The Flames Of Sectarianism In Afghanistan

افغانستان میں فرقہ واریت کے شعلے اوراغیار

:Share

اشرف غنی اوراس کے چندساتھیوں کاکابل سے انتہائی عجلت میں اچانک فراراورطالبان کی دوبارہ آمدپرامریکااورمغرب سمیت پڑوس میں روس کوبھی علاقائی سلامتی کے حوالے سے خاصے خدشات وتحفظات میں مبتلاکردیاتھالیکن ہرآنے والے دن نے حیرت انگیز طورپرطالبان کے پختہ سیاسی اقدامات نے تمام خدشات کوغلط ثابت کردیاہے جبکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل پرطالبان کے متصرف ہونے کے صرف ایک دن بعد کابل میں روسی صدرپیوٹن کے ایلچی ضمیرکابلوف نے طالبان کواشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے مقابلے میں زیادہ قابلِ اعتبارشراکت دارقراردیاتھا۔ابھی حال ہی میں کابل میں روس کے سفیردمتری زرنوف نے اشرف غنی کی حکومت کے مقابلے میں طالبان کے زیرِتصرف کابل کوزیادہ محفوظ قراردیاہے۔روسی حکام نے اشرف غنی کے فرارکی شدیدمذمت کی اوران غیرمصدقہ دعوں کودہرایا،جن کے مطابق اشرف غنی کابل سے فرار ہوتے وقت کئی کاروں اورایک ہیلی کاپٹرمیں ڈالربھر کرلے گئے تھے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے بھی روس کواہم پارٹنرکی حیثیت سے یادکیاہے۔ان کاکہناہے کہ طالبان بہت جلدروس کے ساتھ مل کرکام کریں گے۔ طالبان نے عبوری حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں(جوبوجوہ نہ ہوسکی)روسی حکام کوبھی شرکت کی دعوت دی تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ روس نے مجموعی طورپرطالبان کی آمدکاخیرمقدم کیاہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ابتدامیں وہ طالبان کی آمدِنوکوسنہرے موقع کے ساتھ ساتھ ایک بڑے خطرے کے طورپرلیتاتھا۔تجارت کے نقطہ نظرسے طالبان کادوبارہ اقتدارمیں آناروس کیلئے نیک فال ہے کیونکہ وسطِ ایشیاکے راستے افغانستان سے تجارت میں اضافہ متوقع ہے۔

25/اگست کوکابل میں روس کے سفیردمتری زرنوف نے اعلان کیاکہ ان کاملک افغانستان میں معدنیات کے ذخائرمیں سرمایہ کاری کا متمنی ہے۔روس کمزور اورنازک حالات کی حامل ریاستوں میں معدنیات کے ذخائرکی تلاش اورکھدائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتاآیاہے۔سوڈان اورسینٹرل افریقن ری پبلک اس کی نمایاں ترین مثالیں ہیں۔افغانستان میں معدنیات کے وسیع ذخائرموجود ہیں جن سے روس بخوبی مستفیدہوسکتاہے۔

امریکامیں افغانستان کے زرِمبادلہ کے ذخائراوردیگراثاثوں کے انجمادکی روس نے بھرپورمخالفت کی ہے اورساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زوردیاہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کوبہتراندازسے کام کرنے کے قابل بنانے کیلئے بڑے پیمانے پرامداددی جانی چاہیے۔خیر سگالی کے اس اظہارسے روس اورطالبان کے درمیان مختلف شعبوں میں اشتراکِ عمل کے معاہدے متوقع ہیں۔طالبان نے وسطِ ایشیا کے ممالک کے ساتھ ٹرانسپورٹ اورتوانائی کے شعبوں کے منصوبوں میں دلچسپی ظاہرکی ہے۔روس ایک زمانے سے اس بات کا خواہش مندہے کہ یوریشیاکے خطے میں تمام ریاستیں مل کرکام کریں تاکہ علاقائی بنیادپرترقی وخوشحالی کاخواب عمدگی سے شرمندہ تعبیرکیاجاسکے۔

طالبان کی کامیابی سے روس کیلئے سفارتی سطح پربھی غیرمعمولی کامیابیوں کی راہ ہموارہوسکتی ہے۔2015میں دی ناردرن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک لاجسٹیکل ٹرانزٹ روٹ کے بندہونے تک روس اورمغرب کے درمیان افغانستان واحدعلاقہ تھاجو بحران سے محفوظ تھا۔روس اورامریکادہشتگردی اورمنشیات کی اسمگلنگ سے متعلق خفیہ معلومات کامحض تبادلہ نہیں کرتے تھے بلکہ منشیات کی اسمگلنگ ناکام بنانے کیلئے مشترکہ کارروائیاں بھی کرتے تھے۔امریکا اوریورپ سے روس کے تعلقات الیگزی نیولنی کوزہردیے جانے،روس کے سائبرحملوں اوربحیرہ اسودکے خطے میں عسکری کشیدگی کے باعث کشیدہ اورداغ داررہے ہیں۔ایسے میں روس طالبان سے اچھے تعلقات چاہتاہے تاکہ مغربی ریاستوں کی طرف سے مثبت توجہ مل سکے۔

امریکاکے ساتھ تین طاقتوں کے مذاکرات میں روس کاکرداربھی کلیدی نوعیت کاہے۔افغانستان کے معاملات پربحث کیلئے جی سیون اوردو اضافی ریاستوں کے سربراہ اجلاس میں روس کی شرکت اس امرکی دلیل ہے کہ روس اب خطے میں اپنے لیے وسیع ترکردارکاخواہاں ہے۔برطانوی وزیرخارجہ ڈومینک راب کہتے ہیں کہ طالبان کے تحت افغانستان کے حوالے سے روس کامعتدل کردار روس اورافغانستان کے درمیان پل کاساہے لیکن اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کی مضبوط اورمؤثررہنماجرمن چانسلرانجیلامرکل کا افغان طالبان کی فوری امدادکابیان بھی اس بات کامترادف ہے کہ یورپی یونین دوبارہ اس خطے میں فعال ہونے کیلئے اپنی چھوٹی ہوئی ٹرین پربیٹھنے کی کوشش کررہاہے تاکہ اس خطے میں مستقبل کی تجارتی منڈیوں تک براہِ راست رسائی حاصل ہوسکے لیکن اپنی اس امدادکواپنی این جی اوزکے ذریعے استعمال کرنے کی کڑی شرط سے بدنیتی کااحساس بھی سامنے آتا ہے جس کوطالبان کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔

روسی قیادت اس خیال کی بھی حامل ہے کہ افغانستان میں طالبان کااقتدارروس اورغیرمغربی طاقتوں کے درمیان پارٹنرشپ اور اشتراکِ عمل کی بنیادکووسیع کر سکتاہے۔روس اورچین نے حال ہی میں ننگژیاہوئی کے خودمختارعلاقے میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔10ہزارسے زائدنفری کے ساتھ کی جانے والی ان مشقوں کابنیادی مقصدافغانستان کی صورتِ حال سے وسطِ ایشیاکیلئے ابھرنے والے خطرات کاسامناکرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرناتھا۔افغانستان میں داعش (خراسان)کاتیزی سے ابھرتاہواخطرہ بھی دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے سے شنگھائی تنظیمِ تعاون کے دائرہ کارمیں عمل نوازپالیسیوں کی راہ ہموارکرسکتی ہے ۔اس کے نتیجے میں روس اورچین کے درمیان ہم آہنگی اوراشتراکِ عمل کا گراف بلندہوسکتاہے۔

ایرانی صدرابراہیم رئیسی نے افغانستان میں امن واستحکام یقینی بنانے کیلئے روس کے ساتھ مل کرکام کرنے کاعندیہ دیاہے۔بھارت میں روس کے سفیر نکولے کداشیف نے بھی افغانستان کی سلامتی کے حوالے سے روس اوربھارت کے درمیان ہم آہنگی کی بات کی ہے۔ دونوں کایہ خیال ہے کہ افغانستان میں حالات کی خرابی سے وسطِ ایشیااورجموں وکشمیر میں شورش بڑھے گی۔

چین،ایران اوربھارت سے تعلقات بہتربنانے میں معاونت کے علاوہ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام نے روس کیلئے پاکستان سے بھی بہترتعلقات کی راہ ہموارکی ہے۔27 اگست کوپاکستان کے وزیراعظم عمران خان کیلئے روس کے صدرپیوٹن کی فون کال کودوطرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک نئے اور خوشگوار دورکاآغازقراردیاجارہاہے۔اس فون کے ذریعے روس نے پہلی باراپنے مفادات کی تکمیل کے حوالے سے پاکستان پربھروساظاہرکیاہے۔ایک طرف توپیوٹن نے عمران کوفون کرکے اپنائیت کاثبوت دیااوردوسری طرف جوبائیڈن نے پاکستان کونظر اندازکرتے ہوئے ایک فون کال کی بھی زحمت گوارانہیں کی۔اس کے نتیجے میں پاکستان اورروس کے تعلقات میں انتہائی خوشگوارتبدیلی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دی ہے۔پاکستان اب تک جن ممالک سے اسٹریٹجک پارٹنر شپ کوترجیح دیتاآیاہے ان میں روس اب غیرمعمولی مقام کاحامل ہے۔ پاکستان گیس اسٹریم پائپ لائن کے حوالے سے گفت وشنیداس بات کامظہرہے کہ افغانستان کی صورتِ حال نے روس اورپاکستان کو قریب ترآنے کاموقع فراہم کرتے ہوئے وسیع ترتجارت کی راہ ہموارکی ہے۔

افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے روس کے ساتھ معاشی اورسفارتی مواقع پیداکیے ہیں مگرایسانہیں کہ روسی قیادت افغانستان کی صورتحال پرمکمل مطمئن ہوچکی ہے اسی لئے روس نے وسطِ ایشیامیں سلامتی کے امورکے حوالے سے اپنی موجودگی کووسعت دینے پرتوجہ دی ہے۔دی رشین انٹرنیشنل افیئرزکونسل کے ڈائریکٹرجنرل آندرے کورزنوف نے حال ہی میں کہاہے کہ شمالی افغانستان پرمکمل تصرف کیلئیطالبان کوجدوجہد جاری رکھناپڑے گی اوراس کے نتیجے میں وہاں عدم استحکام بڑھے گااوروسطِ ایشیا پر داعش(خراسان)کے حملوں کاخدشہ بھی ہے۔

ماسکو میں خارجہ پالیسی کی کمیونٹی کواس صورتِ حال کااچھی طرح احساس ہے۔یہی سبب ہے کہ26اگست کوکابل ایئرپورٹ پرخود کش حملے کے بعدروس نے وسطِ ایشیاکی ریاستوں کوبڑے پیمانے پرہتھیاروں کی فراہمی کاعمل تیزکرنے کاعہدکیا۔ کلیکٹیوسیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن(سی ایس ٹی او)کی چھتری تلےکرغیزستان کے ساتھ ماسکوکی سربراہی میں فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔روس نے طالبان کی قیادت میں افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت سے تعاون اور اشتراکِ عمل کے حوالے سے اب تک رجائیت پرمبنی رویے کامظاہرہ کیاہےمگرپھربھی حتمی تجزیے میں اس امرکاتعین نہیں ہوسکاہے کہ طالبان کی آمدماسکوکیلئے رحمت ہے یا زحمت، اس لئے فریقین بہت پھونک پھونک کرآگے بڑھ رہے ہیں لیکن یہی ابہام مستقبل میں افغانستان کے حوالے سے عمل پسندسفارت کاری اورخطرات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کیلئے تحریک دیتی رہے گی۔

دوسری طرف افغانستان میں داعش کی طرف سے خودکش حملوں نے خطے کے تمام ممالک کوایک مرتبہ پھرمل بیٹھ کرایک مضبوط اوردوررس نتائج پرمبنی پالیسی وضع کرنے کی دعوت دی ہے۔ابھی حال ہی میںافغانستان کے شہرقندھاراورقندوزمیں شیعہ مساجدمیں نمازکے دوران ہونے والے بہیمانہ دہماکوں سے خطے کی صورتِ حال تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ امریکی انخلا کے زخموں کاحساب چکایاجاسکے۔ایک اطلاع کے مطابق قندھارکے خودکش حملے میں 40 سے زائدافرادہلاک اور90زخمی ہوئے ہیں،جن میں21کی حالت شدیدنازک ہے۔یہ دہماکے اس وقت ہوئے جب مسجدمیں نمازجمعہ کااجتماع جاری تھا۔ دہماکے کی نوعیت کاتعین تاحال نہیں ہوالیکن یہ امکان ظاہرکیا جارہاہے کہ یہ خودکش دہماکے تھے۔ایک عینی شاہدکے مطابق مسجد کے مرکزی دروازے پرجہاں لوگ وضوکرتے ہیں وہاں تین دہماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ایک مقامی ڈاکٹرکے مطابق زخمیوں کامیر واعظ ہسپتال میں علاج معالجہ جاری ہے۔طلوع نیوزٹی وی کے مطابق یہ دہماکہ قندھارشہرکے پولیس ڈسٹرکٹ ون میں جمعے کی نمازکے دوران ہوا۔نیوزچینل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق”عینی شاہدین کاکہناہے کہ ہلاکتوں کی تعدادبہت زیادہ ہونے کاخدشہ ہے تاحال سرکاری ذرائع سے کوئی مصدقہ تعدادنہیں بتائی گئی۔ ”طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعیدخوستے کے مطابق دھماکہ کی تفصیلات اکٹھی کی جارہی ہیں اورتیزی سے ان عوامل کے خلاف کاروائیوں کابھی آغازکردیا گیاہے۔

شدت پسند تنظیم نام نہاددولت اسلامیہ(داعش)نے ٹیلی گرام ایپ پراپنے ایک بیان میں اس مکروہ اوربہیمانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن”شیعہ قتل عام” کے حکم کی تعمیل کیلئے کیا گیا۔اس گروپ کی طرف سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیاہے کہ دوخودکش حملہ آوروں نے مسجدمیں داخلے سے قبل وہاں سکیورٹی پرمامورگارڈزکوقتل کیا اورپھراندر پہنچ کردونوں حملہ آوروں نے اپنے آپ کودہماکہ خیزموادسے اڑادیا۔

طالبان حکام اورعینی شاہدین کاکہناہے کہ جمعے کوافغانستان کے شمالی شہرقندوزکی ایک مسجد میں بھی خودکش حملہ ہواہے جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق60 افرادہلاک جبکہ140سے زائدزخمی ہوچکے ہیں۔یہ امریکی انخلاکے بعدافغانستان میں اب تک ہونے والیسب سے مہلک خودکش حملے ہیں۔قندوز کے صوبائی ہسپتال کے ایک ذرائع نے تصدیق کی ہے اب تک55ہلاک شدگان اور 50سے زائدزخمیوں کولایاجاچکاہے۔تاحال اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی لیکن داعش جوکہ طالبان کاحریف گروہ ہے ،ماضی قریب میں ہونے والے ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے اورحملے کے طریقِ کارسے یہ بھی داعش کی کاروائی معلوم ہوتی ہے۔

ڈاکٹرزودآٹ بارڈرزکے مطابق قندوزکے ایک ہسپتال میں کم سے کم15افرادکولایاگیا ہے جوجان سے جاچکے تھے۔ خبررساں ادارے”اے ایف پی”کے مطابق ایک ہسپتال کے اہلکارنے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پربتایاکہ”ہم ابھی تک90سے زیادہ زخمی اوردودرجن ہلاک شدگان کووصول کرچکے ہیں لیکن یہ اعداد تیزی سیتبدیل ہورہے ہیں۔ابھی مزیدافرادکوہسپتال لایاجارہاہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سیدخوستی اورطالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے بھی اس دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاہے کہ صوبہ قندوز کے دارالحکومت کے علاقے بندرضلع خان آبادمیں ہمارے شیعہ ہم وطنوں کی مسجدمیں اس دھماکے میں ہمارے کئی ہم وطن شہیداور زخمی ہوئے ہیں۔یادرہے کہ اس سے قبل بھی اکتوبر 2017میں بھی داعش کے ایک حملہ آورنے کابل کی ایک شیعہ مسجدمیں خودکش حملہ کیاتھاجس میں56افراد ہلاک جبکہ55 زخمی ہوگئے تھے جبکہ رواں سال مئی میں ہزارہ برادری کے کابل میں واقع سکولوں پر ہونے والے حملوں میں85افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں اکثریت سکول جانے والی بچیوں کی تھی۔اس حملے میں300سے زائدافراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

ان دہماکوں کی پشت پناہی اوراپنے مکروہ مقاصدکی تکمیل کے پیچھے چہرے بھی کھل کرسامنے آچکے ہیں۔آج سے تین سال قبل سی آئی اے کے اہلکارنے برملاٹی وی پروگرام میں انکشاف کیاتھاکہ اب ہمیں دوردرازمسلمان ملکوں میں جنگوں کاسلسلہ بندکرکے یہاں شیعہ سنی فرقہ واریت اوران کے مابین خونی فساد کروانے کی اشدضرورت ہے اوراس خوفناک جنگ کے الاؤکوبھڑکانے کیلئے جس قدرممکن ہوپٹرول فراہم کرناچاہئے تاکہ یہ آپس میں لڑکراس قدرکمزوراورنحیف ہو جائیں کہ یہ خودبخودہمارے مفادات کے غلام بن کر ہماری ہرخواہش کے مطابق کام کرناشروع کردیں۔میں نے 3سال پہلے بھی شواہدکے ساتھ شیعہ سنی علما اوررہنماں کے سامنے ان سازشوں کاقلع قمع کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کراس تباہ کن سازشوں کامقابلہ کرنے کی درخواست کی تھی اورآج ایک مرتبہ پھران دجالی قوتوں کے ان فتنوں سے بچنے کیلئے افغانستان میں ہونے والی ان کاروائیوں کواسی علاقے میں دفن کرنے کیلئے میدان عمل میں اترنے کی دعوت دیتاہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں