فلسطینی نژاد ڈاکٹرخالدکے مسلسل اصرارکے بعدجب اس کے گھرپہنچاتوعجیب ایک روحانی اوررومانوی مناظرنے مجھے مسحور کردیا۔یوں محسوس ہواکہ کمرے کی تمام دیواروں پرشہداءکے متعلق قرآنی کیلیگرافی کی شاہکارتصاویرمیرامحاسبہ کررہی ہیں ۔خالدعرصہ درازسے لندن میں مقیم ہے۔10سال کے بعدپہلی مرتبہ اس کی اہلیہ اورتین بچے جونہی غزہ پہنچے تودودن کے بعد غزہ،جنگ کے شعلوں میں بے دریغ انسانوں کی مقتل گاہ بن گیااورڈاکٹر خالد آج تنہابڑے تفاخرسےاپنے میزپرپڑی تصاویرالبم کے ہرصٖفحے پر مسکراتے شہداچہروں کا تعارف کراتے ہوئے کہتاہے کہ یہ سب اکٹھے اللہ کے ہاں رزق پارہے ہیں اورمیراانتظارکر رہے ہیں۔اور (اے مخاطب) جو لوگ الله کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ مت خیال کر، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے ۔وہ خوش ہیں اس چیز سے جو اُن کو الله تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔‘‘(آل عمران:169-170)
اپنے بڑے بیٹے اوربیٹی کی تصویرکودیکھ کراپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے اورکپکپاتے ہونٹوں سے گویا ہواکہ یہ میرے رب کی امانت تھے،اسی کولوٹادیاہے اوریقیناً میری راہِ آخرت کے کانٹے ہٹانے کاکام کررہے ہیں ۔
غزہ میں حالیہ جنگ بندی کاذکراوروہاں کے مکینوں کی واپسی کاموضوع شروع ہواتودل تھامنامشکل ہوگیا۔خالدنے ٹی وی اسکرین پرکچھ تازہ ویڈیوکلپ چلانے شروع کردیئے جس میں غزہ کے ملبوں کے ڈھیروں پرلوگ دیوانہ واراپنوں کوڈھونڈرہے ہیں۔کہیں کسی بچے کارنگ برنگاسکول بیگ پڑاہے، کہیں جوتا،کہیں لوے کاگلدان،کہیں بیڈیاکرسی کے ٹکڑے،کہیں ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں، کہیں پانی کے گلاس کے ٹکڑے اورکہیں کٹے پھٹے کپڑے اور کہیں انسانی اعضاء بکھرے پڑے ہیں۔ہاں تمام چیزیں گڈمڈ نظرآتی ہیں۔
یہ مٹی سے اٹی ہوئی اشیاغزہ میں اکثر”پیاروں کی نشانیوں”کے طورپردیکھی جارہی ہیں اورانہیں دیکھ کراندازہ لگایاجاتاہے کہ یہ چیزیں جن افرادکے زیرِ استعمال تھیں اُن کی لاشیں کہیں قریب ہی ملبے تلے دبی ہوسکتی ہیں۔قابض اسرائیلی فورسزکے رفح سے دفع ہونے کے بعدسینکڑوں لاشیں گھروں کے ملبے تلے دبی ہوئی ملی ہیں۔فلسطینی حکامِ صحت کااندازہ ہے کہ وہاں 10ہزارلوگ تاحال لاپتاہیں۔ایمرجنسی ٹیمیوں کواکثرکپڑے یادیگراشیادیکھ کر ملبے تلے لاشوں کی موجودگی کاعلم ہوتاہے اورجب یہ نشانیاں نظر نہیں آتیں توپھرلاپتاافرادکے رشتہ داروں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں یاپھرملبے کے پاس خون اورانسانی باقیات کی بُو سونگھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسرائیلی حکومت نے تمام خبررساں غیرملکی اداروں کے غزہ میں داخلے اور آزادانہ رپورٹنگ کرنے پرپابندی عائدکررکھی ہے۔ایسے میں لاپتاافرادکوڈھونڈنے والے لوگوں کی کہانیاں دنیاتک پہنچانے کیلئےڈاکٹرخالدسے زیادہ مستند سہاراکہاں سے لاؤں۔
غزہ اوراسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ کے بعدجومناظرسامنے آئے،وہ دل دہلادینے والے اورانسانی ضمیرکوجھنجھوڑنے والے ہیں۔جنگ کے دوران ہونے والے جانی ومالی نقصانات کے بعد،غزہ کے مکینوں کی اپنے گھروں کوواپسی کامنظرنہایت تکلیف دہ تھا۔اجڑے ہوئے مکان،ملبے کے ڈھیر،اور پیاروں کی ناقابل شناخت لاشیں غزہ کے باسیوں کیلئےایک ایسی حقیقت بن چکی ہیں جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔غزہ کی گلیاں اورمحلے اس وقت ایک کھنڈرکی صورت اختیارکرچکے ہیں۔جب لوگ جنگ بندی کے بعداپنے گھروں کو واپس لوٹے توانہیں ایسی تباہی کا سامناکرناپڑاجوانسانی تصورسے بالاترتھی۔کئی خاندان اپنے پیاروں کوکھوچکے ہیں،اورکچھ تواپنے پیاروں کی لاشوں کوبھی شناخت کرنے سے قاصرہیں۔ ایسے مناظر، جہاں بھوکے کتوں کوانسانی لاشوں کوکھاتے دیکھاگیا،انسانیت کی بے بسی اورظلم کی انتہاکی عکاسی کرتے ہیں۔
مقامی افرادبہت محتاط اندازمیں ملبے ہٹا رہے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اس مٹی اورپتھروں کے ڈھیرکے نیچے وہ”انسانیت کے پرخچے”ڈھونڈرہے ہیں ۔اکثرانہیں ملبے کے نیچے سے ہڈیوں کے ڈھیرکے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے یہاں اکثرشہداءکے جسم بھی متعدد ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے تھے۔یہاں ملنے والی ہڈیوں اورکپڑوں کے ٹکڑوں کوکفن میں لپیٹ کررکھا جاتاہے اورایک سفیدریش بزرگ ان کفن نماتھیلوں پر”ناقابلِ شناخت ” کالیبل لگارہے ہیں۔
غزہ کے ایک رہائشی جنگ بندی کے بعدجب اپنے گھرلوٹے توانہیں اندرایک ڈھانچہ ملاجس کی کھوپڑی ٹوٹی ہوئی تھی۔ان کے خیال میں یہ لاش وہاں تقریباً6مہینوں سے پڑی ہوئی تھی۔لاش کودیکھ کرپھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہہ رہاہے کہ”ہم انسان ہیں اورجذبات رکھتے ہیں۔میں آپ کوبتا نہیں سکتاکہ یہ کتنابے بس کردینے والاالمیہ ہے۔یہ لاشیں خوفناک ہیں،ہم دہشت کواپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔میں قسم کھاکرکہتاہوں کہ یہ ایک دردناک احساس ہے اورمیں اس سب کومحسوس کرکے اس لئے روتاہوں کہ مجھے ان کے ساتھ گزرے ہوئے زندگی کے50سال یادآرہے ہیں اوریہ تمام نوخیزکلیاں بہارآنے سے پہلے مسل دی گئیں”۔
رفح کے ہسپتالوں میں بھی لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جواکثراپنے اہلخانہ کی لاشوں کی باقیات وصول کرنے آتے ہیں۔ جنوبی غزہ کے یورپین ہسپتال کے صحن میں کپڑوں کے تھیلوں میں ہڈیوں کامجموعہ اورکپڑے رکھے ہوئے ہیں۔19سالہ عبدالسلام رفح کے رہائشی تھے۔اُن کے چچاذکی کے مطابق وہ شبوراکے علاقے میں لاپتہ ہوئے تھے اوریہ وہ مقام تھا جہاں دورانِ جنگ زندہ بچنابہت مشکل تھا۔اسی لیے ہم عبدالسلام کووہاں ڈھونڈنے نہیں گئے کیونکہ پھروہاں سے ہم زندہ واپس نہیں آسکتے تھے۔ان کے سامنے پڑی ہڈیاں اورکپڑے لاپتہ ہونے والے عبدالسلام کے ہیں۔وہ یہاں ہسپتال کے ایک کارکن کے ساتھ کھڑے عبدالسلام کے بھائی کاانتظارکررہے ہیں۔ہمیں99فیصدیقین ہے کہ یہ لاش عبدالسلام کی ہی ہے لیکن ہم پھربھی حتمی تصدیق کیلئےان کے بھائی کے منتظرہیں کیونکہ وہ ان کے سب سے قریبی عزیزہیں اوروہ حتمی طورپربتاسکیں گے کہ یہ جوتے اور پینٹ ان کے بھائی کے ہیں” ۔
پھرجنوبی غزہ میں ہی واقع پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں رہائش پزیرعبدالسلام کے بھائی ہسپتال پہنچ گئے۔ان کے موبائل میں اپنے لاپتہ بھائی کی ایک تصویرتھی جس میں ان کے جوتے بھی نظرآرہے تھے۔وہ وہاں موجودلاش کے سامنے جھک گئے اور اس پرسے پردہ ہٹایا۔انہوں نے کھوپڑی اور کپڑوں کوچھوااورپھرجوتوں کودیکھا۔ان کی آنکھوں میں آنسوتھے اور بھائی کے جوتوں کو بوسہ دیتے ہی ایک اورلاش کاشناختی عمل مکمل ہوچکاتھا۔یہاں ہی موجودایک اورخاندان کفن نماتھیلوں کوٹٹول رہاتھا۔ان میں ایک بوڑھی دادی تھیں،ایک بیٹاتھا ، ایک بیٹی تھی اورایک شیرخواربچہ،باقی خاندان کے دودرجن افراکےآنکھوں کے سامنے پرخچے اڑتے ہوئے دیکھ کرضعیف وناتواں دادی ان بچوں کے ساتھ کھڑی آسمان کی طرف منہ کرکے نجانے کیا باتیں کررہی تھی ۔اس گروہ میں بچے کوسب سے پیچھے رکھا گیاتھااوربزرگ خاتون اوران کاپوتاایک کفن نماتھیلے کودیکھ رہے تھے۔وہ اس تھیلے کوکچھ لمحوں تک دیکھتے رہے اورپھردکھ میں ایک دوسرے کے گلے لگ کررونے لگے۔اس کے بعدہسپتال کے کارکنان کی مدد سے یہ خاندان ایک لاش کی باقیات اپنے ساتھ لے گیا۔ان سب کی سسکیاں سُنی جاسکتی تھیں لیکن وہ باآوازبلندنہیں رورہے تھے۔
13سالہ آیاالدبیح غزہ کے شمال میں اپنے خاندان اوردیگر ہزاروں پناہ گزینوں کے ساتھ ایک سکول میں رہائش پذیرتھی۔وہ اپنے والدین کے نوبچوں میں سے ایک تھی۔اس کے خاندان کے مطابق غزہ میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں آیاسکول کی اوپری منزل پر بنے باتھ روم گئی اوراسے ایک اسرائیلی سنائپرنے سینے پرگولی ماردی۔تاہم اقوامِ متحدہ کے دفتربرائے انسانی حقوق کے مطابق جنگ کے دوران”اسرائیلی فوج کی جانب سے گنجان آبادعلاقوں میں شدیدفائرنگ کی جاتی تھی جس کے نتیجے میں یہاں غیر قانونی ہلاکتیں ہوتی تھی جس میں غیرمسلح راہگیر بھی شامل ہوتے تھے”۔
آیاکے خاندان نے اسے اسکول کے پاس ہی دفنادیا۔اس کی43سالہ والدہ لیناالدبیح نے اسے ایک کمبل میں لپیٹ دیاتھاتاکہ اگراس کی قبرکے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑکرے تواس کی لاش” بارش اورسورج کی روشنی سے محفوظ رہ سکے”۔جب اسرائیلی فوج نے سکول کاکنٹرول سنبھالاتولیناالدبیع وہاں سے غزہ کے جنوبی علاقے میں منتقل ہوگئیں۔ان کے پاس اپنی بیٹی کی قبر سے دورجانے کے علاوہ کوئی اورراستہ بھی نہیں تھا،تاہم ان کویہ امیدتھی کہ وہ بعد میں یہاں دوبارہ آکراپنی بیٹی کی باقیات کودوبارہ ڈھونڈیں گی اور باقاعدہ ان کے کفن دفن کاانتظام کریں گی۔لینا الدبیع اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:آیاایک بہت مہربان لڑکی تھی،ہرکوئی اس سے محبت کرتاتھااور وہ سب سے محبت کرتی تھی۔وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی اور ہمیشہ سب کابھلاچاہتی تھی”۔جب اس علاقے میں جنگ بندی ہوئی تولیناالدبیع وہاں موجوداپنے رشتہ داروں کواپنی بیٹی کی قبردیکھنے کوکہااوروہاں سے انہیں جوخبرملی وہ دِل دہلادینے والی تھی۔
“ہمیں بتایاگیاکہ اس کاسرکہیں اورہے،دھڑکہیں دوسری جگہ اورپسلیاں کہیں اور۔ جو عزیزاس کی قبردیکھنے گئے تھے انہوں نے ہمیں یہ سب چیزیں تصویروں میں دکھائیں۔ جب میں نے اسے دیکھاتومیں سمجھ ہی نہیں پائی کہ اس کاجسم قبرسے کیسے باہرآیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھالیا؟میں اپنے حواس پرقابو نہیں پاسکی”۔لیناالبدیح کے خاندان والوں نے ان کی بیٹی کی ہڈیاں سمیٹ لی ہیں اوراب آیاکی باقیات کوباقاعدہ ایک قبرمیں دفن کیاجائے گا۔غزہ میں جنگ بندی توہوگئی ہے لیکن لیناالبدیح کے دکھ کاکوئی اختتام نہیں نظرآتا۔ان کاکہناہے کہ:میں اس کی لاش کوقبرسے نکال کراپنے ساتھ نہیں لے جاسکتی تھی۔بتاؤمیں اُسے کہاں لے کرجاتی؟”
تاہم اس حقیقت کوتسلیم کرناپڑرہاہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے یہ لاشیں یہاں پڑی ہوئی ہیں لیکن سال سے زائدبے گوروکفن لاشوں کی سڑاندکی بدبوکی بجائے یہاں ایک عجیب قسم کی خوشبو دل وجاں کومعطرکررہی ہے۔یہ شہداء سے رب کاوعدہ پوراہوگیاہے۔یہ سب کچھ نہ صرف غزہ کےعوام بلکہ پوری انسانیت کیلئےایک کرب ناک منظرپیش کرتاہے۔بے گھرافراد، یتیم بچے،اورزخمی معذورافرادان مظالم کاجیتاجاگتا ثبوت ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان مظلوموں کوانصاف کب ملے گا؟
اس جنگ کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھنے میں آئیں۔نہتے عوام پربمباری،طبی مراکزاوراسکولوں کی تباہی،اورمعصوم بچوں کی ہلاکتیں ان مظالم کامحض ایک حصہ ہیں ۔انسانی حقوق کے علمبرداروں اورعالمی برادری کی خاموشی نے مزیدسوالات کو جنم دیا ہے۔اقوامِ متحدہ،یورپی یونین اوردیگربین الاقوامی ادارے اس جنگ کے دوران غزہ کے عوام کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔یہ خاموشی مظلوموں کی تکالیف میں اضافے کاباعث بنی اورجنگ کے بعدکے حالات نے ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا۔
اس انسانی المیے کے پیچھے براہ راست اوربالواسطہ کئی عناصرذمہ دارہیں۔سب سے پہلے،ان ظالم عناصرکودیکھناہوگاجواس تباہی کے ذمہ دارہیں۔ جدید ترین اسلحے کے استعمال،شہری آبادیوں پرحملوں،اورمعصوم جانوں کے قتل میں ملوث افراداورریاستیں انصاف کے کٹہرے میں لائی جانی چاہئیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی طاقتورممالک،جوخودکو انسانی حقوق کے محافظ کہتے ہیں،درپردہ ان مظالم کے مرتکب افرادکو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
یہ ممالک نہ صرف غزہ کے عوام کے خلاف ہونے والے جرائم پرخاموش رہتے ہیں بلکہ ظالم قوتوں کومالی اورعسکری مدد فراہم کرتے ہیں۔ان کی اسلحہ سپلائی اورسیاسی حمایت نہ صرف ان مظالم کوجاری رکھنے کاسبب بنتی ہے بلکہ انصاف کے قیام میں بھی رکاوٹ پیداکرتی ہے۔خودکودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والاانڈیاتواس سفاکی میں برابرکاشریک رہاکہ اس نے باقاعدہ اپنے لوگوں کواسرائیلی فوج میں کرائے کے سپاہیوں کے طورپربھیجاجنہوں نے اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی عورتوں، بزرگوں اوربچوں کوہولناک طریقے سے مارنے میں پوراحصہ لیا۔یہ رویہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کومزیدہوادیتا ہے اورمظلوموں کے زخموں کوگہراکرتاہے۔
غزہ کے ملبے کوہٹانااوردوبارہ آبادکاری ایک بڑاچیلنج ہے،جس کیلئےماہرین نے مختلف پہلوؤں پرزوردیاہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ ملبے کوہٹانے کے دوران ماحولیاتی اثرات کاخاص خیال رکھناہوگا۔ملبے میں موجود خطرناک مواد،جیسے ایسبیسٹوس اوردیگر زہریلے اجزاء،کومحفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا ضروری ہے تاکہ عوام کی صحت پرمنفی اثرات نہ پڑیں۔تعمیرنوکے عمل میں مقامی مواداورکاریگروں کااستعمال نہ صرف اقتصادی طورپرفائدہ مندہوگا بلکہ اس سے روزگارکے مواقع بھی پیداہوں گے۔
ماہرین کے مطابق غزہ کی مکمل بحالی کیلئےاربوں ڈالرزدرکارہوں گے۔50ہزارملین ٹن سے زائدملبہ ہٹانے کیلئےکئی دہائیوں کا وقت لگ سکتاہے۔اقوامِ متحدہ اوردیگربین الاقوامی امدادی ادارے اس حوالے سے اہم کرداراداکرسکتے ہیں لیکن ان کے موجودہ رویے سے امیدکم ہے۔عالمی مالیاتی ادارے اورمسلم ممالک کواس بحران کے حل کیلئےخصوصی فنڈقائم کرناہوگا۔
جنگ کے متاثرین کی نفسیاتی بحالی بھی تعمیرنوکااہم حصہ ہے۔ماہرین تجویزکرتے ہیں کہ ایسے مراکزقائم کیے جائیں جہاں متاثرین کونفسیاتی معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کودوبارہ معمول پرلاسکیں۔جنگ کے نتیجے میں تمام اسکول اور ہسپتال تباہ ہوچکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم اورصحت کی بحالی کیلئےہنگامی بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔موبائل اسکول اور عارضی طبی مراکزکاقیام اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ماہرین کامانناہے کہ تعمیرنو کاعمل محض عمارتیں کھڑی کرنے تک محدودنہیں ہوناچاہیے بلکہ اسے ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت کیاجاناچاہیے،جس میں تعلیم،صحت اور معیشت کی بحالی شامل ہو۔
غزہ کے عوام کیلئےانصاف کی فراہمی ایک مشکل لیکن ضروری عمل ہے۔جنگ کے دوران ہونے والے جرائم کی تحقیقات اور ذمہ داران کوکٹہرے میں لانا انتہائی اہم ہے۔جنگی جرائم کے مرتکب افرادکوانصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئےعالمی سطح پرایک مضبوط اورغیر جانبدارنظام کی ضرورت ہے لیکن یہ عمل کئی چیلنجزسے گھراہواہے۔طاقتورممالک کے سیاسی مفادات،اقوامِ متحدہ کی کمزورحیثیت،اورانصاف کے عمل میں سست روی جیسے عوامل انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ان مظالم کی روک تھام اورغزہ کے عوام کو ایک محفوظ مستقبل دینے کیلئےہمیں درج ذیل اقدامات پر غور کرنا ہو گا۔
٭پہلا کام عالمی برادری اس بات کویقینی بنائے کہ جنگ کے دوران ہونے والے مظالم کی شفاف تحقیقات ہوں اورجنگی جرائم کے مرتکب افرادکوسزا دی جائے۔یہ اقوامِ متحدہ اوردیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کے عمل کویقینی بنائیں۔
٭دوسراکام جنگ کے بعدغزہ کی تعمیرِنواورمتاثرین کی بحالی کیلئےعالمی سطح پرہنگامی بنیادوں پرامدادی سرگرمیوں کاآغازہونا چاہیے۔بے گھرافرادکو رہائش فراہم کی جائے،اورصحت،تعلیم، اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
٭اس جنگ کابنیادی مسئلہ فلسطین اوراسرائیل کے درمیان جاری تنازع ہے۔جب تک اس تنازع کومستقل طورپرحل نہیں کیاجاتا،جنگ اورخونریزی کایہ سلسلہ جاری رہے گا۔
٭عالمی رہنماؤں کواس مسئلے کے پائیدارحل کیلئےسنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔دنیابھر کے عوام کوغزہ میں ہونے والے مظالم کے بارے میں شعوردیناضروری ہے۔
٭میڈیاکواپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان مظالم کودنیا کے سامنے لاناہوگاتاکہ عوامی دباؤعالمی برادری کوحرکت میں لاسکے۔مسلم دنیاکومتحدہو کر فلسطین کے مسئلے کوعالمی سطح پراجاگرکرناہوگا۔یہ اتحادنہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی اورسفارتی سطح پربھی ضروری ہے تاکہ عالمی برادری کواس مسئلے کے حل کی طرف راغب کیاجاسکے۔
٭غزہ کے عوام کی حالت زاراورجنگ کے بعدکے مناظرہمیں انسانی حقوق،انصاف،اورعالمی ضمیرکے حوالے سے کئی سوالات پر غورکرنے کی دعوت دیتے ہیں۔یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اس ناانصافی کے خلاف متحدہواورایک مضبوط اورمؤثرلائحہ عمل اختیارکرے تاکہ مستقبل میں ایسے مظالم کی روک تھام ہوسکے۔
٭انصاف کی فراہمی صرف ایک اخلاقی ضرورت نہیں بلکہ انسانی وقاراورامن کے قیام کی بنیادہے۔جب تک غزہ کے مظلوموں کوانصاف نہیں ملتا، عالمی امن کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ہمیں مل کران مظالم کے خاتمے کیلئےجدوجہدکرنی ہوگی تاکہ آنے والی نسلیں ایک پرامن اورمحفوظ دنیا میں جی سکیں۔