Lessons Written On The Wall

نوشتہ دیوار

:Share

افغانستان پرطالبان کے تصرف نے بھارت کیلئےسیاست،معیشت اورسیکورٹی کے حوالے سے غیرمعمولی چیلنج کھڑاکردیاہے۔اب بھارتی قیادت طالبان سے خوشگوارتعلقات استوارکرنے کی بھرپورکوشش کررہی ہے اوردوسری طرف ایران اورروس سے بھی ازسر نوتعلقات استوارکرنے کیلئے خطے میں دہشتگردی کے خطرہ کوٹالنے میں اپنی سنجیدگی کی یقین دہانی کروائی ہے۔چین اورپاکستان کے درمیان واقع ہونے کی بدولت بھارت کیلئےسیکورٹی کے حوالے سے افغانستان کی اہمیت غیرمعمولی نوعیت کی ہے۔امریکی حمائت سےفغانستان کی سابقہ حکومتوں کے ساتھ بہترین تعلقات کواپنے مذموم مقاصدکیلئے خوب استعمال کیاگیااوران تعلقات کی بدولت ہی بھارت خطے میں سیاست،معیشت اورسلامتی کے حوالے سے قومی اہداف کے حصول میں کامیاب رہاہے۔اشرف غنی اوراُس سے قبل حامد کرزئی کی حکومت سے بھارت کے بہترتعلقات نے پاکستان کوایک خاص حدتک رکھنے میں کلیدی کرداراداکیاتھا۔دوعشروں کے دوران بھارت نے افغانستان میں غیرمعمولی سرمایہ کاری کی اورعوامی سطح پررابطے بڑھانے میں بھی دلچسپی لی ہے۔ بھارت کیلئےافغانستان نے مشرقِ وسطیٰ اور وسطِ ایشیاسے تجارت بڑھانے میں بھی کلیدی کرداراداکیاہے مگراب جبکہ افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھ میں ہے،بھارت کی وہ سازشی قوت خطرے میں پڑگئی ہے جواُس نے دوعشروں کی محنت سے پروان چڑھائی تھی۔

افغانستان کم وبیش ساڑھے چارہزارمیل سے بھی زائدطوالت کی اُس راہداری کااہم حصہ ہے جس کے ذریعے بھارت،روس،ایران، افغانستان اورآذربائیجان کے درمیان تجارت ہوتی رہی ہے۔اس راہداری کوحقیقی معنوں میں کارآمدبنانے میں افغانستان کاکردارسب سے بڑھ کرہے۔اُس کااستحکام ہی اس راہداری کی کامیابی کی ضمانت ہے۔بھارت اوروسطِ ایشیاکے درمیان تجارت آسان بنانے کے حوالے سے بھی افغانستان راہداری کے طورپربہت اہم ہے۔

بھارت نے دوعشروں کے دوران افغانستان میں امریکاکی قائم کردہ حکومت کے تحت بنیادی ڈھانچے کومضبوط بنانے اورتجارتی ماحول کوزیادہ جانداربنانے کی خاطرکم وبیش3/ارب ڈالرخرچ کیے۔بھارت نے ملک بھرمیں سڑکوں،پُلوں،ڈیمز،اسکول اوراسپتالوں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاہے۔ہزاروں افغان طلبہ کوتعلیمی وظائف فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے افغانستان کے سول سرونٹس کی تربیت میں بھی اہم کرداراداکیا۔2011ءمیں بھارت نے اس وقت کی افغان حکومت سے ایک اسٹریٹجک معاہدہ کیا،جس کے نتیجے میں افغان سرزمین پربھارت کامعاشی کردار ہی نہیں بڑھابلکہ سفارتی تعلقات کونئی بلندی تک لے جانے میں بھی مدد ملی۔

بھارت نے افغانستان میں ضلع دلآرام سے ایرانی سرحد تک135میل لمبی شاہراہ کی تعمیرمیں بھی سب سے زیادہ حصہ ڈالا۔15کروڑ ڈالرکی لاگت سے تعمیر کی جانے والی زرنج دلآرام شاہراہ اسٹریٹجک نقطۂ نظرسے بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے ایرانی بندرگاہ چابہار سے افغانستان تک براہِ راست رسائی دیتی ہے مگران تمام کاموں کی آڑمیں جہاں پاکستان میں دہشتگردی کامکروہ دھندہ جاری رکھنامقصودتھاوہاں خطے کی سپرپاوربننے کاخواب مچل رہاتھا

طالبان کی فتح اورایوانِ اقتدارمیں اُن کی آمد سے افغانستان میں اسٹریٹجک حوالے سے بھارت کیلئےمشکلات پیداہوئی ہیں۔حالیہ موسمِ گرما کے دوران طالبان کی تیزرفتارفتوحات سے جتنی حیرت باقی دنیاکوہوئی اُس سے کہیں زیادہ غم بھارت کوہواکہ اس کی ساری کمائی غرق ہوگئی۔روس اورچین توکسی نہ کسی سطح پر طالبان سے رابطے میں رہے ہیں مگربھارت نے امریکاکی وساطت سے قائم ہونے والی افغانستان کی کمزوراورغیرمقبول حکومت کی حمایت جاری رکھی اوراس دوران طالبان سے اُن کارابطہ برائے نام بھی نہیں رہا۔ حال ہی میں برطرف ہونے والی اشرف غنی حکومت کی غیرمعمولی حمایت کرنے اوردرپردہ طالبان کے خلاف اسلحہ فراہم کرنے کی سازشوں کے باعث طالبان بھارت پرقطعی بھروساکرنے کوتیارنہیں۔ایسی حالت میں بھارت اورطالبان دونوں کیلئےمستقبلِ قریب میں اشتراکِ عمل بہت مشکل دکھائی دیتاہے۔

اگست2021ءکے وسط میں طالبان نے بہت یقین دہانیاں کرائیں مگرپھربھی بھارت نے طالبان پرعدم یقین کی بناپرافغانستان سے اپنے شہریوں کو بحفاظت نکالنے کوترجیح دی۔18ستمبرکوتاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں مودی نے معاشرے کے تمام طبقات پرمشتمل حکومت نہ بنانے پرطالبان کوشدیدتنقیدکانشانہ بنایا۔

پاکستان اوربھارت روایتی حریف ہیں۔مستقبل قریب میں پاکستان چاہے گاکہ افغانستان میں بھارت کے اثرات زیادہ سے زیادہ کم کرنے کیلئےطالبان سے مل کرکام کرے۔چندبرسوں کے دوران افغانستان سے تعلقات بہتربنانے کی بھارتی کوششوں سے پاکستان میں گھیرے جانے کاتاثرپیداہواہے۔پاکستانی قیادت سمجھتی ہے کہ مشرق میں بھارت خودہے اوراب وہ شمال اورمغرب کی سمت سے بھی پاکستان کوگھیرے میں لینے کی کوشش کررہاہے۔پاکستان مختلف مراحل میں طالبان کی غیر معمولی مددکرتارہاہے جس کے نتیجے میں افغان حکومت سے اُس کے تعلقات زیادہ خوشگوارنہیں رہے۔طالبان کی آمدسے ایک ایسی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی ہے جو پاکستان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والا ماحول فراہم کرتی ہے اورپاکستان بھی موافق حالات سے استفادہ کرناچاہے گا۔ ایسے میں یہ بھی بعید ازامکان نہیں کہ خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کیلئےطالبان بھارت سے بہتراورخوشگوارتعلقات استوار کرنے کیلئے اس کے سابقہ کردارکوجلدفراموش نہیں کرسکیں گے جبکہ وہ چین سمیت اپنے تمام پڑوسیوں سے بہترتعلقات اوروسیع تر اشتراکِ عمل کی راہ ہموار کرنے میں خاصاکامیاب دکھائی دے رہاہے۔موجودہ صورتحال میں بھارت سے کسی بھی سرحدی مناقشے کی صورت میں اب پاکستان اپنے اہم اسٹریٹجک اثاثے تیزی سے منتقل کرنے کی پوزیشن میں بھی آگیاہےاورایسی حالت میں کسی بھی خطۂ جدل تک بھارت کی رسائی دشوارہوگئی ہے۔

ماضی کی چندناخوشگواریادوں کے باعث نئی دہلی اورطالبان ایک دوسرے پرزیادہ بھروساکرناممکن نہیں۔طالبان ہی کے دورمیں بھارت کے ایک مسافر بردار طیارے کواغواکرکے افغانستان لے جایاگیاتھااورپھراس طیارے کے مسافروں کی رہائی کے عوض چند ہائی پروفائل شخصیات کوبھارت کی جیل سے نکلوایاتھا اور ایسے حالات میں کئی مغربی ممالک اورامریکاکوبھی ایسادباؤبرداشت کرناپڑاہے۔بھارت اورچین کے درمیان پائے جانے والے اسٹریٹجک تنازعات کے پیش نظرچین اورافغانستان کے درمیان بڑھتاہوا اشتراکِ عمل بھی بھارت کیلئےایک بڑادردِسر ہوگا۔چین اورافغانستان کے درمیان رابطے بڑھ رہے ہیں۔ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام سے امن واستحکام کی حالت پیداہوگی اورپاکستان کی مددسے چینی قیادت افغانستان کیلئےانسانی ہمدردی کی بنیادپرامداداور اسٹریٹجک تعلقات کادائرہ وسیع کرنے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے،ساتھ ہی ساتھ چینی قیادت افغانستان میں ترقیاتی کاموں کیلئےبھی اپنا کردار بڑھانے کی پیشکش کر چکی ہے۔طالبان کی پیش قدمی اورکابل پرتصرف کے دوران بھی پاکستان،چین اورروس نے کابل میں سفارت خانے کھلے رکھے تھے۔اب چین افغانستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جمائے رکھنے کیلئےاِس بُرے وقت میں اُس کی زیادہ سے زیادہ عملی مددکی آفرکرچکا ہے۔کابل میں عبوری حکومت کے قائم ہوتے ہی چین نے افغانستان کیلئے3کروڑ10لاکھ ڈالرکی فوری امدادکااعلان کیا۔طالبان واضح طورپرکہہ چکے ہیں کہ چین اُن کیلئےایک اہم ہمسایہ ہے اورافغانستان چاہے گاکہ اُسے بھی چین کے بیلٹ اینڈروڈ انشئیٹیوکاحصہ بنایاجائے۔

افغانستان پرطالبان کاتصرف قائم ہوجانے سے بھارت نےحسبِ معمول سرحدپار دہشتگردی کاخطرہ بڑھنے کاواویلاشروع کردیاہے۔ طالبان کی پیش قدمی کے دوران افغانستان کی جیلوں سے رہائی پانے والوں کوافغانستان اوراُس کے ہمسایہ ممالک میں کام کرنے والے جنگجوگروپوں میں شامل کیے جانے کاقوی امکان بڑھ گیاتھالیکن طالبان نے بروقت ساری دنیاکویقین دلایاکہ ان کی سرزمین آئندہ کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔بھارت نے القاعدہ اورداعش جیسے گروپوں سے بھی لاحق خطرات کابےسروپاخدشہ ظاہر کیا ہے جبکہ داعش کے ساتھ قریبی تعلقات کے شواہدموجودہیں۔نئی دہلی اس بات سے بھی تشویش میں مبتلا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے جنگجوؤں اورانتہاپسندوں کوپاک بھارت سرحدی علاقوں تک پہنچنے میں زیادہ دشواری کاسامنا نہیں کرنا پڑے گا۔بھارت میں پوزیشن زیادہ مضبوط نہ ہونے پربھی داعش کرناٹک اورکیرالاجیسی دورافتادہ ریاستوں میں اپناسیٹ اپ تیار کرنے اوربھرتیاں کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ایساسوشل میڈیاپرپروپیگنڈہ جاری ہے۔انسدادِدہشتگردی سے متعلق بھارتی ٹاسک فورس نے 31اگست کواطلاع دی کہ وہ کم وبیش25بھارتی شہریوں پرنظررکھے ہوئے ہے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ دہشتگردی کیلئے بھرتیاں کرنے میں مصروف ہیں۔

اس وقت افغانستان کے حوالے سے بھارت کے آپشن محدودہیں۔ایسے میں بہتریہ ہے کہ وہ اپنی سابقہ پالیسیوں سے تائب ہوکرایک طرف وہ طالبان سے بات چیت جاری رکھے تاکہ اشتراکِ عمل کی راہ ہموارہو اور دوسری طرف عملی طوراسٹریٹجک خطرات سے نمٹنے کیلئے مضبوط شواہدکامظاہرہ کرے۔طالبان سے چین اورپاکستان کے تعلقات غیرمعمولی نوعیت کے ہیں۔ایسے میں بھارت کے اثرونفوذکا دائرہ سکڑگیاہے۔ایسے میں طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کیلئے بھارت کوخطے میں اپنی غیرجانبداری ثابت کرنے کیلئے ایسی حکمت عملی پرعمل کرناہوگاجس سے خطے میں امن کی راہیں ہموارہوسکیں۔بھارت کوطالبان کے ساتھ اپنے دیگرتمام پڑوسیوں کویقین دہانی کرواناہوگی کہ وہ خطے میں اپنی سابقہ دہشتگردی کی کاروائیوں کویکسرختم کرے گا۔

طالبان کی حکومت کو باضابطہ طورپرتسلیم کرنے کیلئے یقیناًوہ امریکااورمغرب کاانتظارکرے گاتاہم نئی دہلی کی کوشش ہوگی کہ طالبان سے بات چیت جاری رہے تاکہ مستقبل میں خطے میں اپناکھویاہوا معاملات کودرست کرنے میں زیادہ سے زیادہ مدد ملے۔ بھارت کواپنے تعمیری کردارسےافغانستان میں بنیادی ڈھانچے کومضبوط کرنے میں اہم کرداراداکرناہوگااگروہ پورے خطے کوایک لڑی میں پرونے والی تجارتی راہداریوں سے بھی جڑارہناچاہتاہے۔اس بنیاد پر طالبان سے تعلقات بہترہوسکتے ہیں مگربھارت کیلئےنئے افغانستان میں کسی نئے کردارکی راہ اسی صورت ہموارہوسکتی ہے جب وہ کشمیرکے معاملے میں اپنے غاصبانہ قبضے اورکشمیر میں جاری مظالم کوختم کرے۔حال ہی میں بھارت کاانسدادِدہشتگردی کے نام پرسرگرمیاں بڑھانے کیلئےمقبوضہ جموں وکشمیرکے علاوہ راجستھان اور پنجاب میں تعیناتیاں بڑھانے کیلئے بھارتی حکومت کا یہ عندیہ کہ دہشتگرد اب سرحدی علاقوں میں حملوں کیلئےڈرون استعمال کررہے ہیں اور بھارتی فوج کوبھی جدید ترین ڈرون مہیاکردیئے گئے ہیں،سے بھارت کی دوغلی پالیسی کاپتہ چلتاہے۔

قطرکی حکومت نے بتایاکہ جون میں بھارتی سفارت کارطالبان سے ملے تھے اورابتدائی نوعیت کی بات چیت ہوئی تھی تاکہ رابطے قائم کرنے کی راہ ہموارہو ۔ 31اگست کودوحہ میں بھارتی سفارت کاروں نے طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی تاکہ بدلی ہوئی صورتِ حال میں رابطے بڑھائے جاسکیں۔افغانستان میں اپنے مفادات کاتحفظ یقینی بنانے کیلئےبھارت کوتمام ہمسایہ ممالک سے مل کرکام کرناہوگا۔بھارت کوافغانستان میں تعمیرِنواورترقی کے عمل میں بھی اپنا واضح کرداریقینی بناناہوگا۔افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں شنگھائی تعاون تنظیم تیزی سے ابھرکرسامنے آئی ہے۔اس تنظیم میں چین، روس، پاکستان، ایران ،بھارت اوروسطِ ایشیاکی بیشترریاستیں شامل ہیں۔یہ گروپ اس بات کویقینی بنانے کی کوشش کررہاہے کہ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعدپورے خطے کیلئے سلامتی کے حوالے سے کوئی بڑابحران پیدانہ ہو۔بھارت اس پلیٹ فارم کوروس اورایران کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی بات چیت کیلئےبروئے کار لانے کی درپردہ کوشش بھی کررہااہے تاکہ افغانستان میں اُس کے مفادات کومستقل نوعیت کے خطرات لاحق نہ ہوں۔بھارت کویہ بھی ثابت کرناہوگاکہ وہ افغانستان کی حدودمیں طالبان کے خلاف کی جانے والی مسلح جدوجہدسے کنارہ کشی کرے کیونکہ مضبوط زمینی حقائق سے پتہ چلتاہے کہ فی الحال کسی بھی گروپ یاتنظیم میں اتنادم نہیں کہ طالبان کے قدم اکھاڑسکے اوراگربھارت اپنی موجودہ منافقانہ پالیسیوں پرقائم رہااوران گروہوں کی مددبازنہ آیاجوافغانستان میں خانہ جنگی کاماحول پیدا کرنے کی کوششیں کررہی ہیں تواس کے نتیجے میں طالبان واضح طورپربھارت کومتنبہ کرچکاہے۔

طالبان سے ایران کے تعلقات کھٹے میٹھے رہے ہیں۔ایران کاشکوہ ہے کہ طالبان کے دورمیں شیعہ افرادپرمشتمل ہزارہ کمیونٹی سے اچھا سلوک روانہیں رکھاگیا جبکہ خوایران بھی داعش کے خلاف طالبان کی بروقت کاروائی پراطمکینان کااظہارکرچکاہےاوریہ اس بات کااعتراف ہے کہ طالبان اس مشکل حالات میں کئی محاذوں پربرسرپیکارہیں۔روس کی ساری توجہ اس بات پرہے کہ خطے کیلئےسلامتی کے حوالے سے کوئی بڑابحران پیدانہ ہواورطالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعدجہاں مطمئن دکھائی دے رہاہے وہاں اپنے ہاں انقلابی نظریات رکھنے والی تنظیموں پرکڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے تاکہ وسطِ ایشیاکی ریاستوں تک ان کے اثرات نہ پھیلیں۔ یہ ریاستیں روس کیلئےبنیادی دائرۂ اثرکادرجہ رکھتی ہیں۔

تاجکستان واحدملک ہے جس نے عبوری حکومت میں تاجک برادری کے لوگوں کوشامل نہ کیے جانے کی مذمت کی ہے اورتاجکستان ہی کے بارے میں یہ گمان بھی پایاجاتاہے کہ وہ طالبان مخالف مزاحمتی تحریک کی حمایت ومددکرسکتاہے یاکرے گالیکن طالبان نے بروقت اس خدشے کوقبل ازوقت قراردیتے ہوئے تاجک برادری کومستقل حکومت میں ساتھ رکھنے کاعندیہ دیاہے جس کے بعدایسے تمام خدشات کے غباروں سے ہوانکل گئی ہے۔مودی جنتاکوذہن نشین کرناہوگاکہ خطے میں امن کیلئے خوشحال افغانستان کی اشدضرورت ہے۔بھارت کواس خطے میں مسقبل میں مستقل تنہائی سے بچنے کیلئے اپنے ہاں کی تمام متشدد جماعتوں اورزرخریدبھارتی میڈیاکولگام دیناہوگی وگرنہ بھارت نوشتہ دیوارپرلکھے گئے فیصلے کوبدل نہیں سکتااوراس وقت بہت دیرہوچکی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں