میں کس منہ سے اس بزرگ سید صاحب کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے ہمیں ایک دفعہ پھربھولا ہوا سبق یاد دلادیا۔جب بھی دل بہت بے چین ہوتا ہے توفوری طور پران سے فون پررابطہ کرتاہوں اورہمیشہ کی طرح دانش وحکمت کے ایسے موتی جھڑتے ہیں کہ روح تک سرشارہوجاتی ہے لیکن کیاکروں ہرمرتبہ تنگ دامنی کامعاملہ آن کھڑاہوتاہے۔
ایک عرصے کے بعد پھوٹتی سحر اچھی لگی ،صبح نور کی تازگی دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی،رغبت سے کھانا کھایااور سجدہ شکر ادا کیا۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ روح کا سارا آلام دھل گیا ہے اور روٹھے ہوئے الفاظ ایک دفعہ پھر ایک قطار میں مسکراتے کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں،پھر سے ہمدم،ہمدرد اور غمگسار،بڑھ کر گلے ملنے کیلئے متمنی،جونہی میرے قلم نے محبت سے بازو پھیلائے فوراًبغیر کسی تاخیر کے سینے میں اتر گئے!
یہ سب ایک بوڑھے،بیمار و علیل اور ایک سفید ریش کے حامل بزرگ کی وجہ سے ہوا جن سے ملاقات کی آرزو برسوں سے دل کو بے چین کئے ہوئے ہے۔میں نہیں جانتا کب یہ دل کی مراد بر آئے گی اور نہ ہی اس بات سے واقف ہوں کہ کبھی ان کو دیکھ بھی سکوں گا کہ نہیں۔سید علی گیلانی جنہوں نے اپنی زندگی کے بیشتر قیمتی سال بھارتی مکار ہندو بنئے کی بنائی ہوئی جیلوں میں گزار دیئے،جس کی اولاد پر بھی زندگی تنگ کر دی گئی۔کم از کم پانچ مرتبہ جس کے مکان پر راکٹ برسائے گئے،جسے خلقِ خدا کے قلب و دماغ سے اتارنے کی ان گنت سازشیں کی گئیں لیکن وہ اتنا ہی زیادہ قلب و روح کی جان بنتا جا رہا ہے۔جسے تھکا ڈالنے ،دھمکانے اور خریدنے کا ہر حربہ آزمایا گیا لیکن وہ ہر دفعہ تازہ دم،کسی خوف سے عاری اور کسی بھی خطرے کی پرواہ کئے بغیر مایوسی کو دھتکارتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے………..اور آج وہ اسی مظلوم شہر سرینگر میںایک عرصے سے اپنے گھرمیں نظربندہے جہاں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے اس بزرگ سے اس قدرخوفزدہ ہیں کہ نہ تواسے مسجدمیں نمازِ جمعہ پڑھنے کی اجازت ہے ،نہ ہی وہ اپنے کسی عزیزیاہمدم کے ہاں کسی بھی خوشی یاغمی میں شریک ہوسکتاہے ، گویا اسے کشمیریوں سے دوررکھنے کی ایک سازش پرعمل ہورہاہے لیکن اس تمام آلام ومصائب کے باوجود وہ اس شان اورعزم صمیم سے کھڑا ہے کہ عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے اوراس کی ایک اپیل پرسارے کشمیرکے مردوزن اورجوان دیوانہ وارگولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونااپناایمانی فرض سمجھتے ہیں۔
دوسروں کا ذکر ہی کیا،ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مقبوضہ کشمیر کی جماعت اسلامی نے بھی اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور حریت کانفرنس سے مطالبہ کیا گیا کہ اس کو الگ کرکے جماعت کے کسی اور لیڈر کو نمائندگی کا اختیاردیا جائے۔کمالِ جرأت لیکن نہائت صبروتحمل کے ساتھ وہ اپنی راہ پر گامزن رہا۔سرینگر کے ایک مزدور کا بیٹاجس نے اپنی بھرپور جوانی میں اپنے لئے ایک راہ چن لی تھی اور پھر عمر بھر ناک کی سیدھ میں اس راہ پر چلتا رہا اور کبھی کسی موقع پر اس کے قدم نہیں ڈگمگائے،جسے دیکھ کر توحیرت ہوتی ہے،جس کے بارے میں سنو تو دل سے بے اختیار اس کی درازیٔ عمر کی دعا ئیں نکلتی ہیں اور غور کرو تو ”اھدناالصراط المستقیم”کا مفہوم سمجھ میں آنے لگتا ہے۔عمر بھر اس نے جھوٹ اورفریب کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور عمر بھر اس کو کوئی مشتعل بھی نہیں کر سکا۔
وہ جانتا ہے کہ راہ کٹھن بھی ہے اور طویل بھی ،لیکن وہ پھر بھی اپنی ترجیحات اور مقاصد پر یکسو ہے۔وہ راز اس پر آشکار ہے کہ جس سے مسلم دنیا کے اکثر رہنما بے خبر ہیں کہ عرصہ گیر امتحان میں اصل اہمیت کامیابی اور ناکامی کی نہیں،حسنِ نیت اور حسنِ عمل کی ہوتی ہے۔آدمی نتائج کا نہیں جدوجہد کا مکلف ہے،نتیجہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پہلے تو و ہ خود اپنی پارٹی قیادت کے خلاف صف آراء ہوا ،جدجہد کے طویل برس اور ان گنت قربانیاں بھی اسے تھکانے میںناکام رہیں ۔پارٹی کے کارکنوں کو آواز دی جو ہمیشہ کی طرح اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ زندگی کی کتاب میں جاہ پسندی، ریا اور مفاد کا کوئی باب نہیں۔اپنا سارا اخلاقی دباؤڈال کر اس نے جماعت کی قیادت کو بدل ڈالا،پھر وہ حریت کانفرنس کی مصلحت کا شکار ہونے والی قیادت کے خلاف اٹھا…..ایک آدمی ،متعدد لیڈروں اور گروہوں کے خلاف جو پاکستان کو بھول کر بھارت سے مذاکرات پر آمادہ ہیں،جانتے کہ کن لوگوں نے انہیں آمادہ کیا تھا۔
اندلس کا جلیل القدر حکمران درباریوں کے ساتھ نو تعمیر محل میں نمودار ہوا جس میں سونے کا قبہ جگمگا رہا تھا ۔جب دوسرے داد دے چکے تو قاضی سعید کی طرف متوجہ ہوا”بادشاہ تم پر شیطان سوار ہے”قاضی نے کہا کہ”سونے سے عمارتیں نہیں بنائی جاتی”آسمان اور زمین کے درمیان ایک سناٹا تھا اور دل تھے جو خوف اور اندیشوں سے دھڑک رہے تھے۔جب بادشاہ کی آواز ابھری’’سعید کو لوگ بے سبب ہسپانیہ کا ضمیر نہیں کہتے’قبہ گرادیا جائے‘‘۔!
کبھی کبھی ایک تنہا آدمی اٹھتا ہے اور منظر کو بدل ڈالتاہے۔علی گیلانی فرشتہ نہیں ہے۔چندلمحوں کیلئے مان لیتے ہیں کہ اس کے اپنے تعصبات ہو سکتے ہیں اور ناقص فیصلے بھی،اس کی ہر رائے اور ہر اقدام سے اتفاق ضروری نہیں،نہ اس سے اختلاف کرنے والوں کی نیت پر شبہ کرنے کا کوئی جواز ہے،ہوسکتا ہے ان کی عقلیں وہی کہتی ہوں جس پر وہ عمل پیرا ہیں؟ دنیا کے بدلے ہوئے ناسازگار حالات اور پہاڑ جیسی رکاوٹیں،لیکن علی گیلانی ان سے مختلف ہے۔وہ ایک صاحبِ یقین ہے اور صاحبِ یقین کبھی مرجھاتااور مایوس نہیں ہوتا۔وہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور ایک برتر مقصد کیلئے ہر چیز کو تیاگ دیتا ہے ۔معاشروں کو ایسے لوگ انعام کے طور پر عطا کئے جاتے ہیں اور کوئی الٹا لٹک جائے ان کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتا۔ایسے لوگوں کو جیسا کہ اس نادر روزگارنے کہا تھا کہ ،خود ان کے سوا کوئی شکست نہیں دے سکتا۔اگر کوئی وہ خود ہی حماقت کر بیٹھیں،اگر خلق کی بے پناہ محبت کو اپنا ہنر گرداننے لگیں۔
سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس کی درماندہ قیادت اور اس کے عقب میں سازشیں کرنے والے بھارتیوں اور شاطر امریکیوں کوبالآخرشکست سے دوچارکردیاہے۔جب استعمار سارازور کشمیریوں کو تنہا کرنے کیلئے صرف کررہا ہے،جب پاکستانی حکومت بھی تھک چکی ہے اور دیگرادارے بھی راستہ بھول چکے ہیں۔سناہے کہ کشمیریوں کی حلیف جماعت اسلامی پاکستان نے بھی حزب المجاہدین کو بتا دیا ہے کہ وہ اب مزید جماعت کے دفاتر اور وسائل استعمال نہ کرے………. محترم منور حسن صاحب پاکستانی عوام کے جمہوری حقوق کی جنگ لڑنے پرتو آمادہ ہیں،پاکستانی طالبان پرہونے والے حملوں کوزیادتی قراردیتے ہوئے ”گو امریکاگو” کی تحریک میں دن رات صرف کر دیئے ہیں لیکن کشمیر کے معاملے پر وہ احتجاج سامنےنہیں آیا جس
کی توقع تھی اورنہ ہی ان کاکوئی تازہ ارشادسامنے آیاکہ کشمیری اب اس قیامت جیسی تبدیلی پردل تھام کربیٹھے ہیں۔
جب سابقہ دورِ حکومت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی ایماء پرکشمیر کی بندربانٹ کرنے کیلئے ایک کشمیری لیڈر کے ساتھ سازباز شروع
کر تے ہوئے خصوصی طور پر واشنگٹن میں آصف زرداری کے ساتھ اس کشمیری لیڈرکی ملاقات بھی کروائی تھی تو یہ مردِ مجاہد سیدگیلانی ہی تھے جنہوں نے بروقت اس سازش کی دہائی دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کی مددسے اس مذموم منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔چنددن پہلے ٹیلیفون پرمیری جب ان کی صحت کے بارے میں گفتگوہوئی توایک دفعہ پھر سید علی گیلانی نے پاکستانی حکمرانوں کو بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ممبئی میں دہشت گردی کا شور مچانے والا بھارت اب بلوچستان ، سرحد، کراچی اور پاکستان کے دیگر دوسرے بڑے شہروں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلسل دہشتگردی کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک مستقل سنگین خطرات پیدا کر رہا ہے اور پاکستانی حکومت ان کے ساتھ دوستی کیلئے مرتی جا رہی ہے۔میں ان کی آواز کاکرب بڑی شدت اورندامت کے ساتھ محسوس کررہاتھا۔
سید علی گیلانی کو میرا،ایک عام پاکستانی کا سلام پہنچے ۔انہوں نے ہماری ساری مایوسی دھو ڈالی ہے ۔ہمارے لئے انہوں نے ایک تابہ فلک ایک مشعل فروزاں کر دی ہے اور ہمیں یاد دلایا ہے کہ انسانیت کا مستقبل ابلیس اور مایوسی پھیلانے والے اس کے کارندوں کے پاس نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ جو امید کا رب ہے اور جس کی کتاب برملا یہ کہتی ہے کہ……”الیس اللہ بکاف عبدۂ”(کیا اللہ اپنے بندوں کیلئے کافی نہیں)۔ پچھلے ہفتے ایک خصوصی ملاقات میں انسانی بنیادی حقوق پرنگاہ رکھنے والی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل،واچ ڈاگ،ہیومن رائٹس انٹرنیشنل، اینٹی سلیوری انٹرنیشنل اورگلوبل رائٹس کوآپ پرہونے والی زیادتیوں سے جب آگاہ کیاتو معلوم ہواکہ یہ تمام ادارے بھی آپ کے انسانی حقوق اور دیگرحقوق تلفی کانہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ آپ کی ثابت قدمی پربھی نازاں ہیں اور ایک بارپھرآپ کے حقوق کی بازیابی کیلئے سرگرم ہونے کایقین دلایاہے۔ جناب سید صاحب!آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں بھولا ہوا سبق یاددلادیا!
رہے نام میرے رب کا جس نے ظالم کی رسی ڈھیلی کر رکھی ہے تاکہ اس کو بدترین انجام تک پہنچایا جا سکے!
Load/Hide Comments