طالبان کے وزیردفاع ملایعقوب جوملاعمرکے بیٹے بھی ہیں،نے غیرملکی میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہاکہ”اگردونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات معمول پر آتے ہیں تو انہیں انڈیاکے ساتھ دفاعی تعلقات بحال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اورطالبان افغان سکیورٹی فورسزکوتربیت کیلئےانڈیا بھیجنے کیلئےتیارہے لیکن پہلے دونوں حکومتوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہونے چاہییں۔ہم انڈین سفارتی عملے کی حفاظتی ضمانت دینے کوتیارہیں۔ایسابیان دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی دیاتھا۔ملایعقوب نے اس بات کابھی اعادہ کیاکہ ہم دنیاکے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکی انخلاء کے بعدافغانستان ہرقسم کی معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں اورلوگوں میں بہت مایوسی کاعالم ہے۔ان حالات میں طالبان کی شدیدخواہش ہے کہ دنیاانہیں تسلیم کرے کیونکہ ابھی تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان حکومت کوباضابطہ طورپرتسلیم نہیں کیاہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اسے تسلیم نہیں کیاگیاچنانچہ وہ پاکستان سمیت دنیاکے تمام مسلم ممالک سے خصوصی طورپراپیل کر رہے ہیں۔ہم اوآئی سی سے بھی یہ اپیل کی ہے کہ طالبان کی حکومت کوتسلیم کیاجائے تاکہ افغانستان میں معاشی سرگرمی شروع ہو سکے،آخر کوئی ملک انسانی بنیادپردی جانے امدادپر کتنے دن گزارہ کر سکتاہے۔
تاہم جہاں تک سکیورٹی فورسزکوتربیت دینے کی بات ہے تویہ بڑی بات ہوگی کیونکہ پاکستان کویہ بالکل قابل قبول نہیں ہوگا۔ ٹیکنیکل قسم کی تربیت توطالبان سے قبل بھی دی جاتی رہی ہے لیکن باضابطہ سکیورٹی فورسزکی تربیت کچھ زیادہ ہےاورطالبان کی جانب سے یہ کہا جاناحیرت انگیزہے۔افغانستان میں انڈیااور پاکستان کے متعلق عوام میں دوواضح دھڑے ہیں۔ایک پاکستان کاحامی ہے تودوسراانڈیاکوپسندکرتا ہے۔گزشتہ ہفتے پہلی مرتبہ طالبان کے افغانستان میں انڈیاکا وفدباضابطہ افغانستان میں گیاہے جوبظاہر انسانی بنیادوں پردی جانے والی امداد کاجائزہ لینے کیلئےہے لیکن اس کے علاوہ بھی انڈیاکی افغانستان میں دلچسپی رہی ہے۔
تاجکستان دوشنبے میں علاقائی سکیورٹی کااجلاس ہواجس میں انڈیاکے علاوہ چین،ایران،قزاقستان،کرغیزستان،روس،ازبکستان اور تاجکستان کے قومی سلامتی کے مشی ریاستی سکیورٹی کونسل کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔وہاں انڈین قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈوول نے میڈیاسے بات کرتے ہوئےکہاکہ انڈیاکا افغانستان کے ساتھ خصوصی رشتہ ہے اوروہ برقراررہے گا۔
یہ بھی سچ ہے کہ افغانستان میں انڈیا نے وہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔بہت سے تعمیری پروجیکٹ مکمل بھی کیے ہیں تاہم بہت سے ابھی ادھورے ہیں۔اگر انڈیااپنے منصوبے کودوبارہ شروع کرتاہے توبہت سے افغانوں کواس سے معاشی سہاراملے گا۔اگرآپ کویادہوتوملا یعقوب نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران افغانستان کیلئےانسانی امداد فراہم کرنے پرانڈیاکاشکریہ اداکیاتھا۔اب انڈیاکی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری جے پی سنگھ کی قیادت میں ایک وفدکابل پہنچاہے جوکہ امدادی اشیاکی تقسیم میں مشغول بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی ہے۔انڈیا ابھی تک20ہزارمیٹرک ٹن گندم،13ٹن ادویات، کووڈویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں اورگرم کپڑے بھیج چکاہے۔یہ تمام امدادی سامان کابل میں اندراگاندھی چلڈرن ہسپتال اورڈبلیوایچ او اور ڈبلیوایف پی کوسونپا گیاہے۔اس کے علاوہ انڈیانے اپنے23 -2022کے بجٹ میں افغانستان کیلئےڈھائی کروڑامریکی ڈالرسے زیادہ کی رقم مختص کی ہے۔
یقیناًان اقدامات سے انڈیادوبارہ کابل میں مستقل موجودگی کاراستہ ضرورہموارکرنے کی کوشش کرے گا۔ہم سب جانتے ہیں کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعددنیاکے کئی ممالک کی طرح انڈیانے بھی کابل میں اپناسفارت خانہ بندکر دیاتھااوریہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارت کی ہمدردیاں سابقہ غنی حکومت کے ساتھ اس قدرتھی کہ انڈیاکسی بھی صورت میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کانہ صرف شدید مخالف تھابلکہ طالبان کے خلاف اسلحے کی ترسیل میں اپنابھرپورکرداربھرپورکرداراداکرتاتھا۔
انڈین ٹی وی کودیے گئے انٹرویومیں ملایعقوب نے افغانستان،پاکستان اورانڈیاکے سہ فریقی تعلقات اورخطے میں سکیورٹی کے متعلق بھی مختصربات کرتے ہوئے کہاکہ ہم اپنی اس پالیسی پرسکتی سے کاربندہیں کہ ہم اپنی سرزمین کوکسی بھی صورت میں دنیامیں کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہماراالقاعدہ سے کوئی تعلق نہیں اورہم نے داعش کومکمل طور پر کچل دیاہے۔پاکستان اورڈیورنڈلائن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہاکہ ان کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور اگروقتاًفوقتاًڈیورنڈلائن پرکوئی واقعہ ہوتاہے تواسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیناچاہیے۔انہوں نے امریکا سے تعلقات بڑھانے کی بھی بات کی لیکن انہوں نے امریکاسے یہ شکائت بھی کی کہ وہ اب تک طالبان حکومت کیلئے مسائل پیداکررہاہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہاکہ انڈین حکام نے درخواست کی ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ پہلے کی طرح اچھے تعلقات چاہتے ہیں اوراپنی امداد جاری رکھیں گے۔افغان وزیرخارجہ امیرخان متقی نے انڈین وفدکواپنی ملاقات میں مشورہ دیاکہ اسےافغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی کوبحال کرناچاہیے ،اپنے رکے ہوئے منصوبوں کودوبارہ شروع کرناچاہیے،اورافغانوں کو،خاص طورپرافغان طلبا اورمریضوں کیلئےقونصلرخدمات فراہم کرنی چاہیے۔انڈین اخبار دکن ہیرالڈ کے مطابق انڈیانے آخرکارافغانستان میں ملیشیاحکومت سے براہ راست ملنے کے متعلق اپنے ہچکچاہٹ کوختم کردیاہےجبکہ ملیالم زبان کے ایک معروف اخبارنے مودی کے حوالے سے لکھاہے کہ طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعدآئی ایس آئی نے افغانستان میں انڈیاکی مداخلت کوختم کرنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی،انڈین ٹیم کے افغانستان دورے سے اس منصوبے کوگہرادھچکہ پہنچاہے۔
واضح رہے کہ اسے سے قبل دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفترکے ترجمان سہیل شاہین نے دی پرنٹ نیوزسائٹ کے ساتھ انٹرویو کے دوران انڈیاپرزوردے کر کہاتھاکہ وہ قومی اورباہمی مفادات کے تحت کابل میں موجودطالبان حکومت سے رشتہ قائم کرے اور اشرف غنی کی سابق حکومت سے سارے تعلقات توڑ لے لیکن چانکیہ سیاست کاتویہ ہمیشہ سے اصول ہے کہ ضرورت پڑنے پراپنے تمام پرانے دوستوں کی لاشوں پرپاؤں رکھ کربھی طاقتورکی اطاعت کرلوجیساکہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعدفوری طورپرمودی نے امریکاکی گودمیں پناہ لے لی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارادفترخارجہ اوردوسرے ادارے ایک مرتبہ پھرہماری قربانیوں کولٹتے ہوئے دیکھ کرکہاں سوئے ہوئے ہیں؟