اسلامی سال کاآغازماہ محرم الحرام سے ہوتاہے۔امم سابقہ میں بھی اس کوماہ معظم سمجھاجاتاتھااورآج بھی ماہ ِمحرم کی عظمتوں سے کسی کوانکارنہیں اورخصوصاً یوم عاشورہ توملت اسلامیہ کا ناقابل فراموش دن ہے۔بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے جوبزرگیاں دنوں کے اعتبارسے امت محمدیہ کوعطاکی ہیں،اس میں یہ دن دسویں بزرگی کاہے اوربعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب انبیاء پرمختلف انعامات اسی دن فرمائے!سیدناابی عباس رسول اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاشورہ کے دن آسمانوں زمینوں اورپہاڑوں کوپیدا فرمایا،حضرت آدم علیؓ ہ السلام کی تخلیق بھی اسی دن فرمائی،حضرت آدم علیؓ ہ السلام کی توبہ بھی اسی دن باریاب ہوئی،اسی دن ان کوجنت میں داخل فرمایاگیا۔سیدناابراہیم خلیل اللہ بھی اسی دن پیداہوئے،ان کے بیٹے کافدیہ قربانی بھی عاشورہ کے دن دیاگیا۔فرعون کوبھی اسی دن دریائے نیل میں غرق کیاگیااورحضرت ایوب علیؓ ہ السلام کی تکلیف بھی اسی دن دور فرمائی گئی۔ حضرت داؤدعلیؓ ہ السلام کی لغزش بھی یوم عاشورکومعاف فرمائی گئی اورحضرت عیسیٰ علیؓ ہ لسلام ابن مریم کی ولادت بھی اسی دن ہوئی اورقیامت بھی یوم عاشورہ کے دن ہی واقع ہوگی۔(غنیة الطالبین)
لیکن ان تمام عظمتوں کی وجہ تسمیہ شہادتِ حسینؓ کےعظیم واقعہ کی چھاپ ہماری اسلامی تاریخ پراس قدرزیادہ ہےکہ اب عملاً ہمارے لئے کسی اورواقعے کی اتنی اہمیت ہی نہیں رہی اورنہ ہی ہم اس سے واقف ہیں۔ شہادت حسینؓ حق کے مقابلے میں ہم دوسری عظمتوں کانہ توہم ذکرکرتے ہیں اورنہ ہی اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
اسلام کی روح یہ ہے کہ وہ ناحق اورباطل کے سامنے سرکٹادے لیکن ہرگزاس کوجھکنے نہ دے،اس عظیم عمل کوشہادت کہتے ہیں اوراس شہادت کی اعلیؓ ٰ ترین مثال اورتکمیل کانام بلاشبہ ”شہادتِ حسینؓٗ”ہے جنہوں نے چھ ہزارکے لشکر کے سامنے عام روایت کے مطابق بہتر(72)مجاہدوں کے ساتھ ٹکرلی اور ان ظالم حکمرانوں کے سامنے سرجھکانے کی بجائے لڑکراپنی جاں جانِ آفریں کےسپرد کردی۔یہی وہ کردارہے جس کی بناء پرہم یوم عاشورہ کی یادمناتے ہیں لیکن تاریخ کے جھروکوں کوبغوردیکھیں توہمیں حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ علیؓہم السلام دومختلف قسم کے طریقہ کارکی علامت نظرآتے ہیں۔ہمیں جہاں حضرت حسینؓ سیاسی طریقہ کارکے علمبردارنظرآتے ہیں وہاں حضرت حسنؓ غیرسیاسی طریقہ کار کی حکمت کے میناردکھائی دیتے ہیں۔حضرت حسین ؓ نے حاکم وقت کے ساتھ جنگ کرکے جوسیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی وہاں یہی مقاصدحضرت حسنؓ نے جنگ کے میدان سے واپسی کے ذریعے حاصل کئے۔ اس اہم اورلطیف فرق کوسمجھنے کیلئے ہمیں تاریخ کی اس تصویرکے ہرپہلوکوبڑی ایمانداری سے دیکھنا ہوگااوران تاریخی واقعات کو سامنے رکھ کران عظمتوں کی مینارۂ ہدائت کواپنی قوموں کی زندگی کیلئے مشعلِ راہ بناناہوگا۔
تاریخ سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ مکہ میں قدیم زمانے سے قریش کے دوخاندان بنوہاشم اوربنوامیہ آبادتھے اوران میں خاندانی رقابت بھی چلی آرہی تھی لیکن جب بنوہاشم کے ایک فرزندنے نبوت کادعویٰ کیاتومخالفت میں بنوامیہ سب سے آگے تھے۔لیکن فتح مکہ (8ھ)کے بعدعرب کے دوسرے قبائل کی طرح بنوامیہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اورعہدرسالت اور خلافتِ راشدہ میں بنوامیہ کے لائق افراد نے مختلف اسلامی عہدے بھی حاصل کئے جس کی ایک درخشاں مثال حضرت عثمانؓ ؓ ابی عفان ہیں۔اس دورمیں(25ھ تا35ھ)میں بنوامیہ کااثرورسوخ تمام دوسرے قبائل سے کہیں زیادہ ہوگیا۔اس کے بعد جب حضرت علیؓ ؓابن طالب کاانتخاب بطور امیر المومنین ہواتواس وقت بنوامیہ نے محض شہادت عثمانؓ ؓ کے مسئلہ کوبنیادبناکرپہلے ہاشمی خلیفہ کے خلاف پرانی رقابت کوازسرنو زندہ کردیاجس کی وجہ سے حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ کاپورازمانہ خلافت(35ھ تا40ھ)باہمی خانہ جنگیوں اورشورش میں گزرا،اور آخراس کی انتہاءایک ملعون جنونی عبدالرحمان ملجم کے ہاتھوں شہادت کے ذریعے ہوئی۔
حضرت علیؓ ؓ کی شہادت کے بعدآپ کے لختِ جگرحضرت حسنؓ کے ہاتھ پرخلافت کی بیعت ہوئی۔اس وقت صورتحال یہ تھی کہ صرف عراق اورخراسان کی خلافت امام حسنؓؓ کے حصے میں آئی جبکہ شام،فلسطین،یمن،حجازاورمصروغیرہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان اموی کے زیرقبضہ تھے جنہوں نے خونِ عثمانؓ کے مسئلے کی بناء پرحضرت علیؓ ؓ کی بیعت سے انکارکردیاتھا۔وہ بھلااب حضرت امام حسنؓ کوخلیفہ کیسے تسلیم کرلیتے؟ربیع الاوّل 41ھ کوصورتحال اس نوبت کوآن پہنچی کہ امام حسنؓ کے ساتھ چالیس ہزارسے زائدمسلح افرادتھے اوردوسری طرف حضرت امیرمعاویہ کے جھنڈے تلے ساٹھ ہزارکالشکر مرنے مارنے کیلئے ایک اشارے کامنتظرتھا۔یہاں پرحضرت امام حسنؓ کاوہ تاریخی،غیرسیاسی کردارسامنے نظرآتاہے جس کے متعلق عام قاری توکجا ہمارے دانشوراورعلماءحضرات بھی بے خبرنظرآتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ امام حسنؓ کایہ عظیم کردارلوگوں کے سامنے ابھی تک کھل کرسامنے نہیں آسکا جس طرح امام حسینؓ کی شہادت کاواقعہ ہے۔
حضرت حسنؓ نے اپنے والدکے پانچ سالہ خلافت کے پرآشوب زمانے میں مسلمانوں کوخودبھائیوں کی تلواروں سے ذبح ہوتے دیکھا تھااس لئے باہمی خون خرابہ اورنہ ختم ہونے والے سلسلے کوہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے خودمیدان سے ہٹ گئے اورخلافت کا عہدہ حضرت امیرمعاویہ کے حوالے کردیااگرچہ حضرت حسنؓ حق پرتھے اورامت کے جائزخلیفہ تھے۔
اس کے بعد دوعشرے(41ھ تا60ھ)تک حالات پرسکون رہے اوراسلامی سلطنت کی سرحدوں میں بھی خاصی توسیع ہوئی۔امیرمعاویہ کے انتقال (رجب60ھ)تک حالات بڑے پرسکون رہے لیکن جب خلافت کامسئلہ دوبارہ کھڑاہواتوامام حسینؓجواپنے باپ کی شہادت اور بھائی کی خلافت سے دستبرداری سے خوش نہ تھے،انہوں نے یزید کی خلافت سے اسی طرح انکارکیاجس طرح اس سے پہلے حضرت معاویہ نے ان کے والدمحترم حضرت علیؓ کی خلافت تسلیم کرنے سے انکارکردیاتھا۔یہیں سے امام حسین(4ھ تا61ھ)کاوہ کردارشروع ہوتاہے جس کی یاداب یوم عاشورہ کومنائی جاتی ہے۔
عتبہ بن ابی سفیان نے جب مدینے میں یزیدبن معاویہ کیلئے لوگوں سے بیعت لینے کاسلسلہ شروع کیاتوامام حسینؓنے معذوری کا اظہارکردیااورخاموشی کے ساتھ اپنے اہل وعیال کولیکرمکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔یہاں آپ کی آمدسے قبل مکہ کے لوگ عبداللہ بن زبیرپربیعت کرچکے تھے اوریہ صورتحال حضرت حسینؓ کوقابل قبول نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت حسینؓ اورآپ کے اہل خانہ ان کے پیچھے نمازنہیں پڑھتے تھے جوعملاًاس وقت مکہ کے حاکم تھے۔
شہادت حضرت عثمانؓ کے بعدحضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ کیلئے مکہ ومدینہ کے حالات سازگارنہیں تھے جس کی بناء پراسلامی ریاست کادارالخلافہ36ھ میں مدینہ سے کوفہ منتقل ہوگیاتھا۔اس طرح امام حسنؓ نے بھی خلافت سے دستبرداری کے بعد41ھ میں کوفہ کوخیربادکہہ دیاتھااورمدینہ میں مستقل رہائش اختیارکرلی تھی۔اب جب یزیدکوخلافت ملی تواہل کوفہ کی محبت اہل بیت کیلئے جوش میں آئی اورانہوں نے خطوط کے ذریعے امام حسینؓ کوخلافت کیلئے مجبورکرناشروع کردیا۔ امام حسنؓ اہل کوفہ کی نفسیات اور صورتحال کی نزاکت کواچھی طرح جان چکے تھے،اسی لئے اپنے بھائی کووصیت میں اہل کوفہ کے بارے میں اپنی آراء سے آگاہ کرچکے تھے کہ: کوفہ والوں کے فریب میں مت آنااورمیں اچھی طرح جان چکاہوں کہ نبوت اورخلافت دونوں ہمارے خاندان میں جمع نہیں ہوسکتیں اس لئے تمہارے حق میں بہتریہی ہے کہ تم اس معاملے میں خاموش رہو”۔
لیکن حضرت حسینؓ اپنے لئے ایک کردارکاانتخاب کرچکے تھے وہ تھا”خلافت منہاج نبوت کاتحفظ”اوراس ادارے کے انہدام سے اہل اسلام کوجن مصائب کاسامنا کرناپڑرہاتھااس سے بھی امت مسلمہ کے اعصاب پربہت برااثرپڑرہاتھا۔ان کے سامنے شہادتِ عثمانؓ کا واقعہ رونماہوا،ان شورشوں نے حضرت حسینؓکے اعصاب پربھی بہت گہرااثرچھوڑاتھا۔اس میں شک نہیں کہ مختلف فتنوں نے پہلے اموی خلیفہ کے زمانے میں قصرِ خلافت کوبری طرح اپنے گھیرے میں لے لیاتھا۔حضرت عثمانؓ نے بھی مسلمانوں کوباہم خانہ جنگی سے بچانے کیلئے اپنی جان قربان کردی حالانکہ اس وقت مدینے کے وفادار مسلمانوں کی جماعت آپ کے مکان پرموجودتھی اوربنو ہاشم کی توایک بڑی جماعت ان کی معاون ومددگاربھی تھی لیکن حضرت عثمانؓ نے ان سب کوقسم دلاکراپنے مسلمان بھائیوں پرحملہ سے روک رکھاتھااوراپنے گھر بیٹھ کرقرآن کریم کی تلاوت فرماتے رہے۔دراصل وہ بھی شریعت کے حکم کی تعمیل کررہے تھے کہ:
اوراللہ کی راہ میں ان سے لڑوجوتم سے لڑیں اورزیادتی نہ کرو بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا۔(بقرہ۔190)
اپنی طرف سے جارحیت کاآغازبندۂ مومن کیلئے کسی طورپربھی جائزنہیں کہ مسلمان دعوت ونصیحت کے ذریعے کوئی خیرکی راہ نکالتاہے نہ کہ قتال کاراستہ اختیارکرکے،اس کے بعداگر دوسروں کی طرف سے جارحیت کاآغازہوتودوصورتیں ہیں،جارحیت کاآغاز اگرکفارکی طرف سے ہوتوپھربھی مخصوص شرائط کے تحت اس کے دفاع کاحکم ہے لیکن اگرجارحیت کاآغازاگر مسلمان کی طرف سے ہوتوایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ دفاع کے طورپربھی اپنے دینی بھائی پروارنہ کیاجائے۔:اگرتونے مجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ کوبڑھایاتومیں تجھے مارنے کیلئے اپنے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا”۔(المائدہ۔28)
ابوموسیٰ ؓسے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے آنے والے فتنے سے جب ڈرایاتو لوگوں نے پوچھاکہ ہم کوآپﷺکاکیاحکم ہے؟توآپﷺ نے فرمایا:اس میں اپنی کمانوں کوتوڑڈالو، اپنی تانت کوکاٹ ڈالو،اپنی تلواروں کوپتھرپرپٹک دو،اپنے گھروں کے اندربیٹھے رہو،اگرتم کومارنے کیلئے کوئی تمہارے گھرمیں گھس آئے توتم آدم علیؓ ہ السلام کے دولڑکوں میں سے بہترلڑکا بنو،قتل ہو جاؤمگرقتل نہ کرو۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمانؓ بن عفان نے اصول شریعت کی اتنی بڑی عملی مثال قائم کردی اوروہ حضرت آدم علیہ السلام کے بہتربیٹابن گئے لیکن حضرت امام حسینؓ کے سامنے اس عظیم المرتبت کارنامے کے بعدآنے والے واقعات نے یہ بات روزِروشن کی طرح واضح کردی کہ اگر حضرت عثمانؓ “خلافت علیؓ ٰ منہاج نبوت”کادفاع کرتے(اوراس ادارہ خلافت کی حفاظت کی خاطرچندہزار نفوس شہیدبھی ہوجاتے تویقیناً خلافت کاادارہ انتشاراورانارکی سے محفوظ رہتااورحضرت علیؓ جوساری توانائیوں کے باوجوداپنے دورخلافت کے پانچ سال ان شورشوں اور باہمی جنگ وجدل پرقابونہ پاسکے اوربالآخران منہ زورفتنوں نے ان کی جان لے لی)توآج خلافت کیلئے مسلمانوں میں آپس میں ایسی خونریزی نہ ہوتی اورتاریخ اسلام میں جنگ جمل اور جنگ صفین اوربعدکے سانحات کیلئے کوئی جگہ نہ ہوتی۔
اسی طرح حضرت حسنؓ کومسلمانوں نے اپنی آزادمرضی سے بلاجبرو اکراہ خلیفہ مقررکیاتھا،وہ نہ صرف برحق خلیفہ تھے بلکہ ان کی خلافت بھی منہاج نبوت پرقائم تھی،ان کے مقابلے میں حضرت امیرمعاویہ کادعویٰ خلافت ویساہی بلاجوازتھاجیساحضرت علیؓ کے مقابلے میں، کیونکہ خلیفہ کے انتخابات اورتقرر کا اختیاراہل شوریٰ یعنی اہل حجازکے جلیل القدرصحابہ رضوان علیؓ ہم کوحاصل تھا۔حضرت امیرمعاویہ کا شمارطلقاء میں تھا،اس لئے طلقاء کوخلافت کے تقرر میں کوئی عمل دخل حاصل نہ تھا۔حضرت معاویہ کا حضرت علیؓ کے خلاف محاذآرائی، تصادم، اطاعت سے انکاراوربغاوت کاکوئی جوازنہ تھا۔وہ مرکزی حکومت میں بطورماتحت خدمات انجام دے رہے تھے۔ان کاشوریٰ سے کوئی تعلق نہ تھا،اس طرح حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ بھی خلیفہ برحق تھے۔وہ خلافت کے ادارے کے محافظ تھے ۔ اس ادارے کے تحفظ اوردفاع کیلئے جوجنگیں لڑیں ان میں حضرت علیؓ حق پرتھےاوران جنگوں کے نتیجے میں جوخون خرابہ ہوا اس کی بھی ذمہ داری حضرت علیؓ پرہرگزعائدنہیں ہوتی۔
حضرت حسینؓ کواس بات کابخوبی علم تھاکہ حضرت معاویہ کے اس طرزِعمل نے حضرت حسنؓ کوبھی اسی دوراہے پرکھڑاکردیاتھا جہاں وہ آج ہیں،یاتووہ خلافت کے ادارے کاتحفظ فرماتے یامسلمانوں کوخانہ جنگی کے منہ زورفتنے سے بچالیں۔حضرت حسنؓ نے امن پسندی کاراستہ اختیارکرتے ہوئے مسلمانوں کوتوخانہ جنگی سے بچالیالیکن انہیں“خلافت علیؓ ٰ منہاج نبوت“کے انہدام کاصدمہ یقیناً برداشت کرناپڑا۔اس حکمت عملی نے امت سے بڑی بھاری قیمت وصول کی اوربعدمیں حضرت حسینؓ ا وراہل حجازکوبھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔حضرت حسینؓ نے اپنے والدگرامی حضرت علیؓ کوبھی خلافت کے ادارے کی حفاظت کی خاطر شہیدہوتے دیکھاتھا۔ یہ الگ بات ہے کہ حضرت حسنؓ نے ان تمام حالات کاعملی مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے لئے غیرسیاسی طریق کارکا انتخاب کیا،اس پرنہ صرف عمل کیابلکہ اپنے بھائی کوبھی اس کی وصیت کی لیکن حضرت حسین ؓنے اپنے لئے سیاسی طریق کارکاراستہ منتخب کرکے اپنے والد حضرت علیؓ کی سنت پر عمل کیا۔
یہاں امام حسنؓ کے غیرسیاسی طریق کارکی وضاحت ازحدضروری ہے۔اس کیلئے پہلے ہمیں مستنداحادیث اوراسلامی تاریخ کی بے شمارمستندکتابوں سے مدد لیناہوگی۔یزید کے مقابلے میں جوصورتحال حضرت حسینؓ کوپیش آئی اس سے کہیں زیادہ مشکل حضرت حسنؓ کوحضرت معاویہ کے مقابلے میں پیش آچکی تھی مگرآپ نے اس سے مختلف ردعمل کااظہارکیاجس کانمونہ ہمیں حضرت حسینؓ کے آخری خطبہ سے بھی ملتاہے جہاں حضرت حسین ؓنے بھی جنگ وجدل سے بچنے کیلئے تین شرائظ پیش کی تھیں۔(طبری جلد4صفحہ313)
احادیث کی کتب میں حسنؓین کے بارے میں بہت سے روائتیں ملتی ہیں جن میں حضرت حسینؓ کیلئے زیادہ تر”محبت“کاذکرہے جو نواسہ ہونے کی حیثیت سے آپ کیلئے بالکل فطری ہے اوردوسری طرف امام حسنؓ کے بارے میں جوروایات نہ صرف سنداًزیادہ قوی ہیں بلکہ فطری محبت سے آگے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔مثلاً حضرت انسؓ بن مالک فرماتے ہیں کہ: حسنؓ بن علیؓ سے زیادہ کوئی شخص نبی اکرمﷺسے مشابہ نہ تھا”۔طبعی مشابہت کے علاوہ یہ ایک واقعہ بھی ہے کہ صحیح روایات میں امام حسینؓ کیلئے کوئی پیشگی کردارکاکوئی ذکر نہیں ملتااوردوسری طرف یہ ثابت ہے کہ نبی اکرمﷺنے امام حسنؓ کے بارے میں ایک عظیم کردارکرنے کی پیشین گوئی ارشادفرمائی تھی۔
حضرت ابوبکرؓصدیق فرماتے ہیں کہ“میں نے رسول اکرمﷺکومنبرپردیکھاجہاں حسنؓ بن علیؓ آپ کے پہلومیں تھے۔ایک بار آپﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اوردوسری باران کی طرف،اورفرماتے تھے یہ میرالڑکاہے،ہوسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کروادے ۔(بخاری)
رسول کریم ﷺ کی یہ پیش گوئی امام حسنؓ کی زندگی میں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔حضرت امام حسنؓ کی بیعت40ھ میں اس حال میں ہوئی کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔بنوامیہ اوربنوہاشم کی رقابت عروج پرتھی،نہ تویہ ایک دوسرے کوختم کرسکے تھے اورنہ ہی ہارماننے کو تیارتھے۔حضرت حسنؓ نے جب بیعت لی توآپ نے لوگوں سے یہ اقرار بھی لیاکہ”میں جس سے جنگ کروں گاتم اس سے جنگ کروگے،جس سے میں صلح کروں گاتم اس سے صلح کروگے”۔اب حضرت حسنؓ کی خلافت گویاحضرت معاویہ کیلئے نیاچیلنج تھی۔اس کے مقابلے کیلئے میدان میں جہاں حضرت معاویہ کا60 ہزارکالشکردمشق سے چلتامدائن کے میدان میں پہنچاتھاوہاں امام حسنؓ بھی اتنی ہی قوت کا لشکرکوفہ سے لیکرمقابلے میں آن کھڑے ہوئے تھے۔ گویا پہاڑوں کا لشکر آمنے سامنے تھابلکہ امام حسنؓ کے سپاہی توحضرت علیؓ کے ہاتھ پرموت کی بیعت بھی کرچکے تھے اورلڑنے مرنے سے کم کسی چیزپربالکل آمادہ نہ تھے۔
مدائن کے میدان میں معاویہ بن سفیان نے امام حسنؓ بن علیؓ کویہ پیغام بھیجا کہ“جنگ سے بہترصلح ہے،مناسب یہ ہے کہ آپ مجھے خلیفہ تسلیم کرلیں اور میرے ہاتھ پربیعت کرلیں”۔امام حسنؓ نے غوروفکرکے بعداس پیشکش کو منظورفرمالیااورخلافت امیرمعاویہ کے سپردکردی حالانکہ امام حسنؓ کے پرجوش حامیوں کویہ بات قبول نہ تھی۔آپ نے ایک تاریخی فقرے میں جواب دیا: خلافت اگرمعاویہ کاحق تھاتوان کوپہنچ گیا،اگرمیراحق تھاتومیں نے ان کوبخش دیا۔اس صلح کے بعدحضرت امیرمعاویہ نے حضرت امام حسنؓ کیلئے ایک لاکھ درہم سالانہ وظیفہ مقررکر دیا۔(حافظ ذہبی1لعبرجلد1صفحہ 48)
اس طرح امام حسنؓ کے پیچھے ہٹ جانے سے مسلمانوں کاباہمی اختلاف باہمی اتفاق میں تبدیل ہوگیااورمدائن کامیدان اسلامی تاریخ میں جمل وصفین کے بعد تیسری خونریزی کے عنوان سے بچ گیااورمسلمانوں کی وہ قوت جوخلیفہ ثالث کے زمانے سے باہمی جنگ وجدل میں مصروف تھی اورجن کی وجہ سے اسلامی فتوحات کاسلسلہ بھی ختم ہوچکاتھا،اب دوبارہ اسلامی فتوحات کی خبریں بہم پہنچارہاتھااوراسلام کی اشاعت وتوسیع جوان خانہ جنگیوں کی وجہ سے رک گئی تھی،اس کابھی بنددروازہ جس نے کھولاوہ حضرت امام حسنؓ ہی تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پیچھے ہٹناسب سے بڑی بہادری ہے۔اگرچہ بہت کم لوگ ہیں جواس بہادری کیلئے اپنے آپ کوتیار کرسکیں،بظاہرتویہ میدان سے واپسی کافیصلہ تھا،اس سے مسلمانوں کی قوت باہم مقابلہ آرائی سے بچ گئی اوراسی طاقت نے مسلمانوں کی فتوحات کاخارجی میدان میں سکہ بٹھادیا۔اگراس وقت حضرت امام حسنؓ خلافت پراصرارکرتے توعجب نہیں مسلمان پہلی صدی ہجری میں آپس کی خانہ جنگیوں میں بربادہوجاتے اوراسلام جوآج ایک عالمگیرمذہب چین سے لیکرمراکش تک اپنی برکات سے ہمیں فیض یاب کررہاہے اس کی شکل کچھ اورہوتی توگویاغیرسرکاری طریق کارسے اختلاف کرنے کی ہمت پیدانہیں ہوتی کیونکہ بعدکے حالات نے حضرت حسنؓ کے اس کردارکوبلاشبہ امت محمدیہﷺپرایک گراں قدراحسان ثابت کیاہے۔
لیکن اس کے ساتھ حضرت حسینؓ کے کردارپرنگاہ ڈالیں توان کے بھی طریق کارکوایسی تقویت ملتی ہے کہ جس نے “خلافت علیؓ ٰ منہاج نبوت”کے تحفظ ،دفاع اوراس کے احیاءکیلئے قربانیوں کی ایک ایسی پرعزم تاریخ رقم کی ہے جوقیامت تک مظلوموں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔ حضرت امام حسین ؓنے خلافت کے ادارے کوبچانے کیلئے کوفہ کے لوگوں کے سخت اصرارپراپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم ؓبن عقیل کوکوفہ روانہ کیا،گوحضرت مسلم ؓبن عقیل اس منصوبے سے متفق نہ تھے تاہم حضرت حسینؓ کے اصرارپرکوفہ چلے گئے۔
تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ تقریباًاٹھارہ ہزارآدمی نیابتاًان کے ہاتھ پربیعت ہوچکے تھے لیکن جب یزیدکے حکم پرعبیداللہ بن زیادنے حضرت مسلم ؓبن عقیل اوران کے کوفی میزبان ہانی بن عروہ کومحل کی چھت پرکھڑاکرکے قتل کردیاتوکوفہ والوں کوگویا یزیدکاپہلاپیغام تھاکہ حضرت حسینؓ کی بیعت کی قیمت کیاہوگی۔اسی وقت کوفہ والے خاموش اپنے گھروں میں دبک گئے اورحضرت حسینؓ جوکہ ان بے وفالوگوں کی قیادت کیلئے آدھے سے زیادہ سفرطے کرچکے تھے،اپنے سفرسے بالکل واپس نہ لوٹے حالانکہ مکے میں تمام جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہ اجمعین نے ان کواس سفرسے منع کیاتھا۔ عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن عباس،عمروبن سعدبن العاص،عبدالرحمٰن بن حارث رضوان اللہ علیہ اجمعین اور مکہ کے دوسرے بزرگوں نے شدت سے حضرت حسینؓ کومنع فرمایابلکہ حضرت عبداللہؓ بن زبیرنے کہاکہ آپ کوفہ جانے کی بجائے مکہ کی حکومت قبول فرمائیں۔آپ ہاتھ بڑھائیں میں سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔عبداللہ ؓبن جعفرؓبن ابی طالب نے مدینہ سے خط لکھ کربااصرارمنع کیالیکن حضرت امام حسینؓ کی اولوالعزم طبیعت اس پرکسی طورراضی نہ ہوئی،حتیٰ کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ؓبن عباس ؓکی اس آخری بات کوبھی ماننے سے انکارکر دیا کہ عورتوں اور بچوں کومکہ میں چھوڑکر سفرکریں یاکم ازکم حج کے بعد روانہ ہوں جس میں صرف چنددن باقی ہیں۔
امام حسینؓ ذوالحج60ھ کے پہلے ہفتے میں کوفہ کے راستے میں حضرت عبداللہؓ بن مطیہ سے جب ملے توانہوں نے بصداحترام حضرت امام حسینؓ سے کہا:”میں آپ کوقسم دلاتاہوں کہ آپ واپس مکہ تشریف لے جائیں،اگرآپ بنوامیہ سے خلافت چھیننے کی کوشش کریں گے تووہ ضرورآپ کوقتل کرڈالیں گےاورپھر ہرایک ہاشمی ہرایک عرب اورہرایک مسلمان کےقتل پردلیر ہوجائیں گے” ۔لیکن حضرت امام حسینؓ نے واضح الفاظ میں اپنے رفقاء کوبتادیاتھاکہ ان کے پیش نظر“خلافت علیؓ ٰ منہاج نبوت”کے احیاء کے سوا کچھ نہیں۔اسلامی نظام اطاعت میں خلافت کی جواہمیت ہے اس سے حضرت حسینؓ پوری طرح باخبر تھے۔اسلامی نظام اطاعت کے استحکام کیلئے اولی الامرکے ادارہ کوجس اندازمیں رسول اکرمﷺاورخلفائے راشدین نے قائم فرمایاتھا،اس کے تحفظ اور دفاع کیلئے حضوراکرمﷺنے جوتاکیدفرمائی تھی وہ بھی حضرت حسینؓ کےعلم میں تھی۔معاویہ بن ابی سفیان کے مقررکردہ خلیفہ یزیدبن معاویہ نے اس اداہ کی تعظیم اورتقدس کوختم کرکے رکھ دیاتھا۔اس ادارہ کے انہدام سے اسلامی معاشرہ کودینی اورسیاسی نقصان جو پہنچ رہاتھااس کودیکھ کرحضرت حسینؓ جیسی شخصیت کابیٹھ جانابڑامشکل تھا۔
تاہم آخروقت میں کربلاکے میدان میں حضرت حسینؓ کوصورتحال کااندازہ ہوگیاتھا۔حضرت مسلم ؓبن عقیل کی شہادت،کوفہ کے لوگوں کی بے وفائی،یزید کے لشکرجرارکے مقابلے میں آپ کامختصرقافلہ بظاہرپہاڑاورچیونٹی کامقابلہ،لیکن حضرت حسینؓ نہائت بہادر، جرأت منداورانتہائی شریف النفس تھے۔وہ موت سے بالکل خوفزدہ نہیں تھے مگراپنے ساتھ نیزعورتوں اوربچوں کیلئے اپنے دل میں جذبہ رحم کی پیدائش کوروکناان کیلئے ممکن نہ تھاچنانچہ آخری دن محرم الحرام کی دس تاریخ 61ھ کربلاکے میدان میں یزیدکی فوج کے سامنے جوتقریرفرمائی وہ فصاحت و بلاغت کابے نظیرشاہکارہے ۔آپ نے دیگرباتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا:عیسیٰ کاگدھااگر باقی ہوتاتوتمام عیسائی قوم قیامت تک اس کی پرورش کرتی،تم کیسے مسلمان اورامتی ہوکہ نبی ﷺکے نواسے کوقتل کرناچاہتے ہو!
دراصل کوئی دوسری قسم کامسئلہ ہوتاتوکوفی مسلمان شائدعیسائیوں سے چارہاتھ آگے ہوتے لیکن یہاں یزیدکے لشکرکے سامنے نواسہ رسولﷺان کے سیاسی حریف کے طورپرکھڑے تھے اورسیاسی حریف کونہ مسلمان بخشنے کوتیارہوتے ہیں نہ عیسائی۔وہی یزیدجس نے64ھ میں مدینہ پرچڑھائی کی تھی،اس نے مسلم بن عتبہ کوتاکیدی حکم دیاتھاکہ حضرت امام حسینؓ کے صاحبزادے حضرت زین العابدینؓ کاپوراپوراخیال رکھناکیونکہ وہ مدینے میں سیاسی زندگی سے الگ ہوکرمدینہ کے نواح میں الگ تھلگ زندگی گزاررہے تھے کیونکہ یزیدنے اپنے باپ سے سیاست کاایک اصول ورثے میں جولیاتھااس پربڑی سختی سے کاربندتھا:”میں لوگوں اوران کی زبانوں کے درمیان اس وقت تک حائل نہیں ہوتاجب تک وہ ہمارے اورہماری سلطنت کے درمیان حائل نہ ہوں۔ (ابن تاثیر کامل جلد4صفحہ5)
چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ آخروقت میں حضرت حسینؓ یزیدسے صلح کیلئے راضی ہوگئے تھے ۔انہوں نے یزیدکے نمائندے عبیداللہ بن زیادکے سامنے تجاویز پیش کیں:
1۔میں مکہ واپس چلاجاؤں اوروہاں خاموشی کے ساتھ عبادت الٰہی میں مشغول ہوجاؤں۔
2۔مجھے کسی سرحدکی طرف نکل جانے دوکہ وہاں کفارسے لڑتاہواشہیدہوجاؤں۔
3-ایک تیسری شرط بھی ہے لیکن امت میں فسادپیداہونے کی بناءپرگریزکررہاہوں۔
حضرت حسینؓ کے رویے میں تبدیلی سے یزیدکی فوجوں میں خوشی کی لہردوڑگئی،اگرچہ کربلاکے میدان میں وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراءتھے،اس کے باوجودنواسۂ رسول کے احترام کایہ حال تھاکہ دونوں طرف کے لوگ مل کرنمازاداکرتے تھے اوراکثر حضرت حسینؓ ہی کی اقتداء میں نمازاداکرتے تھے ۔عبیداللہ بن زیادکے پاس جب یہ پیغام پہنچاتووہ بھی بغیرلڑائی کے اس عمدہ حل پر بہت خوش ہوالیکن اس کامشیرشمرذی الجوشن جوکہ حضرت حسینؓ کاپھوپھا اورانتہائی بری طبیعت کامالک تھا،اس نے عین وقت پر عبیداللہ بن زیادکاذہن پھیردیا۔اس نے حضرت حسینؓ کے لوٹنے کے سارے راستے بندکردیئے اور بالآخر کربلا کاوہ معرکہ جس میں عمروبن سعد نے پہل کرکے حضرت حسینؓ کے قافلے پرپہلاتیرپھینک کراس کاآغازکیاتھاجس کاانجام حضرت حسینؓ کی شہادت پر منتج ہوا۔یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ عمروبن سعدحضرت حسینؓ کارشتے میں سوتیلاماموں اورشمرذی الجوشن پھوپھاتھا۔
تاریخ کے ان دوکرداروں پرملت اسلامیہ قیامت تک جتنابھی فخرکرے کم ہے۔ گوحضرت حسینؓ نے بھی آخری وقت میں حضرت حسنؓ کے غیرسیاسی طریقہ کارکوبھی عمل میں لانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کوحضرت حسین ؓسے“خلافت علیؓ ٰ منہاج نبوت” کے تحفظ اوردفاع کاکام لیکران سے بے مثال قربانی لینامقصودتھی اوران کی شہادت سے امت مسلمہ تک یہ پیغام پہنچانامقصودتھاکہ حالات کیسے ہی پرآشوب اوردگرگوں ہوں،اسلامی نظام حکومت، اسلامی نظام اطاعت کے قیام ونفوذجوکہ ایمان کے اوّلین تقاضوں میں سرفہرست ہیں،کی کوشش ہروقت،ہرزمانے میں جاری رکھنی چاہئے جب تک خلافت کے ادارہ کومکمل اس کی اصلی شکل میں بحال نہ کرلیاجائے۔اس کے علاوہ بھی ان کرداروں میں بے شماردوسرے اسباق ہمارے لئے موجودہیں، صرف شرط یہ ہے کہ ہم خود مخلص ہوں۔
غریب وسادہ رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداءہے اسمٰعیلؑ