وائٹ ہاؤس میں واپسی سے صرف چندہفتے قبل ٹرمپ نے ڈنمارک کے زیرکنٹرول جزیرے گرین لینڈاورپاناماکینال کی ملکیت حاصل کرنے کیلئےفوجی مداخلت کے امکان کے بارے میں بات کر کے اقوامِ عالم کوبے چین کردیا۔ٹرمپ نے ان دونوں علاقوں کو امریکاکی اقتصادی سلامتی کیلئےانتہائی اہم قراردیاہے۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ ٹرمپ نے یہ بھی کہاکہ وہ کینیڈاکوامریکامیں شامل کرنے کیلئےمعاشی دباؤاستعمال کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔
ٹرمپ نے2019ءمیں اپنے پہلے دورِصدارت میں ڈنمارک کے ایک خودمختاراوردنیاکے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈکو خریدنے کااظہارکیاتھا لیکن اب انہوں نے قصرسفیدمیں قدم رکھنے سے پہلے ہی ایک قدم بڑھاتے ہوئے گرین لینڈپرکنٹرول حاصل کرنے کیلئےامریکاکی اقتصادی طاقت یافوجی استعمال کرنے کے امکان کومستردنہیں کیاجس کے جواب میں گرین لینڈکے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈنے واضح طورپرٹرمپ کومتنبہ کیاہے کہ گرین لینڈاس کے لوگوں کاہے اوریہ برائے فروخت نہیں ہے اوریورپی یونین نے ڈینش کے علاقائی تحفظ مؤقف کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ٹرمپ نے7جنوری کوایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تک کہاتھاکہ گرین لینڈ کی ضرورت معاشی وجوہات کی وجہ سے ہے اس لئے وہ گرین لینڈکاکنٹرول حاصل کرنے کیلئےعسکری طاقت کے استعمال پربھی غورکرسکتے ہیں۔ٹرمپ کاباربارتوجہ دیناظاہر کرتاہے کہ ان کیلئےاس معاملے کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے لیکن آخراس کی وجہ کیاہے؟ماہرین کامانناہے کہ اصل وجہ وہ معدنیات کاخزانہ ہے جوگرین لینڈمیں موجودہے۔
تاریخی اعتبارسے امریکی حکام اس خطے کوسٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے توجہ دیتے آئے ہیں۔روس سے قربت کی وجہ سے سردجنگ کے دوران اسے یورپ اورشمالی امریکاکے سمندری تجارتی راستے کومحفوظ بنانے کیلئےاہم سمجھاگیا۔امریکی فوج نے دہائیوں تک یہاں ایک اڈہ قائم رکھاجسے بیلسٹک میزائلوں پرنظررکھنے کیلئےاستعمال کیاجاتارہاتاہم2023میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں جیولوجیکل سروے آف ڈنمارک اورگرین لینڈنے تخمینہ پیش کیاکہ جزیرے پر38معدنیات بڑی مقدارمیں موجودہیں جن میں کاپر،گریفائیٹ،نیوبیئم،ٹائٹینیئم،روڈیئم شامل ہیں۔اس کے علاوہ نایاب معدنیات جیساکہ نیوڈیمیئم اورپریسیوڈائمیئم جوالیکٹرک گاڑیوں کی موٹراورونڈٹربائن بنانے میں کام آتی ہیں،بھی پائی گئی ہیں۔
مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسرایڈم سائمن کے مطابق”گرین لینڈمیں دنیاکی سب سے نایاب معدنیات کاعالمی طورپر25فیصدحصہ موجودہوسکتاہے”۔اگریہ دعوی درست ہے تومقدارکے حساب سے یہ15لاکھ ٹن بنتاہے۔یادرہے کہ توانائی کی بدلتی ہوئی عالمی ضرورت کے بیچ نایاب معدنیات کاحصول اہم ہوچکاہے جبکہ انہیں موسمیاتی تبدیلی کامقابلہ کرنے کیلئےبھی ضروری سمجھاجا رہاہے۔بڑی عالمی طاقتیں دنیابھرمیں ایسی معدنیات کی بڑی کانوں کاکنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں اورایسے میں تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں۔
چین اس وقت ان معدنیات کی مارکیٹ کاسب سے بڑاکھلاڑی ہے جوایک تہائی حصے پرکنٹرول رکھتاہے۔اسی وجہ سے چین کے سیاسی اورمعاشی اثرورسوخ میں بھی اضافہ ہواہے۔گرین لینڈمیں اس وقت دوکمپنیاں نایاب معدنیات پانے پرکام کررہی ہیں جن میں سے ایک کمپنی میں چینی سرکاری کمپنی کی بھاری سرمایہ کاری ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ غیر معمولی صورتحال کیارخ اختیار کرسکتی ہے جس میں نیٹوکے دواہم اتحادی آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے کہ جس کا80فیصدرقبہ برف سے ڈھکا ہواہے لیکن یہاں معدنی وسائل اتنی وافرمقدارمیں موجودہیں کہ جن پرسب کی نظرہے اوریہ حالات اس گرین لینڈکی56ہزارآبادی کی آزادی کی امنگ کوکیسے متاثرکرسکتے ہیں جو300سال سے ڈنمارک کے زیرتسلط ہے۔آئیے ہم گرین لینڈکے مستقبل کے حوالے سے4امکانات پرایک نظرڈالتے ہیں۔
گرین لینڈسے متعلق ٹرمپ کی حالیہ خواہش پرکچھ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ کے بیانات محض دکھاواہوسکتے ہیں اور اُن کی جانب سے ایسااس لیے کیاجارہاہے کہ ڈنمارک کواس کی ترغیب دی جائے کہ وہ روس اورچین کی جانب سے خطے میں لاحق اثرورسوخ بڑھانے کے خطرے کے پیش نظرگرین لینڈکی سکیورٹی میں اضافہ کرے۔گذشتہ مہینے ڈنمارک نے آرکٹک کیلئےڈیڑھ ارب ڈالرکے نئے فوجی پیکج کااعلان کیا۔اس اعلان کی تیاری ٹرمپ کے بیانات سے پہلے کی گئی تھی تاہم ٹرمپ کے بیانات کے چندگھنٹے بعدکیے جانے والے اس اعلان کوڈنمارک کی وزیردفاع نے’قسمت کاکھیل‘قراردیا۔
ڈنمارک کے پولیٹکن اخبارکی چیف پولیٹیکل نامہ نگارایلزبتھ سوین کاکہناہے کہ”ٹرمپ نے جوکہااس میں اہم بات یہ تھی کہ ڈنمارک کوآرکٹک میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی ورنہ اسے امریکاکوایسا کرنے کی اجازت دینی ہوگی”۔رائل ڈینش ڈیفنس کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مارک جیکبسن کاخیال ہے کہ یہ ٹرمپ کا”امریکی صدارت سنبھالنے سے پہلے ایک مؤقف اپنانے کا معاملہ ہے جبکہ گرین لینڈ اس موقع کوآزادی کی طرف ایک اہم قدم کے طورپراستعمال کرے گاتاکہ مزید بین الاقوامی توجہ حاصل کی جاسکے۔لہٰذااگرٹرمپ اب گرین لینڈ میں دلچسپی کھوبھی دیتے ہیں توبھی انہوں(ٹرمپ)نے یقینی طورپراس مسئلے کواجاگرکیا ہے۔تاہم گرین لینڈ کی آزادی کئی برسوں سے ایجنڈے پرہے اورکچھ کا کہنا ہے کہ یہ بحث مخالف سمت میں جا سکتی ہے۔
جیساکہ گزشتہ چنددنوں گرین لینڈکے وزیراعظم اپنے بیانات میں زیادہ پرسکون ہوگئے ہیں۔گویاوہ گرین لینڈ کی آزادی پررضامندہو رہے ہیں لیکن ایسافوری طورپرممکن نہیں۔گرین لینڈمیں اتفاق رائے ہے کہ وہ بالآخرآزادی حاصل کرلے گااوریہ بھی کہ اگرگرین لینڈاپنی آزادی کے حق میں ووٹ دیتاہے توڈنمارک اسے قبول کرے گااوراس کی توثیق بھی کرے گا۔تاہم اس بات کاامکان بھی نہیں ہے کہ گرین لینڈ عوام کیلئےصحت کی خدمات اورفلاحی سکیموں کے حوالے سے ڈنمارک سے ملنے والی سبسڈی کے مسلسل حصول کی ضمانت تک آزادی کے حق میں ووٹ دے۔
ڈنمارک کے انسٹیٹیوٹ فارانٹرنیشنل سٹڈیزکے مطابق”اگرچہ گرین لینڈکے وزیراعظم ناراض ہوسکتے ہیں لیکن اگروہ حقیقت میں ریفرنڈم کااعلان کرتے ہیں توانہیں گرین لینڈکی معیشت کوبچانے کیلئے ایک مُشکل وقت کاسامناکرناپڑے گااورفلاحی سکیموں کے حوالے سے ٹھوس بیانیے کی ضرورت ہوگی”۔اس مسئلے پرایک ممکنہ حل یہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ جزیرہ الحاق کی جانب بڑھے جیساکہ اس سے قبل امریکانے بحرالکاہل کے ممالک مارشل آئی لینڈز،مائیکرونیشیااورپالاؤکے ساتھ کیاہے۔
ڈنمارک نے اس سے قبل گرین لینڈ اورفیروجزائردونوں کیلئےایسے الحاق اوران کی حیثیت کی اس تبدیلی کی مخالفت کی تھی لیکن ڈنمارک کی موجودہ وزیراعظم میٹ فریڈرکسن یقینی اورمکمل طور پراس کے خلاف نہیں ہیں۔گرین لینڈ سے متعلق ڈنمارک کی سوچ اورنظریہ20سال پہلے کی نسبت بہت مختلف ہے۔ڈنمارک اب اپنی ذمہ داری سمجھنے لگاہے اوران پرتوجہ دینے کی بھی کوشش کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ بات چیت فریڈریکسن کویہ کہنے پرآمادہ کرسکتی ہے کہ ڈنمارک کوآرکٹک میں رکھنابہتر ہے سوگرین لینڈکے ساتھ کچھ تعلق برقراررکھاجاناچاہیے،چاہے وہ کمزورہی کیوں نہ ہولیکن اگرگرین لینڈڈنمارک سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتاہے توحالیہ برسوں میں یہ واضح ہوگیاہے کہ وہ امریکا سے چھٹکاراحاصل نہیں کرسکتا۔ دوسری عالمی جنگ میں اس جزیرے پرقبضہ کرنے کے بعدامریکیوں نے درحقیقت اس جزیرے کوکبھی چھوڑاہی نہیں اورامریکا اس جزیرے کواپنی سلامتی اورمستقبل کیلئےاہم سمجھتاہے۔
1951کے معاہدے نے اصل میں گرین لینڈ پرڈنمارک کی خودمختاری قائم کی تاہم درحقیقت اس معاہدے کی مددسے امریکاوہ سب حاصل کرنے میں کامیاب ہواکہ جووہ چاہتاتھا۔گرین لینڈ کے حکام امریکاکے کردارکے بارے میں گذشتہ دوامریکی صدورکی انتظامیہ سے رابطے میں تھے اوروہ جانتے ہیں کہ امریکااس جزیرے سے کبھی نہیں جائے گا۔یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ کی اقتصادی بیان بازی شایدڈنمارک کیلئے سب سے بڑاخطرہ ہے کیونکہ امریکا ڈنمارک اوریہاں تک کہ یورپی یونین کی اشیاپرمحصولات میں نمایاں اضافہ کررہاہے جس کی وجہ سے ڈنمارک کوگرین لینڈ کے معاملے میں کچھ رعایتیں دینے پرمجبورکیاجارہاہے اورڈنمارک کی حکومت کودیگرحالت کی وجہ سے اس جزیرے پرتوجہ دینے کیلئے مجبورکیاجارہاہے توایسے میں یہ کہاجاسکتا ہے ڈنمارک کی اس جزیرے پرتوجہ میں دیگرعوامل بھی کارفرماہیں”۔
ٹرمپ تمام امریکی درآمدات پر10فیصدبراہ راست ٹیرف لگانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔دیگرچیزوں کے علاوہ اس سے یورپی ممالک کی ترقی میں بہت سی مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔لہذا ڈنمارک اوردیگریورپی ممالک کی کچھ کمپنیاں اب امریکامیں پیداواری مراکزقائم کرنے پرغورکررہی ہیں۔بین الاقوامی قانونی فرم”پلزبری”کے بینجمن کوٹ نے ویب سائٹ”مارکیٹ واچ”کو بتایاکہ ٹیرف میں اضافے کے ممکنہ اختیارات میں1977کے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورزایکٹ(آئی ای ای پی اے)کواستعمال کرناشامل ہے۔یہ ممکنہ طورپردواسازی کی صنعت کومتاثرکرسکتاہے جوڈنمارک کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے ۔امریکازیادہ تر مصنوعات جیسے ہیئرنگ ایڈزاورانسولین ڈنمارک سے خریدتا ہے ۔اس کے علاوہ ذیابیطس کی دوا “اوزیمپک” بھی ڈنمارک کی کمپنی “نوونورڈسک” تیار کرتی ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ امریکی عوام کوپسندنہیں آئے گا۔یہ بعیداز قیاس معلوم ہوتاہے کہ امریکاایسا کرے گالیکن ٹرمپ کافوجی کارروائی سے انکارنہ کرنے کی وجہ سے یہ بھی ایک آپشن ہوسکتا ہے۔
بنیادی طورپرامریکاکیلئےگرین لینڈپرکنٹرول حاصل کرنامشکل نہیں ہوگاکیونکہ گرین لینڈ میں اس کے پہلے ہی فوجی اڈے اوربڑی تعدادمیں فوجی موجودہیں۔گرین لینڈپرامریکاکاپہلے سے ہی ڈی فیکٹوکنٹرول ہے۔ٹرمپ کے بیانات ان معلومات پرمبنی معلوم ہوتے ہیں جن کامطلب وہ سمجھ نہیں سکے اوریقیناًگرین لینڈمیں امریکی فوجی کاروائی ایک بین الاقوامی مسئلے کوجنم دے گی۔اگر ٹرمپ گرین لینڈ پرحملہ کرنے کافیصلہ کرتے ہیں تونیٹوکے آرٹیکل5کے مطابق وہ نیٹوپرحملہ کریں گے لیکن اگرکوئی نیٹوملک نیٹوکے کسی رکن ملک پرحملہ کرتاہے تو”نیٹو” کاوجود باقی نہیں رہے گا۔
ٹرمپ کی تقریرسے ایسالگتاہے جیسے چینی صدرشی جن پنگ تائیوان یاروسی صدرولادیمیرپوٹن یوکرین کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ”اس سرزمین کوحاصل کرنا ہمارے لیے درست ہے”۔اگرواقعی ان کی باتوں کوسنجیدگی سے لیا جائے تویہ مغربی ممالک کے پورے اتحاد کیلئےایک بری علامت ہے۔
ٹرمپ کے بیان پرصرف نیٹوممالک میں ہلچل نہیں بلکہ امریکاکے پڑوس کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے نہ صرف اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیاہے بلکہ سیاست چھوڑنے کا بھی اعلان کردیاہے۔ٹرمپ نے کینیڈاکی سرحدکو”مصنوعی”قراردیتے ہوئے کئی باراس بات کاذکرکیاکہ کینیڈاامریکاکی51ویں ریاست بن سکتاہے۔ٹرمپ نے تنقیدکی کہ کینیڈاکی حفاظت کیلئےامریکانے اربوں ڈالرخرچ کیے ہیں جبکہ کینیڈاکی کاروں،لکڑی اوردودھ کی مصنوعات کی درآمدکامسئلہ بھی حل کیا۔میکسیکوکی طرح کینیڈاکو بھی ٹرمپ کے آئندہ دورصدارت میں امریکا برآمدکی جانے والی اپنی اشیاپر25فیصد تک ٹیرف عائدہونے کے خطرے کاسامناہے۔
اپنی ایک طویل پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے ان خدشات کابھی اظہارکیاکہ میکسیکواورکینیڈاکی سرحدوں سے منشیات امریکامیں داخل ہورہی ہیں۔تاہم امریکی اعدادوشمارکے مطابق کینیڈااورامریکی سرحدپرپکڑی گئی فینٹینیل کی مقدارامریکاکی جنوبی سرحدکے مقابلے میں نمایاں طورپرکم ہے۔کینیڈانے امریکاکے ساتھ اپنی سرحدپرسکیورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات کرنے کاوعدہ کیاہے تاکہ منظم جرائم کوکم کیاجاسکے۔تاہم جسٹن ٹروڈونے کینیڈاکوامریکامیں ضم کرنے کیلئےٹرمپ کی جانب سے “معاشی طاقت”کے استعمال کی دھمکی پرجواب دیتے ہوئے اسے ناممکن قراردیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اورملک میں اپنے حامیوں کوسگنل دے رہے ہیں لیکن امریکامیں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ امیریورپی اتحادی بین الاقوامی سکیورٹی کے تحفظ کیلئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کررہے ہیں تاہم سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیرجیمزجیفری نے امریکاکی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی فوجی کاروائی یا مداخلت کے امکان کومستردکرتے ہوئے کہاکہ”ہم گرین لینڈاورکینیڈامیں مارچ نہیں کریں گے،ہم پاناماکینال پرقبضہ نہیں کریں گے، لیکن اس سے کتناہنگامہ ہوگایہ ایک اور سوال ہے۔بین الاقوامی نظام کوخطرہ ٹرمپ سے نہیں بلکہ روس اورچین سے ہے”۔
لیکن برطانوی اخبار”دی انڈیپینڈنٹ”کے مدیربرائے سیاسی امورڈیوڈ میڈوکس محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی باتوں کوسنجیدگی سے دیکھناچاہیے۔یہ ٹرمپ کاسامراجی رویہ ہے۔وہ دنیابھرمیں امریکاکے قدم جماناچاہتے ہیں۔یہ سنگین خطرہ ہے۔ہم ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کوان کے پہلے دورحکومت سے بہت مختلف اندازمیں دیکھنے جارہے ہیں اوریہ باقی دنیاکیلئےبہت غیرمستحکم ہوگا۔
پانامانے بھی ٹرمپ کے ان بیانات پرشدیدغصے کااظہارکیاہے۔20ویں صدی میں پاناماکینال کی تعمیرکاکام سنبھالنے اورکئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد1999میں امریکانے اس نہر کامکمل کنٹرول پاناماکے حوالے کردیاتھالیکن اب سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پردوبارہ کنٹرول حاصل کرناچاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہاکہ”پاناماکینال ہمارے ملک کیلئے اہم ہے۔اس کاانتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کاکنٹرول پاناماکو دیاتھا،ہم نے اسے چین کو نہیں دیاتھا۔انہوں نے(پاناماحکام)اس تحفے کاغلط استعمال کیا۔”تاہم سرکاری اعدادوشمارٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔پاناماکینال اتھارٹی کے اعدادوشمارکے مطابق اس نہرسے گزرنے والی ٹریفک میں امریکی کارگوکاحصہ72فیصدہے جبکہ22فیصدحصے کے ساتھ چین دوسرے نمبرپرہے۔واضح رہے کہ چین نے بھی ماضی میں پانامامیں بڑی اقتصادی سرمایہ کاری کی ہے۔پاناماکینال نہ صرف بحرالکاہل میں امریکی تجارت کیلئے بلکہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کی صورت میں بھی امریکاکیلئےانتہائی اہم ہے۔اس سے قبل ٹرمپ نے پاناما اتھارٹی پریہ الزام بھی عائدکیاتھاکہ وہ اس بحری گزرگاہ کواستعمال کرنے کے عوض امریکی کارگو کمپنیوں سے نسبتاًزیادہ پیسے وصول کررہے ہیں۔پاناما سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاناماکے وزیرداخلہ نے ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعدکہاہے کہ”پاناماکینال کی خودمختاری پرکوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔پاناماکاکنٹرول صرف اس کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اورمسقبل میں بھی ایساہی رہے گا”۔
خطے میں پاناماکینال کی اہمیت کوسمھنے کیلئے یہ جانناضروری ہے کہ ٹرمپ نے پاناماپراپنی ملکیت کادعویٰ کرنے کابیان کیوں دیاہے۔اس نہرکی تعمیرسے قبل بحری جہازوں کوامریکاکے مغربی یامشرقی کنارے سے دوسری جانب جانے کیلئےبرِاعظم جنوبی امریکاکے آخری کونے کیپ ہارن سے ہوکرگزرناپڑتا تھامگراب نہرِپاناماکی وجہ سے یہ سفر8ہزارناٹیکل میل یا15ہزار کلو میٹرکم ہو گیاہے۔اسی طرح شمالی امریکاکے ایک کنارے سے جنوبی امریکاکی کسی بندرگاہ تک جانے میں بھی ساڑھے چھ ہزارکلومیٹر جبکہ یورپ اورمشرقی ایشیایاآسٹریلیاکے درمیان چلنے والے بحری جہازبھی3ہزار700کلومیٹرتک کی بچت کرسکتے ہیں۔
اس پورے سفرمیں دوسے تین ہفتے تک کاوقت درکارہوتاتھاتاہم اب نہرِپاناماکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صرف 10 گھنٹے میں پہنچاجا سکتاہے۔اس انقلابی اورحیرت انگیزتبدیلی کاسب سے زیادہ فائدہ چین کو مل رہاہے کیونکہ چین کی پالیسی تجارت منڈیوں کے حصول سے دنیاکی ایسی سپرپاوربنناہے کہ جس سے اقوام عالم بھی معاشی ترقی کی طرف گامزن ہوں جبکہ ٹرمپ ایک سرمایہ دارتاجرکے ساتھ امریکاجیسے طاقتورملک کاصدر بھی بن گیاہے اوراپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے دوسرے ملکوں پرتسلط کی دہمکیاں دیکردنیاپرحکمرانی کاخواب دیکھ رہاہے جبکہ ایسے خواب کی تکمیل کیلئے اب تک درجنوں ممالک میں شکست سے دوچارہوچکاہے۔