جامۂ صدچاک

:Share

اگرچہ یہ عام تاثرہے کہ امریکااور یورپ نے ۱۱ستمبر کی ہولناک کاروئی کے سبب مسلمانوں کو دہشت اور نفرت کی علامت سمجھ لیا ہے مگر صدیوں کی تاریخ اس تاثر کی تردید کرتی ہے۔ اندلس(اسپین)،ترکی،بغداد اور دہلی میں صدیوں طاقتور اور شاندار مسلم حکمرانی نظر آتی ہے مگر پانچ برس بھی مشکل سے تلاش کئے جا سکیں گے جب غیر مسلم دنیا کو یلغار اور دشمنی سے تحفظ میسر آیا ہو۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ مسلمانوں سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ تاریخ کے ٹھوس اور مصدقہ اوراق شاہد ہیں کہ مسلمانوں کے حکمراں ہوں یا عوام،مذہبی پیشوا،سب غیر مسلمانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی قابلِ رشک مثالیں بالعموم کثرت سے نظر آ تی ہیں۔پھر مسئلہ کیا ہے؟ دراصل ان کے نزدیک خواہ مسلم ممالک طاقتور ہو ںیا کمزور،مسلمانوں کا برسراقتدار، متحد اور طاقتور ہوناناقابلِ برداشت ہے یعنی ان کی بالادستی کے جنون کو ٹھیس پہنچتی ہے۔اس صورتحال کی عکاسی میں ماضی بعید کو چھوڑیئے،ماضی قریب کے صرف تین واقعات پیش کرتا ہوں جن میں بالخصوص مسلمانوں کے اتحادکے ہر مرکز کو منتشراور کمزور کرکے نیا ورلڈ آرڈر بنانے کا ایجنڈہ جاری و ساری ہے۔
۱۹۱۴ء میں پہلی عالمگیر جنگ چھڑی اور اس کا اصل ذمہ دار جرمنی تھا مگر جنگ کے اختتام پر نزلہ گرا تو عالمِ اسلام پریعنی فاتحین نے نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دیتے ہوئے ملّت اسلامیہ کے طاقتور مرکزترکی خلافتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اور چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں بنا کر مسلم یکجہتی کے اسلامی نظریئے کو بحیرۂ روم اور خلیج میں غرق کر دیاحالانکہ ترکی مردِ بیمار کی حیثیت سے دنیا میں روشناس تھامگر وہ مسلمانوں کے علامتی مرکزاتحاد سے پریشان اور خوفزدہ تھے۔غرض نئی چھوٹی مسلم ریاستوںمیں علاقائی،نسلی اور لسانی تعصبات پروان چڑھائے گئے تاکہ مسلم اتحاد اور حتیٰ کہ غیر مسلموں کے ساتھ بے لاگ انصاف اور نیک سلوک جو ہماری طاقت اور مقبولیت کے اصل اجزاء تھے،ان سے محروم ہو کر کمزور اور بدنام ہو جائیں۔ اس صورتحال کی سنگینی کا احساس برصغیر کے مسلمانوں کو ہوااور انہوں نے دورِ غلامی میں ہونے کے باوجود تحریکِ خلافت اتنے زوروشور اور نیک جذبے کے ساتھ چلائی کہ تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔بہر حال ایک کمزور نظامِ خلافت مسلم امۂ کا نام لیوا تھالیکن اس کو ختم کرکے مذکورہ نئے ورلڈ آرڈر کے جو تباہ کن اثرات مسلم ممالک اور ملتِ اسلامیہ میں اندروں و بیرونی طور پر رونما ہوئے،وہ نہ صرف تاریخ کا المناک اور تاریک باب ہے بلکہ اسی کے سبب ہم آج کے بد ترین نتائج سے بھی دوچار ہیں۔
دوسرا واقعہ تھا ۱۹۴۰ء کی دوسری عالمگیر جنگ کا جس کا ذمہ دار بھی جرمنی تھا۔اس جنگ کے فاتحین بھی نیو ورلڈ آرڈر لائے جس کا نزلہ پھر عالمِ اسلام پر ہی گرا حالانکہ چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستوں نے جرمنی کے خلاف اتحادی افواج کی ہی حمائت کی تھی۔دراصل صہیونی عناصر کی آنکھوں میں مشرقِ وسطیٰ اس لئے کھٹک رہا تھا کہ اگرچہ وہاں مسلمانوں کی متحدہ سلطنت نہ رہی تھی لیکن پھر بھی وہاں مسلمانوں ہی کی ریاستیں تھیں۔انہوں نے ماہرانہ حکمتِ عملی سے مغرب کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کیااور کہا کہ اس علاقے میں جو تیل نکلنے کے سبب پورے مغرب کی اقتصادی شہہ رگ بن جائے گاوہاں اپنے سب سے زیادہ قابلِ اعتماد ساتھی اسرائیل کی ریاست قائم کر دی جائے۔
افسوس مغرب پھرصہیونی طاقتوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گیا،اس نے کروڑوں مسلمانوں سے مفاہمت کرنے کی بجائے چند لاکھ یہودیوں کے منصوبے کو عملی جامۂ پہنا کر مشرقِ وسطیٰ کو آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔یعنی دوسری عالمگیر جنگ کے بعد نیا ورلڈ آرڈر اس طرح لایا گیا کہ فلسطین میں باہر دوردرازممالک سے یہودیوں کو لاکراسرائیل کی مملکت بالجبر قائم کردی گئی۔اس کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلم ممالک بے حدوحساب وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود اسرائیل کے ہاتھوں آئے دن انسانیت سوز ظلم و بربریت اور جارحیت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔اسرئیل نہ صرف بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں پر ناجائز قابض ہے بلکہ اس کے عظیم تراسرائیل کے نقشے میں مدینہ منورہ اور مسلم ممالک کے کئی علاقے بھی شامل دکھائے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں اس دوسرے ورلڈآرڈر کا ہی دوسرا حصہ تھا کہ” ون مین ون ووٹ”کے عالمی اصول جمہوریت کے ذریعے اکھنڈ بھارت بنا کر برصغیر کے مسلمانوں کوہمیشہ کیلئے مغلوب کر لیا جاتا لیکن علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی دور اندیشی اور حکمتِ عملی سے وہ پاکستان بنانے پر تو راضی ہو گئے مگر اس کو ناکام بنانے کی خاطرپاکستان سے آدھا پنجاب اور آدھا بنگال چھین لیاگیااور مسلم اکثریت کا علاقہ گرداسپور کو بھارت کے حوالے کرکے بھارت کیلئے یہ راہ ہموار کر دی گئی کہ وہ آسانی کے ساتھ جموں وکشمیر کی ریاست پر قبضہ کر لے اور اس طرح کشمیر کے مسلم عوام اور پاکستان کی بھارت سے خونریز جنگ ہوتی رہے اور پاکستان کی اقتصادیات تباہ ہو جائے۔
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ خلیج کی جنگ اور اس کے نتیجے میں پاکستان سمیت عالمِ اسلام کو ہی پھرایک نئے ورلڈ آرڈر کا سامنا ہے۔اس میں بھی مسلم ممالک کو ہدف ،کمزور اور بھارت و اسرائیل کو طاقتور بنایا جا رہا ہے۔خلیج کی مسلم ریاستوںاور پاکستان نے مغربی افواج یا تکنیکی ماہرین کو مدعو کرکے غیر معمولی مفاہمت کا مظاہرہ کیا مگر وہ پھر بھی ان مسلم ممالک سے خوفزدہ ہیں اور ان کو کمزور کرنے میں دن رات کوشاںہیں۔بھارت اور اسرائیل کو نہ صرف نوازا جا رہا ہے بلکہ کھلی چھٹی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگاتے رہیں اور مسلم ممالک بالخصوص پاکستان پر شدید دباؤ ہے کہ وہ اس کیری لوگر بل کی مجوزہ شرائط کے مطابق خود اپنے وسائل بھی ایٹمی ترقی کیلئے استعمال نہیں کر سکتا۔
دوسری جانب پاکستان اگر روسی افواج کی افغانستان آمد کے خلاف سینۂ سپر نہ ہوتاتو خود مغرب کو پورا یقین تھا کہ خلیج میں ان کی اقتصادی شہہ رگ سوویت یونین کے شکنجہ میں چلی جاتی اور اس طرح امریکا کی بجائے سوویت یونین بڑی سپر پاور ہوتا۔سوال یہ ہے کہ پھر بھی پاکستان پر بھارت اور اسرائیل کو ترجیح کیوں دی جا رہی ہے؟یہ غیر متنازع اور اٹل ماحصل ہے کہ آج پورا عالمِ اسلام بالخصوص پہلی مسلم جوہری طاقت پاکستان چاروں جانب سے سنگین خطرات کی زد میں ہے۔مشرق میں بھارت،مغرب میں افغانستان،شمال میں کشمیر اور جنوب میںمشرقِ وسطیٰ کی دھماکہ خیز صورتحال کا سامنا ہے۔
اس جائزے کے بعد سوال یہ ہے کہ ہم خود کو اس کالی آندھی سے کس طرح بچا کر لیجائیں ؟ َاب عالمِ اسلام اور وطنِ عزیز کیلئے مسئلہ نشاطِ ثانیہ کا نہیں بلکہ اپنے وجود کی بقاء کا ہے۔ ہمیں اس چیلنج کے جواب میں دشمنی اور نفرت سے نہیں بلکہ اس گمشدہ طاقت”خلافت”کو بحال کرنا ہوگاجو پہلے ورلڈ آرڈر میں ہماری نااتفاقی کے سبب چھین لی گئی تھی۔مسلم تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیںتو ہمارے زوال کا بنیادی سبب ایک ہی نظر آتا ہے کہ حکمتِ عملی کی راہ سے قطعی ناواقفیت تھی یا سادہ لوحی میں عمل نہیں کیا۔ربّ کریم نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ ”دشمن اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ اپنی چال،اور اللہ کی چال سب سے بہتر ہے۔”اسلامی تاریخ میں اسلحہ اور افراد کی کمی یا برتری کوئی فیصلہ کن سبب نہیں رہا ہے بلکہ بہتر حکمتِ عملی ہاری ہوئی بازی بھی پلٹ سکتی ہے۔
افسوس!ہم سازگار وقت پر خاموش رہے اور دشمنوں پر اعتماد کیا جبکہ ناسازگار حالات میں مقابلہ کیا۔ہمارے قائدین سادہ لوحی یا نا سمجھی میں ڈھیل دیتے چلے آ رہے ہیں۔جب دباؤ کیلئے نا سازگار وقت ہوتا ہے ،میدان میں کود پڑتے ہیں،اس طرح مقابلے کا ۹۰فیصد فیصلہ اسی وقت ہو جاتا ہے۔ قائد اعظم کی تاریخ ساز کامیابی کا واحد سبب یہ تھا کہ وہ وقت اور حکمتِ عملی کے بہترین نبّاض تھے،وہ سطحی سیاست کومات دیتے ہوئے اپنی دانش مندانہ سیاست کے ذریعے کرۂ ارض کی بالکل نئی پانچویں بڑی مملکت کے بانی بنے تھے۔اللہ تعالیٰ ہرفرد اور ہر قوم کو سازگار موقع فراہم کرتا ہے اور موقع کا بر وقت استعمال یا ضائع کرنا ہی فتح و شکست ہے۔
اسلام کا اصول یہ ہے کہ پہلے خود اور پھر اپنے گھر کو درست کروتو پھر بعد میں تمہاری دعوت اور جد و جہد کو عالمگیر سطح پر قبولیت حاصل ہوتی ہے لہندا اہلِ پاکستان کا اوّلیں اور فوری ہدف قومی یکجہتی کا حصول ہونا چاہئے جس کے بغیر ہماری تمام دیگر صفات’وسائل اور کاوشوں کی کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حکمراں اور دیگر تمام سیاسی جماعتیں سمجھ لیں کہ ان کے تمام ایجنڈے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے جب تک وہ اپنی خارجہ پالیسی کوازسرنومرتب کرتے ہوئے (کیری لوگر بل) سے جان نہیں چھڑا لیتے۔کیری لوگر بل کے ذریعے نیو ورلڈ آرڈرکا ایجنڈا مسلط کیا جا رہا ہے۔سابقہ حکومت اورہماری موجودہ حکومت نے بھی کیری لوگر بل کوتسلیم کرکے گویا قوم سے اپنا ناطہ قطعی توڑ لیا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کا سبق نہ تو نیوورلڈ آرڈر مسلط کرنے والوں کو یاد ہے اور نہ ہی ان کی کاسہ لیس حکومتوں کو کہ جس ملک میں امریکا کا اثرونفوذقلعوں کی تعمیراور پرائیویٹ سیکورٹی عسکری ایجنسیوں (بلیک واٹر)کی موجودگی تک آن پہنچے وہاں اس کی موجودگی کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں ۔ان کے ذلیل و رسواہو کر نکلنے کا موسم قریب آجاتا ہے اور پھر وہ قلعہ نما عمارتیں ہی ان کا آخری مدفن بن جاتی ہیں اور کاسہ لیس غلام تو ایسی عمارتوں کی دھول کے نیچے ہی عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔پاکستان اورعالم اسلام اس وقت سنگین چیلنجوں سے دوچار ہیںان سے نمٹنے کیلئے ہمیں اپنے اندر ان ایجنٹوں سے نجات حاصل کرنا ہوگی جو نیوورلڈآرڈر کے تحت ہم پر مسلط کئے گئے ہیں۔
ہمیں مغرب کے ان صاف ذہن ،انسانیت دوست ا ور امن پسند دانشوروں کوبھی ان خطرات سے آگاہ کرنا ہوگا جو اس دنیا کو کسی بڑے خطرے میں مبتلا نہیں دیکھنا چاہتے اور انہیں اس بات کا یقین دلانا ہوگا کہ ہمارا ان سے کوئی جھگڑا نہیں ۔جس طرح ہم ان کے کسی بھی اندرونی معاملات میں مداخلت کے حق میں نہیں اسی طرح ہم بھی ان سے یہی خواہش اور امید رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ملک اور عوام کیلئے جس نظامِ زندگی کو بہتر سمجھتے ہیں،یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک یا معاشرے کیلئے اتنا ہی فائدہ مند ہو۔ہمیں ان کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ ماضی میں ہم نے ان کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی ان کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں لیکن اس کیلئے ان مغربی ممالک اور امریکا کو بھی عملی یقین دہانی کے طور پر اپنے نیوورلڈآرڈر سے منہ موڑناہو گااور فلسطین اورکشمیرکے مسائل کوانصاف کے تقاضوں اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری طورحل کرناہوگاکہ ساری دنیاکاامن ان سے وابستہ ہے علاوہ ازیںعراق اور افغانستان سے اپنی افواج کومکمل طورپر نکالنا ہوگا اور ان تمام مسلمان ملکوں کو ان جنگوں میں جو نقصان ہوا ہے اس کی بھی تلافی کرنا ہو گی۔

یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے

اپنا تبصرہ بھیجیں