندو اکثریتی علاقے کٹھوعہ جموں میں خانہ بدوش بکروال قبیلے کی آٹھ سالہ بچہ آصفہ کوکئی روزمندرمیں رکھ کراس سے اجتماعی زیادتی کی تھی اوربعدازاں اس معصوم کاسرانتہائی سنگدلی کے ساتھ پتھرمارکرکچلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس نے تڑپ تڑپ کی جان دیدی تھی۔اس افسوسناک واقعے میں بھارتی پولیس کے حکام اورمندرکانگران ملوث نکلامگرحکمران جماعت بی جے پی کی خواتین اورکارکنوں نے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کامظاہرہ کرتے ہوئے ملزمان کومقدمے سے خارج کرنے کیلئے مظاہرے بھی کئے اورآج وہ تمام مجرمان دوبارہ دندنارہے ہیں۔

ایسے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ کشمیری باشندوں کی جان،آبرواورمال ہندوجنونیوں اوربھارتی فوجیوں کے ہاتھوں محفوط نہیں، وہاں کشمیریوں کے انسانی حقوق پربھی پابندی ہے،اظہاررائے پرتعزیزیں ہیں۔ایک عرصےسے انٹرنیٹ پرپابندی اوربعض علاقوں میں ٹیلیفون تک بندکردیئے گئے ہیں، رپورٹس بتاتی ہیں کہ 1989ءسے لیکر اب تک ایک لاکھ سے زائدکشمیری قابض درندہ صفت بھارتی فوج کے ہاتھوں شہیدہوچکے ہیں۔جموں کشمیرسول سوسائٹی اتحادان شہادتوں کی تعداد80ہزارسے کہیں زیادہ بتاتی ہے جبکہ جبری لاپتہ افرادآٹھ ہزارسے زائدباقاعدہ رجسٹرڈہے۔حیرت کامقام یہ ہے کہ دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے بھارتی برہمن نے ایسے کسی بھی واقعے کی عدالتی کاروائی نہیں ہونے دی،اگرکسی نے اس ظلم کے خلاف عدالت میں جانے کی کوشش بھی کی تووہ بھی لاپتہ کردیاگیایاپھراس پردہشتگردی کاالزام لگاکراس دنیاسے ہی رخصت کردیا گیا۔

یادرہے کہ مکافاتِ عمل بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔بہت جلدبھارت اس کے مربی امریکااوراس کی لونڈی اقوام متحدہ کی بے حس خودی ان کے آگے آ
جائے گی اورجب وہ چاہیں گے دنیاان کے حق میں بات کرے لیکن اس وقت کوئی ان کے حق میں نہیں بولے گاکہ قدرت کی بے آوازلاٹھی حرکت میں آ چکی ہوگی۔اس لئے بہترہے کہ مستقبل میں تنہائی کاشکارہونے سے پہلے ایسے اقدامات کرلئے جائیں کہ دنیاکی دیگرقوتیں سب حق کی ہی ہم آواز ہوجائیں اورکشمیر وفلسطین سمیت ہرمظلوم ومقہورقوم کی ہم نواہوں جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں