امریکی وزیرخارجہ جان کیری اورحامدکرزئی حالیہ افغان مذاکرات کی ناکامی کے بعدحامدکرزئی نے افغانستان میں امریکی اڈوں کے قیام کے حوالے سے امریکاپردباؤ بڑھانے کیلئے لویہ جرگہ طلب کرتے ہوئے تین ہزارمندوبین کودعوت نامے جاری کردیئے ہیں۔دراصل مذاکرات ناکام ہونے کی بنیادی وجہ افغانستان میں آئندہ انتخابات میں امریکی حکام کی جانب سے کرزئی کے بھائی کی حمائت نہ کرنااورکرزئی کے اس مطالبے کوبھی ماننے کوتیارنہیں ہیں کہ امریکی فوج افغان کی آپریشن میں مددکرے۔امریکی فوج چاہتی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود اپنے سامان اوراسکریپ کیلئے اڈے حاصل کرے جس کی مالیت دوسوسے لیکرچارسوارب ڈالرہے۔ امریکا کوڈرہے کہ اس کے نکلتے ہی اس اسکریپ پر طالبان اورحزب اسلامی کے جنگجو قبضہ کرلیں گے اوراس کوٹکروں میں تقسیم کرکے وسطی ایشیاء سمیت پورے ملک میں کاروائیوں کیلئے ان کے پاس بے تحاشہ دولت آجائے گی جس سے امریکی سلامتی سمیت پوری دنیاکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے۔اسی لئے امریکی فوجیوں پرافغان قانون لاگونہیں ہوتاتاہم حامدکرزئی امریکی فوج سے طالبان کے خلاف لرائی میں مددچاہتے ہیں جبکہ امریکامزید لڑائی میں کودنانہیں چاہتا۔ اس لئے امریکاکی
کوشش ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس جنگ سے نکل کراس اسکریپ کوبھی بچائے جو افغانستان میں پڑاہے۔
اس اسکریپ میں سب سے زیادہ دلچسپی چین اوربھارتی کمپنیوں کوہے اورخاص کربھارتی سٹیل کاٹائیکون لکشمی متھل اس سلسلے میں بہت دلچسپی کااظہارکررہاہے،اسی لئے امریکی صدر اوبامہ نے نوازشریف کے دورۂ امریکامیں بھارت کی وکالت کی۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کودباؤ میں لاکرواہگہ کے راستے اس قیمتی اسٹیل اسکریپ کوبھارت منتقل کردیاجائے اوراس اسکریپ سے چین کودوررکھاجائے تاہم یہ امرنہ صرف مشکل ہے بلکہ کئی اہم ذرائع نے حکومت کواس معاملات سے دور رہنے کاکہاہے کہ وہ کسی بھی صورت میں بھارت کو افغانستان سے زمینی راستہ نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ اس سے عوام بھڑک اٹھیں گے ۔ایک طرف بھارت پاکستان پردباؤ ڈالے ہوئے ہے اوردوسری جانب اندرونِ خانہ وہ امریکاکے ذریعے اس اسکریپ تک رسائی حاصل کرناچاہتاہے۔یہی وجہ ہے کہ کہ طالبان کے ایک انتہائی اہم رکن ملاعبدالعزیزنے بھارت کو خبردارکیاہے کہ وہ امریکی پشت پناہی میں افغانستان میں اپنااثرورسوخ بڑھانے سے بازرہے کیونکہ مستقبل میں ان کے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے۔اس لئے قندھارمیں بھارت نے جو سرگرمی شروع کردی ہے اس سے بازآجائے۔
کرزئی نے امریکی دباؤسے نکلنے اورامریکاپردباؤ ڈالنے کیلئے جرگہ طلب کیاہے کیونکہ لویہ جرگہ کے قبائلی سردارجن کاہرقبیلے سے تعلق ہوتاہے وہ اس جرگے میں شرکت کریں گے جبکہ لویہ جرگہ کے ممبران کومعلوم ہے کہ امریکاکوادوں کی اجازت دیناخودکشی کے مترادف ہے کیونکہ طالبان نے پہلے ہی دہمکی دی ہے کہ اگرلویہ جرگہ کے ارکان نے امریکاکواڈوں کے قیام کی اجازت دی توان ارکان سمیت ان کے خاندان کے خلاف کاروائی کی جائے گی اس لئے کرزئی نے امریکااوردوسری جانب بعض قوموں کی یہ شکائت ہے کہ حامدکرزئی نے جن مندوبین کودعوت نامے جاری کئے ہیں ان کالویہ جرگہ میں کوئی فعال کردارنہیں ہے اورہوسکتاہے کہ لویہ جرگہ اڈوںکی اجازت دیدے تاہم لویہ جرگہ غیر مشروط طور پر اڈو کی اجازت نہیں دے سکتا۔اس طرح کرزئی امریکاکوبتاناچاہتاہے کہ وہ ابھی اتنے کمزورنہیں ہوئے جتناامریکاسمجھتاہے۔
کرزئی کی خواہش یہ بھی ہے کہ انتخابات میں اس کے بھائی کوکامیاب کرایاجائے اورامریکانہ صرف اس کی حمائت کرے بلکہ اس کیلئے کوشش بھی
کرے ۔ایک طرف کرزئی نے انتخابات سے دوررہنے کااعلان کیاہے اوردوسری طرف کرزئی خفیہ طورپرطلبہ تنظیموں،علماء اوردیگراہم لوگوں سے ملاقاتیں بھی کررہاہے اوران یہ تاثردے رہاہے کہ امریکا اور پاکستان بھی اس کے ساتھ ہیں،اس لئے اس کے بھائی کی انتخابات میں مددکی جائے۔دوسری جانب افغان الیکشن کمیشن کوایک بارپھرمتنازعہ بنانے کیلئے کئی سابق جہادیوں کونااہل قراردینے کی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں اورجنگی جرائم کابہانہ بناکرانہیں نااہل قراردیاجائے گاجس سے الیکشن کمیشن متنازعہ ہوجائے گا اورالیکشن کے متنازعہ ہوتے ہی ملک میں عدم استحکام بڑھ جائے گا جس کے بعد ممکن ہے کہ پارلیمان یالویہ جرگہ کے ذریعے حامدکرزئی مزیدچارسال کیلئے یعنی۲۰۱۸ء تک ایک عبوری سیٹ اپ کے ساتھ اپنی مدت میں اضافہ کرالے تاہم اس حوالے سے اسے امریکاسے شدیدمزاحمت کاسامناکرناہوگاجوابھی بھی ہے۔
یہ بات خارج ازامکان نہیں ہے کیونکہ امریکانے اسٹرٹیجک معاہدے پردستخط کے بغیرافغانستان میں صدارتی انتخابات کیلئے سیکورٹی فراہم کرنے سے انکارکردیاہے جبکہ دس صدارتی نمائندوں نے الیکشن کمیشن پراعتراضات داخل کئے ہیں کہ الیکشن کمیشن معمولی معمولی اعتراضات پر نمائندوں کونااہل قراردینے کی تیاریاں کررہاہے اوریہ سب کچھ حامدکرزئی کے چھوٹے بھائی قیوم کرزئی کیلئے راستہ ہموارکرنے کیلئے کیاجارہاہے تاہم دوسری جانب نیشنل سالویشن فرنٹ ایک متفقہ امیدوار لانے کیلئے کئی اجلاس منعقدکرچکاہے تاہم اس کے باوجودکسی ایک نمائندے پرمتفق ہونے پرکامیاب نہیں ہوسکا۔علی احمدجلالی کے حامیوں کاکہناہے کہ انہوں نے اس حوالے سے گزشتہ ایک سال سے مہم چلارکھی ہے اس لئے وہ کس طرح اس مہم سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔
حامدکرزئی طالبان کے ساتھ مذاکرات کوسبوتاژکرنے پرامریکاکے خلاف انتہائی غم وغصہ میں ہے کیونکہ کرزئی کے قریبی ذرائع کے مطابق اس نے طویل جدوجیدکے بعدکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حکیم اللہ محسودکے نائب لطف اللہ محسود کو راضی کرکے حقانی نیٹ ورک سے بات چیت شروع کی اورجب وہ افغان حکام کے ساتھ بات چیت کیلئے لوگرآ رہا تھا تواسے امریکی فوج نے افغان فوج اورخفیہ اداروں سے چھین کر اغواء کرکے بگرام پہنچادیاگیااورامریکی اس کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے استعمال کرناچاہتے ہیں اورامریکاہراس کوشش کے پیچھے پڑاہواہے جوکرزئی کرنا چاہتاہے جبکہ حقیقت کچھ اورہے جسے نیویارک ٹائمزنے شائع کرکے کرزئی کی منافقت کا پردہ چاک کردیاہے۔
امریکی اخبارنیویارک ٹائمز نے پاکستانی طالبان رہنما لطیف محسود کی گرفتاری کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ” افغانستان کی حکومت لطیف محسود کے ذریعے پاکستانی طالبان کو پاکستان کی فوج کے خلاف کاروائیوں کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔امریکہ کی طرف سے پاکستانی طالبان کمانڈر کو افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے قبضے سے چھیننے کی کارروائی نے امریکا اور افغانستان کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔ جب امریکی سپیشل سکیورٹی فورسز نے لطیف محسود کو افغان حکام کی تحویل سے چھینا تو اس وقت افغانستان حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس طالبان کمانڈر کے ذریعے امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اب افغان حکام نے نام نہ بتانے کی شرط پر نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ رابطے بڑھا کر پاکستانی فوج سے انتقام لینا چاہتے تھے۔
افغانستان کی حکومت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر سیخ پا ہے۔افغانستان کے صدر حامد کرزئی اپنے انٹیلی جنس اثاثے کی چوری پر سیخ پا ہیں۔ افغان اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لطیف محسود کی حراست ۲۰۱۴ء کے بعد امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی کا کہنا ہے کہ لطیف محسود ایک لمبے عرصے سے افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس سے رابطے میں تھا۔اسی طرح باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مولوی فقیر بھی افغانستان میں گرفتار ہوچکا ہے”۔
کرزئی نے اپنی منافقت کاپردہ چاک ہوجانے کے بعد نہائت شاطرانہ چال چلتے ہوئے بظاہرلطف اللہ محسودکابدلہ لینے کیلئے لویہ جرگہ بلایاہے تاکہ اس بات پرپردہ پڑا رہے کہ دراصل پاکستانی طالبان کوافغان انٹیلی جنس اوربھارتی ”را” کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ خبربھی گرم ہے کہ لطف اللہ محسود ہی کی مہیاکردہ معلومات پر حالیہ۳۱/اکتوبرکے امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کواس کے پانچ قریبی ساتھیوں سمیت ہلاک کیاگیا ہے۔پاکستانی طالبان کا لیڈر حکیم اللہ محسود پہلی مرتبہ ۲۰۰۷ء میں پاکستان فوج کے خلاف حملوں کی وجہ سے ایک بے رحم شدت پسند کے طور پر ابھرا۔اس وقت تک وہ طالبان کے کئی کمانڈروں میں سے ایک تھا جس نے ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیاہے۔۲۰۰۹ء میں امریکی ڈرون حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد حکیم اللہ محسود تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنا۔امریکہ نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قمیت پچاس لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی جبکہ پاکستان نے بھی حکیم اللہ کے سر کی قیمت۵کروڑروپے مقرر کر رکھی تھی۔کئی مرتبہ حکیم اللہ محسود کے مرنے کی خبر آئی لیکن ایسی تمام رپورٹیں غلط ثابت ہوئیں۔ حال ہی اس کا نائب ولی الرحمن بھی ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہواہے۔
حکیم اللہ محسود نے کوئی باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کی تھی البتہ اس نے صوبہ سرحد کے ضلع ہنگو کے ایک گاؤں شاہو میں ایک مدرسے سے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اس کی عمر ۳۶سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔حکیم اللہ محسود ذوالفقار محسود کے نام سے بھی جاناجاتا تھا تاہم قبائلی صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس کا اصل نام جمشید اورمحسود قبیلے کے ذیلی شاخ آشینگی اورجنوبی وزیرستان کے گاؤں کوٹکی سے تعلق تھا۔حکومت کے خلاف جب کوئی بڑا واقع ہوا ہے تو اس میں طالبان کی قیادت حکیم اللہ ہی کرتا رہا ۔افغان جہاد میں ان تمام مجاہدین کے انتہائی محترم استادکرنل امام (بریگیڈئر سلطان امیرتارڑ)کو اس نے ۲۳جنوری ۲۰۱۱ء کوخوداپنے ہاتھوں سے گولیوں کے برسٹ سے نہ صرف شہیدکیابلکہ اس کی فلم بھی ۱۹فروری ۲۰۱۱ء کویوٹیوب پرجاری کی جوآج بھی موجودہے۔اس نے دو شادیاں کیں۔ دوسری شادی اس نے ۲۰۰۹ء میں اورکزئی ایجنسی کے ماموں زئی قبیلے میں کی ۔وہ ذرائع ابلاغ کو تصویروں اور فلموں کے ساتھ انٹرویو دینے کا شوقین بتایا جاتا تھا جب کہ بیت اللہ میڈیا میں اپنا چہرہ دکھانے سے گریز کرتاتھا۔ اس کے پشاور اور قبائلی علاقوں کے صحافیوں کے ساتھ اچھے مراسم بھی تھے۔
ادھر پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران امریکی ارادوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” اگر امریکہ نے حکیم اللہ محسود کو نشانہ بنانا تھا تو اس نے اس پہلے اتنے مواقع کیوں ضائع کیے۔ حکیم اللہ محسود کئی بار افغانستان گیا اور اگر امریکہ چاہتا تو باآسانی اسے نشانہ بنا سکتا تھا۔ اب تو امریکہ نے پاکستان کے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ ڈرون حملوں کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ طالبان سے ملنے کے لیے جانے والے وفد میں تین علماء شامل تھے جنہیں پاکستان حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ اس ملاقات میں مذاکرات کے ایجنڈے سے متعلق بات چیت ہونی تھی۔ حالیہ ڈرون حملہ بات چیت کے عمل پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ میں نے امریکی سفیر پر واضح کیا ہے کہ امریکہ کو ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستان کی موجودہ حکومت کے مؤقف کو سنجیدگی سے لینا ہوگا”۔
ہمارے وزیرداخلہ کوتویہ بخوبی علم ہوناچاہئے کہ امریکی اپنے مفادات کوہمیشہ سنجیدگی سے لیتے ہیں!
Load/Hide Comments