عید پھر آئی اورچلی گئی ۔یہ توخوشی کا موقع ،اللہ کے انعام پر شکر ادا کرنے کا دن۔لیکن جب میں اپنے وطن کے ان بے شمار لوگوں کو دیکھتا ہوں جن کے پاس عید کے دن بھی پیٹ بھر کر کھانے کو تھا اورنہ ان کے بچوں کیلئے ،نئے تو کیا صاف ستھرے کپڑے بھی نہیں تھے اور ایسے لوگ بھی توبے شمار ہیں جو اللہ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں سے اگر کچھ حصہ ان کو دے دیتے جو بے وسیلہ ہیں تو ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آجاتی، ان کی آنکھوں سے اداسی ایک دن کیلئے ہی سہی،مفقود ہوجاتی اور خوشیاں رقص کرنے لگتی۔
مجھے مدینہ منورہ کا وہ یتیم بچہ یاد آرہا ہے جس کے سر پر رحمت العالمین رسول اکرمﷺنے ہاتھ رکھا توگویا اسے دنیا کی سب سے بڑی نعمت مل گئی تھی۔کیا اس کے امتیوں کو رحمت العالمین رسول اکرمﷺ کی یہ سنت یاد نہیں رہی؟کیا قرآن کریم میں یہ نہیں کہا گیاکہ:
“تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں ( خدا کی راہ میں ) خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا “﴿العمران:92﴾۔
اورپھرفرمایا:تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھُٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکّے دیتا ہے ، اور مسکین کا کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں ﴿لوگوں کو﴾ دینے سے گریز کرتے ہیں۔﴿الماعون:1-7﴾
سبحان اللہ!رب العزت نے یتیموں اور مسکینوں سے بدسلوکی کرنے اور کھانا نہ دینے یا دوسروں کو اس کیلئے آمادہ نہ کرنے کا تعلق ”یوم دین”کو جھٹلانے سے جوڑا ہے ۔ یعنی یتیموں اور مسکینوں کی مدد نہ کرنے والے وہ ہیں جو یوم آخرت اور جزا و سزا پر ایمان نہیں رکھتے اور ظاہر ہے انہیں مسلمان نہیں کہا جا سکتاتو گویامسلمان ہو نے اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ یتیموں کو گلے لگایا جائے،ان سے شفقت سے پیش آیا جائے اور یتیموں ،نا داروں اور مسکینوں کو خود بھی کھا نا کھلایا جائے اور دوسروں کو اس پر آمادہ کرنے کیلئے باقاعدہ مہم بھی چلائی جائے۔
ان آیات مبارکہ کی روشنی میں آج اپنے اپنے کردار اورعمل کا جائزہ لیجئے۔بیشک بنیادی ذمہ داری تو حکمرانوں کی ہے جو عوام سے ٹیکس اسی لئے وصول کرتے ہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔بینکوں کے ذریعے سال پورا نہ ہو نے اور نصاب کو نہ پہنچنے والی رقم پر بھی زکوٰةکا ٹ لی جا تی ہے تاکہ ناداروں پر صرف کی جائے لیکن پھر بھی ناداروں غریبوں اور مسکینوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ایسا کیوں ہے؟کیا مسلمانوں کے حکمران یوم آخرت پر یقین نہیں رکھتے یا نظام زکٰوة صحیح طور پر نافذ نہیں کر سکے۔
اپنے طراف میں نظر ڈالئے آپ کو کتنے ہی نادار ،مسکین اور یتیم بچے کوڑے پر رزق تلاش کرتے نظر آجائیں گے ۔ معصوم بچے جو کچرے میں پھینکے گئے گلے سڑے اناروں سے اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کر تے ہیں ،ایسے بچے ہر جگہ اور ہر شہر میں آپ کو ملیں گے۔”کیا تم نے دیکھا ان لوگوں کو جو جزا و سزا کو جھٹلا رہے ہیں”۔کیا ہم بھی تو ان میں شامل نہیں؟ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں ،ایک اسلامی ملک میں جگہ جگہ ننگے بھوکے لوگوں کی بھیڑ نظر آئے اور معاشرہ ان سے آنکھیں چرالے؟ فرمان الٰہی تو یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ اپنی ایسی چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کر دیں جو ان کو بہت عزیز و محبوب ہیں۔
ہم روزے رکھ کر،نماز پڑھ کر،حج اور عمرے کی ہر سال سعادت حاصل کر کے خود کو نیکو کاروں میں شمار تو کر تے ہیں،پڑوسی بھوکا ہو،محلے میں یتیم،مسکین اور نادار بیوائیں بے سہارا ہوں اور ہم عمرے کیلئے دوڑے چلے جائیں جو فرض نہیں ہے ،حج بھی زندگی میں صرف ایک بارمخصوص شرائط کے ساتھ فرض کیا گیا ہے پھر بھی کتنے ہی لوگ فخریہ گنواتے ہیں کہ انہوں نے کتنے حج کر لئے۔گھر کے باہر نام کی تختی پر جلی حروف میں ”الحاج” لکھوا رکھا ہے،ہر کسی سے ”حاجی صاحب” سننے میں سرشاری محسوس کرتے ہیں۔لیکن یہ تو بتائیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کیا،کتنے یتیموں، ناداروں اور مسکینوں کو سہارا دیا ،اپنی کتنی محبوب اشیاء اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں،ایسا ہوتا تو آج کوڑے کے ڈھیر پریہ بچے نظر نہ آتے جنہیں دیکھ کر یہ تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ یہ انسان کے بچے ہیں یا پھر اسی کوڑے کرکٹ اور کچرے کا حصہ!
اللہ کا شکر ہے کہ کئی تنظیمیں ان حالات میں بھی یتیم،مسکین اور نادارہیں۔ بیواؤں کی نہ صرف خود مدد کر رہی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اکسا رہی شاید اسی لئے زلزلے آآ کر پلٹ جاتے ہیں اور آسمان سے بارش بھی برس جا تی ہے کہ کھیتیاں سوکھنے نہ پا ئیں لیکن ہر کوشش نا کافی ہے کہ غربت میں اضافے اور یتیموں مسکینوں ناداروں کی تعدا بڑھانے کی منظم مہم اس سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ آگے بڑھئے آپ کو اپنے عزیزوں رشتہ داروں میں ایسے سفید پوش،نادار غریب مل جائیں گے جو آپ کی توجہ اور مدد کے طالب ہیں۔ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
جب میں نے بالآخر ان سے عزت نفس کے خیال رکھنے کا بہترین طریقہ دریافت کیا تو حسب عادت مسکرائے کہ پگلے دنیا میں سب سے آسان کام بھی یہی ہے اور سب سے مشکل بھی۔”آپ آسان زباں میں کیوں نہیں بتاتے ،ایسے جواب سے تو الجھن بڑھتی ہے؟”فرمانے لگے ”مشکل اس لئے ہے کہ اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کو دیتے ہوئے دل کے کسی گوشے میں برتری کا احساس ہر نیکی برباد کر دینے کا احتمال رہتا ہے لیکن اگر یہی کام اس طرح کیا جائے کہ اس عزیز یا رشتہ دار کو پتہ نہ چلے کہ یہ مدد آپ کر رہے ہیں،یہی کام اپنے کسی ایسے دوست کے ذریعے کریں جو ان کیلئے اجنبی ہوتو پھر دونوں اطراف میں خیر باقی رہتی ہے۔اپنے محلے میں کسی ایسے دوکاندارکے پاس چلے جائیں، اس سے رازداری سے پوچھیں کہ اس کی دوکان سے خوردونوش کاسامان ادھارپرکون لے کرجارہاہے جس کیلئے اس مہنگائی کے ہاتھوں ادائیگی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دے رہی ہے اور وہ اب شرم کے مارے دوکان کے سامنے گزرنے سے شرم محسوس کررہاہے، انتہائی خاموشی سے اس کے ادھارکی ادائیگی کردیں اور پھردیکھیں کہ آپ کی عیدکی خوشیاں کیسے دوبالاہوجاتی ہیں۔
بعض سدا بہار لطیفے دراصل اپنے تصوف کا ایک پوشیدہ پرتو رکھتے ہیں۔ایک سردار جی نہایت اہتمام سے چائے پی رہے تھے۔ وہ ایک گھونٹ بھرنے کے بعد چائے کو ایک چمچے سے خُوب ہلاتے ، چمچہ چائے میں پھیر کر ایک گھونٹ بھرتے اور پھر مسکرانے لگتے۔ وہ یہ عمل بار بار دُہراتے رہے۔ ہر گھونٹ کے بعد چائے کو چمچے سےہِلاتے ، ایک اور گھونٹ بھرتے اور مُسکرانے لگتے۔ ساتھ بیٹھے دوست نے پُوچھا کہ ، ”سردار جی آپ ہر بار چائے کو چمچے سے ہلا کر گھونٹ بھرنے کے بعد مُسکراتے کیوں ہیں؟ تو سردار جی نے کہا کہ ، ”ایک بات آج ثابت ہو گئی ہے، چائے میں اگر چینی نہ ڈالو تو لاکھ اُسے چمچے سے ہِلاؤ ،وہ کبھی بھی میٹھی نہیں ھو گی”۔
اگر نیک اعمال کی چینی آپ کی حیات میں نہ ہو تو آپ لاکھ عبادتیں کریں ، تسبیح پھیریں ، فیصلہ تو اعمال کی چینی سےہو گا ورنہ روزِ حشر آپ کی اگلی پُوری زندگی پھیکی ہی رہے گی۔ شاہ حسین اور بابا بلھے شاہ کے اکثر شعروں میں یہی پیغام ہے ، ”کہ اگر عمل مفقُودہے تو تم پھیکے کے پھیکے رہو گے، کبھی میٹھے نہ ہو گے“۔
اُچیاں بانگاں اوھو دیندے
نیت جنہاں دی کھوٹی ھُو
ہم اپنی زیست کے پیہم مسرت خیز لمحوں سے ایک ساعت ہی سہی،انہیں صرف یاد ہی کر لیں جوہماری سلامتی کیلئے اپنی جان ہتھیلی پررکھ کراپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔کیا عید کے موقع پر دشمنوں کے ہا تھوں یتیم بنائے جانے والوں بچوں اورخاندانوں کیلئے بھی ہمارے پاس کچھ ہے؟اس بارے میں ضرور سوچیں کہ ہمارے بچوں کے کل کیلئے اپنا آج کون قربان کرکے رخصت ہوگیا۔اس عیدپران کے بچے کیسے عیدمنائیں گے؟اپنے علاقے میں ان شہداء کے بچوں کے ساتھ ضرورعیدمنائیں توان بچوں کے ساتھ آپ کی خوشیوں کالطف دوبالاہوجائے گا۔