امریکی انخلاء۔بھارت کی پریشانی

:Share

افغانستان میں چغہ پوش مسخرے کرزئی اورامریکاکے درمیان ذاتی مفادات کیلئے جاری اختلافات نے کرزئی کوشدیدڈیپریشن میں مبتلا کر دیا ہے جس کی بناء پروہ آئے دن بدلتے سیاسی پینتر وں کے ساتھ اپنی ڈوبتی کشتی کیلئے نت نئے سہاروں کی تلاش میں ہیں۔حال ہی میں پاکستان کی طرف سے کرزئی کواپنے بھائی کی واضح حمائت نہ ملنے پرانہوں نے پاکستان پردباؤ بڑھانے کیلئے بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید کے دورہ ٔ کابل کے دوران ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں افغانستان میں بھارتی فوجی دستوں کی درخواست کرڈالی اوربھارت سے اپنی خواہش کا اظہارکرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اگرامریکااورپاکستان چاہیں توافغانستان میں جلدامن قائم ہوسکتاہے۔انہوں نے بھارت کی مزیدخوشنودی حاصل کرنے کیلئے یہ بھی کہاکہ بھارت نے افغانستان کی ترقی میں اہم کرداراداکیاہے اوراب غیرملکی افواج اگرافغانستان سے چلی جاتی ہیں تو بھارت کوافغان فوجیوں کی مددکیلئے افغانستان میں اپنے فوجی دستے تعینات کرنے چاہئیں لیکن انہیں اسوقت سخت سبکی کاسامناکرناپڑاجب اسی پریس کانفرنس میں سلمان خورشیدنے ان کی درخواست کومستردکرتے ہوئے کہاکہ بھارت افغان فوجیوں کی تربیت کاپروگرام کابل کی بجائے بھارت میں سرانجام دے گا۔
انہوں نے مزیدکہاکہ بھارت ہزاروں افغان فوجیوں کی تربیت کیلئے تیارہے اوروہ افغانستان کوجنگی ہیلی کاپٹراورطیاروں کے علاوہ تربیت بھی فراہم کرے گا۔انہوں نے افغانستان میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے ٨ملین ڈالر کی امدادکابھی اعلان کیا۔سب جانتے ہیں کہ بھارت سردجنگ کے دوران روس کاایک بڑااتحادی رہا اور اس نے روس سے سینکڑوں ہیلی کاپٹراوردیگرجنگی سازوسامان خریدا تاہم روس کے ٹوٹنے کے بعداس فوجی سازوسامان کی کئی بڑی فیکٹریاں بندہوگئیں اس لئے بھارت کے پاس تقریباً تمام روسی اسلحہ ناکارہ ہوگیاہے جبکہ دوسری جانب افغانستان کی سابق کیمونسٹ فوج روس کی فوج سے براہِ راست تربیت حاصل کرتی رہی ہے اورافغان فوج کے زیادہ اہلکار روسی ہیلی کاپٹر اڑانے اورروسی اسلحہ چلانے کے ماہرہیں اس لئے بھارت پاکستان کے ساتھ دشمنی کی آڑمیں افغانوں سے اپنے تعلقات کومزیدمضبوط کرنے کیلئے روس سے حاصل کیاگیااسلحہ افغان فوج کے حوالے کررہاہے چونکہ افغان فوج کے اعلیٰ عہدیدارسابق کیمونسٹ فوجی جرنیلوں پر مشتمل ہے اس لئے روسی اسلحہ اور جنگی سازوسامان کوآپریٹ کرناان کیلئے نسبتاًآسان ہے اوروہ اس اسلحے سے اپنی فوج کی تربیت بھی کرسکیں گے اس لئے بھارت سے روسی اسلحہ اورہیلی کاپٹران کے حوالے کئے جارہے ہیں۔
دراصل افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعدافغان فوج کے پاس چندہیلی کاپٹررہ جائیں گے اوروہ بھی ناکارہ ہیں،ان کی مرمت ضروری ہے تاہم چونکہ یہ ہیلی کاپٹرروسی ساختہ ہیں اس لئے ان کی مرمت بھی بھارتی انجینئرہی کرسکتے ہیں جن کوروس نے سردجنگ کے دوران ان ہیلی کاپٹروں اوراسلحے کی مرمت کی تربیت دی تھی۔اسی تناظرمیں حامدکرزئی نے ان سے اسلحہ اورہیلی کاپٹرکی اپیل کی تھی جوبھارتی ھکومت نے تسلیم کرلی ہے تاہم بھارتی حکومت نے اپنے فوجیوں کی افغانستان کے اندر تعیناتی کی مخالفت کی ہے۔افغانستان میں موجود بھارتی حکام نے اپنے وزیرخارجہ کو تفصیلاً بریفنگ دی تھی کہ اگرافغانستان میںبھارتی فوجوں کی تعیناتی کی کوشش کی گئی توطالبان اورحزبِ اسلامی بھارت کے شدیددشمن بن جائیں گے اور پھرمقبوضہ کشمیراوربھارت میں شدیدردّ ِعمل کا خدشہ ہے،اس لئے ان دوبڑے گروپوں کواپنادشمن بنانے کی بجائے بھارت کودرمیانہ راستہ اختیار کرناچاہئے ورنہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے ساتھ ہی بھارتی انخلاء بھی شروع ہوجائے گا اور یہی وجہ ہے کہ سلمان خورشید نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بھارت کی مخالفت کی پرانی پالیسی کے برعکس طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی حمائت کرکے فریقین کادل جیتنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
سلمان خورشیدنے یہ بھی کہاکہ اگرافغان صدراورطالبان مذاکرات کیلئے کوششیں کررہے ہیں توان کی کوششوں کی حمائت کی جائے کیونکہ کرزئی ایک سینئرسیاستدان ہیں اورافغانوں کوافغانستان کا فیصلہ کرنے کااختیاردیاجاناچاہئے۔ذرائع کے مطابق بھارتی وزیرخارجہ افغان حکام سے بھارتی سفارتی عملے کی حفاظت یقینی بنانے کے حوالے سے یقین دہانی حاصل کرنے آئے تھے جبکہ بھارتی فوج کی کنسٹرکشن کمپنی پکتیامیں انجینئرزکی ہلاکتوں کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کرنا دورے کامقصدتھا۔اس سلسلے میں بھارتی حکام کو خدشہ ہے کہ امریکی انخلاء کے فوری بعد طالبان اور حزبِ اسلامی بھارتی سفارتخانے اورقونصل خانوں کوبھی نشانہ بنائیں گے خاص کرجنوبی صوبہ قندھاراورجلال آبادمیں پاکستانی سرحدکے قریب قائم ان کے قونصل خانے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں ۔
واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بھارت بھی ہے کیونکہ بھارت امریکاکوزرمبادلہ فراہم کرنے والاایک بڑاملک ہے اوروہ اس حوالے سے تشویش میں مبتلاہے کہ امریکی انخلاء کے بعد دنیابھرکے جہادی بھارت پردھاوابول سکتے ہیں اس لئے امریکا افغانستان سے جزوی انخلاء کرے اورپورے انخلاء سے بازرہے تاہم کابل میںموجودذرائع کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ نے پہلی بارحقیقت کے قریب ترپالیسی اپناتے ہوئے طالبان کے ساتھ نہ صرف مذاکرات کی حمائت کی بلکہ افغانوں کواپنا مسئلہ خود حل کرنے کرنے کوبھی کہاہے جبکہ افغانستان میں اپنے فوجی تعینات سے بھی صاف انکار کر دیاہے حالانکہ بھارت ۲۰۰۵ء میں افغانستان میں اپنے فوجی تعینات کرنے کیلئے بے چین تھالیکن امریکانے عراق میں شدیدمزاحمت کی وجہ سے بھارتی فوج کی تعیناتی پررضامندی ظاہرنہ کی اب جبکہ امریکا شکست کھاکرافغانستان سے نکل رہا ہے توبھارت نئی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات استوارکرنے کیلئے درمیانی راستہ اختیارکرنے کیلئے بیتاب ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی وزیرخارجہ اس لئے اپنے سفارتکاروں کے تحفظ کی ضمانت لینے آئے تھے کہ بھارت میں انتخابات ہونیوالے ہیں جوکئی ماہ تک جاری رہیں گے اوراس دوران افغانستان سے امریکی انخلاء شروع ہو جائے گاجس سے بھارت کوشدیدخوف ہے کہ انخلاء کے ساتھ ہی خوست، ننگرہار،ہرات اور قندھارمیں ان کے قونصل خانوں پرحملے نہ شروع ہوجائیں اوراگران قونصل خانوں کو بند کر دیاگیاتوبھارت کوعلاقے کی نگرانی کی اہم پوزیشنوں سے محروم ہوناپڑے گاکیونکہ ننگرہار اور قندھارپاکستانی سرحدکے انتہائی قریب ہیں جبکہ ہرات ایرانی سرحدکے قریب ہے اور اس وقت بھارت چابہاربندرگاہ استعمال کررہا ہے ۔ ہرات،قندھاراورننگرہار بھارت کیلئے کابل کے سفارت خانے سے بھی زیادہ اہم ہیں تاہم ذرائع کے مطابق ان علاقوں سے امریکی فوج نکلتے ہی بھارت کوبھی اپنے قونصل خانے بندکرناپڑیں گے کیونکہ طالبان اورحزبِ اسلامی کبھی بھی امریکی اوربھارتی اتحادکی بناء پرافغان قوم پرہونے والے مظالم کوفراموش نہیں کرسکے اس لئے بھارت قونصل خانوں کے وجود کومٹانا ان کی پہلی ترجیح ہوگی۔
ہمارے اربابِ اختیاراداروں کیلئے اس امرکی تحقیق کرنا بہت ضروری ہے کہ کرزئی کواپنے بھائی کیلئے پاکستانی حکومت کی طرف سے مطلوبہ تعاون نہ ملنے اوربھارتی وزیر خارجہ کے کابل کے دورے کے فوری بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے کس کے اشارے پرافغان سرزمین پر فرنٹیئر کور کے ۲۳اہلکاروں کے گلے کاٹ کرپاکستان کوکیاپیغام دیاہے؟ جبکہ ایف سی کے ان ۲۳ اہل کاروں کو جون۲۰۱۰ء میں شونکڑی پوسٹ سے اغوا ء کرکے افغانستان کی سرزمین پرکس کے ایماء پر رکھا ہوا تھا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں