افغانستان میں صدراورنائب صدرکے فرارہوجانے کے بعدحکومت کاخاتمہ اورطالبان کی طرف سے مکمل فتح کے بعدملک کواسلامی امارت میں تبدیل کرنے کا اعلان بہت سوں کیلئےحیرت کاباعث ہے۔جوکچھ ہواوہ حیرت انگیزتوخیراس لیے نہ تھاکہ ہم سب کواندازہ تھاکہ ایساہوگاتاہم جس تیزی سے یہ سب کچھ ہواوہ بہت سوں کیلئےحیرت کاباعث ضرورہے۔جب سے جوبائیڈن نے یہ اعلان کیاتھاکہ طالبان سے کوئی امن معاہدہ یاپھر اقتدارمیں شراکت کامعاہدہ ہویانہ ہو،وہاں سے امریکی افواج واپس بلالی جائیں گی تب سے طالبان کی عسکری فتح بہت حدتک یقینی دکھائی دے رہی تھی۔افغان سیکورٹی فورسزجس تیزی سے ہمت ہارکرہتھیارڈالتی گئیں، صوبائی رہنمااسی تیزی سے طالبان کی اطاعت اختیارکرتے چلےگئے اورقومی حکومت جس تیزی سے تحلیل ہوئی اس سے یہ اندازہ لگاناکچھ مشکل نہیں کہ افغانستان کے حوالے سے مغربی تجزیہ کاروں اورحکومتوں کے تمام اندازے محض خوش فہمی کے عکاس اور زمینی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ دوسرے اسٹیک ہولڈرز کی طرح یورپی طاقتوں نے بھی افغانستان سے امریکی انخلااوراس کے بعدطالبان کی ممکنہ فتوحات کے اثرات کے حوالے سے کئی ماہ تک غوروخوض کیاتاکہ اس حوالے سے ہنگامی منصوبہ سازی کی جاسکے۔افغانستان میں اب بھی متعددیورپی ممالک کے باشندے موجودہیں۔یہ بات قابلِ غورہے کہ یورپی ممالک نے افغانستان میں اپنے سفارت خانوں کے افغان اسٹاف اور مترجمین ومعاونین کوخاصی کم تعدادمیں قبول کرنے کاعندیہ دے کریہ واضح کردیاہے کہ وہ افغانستان میں زیادہ دلچسپی لینے کے موڈ میں نہیں۔افغانستان کے حوالے سے اب یورپی قوتیں بہت حدتک تماشائی کے کردارتک محدودہیں۔وہ افغانستان یاکہیں اور معاملات کی درستی یاتبدیلی میں کوئی بڑاکرداراداکرنے کے موڈمیں نہیں۔
جب افغانستان میں معاملات نقطۂ عروج پرتھے اوریورپ بہت حد تک ان میں ملوث تھاتب بھی متعلقہ یورپی ممالک میں سیاستدان اورعوام دونوں اسے اولین ترجیح کادرجہ دینے کوتیارنہ تھے۔افغانستان میں جوکچھ دوعشروں کے دوران ہواہے اورطالبان کی فتح پرمنتج ہواہے اس سے یورپی طاقتوں کے امریکاسے تعلقات اور سلامتی کے حوالے سے عالمی کردارپرشدیدنوعیت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔افغانستان کامعاملہ جس طوراختتام کوپہنچاہے اوراس کے جواثرات مرتب ہوں گے ان سے یورپ کیلئےبھی بہت سی تبدیلیوں کی راہ ہموارہوگی۔
افغانستان میں جنگ ایک ایسے مرحلے پر چھیڑی گئی جب ٹرانس اٹلانٹک اتحاد (نیٹو)کے وجوداورکارکردگی پرسوالات اٹھائے جانے لگے تھے۔سردجنگ کے خاتمے پر یوگوسلاویہ کی جنگوں کے حوالے سے نیٹوکی ناکامی اوراس اتحادکی نسبتی اہمیت کے حوالے سے خدشات کے ماحول میں یورپی طاقتوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھرپورشرکت کے ذریعے نیٹوکواہمیت اورنئی معنویت بخشنے کی کوشش کی۔کئی عشروں تک امریکانے یورپ کے دفاع میں کلیدی کرداراداکیاتھا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے ذریعے یورپ نے یہ قرض اتارنے کی کوشش کی اورامریکاکے دفاع میں کلیدی کرداراداکرنے پرتوجہ دی۔نیٹوکے سامنے ایک ہی آپشن تھاکہ علاقے سے باہر نکلویاپھراپنے وجودہی سے محروم ہوجاؤ۔سردجنگ کے بعدکی دنیامیں یورپ کواپنے خطے سے ہٹ کرکہیں کچھ کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی۔یورپ کوسلامتی کے حوالے سے ایساکردارمطلوب ہے جواوّلین درجے کانہ ہویعنی میدانِ جنگ میں فعال کردارادا کرنے کی ذمہ داری نہ سونپی جائے۔ ہاں،کسی بھی ملک یاخطے میں امن برقراررکھنے اوراستحکام پیدا کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے توسوچاجاسکتا ہے۔یورپ کی طرف سے امریکاکی اتنی مددتوہوسکتی ہے کہ وہ امن و استحکام برقراررکھنے کی ذمہ داری سے جان چھڑاکرعالمی سطح پردہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کیلئےفوج بھیجے۔
نائن الیون کے بعددوسال سے بھی کم مدت میں عراق پرحملے نے بھی امریکااوریورپ کے تعلقات میں تلخی پیداکی جس کے نتیجے میں واشنگٹن اورلندن ایک طرف
کھڑے ہوگئے اوردوسری طرف پیرس،برلن اوردیگریورپی دارالحکومت تھے۔اس مرحلے پربھی افغانستان ہی نے دونوں خطوں کے اختلافات دورکرنے میں کلیدی کرداراداکیا ۔واشنگٹن ایک بارپھریورپی طاقتوں کومنانے میں کامیاب ہوگیااور2007ء کے بعدسے یورپی طاقتوں نے افغانستان کیلئےفوجی دستے بھیجنا شروع کردیے۔عراق کے حوالے سے امریکااوریورپ کے درمیان جو اختلافات پیداہوئے تھے ان پرکسی نہ کسی طورقابوپالیاگیا۔اس باریورپ نے اپنا کرداربراہِ راست کی جانے والی کارروائیوں کے بجائے امن واستحکام برقراررکھنے تک محدودرکھا۔امریکاکوتمام عسکری کارروائیوں کی قیادت کاشوق تھااوریہ شوق وہ بخوشی پوراکرتارہا۔
فرانس نے2007ءمیں اپنے فوجی دستے افغانستان بھیج کرامریکاسے اختلافات کے خاتمے کے ایک اہم نتیجے کے درشن کرائے۔عراق پر امریکااوراتحادیوں کے حملے کی فرانس نے شدیدمخالفت کی تھی۔اس مخالفت نے امریکااورفرانس کے تعلقات میں کشیدگی پیداکردی تھی۔ یہ معاملہ آگے بڑھاتوفرانس دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پرقائم کیے جانے والے اتحادکی اسٹریٹجک کمانڈزتک پہنچا۔افغانستان میں امریکاکا ساتھ دینے پرفرانس اوردیگریورپی طاقتوں کویورپ کے دفاع کی ذمہ داری یورپی یونین کوسونپنے کے حوالے سے امریکاکی مخالفت سے نجات پانے کاموقع ملا۔
افغانستان اورعراق کی بدلتی ہوئی صورتِ حال نے یورپی یونین کیلئےبھی کچھ نیاپیداکیا۔جب اس نے دہشتگردوں کے خلاف امریکاکاساتھ دینے پررضامندی ظاہرکی تو چاڈ،صومالیہ اوردیگرممالک میں امن واستحکام برقراررکھنے کامشن ملا۔ہاں،فرانس کے اس وقت کے صدر نکولاسرکوزی کی ان کوششوں کوتھوڑابہت دھچکاضرور لگاجن کابنیادی مقصد یورپی یونین کوخودمختارانہ طورپردفاعی کرداراداکرنے کے قابل بناناتھا۔ایسااس لیے ہواکہ اہم عسکری کارروائیوں میں نیٹویا امریکی قیادت میں کام کرنے والے اتحادیوں کی طرف دیکھناممکن ہوسکا۔یوں پیرس نے بھی باقی یورپ کی طرح واشنگٹن کی طرف دیکھناشروع کردیا۔یورپ کوافغانستان سے ایک اورسبق سیکھنے کاموقع ملاہے… یہ کہ دہشتگردوں کی تلاش میں کہیں بھی جاگھسنے اورکسی بھی قوم کی ’’تعمیر‘‘کے حوالے سے فعال ہونے کی ضرورت نہیں۔
بحرِاوقیانوس کے دوکناروں کے درمیان افغان جنگ کے نتیجے میں چندایک فوائدکی راہ بھی ہموارہوئی۔سفارتی سطح پرایک بڑافائدہ یہ تھا کہ ایران سے وسیع البنیاد مذاکرات اورجوہری پروگرام پرڈیل ممکن ہوسکی اوردوسری طرف روس کی طرف سے کرائمیاکے روس سے الحاق کے تناظرمیں دفاع موثربنانے کیلئےامریکاکی طرف سے یقین دہانیاں سامنے آئیں۔اس سے یہ بھی ہواکہ ضرورت پڑنے پریورپ کہیں بھی اپنے طور پرعسکری کارروائی کرنے کے قابل ہوا۔یورپ میں ایک مدت سے یہ آوازلگائی جارہی ہے کہ یورپ کواب اپنے طور پرزندہ رہنے کے بارے میں سوچناچاہیے۔فرانس نے اس بات پرخاص زوردیاہے کہ یورپی یونین کواسٹریٹجک خودمختاری ملنی چاہیے ۔چارماہ کے دوران البتہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دنیابھرمیں کہیں بھی امریکاکوساتھ ملائے بغیرکوئی بڑی عسکری کارروائی یورپی یونین کے بس کی بات نہیں۔جب جو بائیڈن نے افغانستان سے انخلاکااعلان کیا تو یورپی ممالک نے شکوہ کیاکہ ان سے مشاورت کی زحمت گوارانہیں کی گئی مگرجوبائیڈن کے پاس ایک ہی عذرتھاکہ وہ ٹرمپ حکومت کے معاہدہ امن کوپوراکرنے کاپابندہے اس لئے اقوام عالم کے سامنے مزیدرسوائی کی گنجائش نہیں،پھر انہوں نے بھی انخلا کی تیاریاں شروع کردیں۔
افغانستان میں جوکچھ ہواہے اس سے یورپ کوبہت کچھ سیکھنے کاموقع ملاہے۔اب لازم ہوگیاہے کہ وہ امریکایاکسی اورسے مددلیے بغیر بھی دنیامیں اپنے طورپر طاقت استعمال کرنے کی اہلیت پیداکرے۔یورپی طاقتوں کومحسوس ہوچکاہے کہ امریکا نے ان سے غداری کی ہے۔ ڈونلڈٹرمپ کاچارسالہ عہدِصدارت یورپی طاقتوں کوبہت کچھ سکھاگیا۔انہیں اندازہ ہوگیاکہ اب اگرانہیں کچھ کرناہے تواپنے طورپرکرناہے اورہرمعاملے میں امریکاکی طرف دیکھناضرورت ہے نہ سودمند۔ ٹرمپ نے’’سب سے پہلے‘‘امریکاکانعرہ لگایاتھا۔اب جوبائیڈن نے ’’امریکا کی واپسی‘‘کانعرہ لگایاہے۔امریکااوریورپ کے تعلقات میں کشیدگی درآئی ہے تاہم یہ کشیدگی زیادہ دیر برقرار رہتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ یورپ کے پاس امریکا کے سواکوئی نہیں جودفاع کی ذمہ داری قبول کرسکے۔یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ یورپ براعظم کے مؤ ثردفاع کی ذمہ داری خودقبول نہیں کرناچاہتا۔
بیسویں صدی کے دوران یورپ نے بہت کچھ سیکھاہے۔ایک بڑاسبق تویہ سیکھاگیاہے کہ عالمی سطح پرکچھ پانے کیلئےطاقت کااستعمال لازم نہیں۔ٹیکنالوجی کی ترقی اورمعیشتی استحکام کے ذریعے بھی بہت کچھ حاصل کیاجاسکتاہے۔امریکا اب تک طاقت کے بے لگام استعمال پریقین رکھتاآیاہے مگریورپ نے یہ سب کچھ بہت پہلے ترک کردیاہے۔وہ امریکاکی عسکری کارروائیوں میں ساتھ ضروردیتارہا ہے مگراس کی اپنی سوچ یہ ہے کہ کسی کوطاقت کے بجائے ذہن اوردل کشی کے ذریعے فتح کرنا زیادہ آسان ہوتاہے اوریہ فتح دیرپابھی ہوتی ہے۔چارپانچ عشروں کے دوران یورپی طاقتوں نے دوسرے خطوں میں عسکری مہم جوئی سے گریزکیاہے۔ افریقا میں بھی اس کا کردارمحدودرہاہے۔
تارکین وطن کے معاملے میں بھی یورپ نے ایسے ردِّعمل کامظاہرہ کیاہے،جس کی اُس سے توقع نہیں کی جارہی تھی۔ بیشتریورپی طاقتوں کی سوچ اب یہ ہے کہ دوسرے خطوں کے معاملات میں الجھنے کے بجائے اپنے معاملات کو درست کرنے پر زیادہ توجہ دی جائے۔ طالبان سے خوفزدہ ہوکرافغانستان سے لوگوں نے یورپ کارخ کیاتوان کے معاملے میں لاتعلقی اوربے حسی ہی کامظاہرہ کیاجائے گا۔
ایک عشرے قبل اس وقت کے فرانسیسی وزیرخارجہ ہیوبرٹ ویڈرین نے کہاتھاکہ یورپ کواب طے کرلیناچاہیے کہ اُسے بڑی عالمی طاقت بنناہے یاپھرسوئٹزر لینڈجیسی حیثیت اختیارکرنی ہے۔تب عالم گیریت کاغلغلہ تھا۔افغانستان جیسے چھوٹے اورناکام ممالک سے ابھرنے والے دہشتگردی کے خطرات کاسامناکرنے کیلئےعالم گیریت کا سہارالیاجاسکتاتھا۔تب یہ محسوس کیاجانے لگاتھاکہ یورپ کومحض نرم قوت پر انحصارنہیں کرناچاہیے بلکہ عسکری قوت بڑھانے پربھی متوجہ رہناچاہیے۔
مغرب کوعراق،لیبیا،صومالیہ،سینٹرل افریقن ری پبلک اوراب افغانستان میں ناکامی کامنہ دیکھناپڑاہے۔ماحول میں تبدیلی جیسے بڑے چیلنج کہیں باہرسے نہیں آ رہے بلکہ ترقی یافتہ دنیاکے اپنے مرکزسے ابھرے ہیں۔ایسے میں یورپ ایک بارپھرطاقت کے استعمال سے گریزہی کی پالیسی پرعمل پیرارہنے کے موڈمیں دکھائی دے رہا ہے ۔اب پھرایسالگتاہے کہ یورپ کوایک ایسے قلعے کی سی حیثیت دینے کاعمل شروع ہوسکتاہے جس میں صرف کاروباری افراداورانتہائی مالدارسیاحوں کوآنے دیاجائے۔
گلوبل ٹائمزچین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کےترجمان”گلوبل ٹائمز”کے چیف ایڈِٹرنےمیں گزشتہ دنوں”طالبان کودشمن بناناچین کے مفادمیں نہیں”سے ایک انتہائی اہم اداریہ میں افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی پراسے جہاں ایک خطرہ قراردیاہے وہاں اسے ایک بہترین موقع سے بھی تشبیہ دی ہے کہ افغانستان میں داخلی استحکام خطے میں بیجنگ کی اہم ضرورت ہے۔ چین اپنے بین الاقوامی معاشی وتجارتی منصوبے”بیلٹ اینڈروڈانیشی ایٹو”کوافغانستان اوراس کے ذریعے پورے وسطی ایشیاتک وسعت دینا چاہتاہے جس کیلئےلامحالہ کابل میں ایک معاون اورمستحکم حکومت ہوناضروری ہے۔ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ امریکی انخلاکے بعدجنم لینے والی صورتِ حال میں چین افغانستان کے کسی مقامی فریق کے پلڑے میں اپناساراوزن نہیں ڈالناچاہتا۔
ریڈیوفری یورپ کے پروجیکٹ”گندھارا”کے مطابق لندن رائل یونائیٹڈسروسزانسٹی ٹیوٹ کے سینئرایسوسی ایٹ رفیلوپینٹوچی کے مطابق چین کویقین ہے کہ طالبان ایک مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تاہم چین افغانستان میں براہِ راست ملوث ہوئے بغیر طالبان سے مضبوط روابط قائم کرنے کابھی خواہاں ہے۔ افغانستان کے ساتھ چین کی صرف76کلومیٹرطویل سرحدہے۔دنیاکے قدیم ترین بین الاقوامی تجارتی راستوں میں شامل شاہراہِ ریشم یاسلک روڈ بھی افغانستان ہی سے ہوکرگزرتی تھی اوراسی راستے سے بدھ مت چین اور جاپان تک پہنچاتھا۔ افغانستان1885میں چین کاپڑوسی بناجب اس وقت کی دوبڑی عالمی قوتوں روس اوربرطانیہ کے درمیان ہونے والی حدبندی کے نتیجے میں واخان راہداری وجود میں آئی۔یہ مختصرزمینی پٹی افغانستان کوچین،تاجکستان اورپاکستان سے ملاتی ہے۔
چین کے وزیرِخارجہ وینگ یئ نےتاجکستان کے دورے کے موقعے پرایک بارپھرطالبان پرواضح کیاتھاکہ انہیں دہشتگردوں سے اپنے تمام رابطے ختم کرنا ہوں گے ۔ دوسری جانب طالبان نے بھی چین کے ان خدشات پرواضح مؤقف اختیارکیاہے۔چینی اخبار”ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ”کواپنے ایک انٹرویومیں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہاتھاکہ امریکاسے ہونے والے دوحہ معاہدے کے مطابق طالبان اس بات کے پابندہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسری ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔”ای ٹی آئی ایم” سمیت کسی گروہ کوافغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایشیااورافغانستان کے امورکے ماہربرنیٹ ریوبن کی کتاب”ایوری تھنگ یونیڈٹونواباؤٹ افغانستان”کے مطابق2008میں دوچینی کمپنیوں نے افغانستان کے صوبے لوگر میں تانبے کی کانوں کے تین ارب ڈالرزکے ٹھیکے حاصل کیے تھے۔تانبے کی یہ کانیں دنیامیں تانبے کا دوسرابڑاذخیرہ تصور کی جاتی ہیں لیکن سیکیورٹی کی صورتِ حال ،علاقے میں آثارِقدیمہ کی موجودگی اورمطلوبہ ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے پرزیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔اس کے علاوہ چین پشاورسے کابل تک موٹروے بنانے کابھی خواہش مند ہے جودراصل اس کے”بیلٹ اینڈروڈانیشی ایٹو”کاحصہ ہوگی۔چین واخان راہداری سے بھی ایک تجارتی سڑک گزارناچاہتاہے جواس کے مغربی صوبے سنکیانگ کوافغانستان،پاکستان اوروسطی ایشیا سے ملادے گی۔یہ خطے میں چین کے زیرِتکمیل سڑکوں کے جال کے منصوبے کاایک حصہ ہے جس کے مکمل ہونے سے خطے میں چین کی تجارت اورافغانستان کے قدرتی وسائی تک اس کی رسائی بڑھ جائے گی۔2014کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے پہاڑوں میں لگ بھگ10کھرب ڈالرمالیت کی قیمتی دھاتیں موجودہیں۔یقینی طورپرخطے کی تمام ہمسایہ ریاستیں مستقبل کے معاشی فوائدکیلئے مستحکم افغانستان کیلئے بہت پرعزم ہیں جس کیلئے پہلی مرتبہ ہمسایہ چارملکوں کے انٹیلی جنس سربراہان سرجوڑکربیٹھے ہیں جس کی میزبانی پاکستان نے کی ہے۔
یورپ کاذہن تبدیل کرنے میں افغانستان نے اہم کرداراداکیاہے مگرخیروہ واحدملک نہیں جس کے معاملات نے یورپ کی سوچ بدلی ہے۔ یورپ چاہتاتھاکہ دنیاکو اپنی طرف بلائے اوراُس کے دکھوں کاتھوڑابہت مداواکرے اوراب وہ چاہتاہے کہ اپنے آپ کودنیاسے بچائے۔ یورپ نے ایک مرتبہ پھراپنے معاشی استحکام کو اوّلیت دیتے ہوئے اپنی نئی پالیسیوں کووضع کرتے ہوئے خطے میں کسی بھی جنگ سے علیحدہ رہنے کاعندیہ دیاہے۔یقیناًان حالات میں امریکانے اپنی پالیسیوں کونہ بدلاتواسے پہلی مرتبہ ایک خطرناک تنہائی کاسامناہوگا