Wait A Moment

تھوڑاانتظار!

:Share

امریکاافغانستان میں ناکام ہوگیامگرکیاطالبان کامیاب ہوں گے؟کیاطالبان ایک’’پائیدار‘‘اور’’مستحکم‘‘سیاسی نظام تشکیل دے سکیں گے یا پھرکسی نئے تصادم کی بنیادرکھیں گے؟کیانیاسیاسی نظام فردواحدیاچندافرادکے تابع ہوگایاپھردستوراورمضبوط اداروں کے بنیادپرکھڑاہوگا ؟ان سوالات کے جواب ہی طالبان کی حتمی فتح اور افغانستان کے مستقبل کاتعین کریں گے۔

طالبان اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں،اس لیے انہیں اس بارایک ایساسیاسی نظام تشکیل دیناہوگاجواسلام کی سیاسی تعلیمات اوراصولوں کے مطابق ہونہ کہ بنوامیہ یاپشتون روایات کاعکس ہو۔طالبان کے پڑوس میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی شکل میں ایک مذہبی ریاست داخلی استحکام،عوامی اعتماداوربین الاقوامی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ42سال سے نظام حکومت چلارہی ہے اورآج ایک مؤثرعلاقائی طاقت ہے۔طالبان ایران سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں،وہاں بھی اقتدارملاؤں کی گرفت میں ہے مگراصلاح پسندبھی نظام کاحصہ ہیں۔ایک طرف رہبرمعظم کاطاقتورعہدہ ہے دوسری جانب منتخب صدرہے،ولایت فقیہ ہے توجمہوریت بھی، شوریٰ نگہبان ہے توپارلیمان بھی۔ پاسداران انقلاب ہیں تومنظم فوج بھی۔دراصل ایرانی مُلّااوراصلاح پسنددونوں ہی اسلام پسندہیں،فرق رویے اورحکمت عملی کاہے ۔ آیت اللہ خمینی کے دورمیں جب علی خامنہ ای ایران کے صدرتھے توحسین موسوی وزیراعظم۔افغانستان میں بھی اگرطالبان دیندارہیں توطالبان کی حکمت عملی سے اتفاق نہ کرنے والے کچھ بااثرگروہ بھی اسلام پسندہیں اورحکمت کاتقاضہ ہے کہ ان کواپنے دست وبازوبناکراپنی قوت میں نہ صرف اضافہ کیاجائے بلکہ ان کی بھی حکمت ودانش کومستقبل کی فلاحی حکومت کاجزوبناکراستفادہ کیاجائے۔

طالبان ملاعمرکی قیادت میں1996ءسے2001ءتک افغانستان پرپانچ سال حکمرانی کرچکے ہیں،مگرتب وہ اتفاق رائے کےقیام میں ناکام ہو گئے تھے۔شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری رہی۔اسی عدم اتفاق نے امریکاکوحملے کے بعدمقامی سہولت کارفراہم کیے۔بقول سابق امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمد: ’’طالبان کی کوتاہی یہ تھی کہ وہ اپنی پوری قوم کاخوش دلانہ تعاون حاصل کرنے سے بے نیازہوگئے تھے،انہیں اپنے سواپورے افغانستان میں کوئی نظرنہیں آتاتھا، انہوں نے کوئی دستوری ڈھانچابنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی،ملاعمرکی بیعت کے سوانظامِ حکومت کی کوئی بنیادموجودنہیں تھی،شورائیت جواسلام کی روح ہے ناپیدتھی‘‘۔ (پاکستان حال اور مستقبل)

طالبان کویادہوگاکہ ان کے ظہورسے بھی پہلے مجاہدین نے سوویت یونین کوشکست دی، سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوامگرمجاہدین اتفاق رائے سے سیاسی نظام تشکیل نہ دے سکے۔اس ناکامی کے ذمہ دارپروفیسربرہان الدین ربانی اورانجینئرگلبدین حکمت یارکوٹھہرایاگیامگر تخریب کے عمل میں عالمی اورعلاقائی طاقتوں نے بھی بھرپورحصہ ڈالاتھا۔گلبدین حکمت یارامریکا،روس اوریورپ کیلئےناقابل قبول تھے ،اچانک صبغت اللہ مجددی کوآگے بڑھایاگیااورفسادپھیل گیا۔مذاکرات میں مرکزی کرداراداکرنے والے سابق امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے مطابق:’’اتحاد کی کوششوں کیلئےمجالس ساری ساری رات چلتی رہتی تھیں، پشاورمیں میرامکان اس طرح کی مجالس کا مرکزتھا۔بظاہریہ کوششیں مجاہدین گروپوں کے اتحادکیلئےہوتی تھیں لیکن تخریب کاعمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا تھا،ان میں ہر ملک کی خفیہ ایجنسی کے لوگ شامل تھے،بظاہرسب کا جامہ علمائے کرام اورشیوخ کاہوتا تھا۔‘‘(پاکستان حال اورمستقبل،صفحہ91)

2006ءمیں اسلامی عدالتوں کی تنظیم نے بھی نہایت کامیابی اورعمدگی سے صومالیہ کاانتظام سنبھالتے ہوئے وہاں امن وامان بحال کردیا تھا۔یہ16سال کےعرصے میں پہلاموقع تھاجب موغادیشومتحداورپرسکون تھا۔11سال بعدایئر پورٹ کھول دیاگیاتھا۔موغادیشو طویل عرصے بعدایک نہایت صاف ستھرےشہرمیں تبدیل ہوگیا تھا،10سال بعدپورٹ کوفعال کردیا گیاتھالیکن علاقائی وعالمی طاقتوں کویہ سب گوارانہ تھا اورچندماہ بعد ہی ایتھوپیاسے حملہ کروایاگیا۔امریکی ایماپرجوکچھ صومالیہ میں ہواوہ تاریخ کاحصہ ہے۔

طالبان افغانستان میں شریعت نافذکرناچاہتے ہیں۔ان کے ہراقدام کوماضی میں بھی اسلام سے جوڑاگیا،طالبان کے کچھ اقدامات کی وجہ سے ’’شریعت‘‘کے خلاف بڑے پیمانے پرپروپیگنڈے کاموادعالمی طاقتوں کے ہاتھ آیاحالانکہ طالبان سے پہلے ایران وسعودی عرب میں بھی شرعی قوانین نافذ تھے مگریہ صورتحال پیدانہ ہوئی تھی،اگر طالبان کے اقدامات سے شرعی قوانین کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہواتوداعش کے ذریعے’’خلافت‘‘کی اصطلاح کے خلاف عالمی سطح پراتنامنظم پروپیگنڈاکیاگیاکہ آج محض غلط فہمی کی بنیادپرغیرمسلم توکیاکچھ مسلمان بھی’’نفاذ شریعت‘‘اور’’خلافت‘‘کانام سن کرگھبراجاتے ہیں۔طالبان کویہ خیال رکھناہو گاکہ وہ اپنے اقدامات سے اسلام کی روح کو نقصان نہ پہنچائیں۔

افغانستان کواس کے پڑوسی ممالک اپنے مفادات کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔وہ گزشتہ ادوارمیں افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں، شایدیہ ممالک مستحکم اورخودمختارافغانستان کواپنے مفادات کیلئےخطرہ سمجھتے ہیں،گواس بارچین،روس، ایران اورپاکستان سب ہی دیرپاامن کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں مگرچیلنج اپنی جگہ موجودہیں۔طالبان کی طرف سے مکمل معافی کے اعلان کوساری دنیامیں سراہاجارہاہے۔طالبان کے اس عمل نے جدیدترین اسلحے سے لیس تربیت یافتہ تین لاکھ پچاس ہزارفوج کوخاموشی سے ہتھیارپھینک کراپنے گھروں کی راہ لینے میں بڑی مددکی ہے جبکہ جدیدترین جنگی جہاز،ہیلی کاپٹرزاور پہاڑ جیسےدیگرجنگی سازو سامان کے ڈھیرکئی سال کی خانہ جنگی کیلئے کافی تھا۔طالبان کابروقت اپنے سیاسی مخالفین اورجانی وخونی دشمنوں کے ساتھ طویل مذاکرات بھی اسی عام معافی کے نتیجے میں عمل میں آئے۔حامدکرزئی،عبداللہ عبداللہ کے ساتھ دوحہ میں،ماسکومیں بیٹھے استادمحقق، تہران میں یونس قانونی اورازبکستان میں بیٹھے شمالی اتحادکے ازبک رہنماؤ ں کے ساتھ فوری مذاکرات نے طالبان کی حکمت عملی نے اپنی آئندہ بننے والی حکومت کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کوبڑی خوش اسلوبی سے طے کیاہے جس سے امریکااوراس کے اتحادیوں کی سازشوں پرپانی پھرگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ جوبائیڈن نےانخلاء کے بعداپنی تقریرمیں افغان فورسزکے اس سرعت کے ساتھ ہتھیارپھیکنے پربڑی مایوسی کااظہارکرتے ہوئے کہناپڑاکہ ہمیں یہ بالکل امیدنہیں تھی،ہم ان کوبہترین تربیت اوراسلحہ مہیاکرسکتے تھے لیکن ان کے اندرلڑنے کی صلاحیت اورجرات نہیں دے سکتے تھے۔

طالبان کویہ سمجھناہوگاکہ حکومت بنانے سے پہلے اوراقتدارمیں آنے کے بعدکی صورتحال میں زمین آسمان کافرق واقع ہوجاتاہے۔جب تک وہ غیرملکی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کررہے تھے،وہ اپنے ہم خیال افرادکیلئےہیروتھے،قابضین کے خلاف لڑناافغانوں کی روایت رہی ہےمگراب جبکہ وہ ملک کے حکمران ہوں گے توانہیں جانچنے کے معیارات اورتقاضے بدل جائیں گے۔یقیناً20سالہ امریکی قبضے کے دوران پوری ایک نسل جوان ہوئی ہے،بہت سے ادارے بنے ہیں،لوگوں کی ذہن سازی ہوئی ہے،طالبان کوتمام پہلوسامنے رکھنا ہوں گے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنابھی اشدضروری ہے کہ طالبان نے بھی اس طویل جنگ سے بہت کچھ سیکھاہے،یہ ضروری نہیں کہ ہم عقل کل کاکردار ادا کرتے ہوئے اپنی مرضی کومنوانے کی کوشش کریں،افغانستان میں مکمل اتفاق رائے سے حکومت بنانے کے مشوروں کی ایک لمبی قطارکھڑی کردیں۔اگرطالبان آپ سے اپنی حکومت میں نوازشریف،زرداری اورمولانافضل الرحمان کوشامل کرنے کامشورہ دیں توکیاآپ اس کوقبول کرلیں گے؟کیاامریکاومغرب طالبان کے مشوروں سے کسی کواپنی حکومت میں شامل کرنے پر رضامندہوجائیں گے؟طالبان نے پچھلے کئی ہفتوں کی مشاورت کے بعداپنی حکومت کااعلان کردیاہے جوان کاحق ہے اوریہ حق ہم سب کو تسلیم کرناہوگا۔اب ہمیں افغان حکومت کی بہترکارکردگی کیلئے اپناغیرمشروط تعاون کاہاتھ بڑھاناچاہئے جوکہ اسلامی اخوت کاتقاضہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں