دنیاکی رواں سیاست

:Share

جمہوری فاشزم یاحقیقی آزادی؟

جس تیزی کے ساتھ ہم دنیاوی اورمادی ترقی کے زینے پھلانگتے جارہے ہیں، کیا ہم اس کے نقصانات سے بھی آگاہ ہیں؟کیاہمیں اس بات کاعلم ہے کہ آج کے جدید ترقی یافتہ جمہوری نظام میں شخصی آزادی کواندرون خانہ سلب کیاجارہاہے اور ہم بخوشی نہ صرف اس کاشکارہوتے جارہے ہیں بلکہ جمہوری نظام کے اس دھوکے سے نکلنے کی بجائے اس فاشزم میں روزبروزدھنستے جارہے ہیں۔
ایسا کوئی بھی دعویٰ کہ ہم فی زمانہ ایک اورطرح کے فاشزم(ڈیجیٹل فاشزم)سے نبردآزما ہیں بہت جلد یہ کہتے ہوئے نظر اندازاورمستردکردیاجائے گا کہ اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ پیش کیاجارہا ہے۔ حیرت کی کوئی بات نہیں کہ دنیا بھر میں ایسے بڑے کاروباری ادارے موجود ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر محض یہ راگ الاپتے ہوئے کماتے ہیں کہ فرد کی حیثیت سے بالخصوص اور جمہوری معاشرہ ہونے کے ناطے بالعموم ہماری زندگی میں بہت سی آسانیاں بڑے پیمانے پر مواد اور مصنوعی ذہانت کی مرہون منت ہیں اور یہ کہ ان کے بغیر ہمارے لیے ڈھنگ سے جینا آسان نہ ہوگا۔ اس وقت ایک بڑا سوال یہ ہے کہ جمہوریت، جیسی کہ ہمارے سامنے ہے، معلومات کے سیلاب اور مصنوعی ذہانت کے سامنے اپنی بقا یقینی بنانے کی اہلیت کاجودعوی کرتی ہے، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اسی جمہوریت میں نہ چاہتے ہوئے بھی غیرمرئی اندازمیں سوچ، طرزِ فکر و عمل پر خطرناک حد تک اثر انداز ہونے والے مختلف طریقے مستعمل اور نتیجہ خیز ہیں۔
ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں، آج کی خفیہ ایجنسیوں اور بگ ڈیٹا کمپنیوں کے پاس ہمارے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات ہیں جو ماضی میں مطلق العنان حکومتوں کو درکار ہوا کرتی تھیں۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ان معلومات کو کسی نہ کسی مرحلے میں ہمارے خلاف بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ میں نے ڈیجیٹل فاشزم کی بات کی ہے۔ میرے اس دعوے کو اگر کوئی شک کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے آج کے جمہوری اورڈیجیٹل معاشروں کی درج ذیل خصوصیات پر غور کرنا چاہیے۔
بڑے پیمانے پر نگرانی ،انسانوں پر غیر اخلاقی نوعیت کے تجربات،سوشل انجینئرنگ،عوام کو ایک سانچے میں ڈھالنے کا عمل،سینسر شپ اورپروپیگنڈا ،فلاحی آمریت،غیر معمولی حد تک متوقع پولیسنگ،لوگوں کی الگ الگ قدر و قیمت کا تعین،صورتِ حال کے مطابق انسانی حقوق کا بدلتا تصور، اورقتل بر بنائے رحمکے نام پریہ گھنائوناکاروبارجاری وساری اوراسے جمہوری معاشرتی ترقی کانام دیکرعوام سے دادبھی وصول کی جارہی ہے۔
ہم نے ڈیجیٹل معاشروں کی جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے وہ سب کی سب ماضی کے مطلق العنان حکمرانوں کے خوابوں کے سوا کچھ نہ تھیں۔ وہ ایسی ہی آئیڈیل صورتِ حال کو اپنا اقتدار مضبوط کرنے کیلئے عمدگی سے بروئے کار لاتے تھے،طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ اب جبر اور تلخی سے کام لینے کی بجائے نرمی اور مٹھاس کا سہارا لیا جاتا ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہم نئی، ڈیجیٹل مطلق العنانیت سے دوچار ہیں۔ ماضی میں چند ممالک کے مخصوص حالات مطلق العنان حکمرانی کی راہ ہموار کیا کرتے تھے۔ فی زمانہ ڈیجیٹل انقلاب کے ہاتھوں وہ حالات پوری دنیا پر محیط ہیں۔ اگر ہم جمہوریت، انسانی حقوق اور انسان کے بحیثیت انسان احترام کو بچانا چاہتے ہیں تو ایمرجنسی آپریشن لازم ہے۔ ڈیجیٹل فاشزم کیلئے جواز پیدا کرنے کی غرض سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی، سائبر حملوں کی دھمکیوں اور ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ہمیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی مدد سے غیر معمولی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں شہری آزادیوں پر قدغن لگ رہی ہے۔ عوام کے اختیارات میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا میں خصوصی قوانین وضع کیے گئے۔ جن کا بنیادی مقصد نگرانی تھا تاہم ان قوانین کی مدد سے لوگوں کے حقوق کو محدود کردیا گیا ہے۔ ان کی بہت سی آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں۔ آج امریکا میں سیکیورٹی اور نگرانی کے نام پر نافذ کیے گئے قوانین کی مدد سے عوام کو بہت سیمعاملات میں غیر معمولی حد بندی کا سامنا ہے۔ اور معاملہ امریکا تک محدود نہیں رہا۔ آج دنیا بھر میں اربوں انسانوں کی شدید نگرانی کا نظام رو بہ عمل ہے۔ بیشتر افراد کو اب تک یہ اندازہ ہی نہیں کہ یہ سب کچھ کس حد تک پھیلا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں ان کی زندگی پر اس کے کتنے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ کمپیوٹرز، اسمارٹ فونز، اسمارٹ ٹی وی اور اسمارٹ کارز کو ہیک کرنے کیلئیخفیہ اداروں کو اربوں ڈالر کے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں۔ دنیا بھر سے روزانہ لاکھوں گیگا بائٹس کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے۔ جمہوری حکومتیں بھی یہ سب کچھ کر رہی ہیں اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کیا جاسکے۔ ڈیجیٹل ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کی پسند و ناپسند پر اثر انداز ہوا جارہا ہے۔ اب ہم فلاحی آمریت کیلئے محض ایک آلے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ریاستی مشینری اور بڑے کاروباری ادارے مل کر طے کرتے ہیں کہ ہمارے لئے اچھا اور برا کیا ہے۔
شہریوں کو ہدف بنایا جارہا ہے، ان کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے اور اس ڈیٹا کے تجزیے کی بنیاد پر طے کیا جارہا ہے کہ معاشرے اور معیشت کو کیا رخ اور رنگ دینا ہے۔ ہر شخص کا ایک مکمل پروفائل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لوگوں کے مزاج اور عادات کی بنیاد پر طے کیا جارہا ہے کہ انہیں کیا کھانا پینا چاہیے، کیا پہننا چاہیے، کیا پڑھنا چاہیے، کس طور اپنا فارغ وقت گزارنا چاہیے اور زندگی کے بارے میں ان کی مجموعی سوچ کیا ہونی چاہیے۔ ہر پروفائل میں ہزاروں خصوصی نکات شامل کیے جاسکتے ہیں۔ کمپیوٹرز اور اسمارٹ فونز ہیکنگ کے ذریعے ہمارا جو ڈیٹا لیا جارہا ہے اس کے تجزیے کی بنیاد پر ہماری شخصیت کی تشکیل نو کا مرحلہ شروع کیا جاچکا ہے۔ ہمارے ورچوئل سیلف
پر مختلف تجربات کے ذریعے یہ طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں کیا سوچنا چاہیے، ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے اور ہمیں کیسے ماحول میں زندگی بسر کرنی چاہیے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ”بگ نیوڈنگ”یا”نیورومارکیٹنگ”کہلانے والی تکنیک کے ذریعے ہمارا ذاتی مواد اپنی مرضی کی معلومات کی تیاری کیلئے استعمال کیا جارہا ہے تاکہ کسی بھی معاملے میں ہمارے ارتکاز، جذبات، خیالات، فیصلوں اور طرزِ عمل کو اس حد تک طے کردیا جائے کہ ہمارا اپنے ہی وجود پر اختیار برائے نام رہ جائے۔ ایک طرف تو صارف کی حیثیت سے کسی بھی شخص کی پسند و ناپسند پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری طرف ووٹرزکی حیثیت سے پائی جانے والی سوچ پر بھی اثرات مرتب کیے جارہے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد انتخابات میں ووٹرز کی مجموعی رائے پر اثر انداز ہوکر مقتدر قوتوں کی پسند کے انتخابی نتائج حاصل کرنا ہے ۔عوام کی نگرانی کا نظام اگر غلط ہاتھوں میں چلا جائے اور معاشرے کی عمومی فلاح کا مقصد پس پشت ڈال کر صرف مذموم مقاصد کو ذہن نشین رکھا جائے تو معاشرے پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اعلانیہ یا ڈھکی چھپی مطلق العنان حکمرانی والی ریاست میں یہ ڈیٹا شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے اور ان کی سوچ کو خطرناک حد تک تبدیل کرنے کیلئیآزادانہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ ریاستی پالیسیوں سیاختلاف رکھتے ہیں ان کی سوچ کو بدلنے میں بھی نگرانی کا یہ نظام اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایسے میں جمہوری حقوق کے باضابطہ استعمال سیقبل ہی شہریوں پر متعددپابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں، انہیں بہت سی باتوں کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔
برطانوی خفیہ ادارہ”کرماپولیس،سرویلئنس پروگرام” کے زیرعنوان ایک پروگرام چلاتا ہے جو دراصل یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ کس طرف جارہا ہے۔ اس پروگرام کا
تجربہ اس وقت چین میں بھی کیا جارہا ہے۔ یہ پروگرام ایک مکمل مطلق العنان معاشرے یا پولیس اسٹیٹ کی تشکیل کیلئے بھی عمدگی سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
“کرماپولیس”کے تحت”دی سٹیزن اسکور”یہ طے کرے گا کہ اشیا وخدمات اور بنیادی سہولتوں تک عوام کی رسائی کی سطح کیا ہے۔عوام کو ان کے مجموعی رویے کی بنیاد پر انعام یا سزا ملے گی۔ حکومت پر تنقید سے متعلق خبریں، تجزیے اورمضامین پڑھنے یاغلط سماجی تعلقات کی بنیاد پر آپ کو منفی مارکس ملیں گے۔
معاشرے کو مکمل ڈیجیٹل مطلق العنانیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں چند باتیں یقینی بنانا ہوں گی۔ مثلا ً
٭طاقتورمضبوط ڈھانچہ کوڈھنگ سے استعمال کرنے کیلئے ایک جامع آزاد فریم ورک
٭ نظم و ضبط سے متعلق ٹیمیں بناکر مختلف النوع پس منظر کا علمی انداز سے معیاری استعمال
٭ شفافیت، انسانی حقوق اور انسانی احترام یقینی بنانے سے متعلق اخلاقی اصولوں کا جامع اور کارگر بنیادی ڈھانچہ
٭ سائبرسیکیورٹی۔۔۔۔ عدم ارتکاز کے ذریعے
٭معلومات کی سطح پرحق خودارادیت۔۔۔۔پرسنل ڈیٹا اسٹور کی مدد سے
اگر ہم فوری طور پر متوجہ نہ ہوئے تو ڈیجیٹل انقلاب کی مدد سے عالمگیر سطح پر فاشزم کو پنپنے اور ہماری زندگیاں کنٹرول کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اس معاملے میں ہم جس قدر تاخیر کے مرتکب ہوں گے، معاملات کو درست کرنا ہمارے لیے اسی قدر دشوار ہو جائے گا۔ یومیہ بنیادی ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے۔ جدید ترین طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی پسند و ناپسند اور مختلف امور میں ان کی رائے کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری طرزِفکروعمل پراثر انداز ہونے کی یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں اس کا مدار اس بات پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔
ٹیکنالوجیکل مطلق العنانیت بڑھتی جارہی ہے۔ایسے میں دنیابھرکے عوام کو سوچناہوگا اوراپنی سوچ کومقدم رکھتے ہوئے اپنی پسندوناپسندکاسانچاتیارکرنا ہو گا۔یاد رکھیے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے تمام جغرافیائی سرحدوں کو عملا ًختم کردیا ہے۔ اب پوری دنیا کو کسی ایک مقام پر بیٹھ کر بھی کنٹرول کرنے کا مرحلہ آچکا ہے اورامریکا اپنے دشمنوں کے خلاف ہزاروں میل دوربیٹھ کرڈرون میزائل حملوں کیلئے اسی ٹیکنالوجی کواپنے استعمال میں لارہاہے کیونکہ مطلق العنانیت کیلئے اس ٹیکنالوجی کاماحول انتہائی سازگار ہے۔
دنیا بھر میں رونما ہونے والے متعدد واقعات انتہائی پریشان کن ہیں۔ حالیہ جرمن انتخاب میں انتہائی دائیں بازوکی جماعت کاابھرناانتہائی حیرت انگیزامرتھا۔ ووٹرز کی رائے پراثراندازہونے کی بھرپوراورکامیاب کوشش کی گئی۔ اسپین، ہنگری اورپولینڈ بہت حد تک مطلق العنانیت کی راہ پر گامزن ہیں۔ فرانس، برطانیہ،امریکا،جاپان، آسٹریا،سوئٹزرلینڈاورنیدرلینڈز(ہالینڈ)پرغیرمعمولی توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے۔ان ممالک کے چندسیاست دانوں نے انسانی حقوق کی آڑمیں سوال کرنا شروع کردیئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق اور اختیارات زیادہ سے زیادہ محدود کردیے جائیں اس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعدجوتہذیبی ڈھانچاکھڑاکیاگیاہے وہ خطرے میں ہے۔ پورے کے پورے معاشرے پٹڑی سے اترنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ شخصی آزادی کا تصور دھندلاتا جارہا ہے۔ ایسے میں فرد کو اپنے حقوق کیلئے اٹھنا پڑے گا کہ عمل کا وقت آگیا ہے۔
ہمیں مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ ہونا پڑے گا اور پرانی سوچ کو ترک کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ عوام کو زیادہ سے زیادہ باشعور کرنے کیلئے انہیں اظہار رائے کی تحریک دینا پڑے گی اور مستقبل کے حوالے سے مثبت تصورات پیدا کرناہوں گے۔ پرانی قوتوں کافرض ہے کہ تبدیلی کوواقع ہونے دیں۔ہمیں معاشرے کونئے سرے سے دریافت یاایجاد کرنے اوراس جمہوریت کے نعم البدل نظام کی ضرورت ہے جہاں حاکم وقت خلیفہ دوم حضرت عمرؓفاروق اپنے ایک ساتھی کوتنبیہ کرتے ہیں کہ تم نے کب سے انسان کوغلام بنارکھاہے جب کہ ہربچہ فطری اصول کے مطابق آزادپیداہوتاہے۔ ہمیں ایک بات طے کرنی ہے کہ شخصی آزادی کوسلب کرنے والے اس فاشزم کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہنے کیلئے اب قرآن سے رجوع کرناازحدضروری ہوگیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں