جینا ہے کہ مرنا ہے اک بات ٹھہر جائے

:Share

ان دنوں افغانستان میں متوقع صدارتی انتخاب کیلئے سرگرمیاں زوروں پرہیں۔اپنے بھائی کوکامیابی دلانے کیلئے کرزئی نے طالبان کے زیادہ تر کمانڈروں کی رہائی کاحکم بھی دے دیاہے جس کے بعدکرزئی اورامریکاکے درمیان اختلافات شدید ترہوگئے ہیں جبکہ قبائلی عمائدین نے کرزئی اور طالبان اورحزب اسلامی کے درمیان ثالثی کیلئے حامی بھرلی ہے۔ گزشتہ دنوں مشرقی افغانستان میں قبائلی عمائدین نے حزبِ اسلامی اورطالبان کے اہم رہنماؤں سے ملاقاتیںکیںاورانہیں بتایاکہ کرزئی انہیں مزیدمراعات دینے کیلئے تیارہے اگر وہ کرزئی کے بھائی کے صداتی انتخابات میں مدد کریں تاہم دونوں گروپوں نے کرزئی کے بھائی کی انتخابات میںمددپریقین دہانی سے انکارکرتے ہوئے بتایاکہ حامدکرزئی اگر چاہیں تو ۲۰۱۸ء تک صدررہ سکتے ہیں تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ امریکی اوردیگرافواج کے نکالنے پرطالبان اورحزبِ اسلامی مطالبے پر ڈٹ جائیں،اگرافغان صدر کوشش کریں توڈٹ سکتے ہیں اوراس کیلئے طالبان اورحزبِ اسلامی مددکیلئے تیارہیں۔
ادھرکرزئی نے طالبان کومزیدسہولیات دینے کیلئے باقی ماندہ کمانڈروں کو۵اپریل سے قبل رہاکرنے پربھی رضامندی ظاہرکردی ہے اوراس کیلئے کرزئی نے تمام ہوم ورک مکمل کر لیا ہے تاہم افغان صدراورامریکاکے درمیان اختلافات اس نہج پرپہنچ گئے ہیں کہ وزیردفاع جنرل بسم اللہ خان کو امریکانے اپناہمنوابناکرکرزئی کے خلاف بغاوت کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔دراصل امریکاہرصورت میں افغانستان میں اپنے نمائندے کی کامیابی چاہتاہے اورممکنہ ناکامی پرفوجی بغاوت کاخطرہ ہے ۔دوسری جانب امریکانے افغانستان سے اپنے فوجی انخلاء کے منصوبے کوملتوی کرنے کا اعلان کردیاہے ۔امریکی حکام کاکہناہے کہ جب تک افغان صدرحامدکرزئی اپنی صدارت کی مدت مکمل ہونے سے قبل مجوزہ امریکی سیکورٹی معاہدے پردستخط نہ کردیں اس وقت تک امریکافوجی انخلاء کے منصوبے پرعمل نہیں کرے گا اورسیکورٹی معاہدے کے تحت ایک مخصوص فوجیوں کی تعداد افغانستان میں رہے گی تاہم افغان صدرکی جانب سے اپنے مؤقف پرڈٹ جانے کے بعدامریکاکوڈرہے کہ اگرانہوں نے بغیر سیکورٹی معاہدے کے اپنے دس ہزارفوجی رکھے تو طالبان اور حزبِ اسلامی اس کوتہس نہس کردیں گے اوربڑے پیمانے پرجانی نقصان کاخدشہ ہے اس لئے انہوں نے اپنے ۶۴ہزارفوجیوں کی ۳۱دسمبر۲۰۱۴ء تک انخلاء کے منصوبے پر عملدرآمدسے انکارکیاہے۔
ذرائع کے مطابق افغان صدرحامدکرزئی کاعہدۂ صدارت ۱۹ستمبرکوختم ہوجائے گا جس کی اصل میعاداٹھارہ اگست ہے تاہم انتخابات میں ری کاؤنٹنگ کی وجہ سے ایک مہینہ کی توسیع ہوگئی اوراب ۱۹ستمبرتک ان کی مدت صدارت ختم ہوجائے گی ،اس سے ۵اپریل کے ممکنہ انتخابات کے نتیجہ میں جوبھی صدربنے گاوہ ۱۹ستمبرسے پہلے معاہدے پردستخط نہیں کرے گا جبکہ نومبرکے مہینے میں افغانستان میں سردی شروع ہوجاتی ہے اوراس میں امریکی فوج کوانخلاء کیلئے مشکل کاسامناکرناہوگاکیونکہ امریکی سامان کراچی کے راستے جبکہ فوجی دستوں کوقازقستان کے مناماایئربیس کے ذریعے نکالناچاہتے ہیں تاہم اس کیلئے جوفضائی روٹ استعمال کیاجاتاہے وہ شمالی افغانستان کاہے اوراس کامسئلہ یہ ہے کہ اس روٹ پرنومبرکے بعد خراب موسم شروع ہوجاتاہے اوراس خراب موسم کی وجہ سے کئی بار امریکی فضائیہ کوحادثات کاسامنارہاہے کیونکہ وہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اپنی فوج کومناماایئربیس تک پہنچائیں گے اورہیلی کاپٹر اس موسم میںقازقستان کاسفرنہیں کرسکتے ہیں اس لئے امریکاچاہتاہے کہ کرزئی مارچ تک معاہدے پردستخط کردے اس کیلئے امریکانے فروری تک کی ڈیڈ لائن دی تھی جس میں اب چنددن رہ گئے ہیں ۔
ادھرکرزئی اپنے مؤقف پرڈٹ گئے ہیں جس کے بعد اب امریکاافغان فوجی حکام کواکسارہاہے اوراگرکرزئی نے دستخط نہیں کئے تو ٥اپریل سے قبل افغانستان میں ایک مختصرفوجی بغاوت کاخدشہ منڈلارہاہے جس میں کرزئی کی گرفتاری کاخدشہ ظاہرکیاجارہاہے اوران پرکرپشن کے بڑے الزامات لگ سکتے ہیں اور ۵اپریل کے بعد۵جون تک الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیاجائے گاتاہم کرزئی کواس منصوبے کے بارے میں بروقت اطلاعات ملنے پرانہوں نے اپنی فوج کے کمانڈروں سے جواب طلبی کرلی ہے کہ انہوں نے افغان آئین میں اجازت نہ ہونے کے باوجود کس طرح معاہدے کے حوالے سے لب کشائی کی،تاہم وزیردفاع سے جواب طلب نہیں کیا گیا۔ وزیر دفاع جنرل بسم اللہ خان آرمی چیف رہ چکے ہیں اوران کے بہت قریبی لوگ اس وقت آرمی میں بڑے عہدوں پرتعینات ہیں اس لئے امریکاجنرل بسم اللہ خان کے ذریعے کرزئی کوہٹانے کی کوشش کرسکتاہے تاہم کرزئی کوہٹانے کیلئے امریکااس وقت درمیانی راستہ اختیار کررہاہے اوراس پردباؤ دال رہاہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس معاہدے پردستخط کر دیں۔
ذرائع کے مطابق اگرافغان صدرنے دستخط نہیں کئے توان کوطالبان اورحزبِ اسلامی کی جانب سے سپورٹ مل سکتی ہے تاہم کرزئی کے بھائی اگر الیکشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو کرزئی ۱۹/اپریل کوعہدے سے استعفیٰ دے دیں گے اوراس کے بعدان کے بھائی اس پردستخط کردیں گے تاہم اگرکرزئی کی موجودگی میں انتخابات ہوجاتے ہیں اوران کے بھائی ناکام ہورہتے ہیں توپھرکرزئی ستمبرتک افغانستان کے صدررہیں گے تاہم امریکا کواس وقت کرزئی کوبزورطاقت ہٹانے میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ ایک منتخب صدرکوہٹانے سے امریکا کی پوری دنیامیں ساکھ خراب ہوجائے گی ،افغانستان میں امریکی فوجیوں کے آپریشن پربراہِ راست اثرپڑے گااوراس سے طالبان اورحزبِ اسلامی کوبھرپورفائدہ حاصل ہوگاکیونکہ کرزئی کو بزورطاقت ہٹانے سے افغانستان کے قوم پرست امریکاکے مخالف ہوسکتے ہیں اسی لئے امریکابڑی احتیاط کے ساتھ افغان فوج کواستعمال کررہاہے۔
تادمِ تحریر کرزئی اپنی باتوں پرڈٹے ہوئے ہیں اورآئندہ دوہفتے کرزئی کے افغانستان کی سیاست میں ان کی اہمیت واضح کردیں گے۔افغانستان میں اگرفوجی بغاوت کروائی گئی توامریکاکاافغانستان میں سیکورٹی معاہدہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔امریکااوردیگربین الاقوامی برادری کی اسی میں عافیت ہے کہ وہ افغانستان میں شفاف انتخابات کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں اورجوبھی منتخب ہوکرافغانستان کی عنانِ اقتدارسنبھالے وہ افغان عوام کی مرضی کومقدم جانتے ہوئے یہ فیصلہ کرے کہ ان معاہدوں سے جان کیسے چھڑانی ہے۔
یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
جینا ہے کہ مرنا ہے اک بات ٹھہر جائے

اپنا تبصرہ بھیجیں