قصر سفیدکے فرعون نے افغانستان سے توجولائی سے اپنی سپاہ کے انخلاء کاوعدہ کیاتھالیکن اس کے اتحادی توابھی سے اپنے فوجیوں کوواپس لیجانے میں انتہائی مستعدی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔آسٹریلیااورپولینڈکے فوجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی دیگرممالک کے فوجیوں نے بھی رخت سفرباندھنا شروع کردیاہے جبکہ طالبان اورحزب اسلامی (حکمت یار) حزب اسلامی خالص اورسلفی گروپس نے اپنے علاقوں کوقبضے میں لیناشروع کردیاہے جبکہ افغان فوج اورپولیس کے اہلکاربھی طالبان کے ساتھ مل کر کاروائی کررہے ہیں جبکہ مقامی آبادی نے طالبان کے ان علاقوں میں واپس آنے پرانتہائی خوشی کااظہارکیاہے۔طالبان نے جنوب مشرقی افغانستان کے صوبہ ہلمند اور حزب اسلامی نے صوبہ کنڑمیں کئی اضلاع کاکنٹرول سنبھال لیاہے۔ طالبان اوردیگرمزاحمت کاروںگروپوںنے انخلاء میں پانچ ماہ رہنے سے قبل ہی کابل کاگھیراؤ شروع کردیاہے ۔
دسمبرمیں کابل پربڑے حملے کئے گئے جبکہ گزشتہ دنوں کابل خوست شاہراہ پرطالبان کاقافلہ رکنے پرطالبان نے بھارتی فوج کے زیر نگرانی کام کرنے والی بارڈرز روڈ کنسٹرکشن کمپنی (بی آرسی سی)کے چودہ اہلکاروں کو حملہ کرکے قتل کردیاجن میں چھ بھارتی فوجی انجینئر بھی شامل تھے۔اس واقعے کے بعدگزشتہ دنوں کابل کے ”پوش”اورسیکورٹی زون والے علاقے وزیراکبرخان میں بھی طالبان نے کاروائی کرکے لبنان سے تعلق رکھنے والے غیرملکیوں کے ریسٹورنٹ جہاں پرشراب کااستعمال کھلے عام ہوتاہے،پرحملہ کرکے ۱۳غیرملکیوںسمیت۲۲افرادکوبھی ہلاک کردیاہے۔ ہلاک ہونے والوں میں آئی ایم ایف کے لبنانی عہدیددارسمیت سی آئی اے کے انتہائی چھ اہم عہدیداربھی شامل تھے جوپاکستان میں کاروائی کرنے والے ”بلیک واٹر”کوکنٹرول کرتے تھے۔
طالبان نے کاروائی امریکاکی جانب سے پروان میں بمباری میں بے گناہ افرادکی شہادت کابدلہ قراردیاہے۔طالبان نے اس حملے کیلئے بہت پہلے منصوبہ بندی کی تھی اور فدائی محاذکاکہناہے کہ لبنانی ریسٹورنٹ پرحملہ جلال الدین حقانی کے بیٹے نصیرالدین حقانی کابدلہ ہے اوروہ مزیدحملے کریں گے، فدائی محاذکے مطابق وہ کابل پرقبضے کیلئے دیگرمزاحمت کار گروپوں کے ساتھ بھی بات چیت کررہے ہیں اوران کی کوشش ہوگی کہ کابل پرقبضے کے دوران جہادی ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کی بجائے مشترکہ حکمت عملی پر عمل درآمدکریںجس کیلئے آئندہ دنوں میں اہم پیش رفت متوقع ہے۔طالبان کی قیادت نے دیگرمزاحمتی گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کافیصلہ کیاہے جبکہ افغانستان کے طول و عرض میں سردیوں میں بھی حملے کرنے کی ہدائت کی گئی ہے تاکہ افغان پولیس اورفوج ان کے ساتھ تعاون کیلئے مجبور ہو جائے۔
طالبان ذرائع کے مطابق اس بات پربھی غورکیاجارہاہے کہ اگرافغان پولیس اورفوج طالبان کے خلاف نہ لڑیں اورصرف مقامی امن قائم رکھنے پرتوجہ دیں توان پرحملے نہیں کئے جائیں گے جبکہ طالبان نے بارہ برس میں پہلی بارجنوب ،جنوب مشرقی اورمشرقی افغانستان میں یکم اپریل سے شروع ہونے والے تعلیمی سال کے موقع پر لڑکیوں کواسکول جانے کی اجازت دے دی ہے جس سے والدین میںخوشی کی لہردوڑ گئی ہے جبکہ ان اداروں کوبھی تعلیمی میدان میںکام کرنے کی اجازت مل گئی ہے جوافغان اوراسلامی اقدارکے مطابق لڑکیوں کی تعلیم میں مدددیں گے۔افغان صدرکے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے یکم اپریل سے لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت دی ہے اورحکومت اس کیلئے بڑے پیمانے پرتیاری کررہی ہے امرکواپنے بھائی کی کامیابی کیلئے استعمال کرناچاہتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے تعلیمی اجازت دینے اورکابل پربم حملوں کے بعدمقامی ذرائع کاکہناہے کہ کہ کابل سے کئی افرادنے دبئی اوردیگرعلاقوں میں نقل مکانی کے بارے میں سوچنا شروع کردیاہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جونہی ایساف کی ایک لاکھ سے زائدافواج ۳۱دسمبر۲۰۱۴ء تک انخلاء مکمل کرلے گی تو کابل طالبان اوردیگر مزاحمت کاروں کے قبضے میں آ جائے گا۔ طالبان کاکہناہے کہ وہ بزورطاقت کابل پرقبضہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تاہم وہ کابل پرقبضے کیلئے طالبان دیگرگروپوں کے ساتھ مل کرمشترکہ منصوبہ بندی کرناچاہتے ہیں۔طالبان چاہتے ہیں کہ کابل پرقبضے کے بعد حزب اسلامی اوران کے درمیان شراکت اقتدارہوکیونکہ طالبان کے اہم رہنماء جنہوں نے طالبان حکومت چلائی تھی انہیں امریکانے ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایاہے اورطالبان کے پاس جنگجوکمانڈرتوہیں لیکن حکومت چلانے والی شخصیات ناکافی ہیں جبکہ حزب اسلامی کے پاس سیاسی قوت زیادہ ہے۔
دوسری جانب طالبان نے چاروں طرف سے حملوں کاپروگرام بنایاہے تاکہ پل محمودمیں واقع چرخی جیل سے اپنے ساتھیوں کانکال سکیں۔منگل کی صبح ۲۸جنوری کو طالبان کے ایک فدائی نے بارودسے بھری ایک گاڑی قندھارکے ضلع ژری میں واقع امریکی فوجی اڈے سے ٹکرادی جس کےبعد ۱۲ فدائیوں نے اڈے میں داخل ہوکر بارہ گھنٹے پرمحیط جھڑپ میں اڈے کی اینٹ سے اینٹ بجادی اورخودبھی جام شہادت نوش کیا ۔اس خوفناک حملے کے نتیجے میں درجنوں فوجی گاڑیاں،ٹینک اور بہت ہی قیمتی جنگی سازوسامان تباہ وبربادہونے کے ساتھ ساتھ دس سے زائدامریکی فوجی ہلاک اور درجنوں شدیدزخمی ہوگئے ہیں۔طالبان کی جانب سے سردیوں میں شدید حملوں کے حوالے سے کابل میں غیرملکی مبصرین اس خدشے کااظہار کر رہے ہیں کہ موسم سرماختم ہونے میں دوماہ رہ گئے ہیں جبکہ نیٹوسپلائی کی طورخم کے راستے بندش سے اتحادی افواج کوشدیدمشکلات کاسامناہے ۔ جونہی موسم سرماختم ہو گا طالبان کی جانب سے کابل ،قندھاراورجلال آبادپربڑے اوورشدید حملوں کاامکان ہے ۔
دوسری جانب پولینڈکے فوجیوں نے کابل چھوڑ دیاہے ،یہ فوجی مختلف علاقوں میں تعینات رہے تاہم طالبان کی جانب سے مزاحمت بڑھنے اوردیگر ممالک کے انخلاء کے اعلان کے بعدپولینڈنے اپنے فوجیوں کوغیراعلانیہ طورپرکابل سے نکال لیاہے ۔پولینڈکے فوجیوں نے اپنی حکومت سے کہا تھاکہ امریکی انخلاء کے بعدان کازندہ افغانستان سے نکلناناممکن ہوجائے گااس لئے امریکی انخلاء سے قبل ہی ہمیں یہاں سے نکل جاناچاہئے ۔اس طرح کئی دیگرممالک نے غیراعلانیہ طورپراپنے فوجیوں کوافغانستان سے نکالنے کی تیاری مکمل کرلی ہے اورموسم ٹھیک ہوتے ہی قازقستان کے راستے ان فوجیوں کوفوری نکال لیاجائے گا۔کابل میں کئی بین الاقوامی این جی اوزنے تسلیم کیا ہے کہ وزیراکبرخان تک طالبان کی رسائی کاواضح مطلب یہ ہے کہ طالبان اوردیگرمزاحمت کار جوکابل کے اردگردجمع ہورہے ہیں ،وہ کسی بھی وقت کابل پردھاوابول دیں گے جس سے ایک طرف توامریکاتنہاہوتا جا رہاہے تودوسری جانب سے اتحادیوں نے بھی ساتھ چھوڑناشروع کردیاہے۔
ادھرافغانستان میں نیٹو افواج کے ساز وسامان کے انخلا کا بھاری مرحلہ پورے زور و شور سے جاری ہے جس میں زمینی، سمندری اور ہوائی تمام ذرائع بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔برطانیہ اور امریکہ کی افواج کے افغانستان سے انخلا کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود سینکڑوں فوجی اڈوں، ہزارہا گاڑیوں اور لاکھوں ٹن پر مبنی ہتھیاروں اور دیگر سامان کو بند کر کے ان ممالک کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ اس سال مارچ اور دسمبر کے درمیان تقریباً دو لاکھ۱۸ہزار گاڑیوں اور فوجی ساز وسامان سے بھرے کنٹینروںکو افغانستان سے نکالا جانا ہے۔ اب تک نیٹو اس جنگ زدہ ملک سے ۸۰ہزار گاڑیاں یا کنٹینر نکال چکا ہے۔برطانیہ ۳۱دسمبر کی حتمی تاریخ تک اپنی تین ہزار سے زائد گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور دیگر ساز وسامان افغانستان سے واپس اپنے ملک لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن وہ اب تک دو ہزار سے زائد ٹرکوں کے برابر کا سامان اور ایک سو سے زیادہ گاڑیاں فروخت کر چکا ہے ۔ امریکا اب تک تقریبا۳۰۰ہزار ٹن کے آلات افغانستان سے نکال چکا ہے، لیکن وہ بھی برطانیہ کی طرح اپنا تمام ساز و سامان واپس نہیں لے جاسکے گا بلکہ اسے فروخت یا ناکارہ قرار دیتے ہوئے افغانستان میں ہی گلو خلاصی حاصل کر لے گا۔ نیٹو کے استعمال میں رہنے والی فوجی چوکیاں اور فعال فوجی اڈے بند کیے جا رہے ہیں اور انھیں افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کیا جا رہا ہے تا کہ وہ سکیورٹی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔
مشہور جریدے ڈیفنس انالیسس کا کہنا ہے کہ عراق سے انخلا کے مقابلے میں افغانستان سے فوجی انخلا بہت زیادہ پیچیدہ اور کٹھن مرحلہ ہے۔ جریدے کے مدیر فرانسِس ٹوسا کے بقول وہ (نیٹو افواج)ایک ایسے ملک میں ہیں جس کا کوئی سمندی راستہ نہیں اور دیگر ذرائع مواصلات بھی بہت برے ہیں۔ عراق کے مقابلے میں جہاں آپ کے پاس کویت کی بندرگاہ تک جانے کے لیے کئی بڑی سڑکوں کی سہولت تھی، افغانستان ایک بھیانک خواب ہے۔
کیافاسق کمانڈوپرویزمشرف سے اس پرائی جنگ میں ۵۰ہزارسے زائد پاکستانی شہداء اورتقریباًسوارب ڈالر کے نقصان نے پاکستان کی معاشی چولیں تک ہلاکررکھ دی ہیں،کاحساب بھی لیاجائے گا؟کیاہمارے اربابِ اختیارکواس بات کاادراک ہے کہ امریکی اورنیٹوکے انخلاء میں جاری درپیش مشکلات میں مسئلہ کشمیرکودائمی طورپرحل کیاجاسکتاہے؟بدنصیبی تویہ ہے کہ ہماری منتخب حکومت کوبھارتی دوستی سے زیادہ کوئی امرعزیزنہیں اورتجارت کے نام پرغیرت کوسرعام نیلام کردیاگیاہے!
ادھرہر سال ۵فروری کو پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اس روز پاکستانی حکومت اور سیاسی تنظیمیں مختلف تقاریب کا اہتمام کرکے کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ تجدید عہد کرتی ہیں۔اس کیلئے سارے ملک میں تعطیل کااعلان محض اس لئے تونہیں کیاجاتاکہ سرکاری ملازم گھروں میں بیٹھ کرمرغن غذاؤں سے لطف اندوزہوں بلکہ کشمیریوں کی حمائت اوران پرہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف ایسا بھرپوراحتجاج کرنامقصود ہے کہ کشمیرکی مسلمہ قیادت کوشکائت کاموقع نہ ملے۔کیا ہم اس حقیقت سے انکارکرسکتے ہیں کہ پاکستان کے دیرینہ حمایتی سید علی گیلانی نے بھی پاکستان کی کشمیر پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور وہاں کی سیاسی پارٹیوں کو بھارت کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ کشمیر جس طرح ہمارا بنیادی مسئلہ اسی طرح ان کے ملک کا بھی کور ایشو ہے۔ مسئلہ کشمیر کو چھوڑ کر فروعی معاملات پر بھارت کے ساتھ دوستی کرنے سے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے خطے میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔آخرمحمد یاسین ملک کو پاکستان نواز حلقوں سے اپیل کرنے کی کیوں ضرورت پڑی ہے کہ وہ حکومت پاکستان سے اس بات کی وضاحت طلب کریں کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دوران کشمیر اولین ترجیح کیوں نہیں ہوتا، ہماری قربانیاں محض اس لیے نہیں تھیں کہ پاکستان اور بھارت تجارتی معاملات حل کریں۔ میرواعظ عمرفاروق نے بھی بڑی دلسوزی کے ساتھ جہاں کشمیریوں کی پاکستان سے والہانہ محبت کاذکرکیاہے وہاں ساؤتھ ایشیاکی دونوں جوہری طاقتوں کودونوں ممالک کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیرکے بغیردوستی کوناممکن قراردیاہے۔
دلچسپ بات ہے کہ یہاں کی ہند نواز اور ہند مخالف جماعتوں نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مجوزہ مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔حالیہ دنوں کشمیر میں ایک سیمینار کے دوران وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ اس سال افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کشمیر میں جو بھی صورتحال ابھرے گی اس کا دارومدار پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے نتائج پر ہوگا۔قابل ذکر ہے کہ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ پاکستان سے کئی بار یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ کشمیریوں کی وسطی ایشیا تک رسائی کو ممکن بنایا جائے کہ وسطی ایشیا کے ساتھ کشمیریوں کے تاریخی، تجارتی ، تمدنی اور مذہبی رشتے ہیں۔بھارتی نگرانی کے تحت انتخابات کی حامی جماعت عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجنیئر عبدالرشید کہتے ہیں کہ پاکستان کا عدم استحکام کشمیریوں کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ہے اس لیے تمام حلقوں کو اپنا اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے طالبان اور حکومت کے مذاکرات کو کامیاب بنانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا ہمیں یقین ہے کہ تحریک طالبان اور ان کے حمایتی سب لوگ محب وطن ہیں۔ کشمیریوں کے لیے پاکستان کا استحکام بہت اہم ہے۔ ہم چاہتے ہیں پاکستان کے سبھی محب وطن ان مذاکرات کو کامیاب بنائیں۔
بدنصیبی تویہ ہے کہ ہماری منتخب حکومت کوبھارتی دوستی سے زیادہ کوئی امرعزیزنہیںاورتجارت کے نام پرغیرت کوسرعام نیلام کردیاگیاہے۔میاں نوازشریف کواب اپنے عمل سے ثابت کرناہوگاکہ آزاد کشمیر اسمبلی میں ان کاخطاب محض ایک رسم کا اعادہ نہیںبلکہ انہوں نے اپنی تقریرمیں بالعموم عالمی برادری اوربالخصوص امریکا سے کشمیر میں اقوم متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرانے کے لیے پاکستانی کوششوں کی تعاون کی جواپیل کی ہے،اسے اپنے عمل سے بھی ثابت کرناہوگا۔پاکستانی طالبان سے لاکھ شکائتیں اورگلے اپنی جگہ لیکن تحریک طالبان کی شکایتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ جنرل مشرف کی پالیسیوں سے پاکستان کی کشمیر پالیسی بری طرح مجروح ہوچکی ہے۔کیا میاں نواز شریف نے اپنی تقریرمیں یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ مشرف کی پالیسی کو ترک کرچکے ہیں۔کیاہمارے اربابِ اختیارکواس بات کاادراک ہے کہ امریکی اورنیٹوکے انخلاء میں جاری درپیش مشکلات میں مسئلہ کشمیر کو دائمی طورپرحل کیاجاسکتاہے؟میاں نوازشریف اگرچاہتے ہیں کہ تاریخ میں ان کانام سنہری حروف میں لکھاجائے توبھارت اور چین کی جنگ میں ایوب خان نے جوتاریخی غلطی کی تھی اب اس کااعادہ ہرگزنہیں ہوناچاہئے