امریکااورایران کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہے ہیں،لیکن حالیہ بیانات اورعسکری تیاریوں نے اس تناؤکو مزید بڑھا دیاہے اوریہ تنازعہ مزید شدت اختیارکرگیاہے۔ٹرمپ کی جانب سے ایران کودی گئی دھمکیاں اورسخت گیررویے ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے سخت ردِعمل نے خطے میں بے چینی کوبڑھادیاہے۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ امریکامیں جنگی سازوسامان بنانے والوں نے اپنے کارخانوں کومزیدتیزی سے چلانے کیلئے وائٹ ہاؤس پراپنی گرفت کواورزیادہ مضبوط کرلیاہے جس کی بناء پرخطے میں ہولناک تباہی کا سلسلہ کبھی بھی کسی بہانے شروع ہوسکتاہے۔
سی بی ایس نیوزکے مطابق اتوارکواین بی سی نیوزکودیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدرٹرمپ کاکہناتھاکہ”اگروہ(ایرانی حکام) معاہدہ نہیں کرتے توپھر بمباری ہوگی اوربمباری بھی ایسی جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی”۔ایرانی خبرایجنسی ارناکے مطابق امریکی صدرکی جانب سے ایران کو12مارچ کوخط لکھاگیاتھاجسے متحدہ عرب امارات کے ایک سفارتکارنے تہران پہنچایا تھا۔یہ پیشکش ایک خط کے ذریعے رواں سال مارچ کے اوائل میں ایرانی قیادت کوبھیجی گئی تھی جس میں تہران کو فیصلہ کرنے کیلئےدو ماہ کاوقت دیاگیاتھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوزکوبتایاتھاکہ انہوں نے ایران کے رہبرِاعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کوایک خط لکھ کرمذاکرات کی دعوت دی ہے۔اس کے بعدٹرمپ کایہ حالیہ بیان ایران کے خلاف سخت امریکی پالیسی کی عکاسی کرتاہے اوراس نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیداکردی ہے۔
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی طرف سے دی گئی بمباری کی دھمکی کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح الفاظ میں ٹرمپ کی تجویز کو ’ظالمانہ‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔انہوں نےکہاہے کہ امریکااوراسرائیل کی ہمیشہ سے ہم سے دشمنی رہی ہے۔وہ ہمیں حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں جوہمیں زیادہ ممکنہ نہیں لگتالیکن اگرامریکایااسرائیل نے کوئی جارحیت یاشرارت کی توایران سخت جواب دے گا۔ایران نے ہمیشہ اپنے دفاعی نظام کومضبوط بنانے پرزوردیاہے اورکسی بھی حملے کے جواب میں سخت کارروائی کاعندیہ دیاہے۔
ٹرمپ نے ایران پرمزیداقتصادی پابندیوں کابھی عندیہ دیاکہ اگرایران معاہدہ نہیں کرتاتواس پراضافی ٹیرف عائدکیے جائیں گے،جیسا کہ ان کی سابقہ حکومت میں کیاگیاتھالیکن ایرانی قیادت کامؤقف ہے کہ مغربی ممالک اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کوکمزور کرناچاہتے ہیں،لیکن وہ کسی بھی دباؤ کے سامنے جھکنے کوتیارنہیں۔اقتصادی پابندیاں ایران کی معیشت پرپہلے ہی گہرے اثرات مرتب کرچکی ہیں،لیکن ایران نے اب تک ان پابندیوں کو جھیلتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔
ایرانی حکام کاکہناہے کہ2019اوراس کے تین سال بعد2022اور2023میں مہساامینی احتجاج اورایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے مظاہرے مغربی سازش کاحصہ تھے۔ایران کامؤقف ہے کہ یہ مظاہرے ایرانی استحکام کونقصان پہنچانے کیلئے ترتیب دیے گئے تھے۔امریکااوراس کے اتحادی ایرانی داخلی سیاست کوغیرمستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایرانی صدرمسعودپژشکیان کاکہناہے کہ ان کے ملک نے امریکاکومطلع کردیاہے کہ وہ بالواسطہ مذاکرات کیلئےراضی ہے ایران نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیالیکن دوسرے فریق کی جانب سے وعدے ٹوٹنے کے سبب اعتمادکوٹھیس پہنچی ہے۔ایرانی صدرکا کابینہ کے اجلاس میں کہناتھاکہ”ہم نے اپنے جواب میں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکان کوردکردیاہے لیکن بالواسطہ بات چیت کاراستہ کھلاہے۔مذاکرات جاری رہنے کاانحصارامریکاکے برتاؤپرہوگا۔
ایرانی صدرنے اپنی کابینہ کویہ بھی بتایاکہ ایران نے عمان کے ذریعے امریکاکے خط کاجواب دیتے ہوئے”براہ راست مذاکرات مسترد کردیے گئے ہیں”۔ایرانی خبرایجنسی ارناکے مطابق امریکی صدرکی جانب سے ایران کوخط12مارچ کولکھاگیاتھاجسے متحدہ عرب امارات کے ایک سفارتکارنے تہران پہنچایاتھا۔ایرانی اورامریکی دونوں ممالک کے حکام اس خط میں موجود تفصیلات پربات کرنے سے گریزاں نظرآتے ہیں۔ایران کی وزارتِ خارجہ کاایک بیان میں کہناتھاکہ ایران اورامریکاکے درمیان خطوط کے تبادلے کواس وقت تک صیغہ رازمیں رکھا جائے گاجب تک یہ ملک کے مفادمیں ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے بیان میں مزید کہاگیاتھاکہ”بین الاقوامی مذاکرات،خطوط کے تبادلے اورسفارتی عمل کی تفصیلات کوجاری نہ کرناایک پیشہ وارانہ عمل ہے اورقومی مفاد سے مطابقت رکھتاہے”۔اس سے قبل ایرانی وزیرِخارجہ عباس عراقچی کہہ چکے ہیں کہ ‘اس(امریکی)خط کے مختلف پہلوہیں اوراس کے ایک حصے میں دھمکیاں بھی موجودہیں۔ہم کسی کوبھی ایرانی عوام سے دھمکی آمیزلہجے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ان کامزیدکہناتھاکہ”ظاہری طورپریہ خط سفارتی عمل شروع کرنے کی بھی ایک کوشش ہے تاہم،سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح کیاہے کہ”امریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات دانشمندانہ عمل نہیں ہوگا اورامریکی سابقہ رویہ قابل بھروسہ کبھی نہیں رہا”۔لیکن اس کے باوجود عالمی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جلدہی مذاکرات کا ڈرامہ رچانے کیلئے کئی خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہوچکے ہیں۔
ابھی تک ٹرمپ کی طرف سے ایران کوبھیجے گئے خط کے مندرجات مکمل طورپرظاہرنہیں کیے گئے،لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس میں ایران کے ساتھ معاہدے پرآمادگی یادھمکیوں کے امکانات ہیں تاہم اس خط کے حوالے سے مختلف تشریحات سامنے آ رہی ہیں۔ ہینری کسنجرکے ایک بیان کے مطابق،کسی معاملے کی مکمل تفہیم کیلئےتمام حقائق جانناضروری ہے جویہاں موجودنہیں ہیں اوریہی اصول ایران اورامریکاکے موجودہ تعلقات پربھی لاگو ہوتاہے۔
ایران کے میزائل پروگرام کے میزائل شہرپربھی عالمی سطح پرتوجہ دی جارہی ہے۔جون2017میں امیر علی حاجی زادہ نے ایران میں تین خفیہ زیرِ زمین میزائل کارخانوں کے وجود کااعلان کیا تھا۔ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کے مطابق یہ میزائل شہر صرف ذخیرہ کرنے کیلئےنہیں بلکہ یہاں میزائلوں کی تیاری بھی کی جاتی ہےپاسداران انقلاب کے کمانڈرامیرعلی حاجی زادہ نے دعویٰ کیاکہ ایران کے پاس اتنے زیادہ زیرزمین میزائل اڈے اور”راکٹ سٹی”موجودہیں کہ اگرہرہفتے ایک کی نقاب کشائی کی جائے تویہ سلسلہ دوسال میں بھی ختم نہیں ہوگا۔ان زیر زمین میزائل اڈوں کوایران کی غیرروایتی جنگی حکمت عملی کاحصہ سمجھا جارہاہے اوریہ اڈے ایران کی دفاعی حکمت عملی کاحصہ ہیں اورممکنہ حملوں سے بچاؤکیلئےبنائے گئے ہیں۔
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقرقالیباف نے خبردارکیاہے کہ”مذاکرات میں دشمن کے مطالبات کوزبردستی مان لینابھی جنگ کے مترادف ہے”۔انہوں نے خبردارکیاتھاکہ اگرامریکاایران کے خلاف عسکری دہمکیوں کوعملی جامہ پہناتاہے توخطے میں نہ صرف امریکاکے فوجی اڈے بھی محفوظ نہیں رہیں گے بلکہ ہماراپہلانشانہ ہوں گے۔ایران کی دفاعی حکمت عملی میں دورماربیلسٹک میزائل شامل ہیں،جوامریکی تنصیبات کونقصان پہنچاسکتے ہیں۔اس طرح خطے میں امریکی اوراس کے اتحادیوں کےفوجی اڈے بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔ان کامزید کہناتھاکہ”ڈونلڈٹرمپ کے خط میں پابندیاں ہٹانے کابھی ذکرنہیں تھا۔اس حوالے سے انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے بیان کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہاکہ یقیناًحکومت پر دباؤ ڈال کرایران کومذاکرات کی میزپرنہیں لایاجاسکتااوردہمکیوں کے سائے میں مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
ادھردوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اوربرکس میں شمولیت کے بعد ایرانی حکومت نے روس اورچین کے ساتھ قریبی تعلقات استوارکیے ہیں اوراس تناظر میں متعددسکیورٹی،سیاسی اوراقتصادی معاہدوں پردستخط کیے ہیں۔اس سال فروری میں ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے تہران میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کے بعدایک پریس کانفرنس میں اعلان کیاکہ”ایران اپنے جوہری معاملے پرامریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گااورجوہری معاملے پرروس اورچین کے ساتھ مل کرآگے بڑھے گا”۔دوسری جانب روس بھی حالیہ دنوں میں امریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات میں مصروف رہاہے۔دونوں ممالک کے نمائندوں نے ریاض میں ملاقات کی تھی اوربات چیت کے دوران ایران پربھی تبادلہ خیال کیاگیاتھا۔
روس اورایران نے12جنوری2025کوایک جامع سٹریٹجک پارٹنرشپ کے معاہدے پردستخط کیے ہیں،اس وقت جب ڈونلڈٹرمپ نے امریکی صدرکےعہدے کاحلف ابھی اٹھایانہیں تھا۔اس دستاویزکے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ”فوجی،سیاسی،تجارتی اوراقتصادی تعلقات کومضبوط کریں گے”۔گذشتہ سال ستمبر2024میں جینزسٹولٹن برگ نے عالمی میڈیاکوبتایاتھاکہ روس،ایران،چین اورشمالی کوریاپہلے سے کہیں زیادہ متحداورمربوط ہیں۔اسی طرح کاانتباہ نیٹوکے موجودہ سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے بھی دیا ہے کہ”شمالی کوریااورایران روس اورچین کے ساتھ مل کرشمالی امریکااوریورپ کوکمزورکرنے کی کوشش کررہے ہیں”۔
برطانیہ کی مسلح افواج کے سربراہ ایڈمرل ٹونی راڈاکن کامانناہے کہ اسرائیل نے ایران کی بیلسٹک میزائل بنانے کی صلاحیت کو ایک سال تک کیلئےختم کر دیا ہے لیکن اس دعوے کی حقیقت کاتعین کرنااس لئے مشکل ہے کہ اب تک اس کاکوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آسکالیکن ایران کی عسکری تیاریوں کے تناظرمیں اسے نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔تاہم،ایران کے عسکری ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان کی میزائل تیاری کی صلاحیت مکمل طورپرمحفوظ ہے اوروقت آنے پرایران سب کوششدرکرکے رکھ دے گا۔
ادھردوسری طرف امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کیلئےآیت اللہ علی خامنہ ای کوخط لکھنے کی تصدیق اورایران کے رہبرِاعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے بیان جس میں انہوں نے گوکہ امریکی صدرکاکوئی ذکرنہیں کیالیکن امریکاپر بھرپورعدم اعتمادکے ساتھ انہوں نے یورپی طاقتوں کوضرورتنقیدکانشانہ بنایاہے۔آیت اللہ خامنہ ای نے سرکاری عہدیداران کے ساتھ اپنی گفتگومیں مذاکرات پراصرارکرنے والی”ہٹ دھرم حکومتوں”پرتنقیدکرتے ہوئے یورپی ممالک کو”بے شرم اوراندھا”قراردیا کیونکہ انہوں نے جوہری معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے پرتہران پرتنقید کی تھی۔
تاہم ایران کی جانب سے امریکی پیشکش کوٹھکرانے کے ایک دن بعدایران،روس اورچین کے درمیان نئی فوجی مشقوں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔واضح رہے کہ دوروزقبل وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں بنیادی طورپرامریکا کی معاشی صورتحال پرتوجہ مرکوزکی گئی اوراسی دوران صدرٹرمپ نے کہاتھاکہ”آپ بہت جلدایران کے بارے میں خبریں سنیں گے”۔
ان بیانات کی گولہ باری کے بعد ایران کی خبررساں ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیاہے کہ یہ فوجی مشقیں پیرکوخلیج عمان میں”چابہار بندرگاہ کے قریب‘جنوب مشرقی ایران میں شروع ہونے جارہی ہیں۔دوسری طرف چین عنقریب ایران اورروس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں شروع کرنے جارہاہے۔چینی وزارت دفاع نے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ مشقیں ایران کے قریب سمندر میں کی جائیں گی۔ان فوجی مشقوں میں نصف درجن ممالک بطورمبصرشریک ہوں گے جن میں آذربائیجان،جنوبی افریقا،پاکستان،قطر، عراق یواے ای شامل ہیں۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان مشقوں کامقصدباہمی تعاون کوبڑھاناہے۔حالیہ برسوں میں ان تینوں ممالک کی فوجیں ایسی جنگی مشقیں کرتی رہی ہیں۔یہ فوجی مشق بحرہندکے شمال میں ہوں گی اوراس کامقصدخطے کی سلامتی اور شریک ممالک کے درمیان کثیرجہتی تعاون کوبڑھاناہے۔
یہ پہلاموقع نہیں ہے کہ ایران،روس اورچین ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کررہے ہوں۔یوکرین پرروس کے حملے کے بعدسے ایران اورچین پرروس کوفوجی مددفراہم کرنے کاالزام لگ رہاہے۔ان ممالک کے درمیان فوجی مشقیں اس سے قبل مارچ2024 میں اورتقریباًدوسال قبل مارچ2023میں بھی ہوئی تھیں اوردونوں باریہ مشقیں بحرہندکے شمال میں خلیج عمان کے قریب ہوئی تھیں۔ ایرانی بحریہ اورپاسداران انقلاب دونوں نے میرین سکیورٹی بیلٹ2023اور2024نامی فوجی مشقوں حصہ لیااوراس سے قبل بھی یہ تینوں ممالک ایسی فوجی مشقیں کرتے رہے ہیں۔ان مشقوں کیلئےاکثرمقامات کاانتخاب خلیج عمان کے قریب کیاجاتاہے،جوخلیج فارس اورآبنائے ہرمزکے درمیان ہے۔یہ سٹریٹیجک طورپرایک اہم آبی گزرگاہ ہے کیونکہ یہاں سے عالمی منڈیوں کوتیل فراہم کیاجاتاہے۔دنیا کے کل تیل کاتقریباًپانچواں حصہ اسی راستے سے گزرتاہے۔
ان جنگی مشقوں کے جواب کےفوری بعدوائٹ ہاؤس نے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان برائن ہیوزنے ایک طرح سے ایران کودھمکی دیتے ہوئے کہا:ہمیں امیدہے کہ ایران اپنے عوام اورمفادات کودہشتگردی سے بالاتررکھے گا”۔برائن ہیوزنے چندروز قبل ٹرمپ کے بیان کودہراتے ہوئے کہا کہ اگرہمیں فوجی کارروائی کرنی پڑی تویہ بہت برا ہوگا۔
اس سے قبل ٹرمپ نے کہاتھاکہ ایران کو جوہری ہتھیاربنانے سے روکنے کے دوراستے ہیں”فوجی طریقہ یاسمجھوتہ”۔رواں برس جنوری میں امریکی صدرکاعہدہ سنبھالنے کے بعدڈونلڈٹرمپ نے کہاتھاکہ ایران کے حوالے سے ان کانقطہ نظر”زیادہ سے زیادہ دباؤ” کاہوگا۔انہوں نے اس سے متعلق قومی سلامتی کی یادداشت پردستخط کیے جس میں ایران کوجوہری ہتھیاروں،بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے حصول سے روکنے اوراس کے”دہشتگرد نیٹ ورک”کوتباہ کرنے پرزوردیاگیاہے۔
چارفروری2025کی اس دستاویزمیں ایران کے جارحانہ جوہری پروگرام کوامریکاکیلئےخطرہ قراردیاگیاہے۔اورجب سے ٹرمپ نے اس پردستخط کیے ہیں ایران کاامریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حوالے سے مؤقف اورزیادہ سخت ہوگیاہے۔ایسانہیں ہے کہ معاملہ صرف امریکاتک محدودہے۔امریکاکے پٹھواسرائیل کابھی یہی کہناہے کہ ایران ان کے نشانے پر ہے۔حال ہی میں اسرائیلی فوج کے نئے چیف آف سٹاف ایال ضمیرمقررکیے گئے ہیں جنہوں نے اپناعہدہ سنبھالنے کے بعدکہاہے کہ سال2025جنگ کاسال ہے۔انہوں نے کہاکہ ان کی توجہ غزہ کی پٹی اورایران پررہے گی اورساتھ ہی کہاکہ”ہم نے اب تک جوکچھ حاصل کیاہے اس کی بھرپورحفاظت کریں گے۔
خطے میں جنگ کے منڈلاتے بادلوں کے بعدمختلف قیاس آرائیاں اورامیدوں کاسلسلہ چل نکلاہے۔موجودہ صورتحال پرسیاسی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ امریکاکے سابق سیکریٹری خارجہ یہودی نژادہینری کسنجرنے ایک بارکہاتھاکہ:کسی معاملے کے بارے میں مکمل طورپرآگاہی حاصل کرنے کیلئےیاتوآپ کاتمام چیزوں کاجانناضروری ہے یاپھرآپ کچھ نہیں جانتے۔ہنری کیسینجرکے اس بیان کوایران اورامریکاکی موجودہ مثال کے تناظرمیں دیکھاجاسکتاہے جہاں دونوں ممالک کے درمیان خطوط کے تبادلے کی تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں مگراس کی متعددتشریحات کی جارہی ہیں۔
ڈونلڈٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ چاہتے ہیں اوراگرایسانہیں ہوتاتووہ ایسے آپشنزپرغورکریں گے جس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ایران نے اپنے ردِعمل میں دونکات پرزیادہ زوردیاہے:وہ موجود حالات میں براہ راست مذاکرات نہیں چاہتے اوراگرانہیں دھمکی دی جاتی ہے تووہ بھی جواب دیں گے لیکن آج دونوں ممالک کے حکام کے بیانات دیکھ کرایک بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ مذاکرات کی میزکوبرقراررکھناچاہتے ہیں اوروہ بظاہربالواسطہ بات چیت کیلئےبھی تیارہیں۔
گذشتہ روزرپبلکن سینیٹرلنڈسے گراہم نے بھی کہاتھاکہ وہ امیدکرتے ہیں کہ ڈونلڈٹرمپ یہ معاملہ”سفارتکاری”کے ذریعے حل کرلیں گے۔ایران کے تین یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات جنیوامیں جاری ہیں اورایرانی حکومت کاکہناہے کہ مذاکرات کے تکنیکی پہلوؤں پرپیش رفت ہوئی ہے۔ان مذاکرات کی تفصیلات بھی ابھی منظرِعام پرنہیں آئی ہیں اوربرطانیہ،فرانس اورجرمنی کے علاوہ دیگریورپی ممالک کے سفیروں کابھی کہناہے کہ انہیں جنیوامیں ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات کاعلم نہیں۔ایسی صورتحال میں حقائق کی جگہ نامعلوم ذرائع سے منسوب قیاس آرائیاں،تشریحات اوردعوے ہی سامنے آرہے ہیں۔
امریکااورایران کے تعلقات میں کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے۔سفارتی تعلقات میں پیچیدگیاں،عسکری خطرات،اور اقتصادی پابندیاں اس تنازع کومزیدگہراکررہی ہیں۔ایران کی میزائل طاقت اورامریکی عسکری منصوبے خطے میں ایک نئے تنازعے کوجنم دے سکتے ہیں ایک طرف امریکی پابندیاں اورفوجی دھمکیاں ہیں،تودوسری طرف ایران اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کررہاہے۔اگرسفارتی مذاکرات بحال نہ ہوئے توخطے میں مزید تنازعات اورکشیدگی کاامکان موجودہے اوریہ خطرہ کبھی بھی عالمی جنگ کی طرف بڑھ سکتاہے۔موجودہ حالات میں ایسالگتاہے کہ تمام فریقین خصوصاً ایران مذاکرات پرتوجہ مرکوزرکھناچاہتے ہیں اوران کی عوامی رائے یامیڈیاکو ردِعمل دینے میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن خطے میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت عالمی امن کیلئے بدستورایک شدید خطرہ بنی ہوئی ہے۔