باوثوق ذرائع کے مطابق سی آئی اے نے امریکی انخلاسے چنددن قبل ہی اپنے تمام ایجنٹس اورسہولت کاروں کوافغانستان سے نکال لیا تھا۔اگرچہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دو ہفتے قبل بیان دیا تھا کہ امریکا کے مختلف شعبوں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کی اکثریت ابھی تک افغانستان میں موجود ہے۔ کانگریس کےایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’’فارن پالیسی میگزین‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تقریباً تمام افراد کا انخلا کر لیا ہے، جن کی تعداد ہزاروں میں تھی، ان میں امریکا کے لیے کام کرنے والے جاسوس اور ان کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، کیونکہ اس بات کا قوی امکان تھا کہ طالبان ان کی شناخت کے بعد ان کو نقصان پہنچائیں گے۔
سی آئی اے کی انخلا سے متعلق کوششوں کی خبررکھنے والے ایک اورذرائع کاکہناہے کہ ایجنسی کاخصوصی آپریشن کرنے والے مرکزجہاں نیم فوجی اورفوجی اہلکار تعینات ہیں،نے انخلا میں فعال کردارادا کیا۔کابل جہاں سے ہزاروں غیرملکیوں کاانخلاکیاگیا،انخلاکا یہ آپریشن صرف کابل میں ہی نہیں ہورہاتھابلکہ ملک کے دیگرحصوں میں بھی جاری تھا۔ایک اور ذرائع نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایا کہ میراخیال ہے کہ سی آئی اے اپنے تمام لوگوں کاانخلامکمل کرچکی ہے۔ ۔ سی آئی اے کے ترجمان نے تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے بس اتناکہاکہ افغانستان میں پھنسے ہزاروں امریکی شہری اور امریکی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کے انخلاکیلئے ہم نے دیگرامریکی اداروں کے ساتھ مل کرکام کیا۔
طالبان کی تیزرفتاراورغیرمعمولی پیش قدمی نے امریکاکوانخلاکاآپریشن جلدبازی اورافراتفری میں کرنے پرمجبورکردیاجس کی وجہ سے کابل کے ہوائی اڈے پردل دہلا دینے والے منظردیکھنے کوملے۔کابل ہوائی اڈے پربم دھماکامیں100 افغانیوں سمیت13امریکی فوجی بھی ہلاک ہوگئے۔ چندروزقبل امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار نے بتایاکہ ہزاروں افغانی جنہوں نے امریکی سفارت خانوں میں کام کیا یاامریکی حکام کیلئے مترجمین کی خدمات انجام دیں،امریکاجانے کیلئے درخواستیں دے رکھی تھیں،ان میں سے اکثریت افغانستان میں ہی رہ گئی ہے۔ان لوگوں کوخطرہ ہے کہ طالبان نے اگران کوپہچان لیاتووہ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔
سی آئی اے نے جس طرح کامیابی سے اپنے ایجنٹوں کاانخلاکروایا،اس کے برعکس امریکی انتظامیہ کے انخلاکاآپریشن افراتفری کا شکارہواہے،اس نے بہت سے سوالات کوجنم دیاہے۔سی آئی اے کاصرف اپنے ایجنٹوں کوترجیحاتی بنیادپرانخلاکروانے کافیصلہ ٹھیک تھا؟سی آئی اے کاعوام کی توجہ میں لائے بغیر اپنے لوگوں کوافغانستان سے انخلاکروانے کے عمل کوتنقیداورتعریف دونوں کاسامناکرنا پڑاہے۔سی آئی اے کےسابق انٹیلی جنس اہلکارکاکہناہے کہ’’ایسے حالات میں اپنے لوگوں کوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرناوہ کام ہے جس میں انہیں نہ صرف مہارت حاصل ہے بلکہ اس کاانھیں وسیع تجربہ بھی ہے ‘‘۔اس لیے ایسی صورت حال یہ بات دل کولگتی ہے کہ سی آئی اے یہ کام کافی مرتبہ کرچکی ہے۔انقلاب ایران کے وقت پرتشددہجوم نے امریکی سفارت کاروں کوگھیرلیاتھا،ان میں سے چندافرادنے کینیڈاکے سفارتکارکے گھرپناہ لی تھی،جنہیں ایجنسی نے خفیہ آپریشن کے ذریعے وہاں سے نکالاتھا،جس پربعدمیں فلمیں بھی بنائی گئیں۔ اس طرح کے آپریشن ایجنسی دنیابھرمیں کرتی رہتی ہے اورایسے مقامات سے بھی لوگوں کاانخلاکروالیتی ہے جہاں ان کا داخلہ بھی ممنوع ہو۔اس لیے یہ کوئی انوکھاکام نہیں جوانہوں نے افغانستان میں کیاہے۔
سی آئی اےانخلا کے علاوہ دیگرخفیہ آپریشن بھی کرتی رہی ہے جیساکسی مطلوبہ دہشتگردسے تفتیش کے نام پرانہیں خفیہ مقامات پر منتقل کرکے تشددکانشانہ بنانا۔افغانستان میں سی آئی اےکاایک اورشعبہ جس کانام’’نیشنل ری سیٹلمنٹ آپریشن سینٹر‘‘ہے یہ مختلف ممالک سے ایجنسی کاسامان اوراس کیلئے کام کرنے والے افرادکونکال کرامریکالاتاہے۔یہ سینٹرروس جیسے ممالک میں کام کرنے والے جاسوسوں کوامریکاواپس لانے کاکام کرچکاہے،تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکاکہ اس سینٹر نے افغانستان سے انخلامیں معاونت کی ہے یانہیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیاسی آئی اے اپنے افغان اتحادیوں کو امریکا منتقل کرے گا بھی یا نہیں، یا پھر وہ یہیں افغانستان میں معلومات اکٹھی کرنے کا کام سرانجام دیں گے، خاص طورپرایسے وقت میں جب سی آئی اے کے پاس زمینی معلومات جمع کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔کانگریس کے اہلکارنے بتایاکہ اب بھی امریکاکیلئے کام کرنے والے بہت سے لوگ باقی رہ گئے ہیں،ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جوکبھی کبھارمعلومات اکٹھی کرنے کاکام کرتے تھے۔اس لیے طالبان کیلئے ان کی شناخت آسان نہیں ہوگی۔کانگریس نے سی آئی اے کے افغانستان سے منتقل کیے جانے والے اہلکاروں کی تعدادکے بارے میں تفصیلات دینے سے انکارکردیا۔
جولائی میں’’فارن پالیسی‘‘میگزین نے رپورٹ جاری کی تھی کہ سی آئی اے کے بہت سے افغان جاسوسوں کوخصوصی امیگریشن ویزے کے حصول کیلئے دشواریوں کاسامناکرناپڑرہاہے کیوںکہ ویزے کے حصول کیلئے ان کوامریکی حکومت کے ساتھ اپنے ’’ورکنگ ریلیشن شپ‘‘کوظاہرکرناپڑتاہے۔ایک امریکی عہدیدارنے میگزین کوبتایاکہ ایجنسی نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے انخلا کواپنی پہلی ترجیح میں رکھاہواتھا۔
بدھ کے روز’’پولیٹیکو‘‘نے اپنی رپورٹ میں اطلاع دی کہ سی آئی اے نے کابل شہرسے باہرایک خفیہ اڈہ امریکاکے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کونکالنے کیلئے استعمال کیا،کیوںکہ کابل ہوائی اڈے پردہشتگردی کاخطرہ بڑھ گیاتھا۔اس انخلا کے بعداس خفیہ اڈے کے اہم مقامات کوامریکی فوج نے تباہ کر دیا۔ اس اڈے کو’’ایگل بیس‘‘کہاجاتاہے،یہ اڈہ افغانستان پرامریکی حملے کے بعدقیدیوں کو رکھنے کیلئے بھی استعمال ہوتارہاہے۔
سی آئی اے کیلئے کام کرنے والے کچھ افغانیوں نے ملک سے نکلنے کیلئے غیرسرکاری ذرائع بھی استعمال کیے۔ان میں سے ایک کا کہناہے کہ اسمگلروں کا ایک نیٹ ورک ہے جس کوسابق امریکی فوجی اہلکاراورخفیہ ایجنسی کے لوگ مل کرچلاتے ہیں،اس نیٹ ورک نے بھی تقریباًچھ سو لوگوں کی زندگیاں بچائی ہیں۔ جوبائیڈن کوامریکی فوج کے انخلاکے فیصلے پرتنقیدکاسامناکرناپڑا۔امریکی فوج کے نکلنے کے بعدطالبان نے بہت تیزی سے کابل پرقبضہ کیاجس کی وجہ سے کابل ہوائی اڈے پرافراتفری پھیل گئی۔ایک ہفتے کے دوران تقریباًایک لاکھ لوگوں کو افغانستان سے باحفاظت باہرنکالاگیا۔سی آئی اے کے اس عمل سے پتہ چلتا ہے کہ امریکاابھی تک اپنے افغان ایجنٹوں کی اس لئے بڑے پیمانے پر پرورش کرنے میں دلچسپی رکھ رہاہے کہ وہ ابھی تک افغانستان کواس قدرآسانی سے بھولنے کو تیار نہیں اور کثیرتعدادمیں ا فغانستان میں رہنے والے ایجنٹوں کوکسی نئے ایجنڈے کیلے استعمال ضرور کرے گا۔