Silent Power: The Race for Rare Minerals

خاموش طاقت: نایاب معدنیات کی دوڑ

:Share

زمانۂ قدیم سے ہی سلطنتوں کی عظمت کادارومداران کے زیرِزمین خزانوں اورتجارتی شاہراہوں پررہاہے۔آج بھی جب چین اورامریکا جیسے عظیم اقتصادی طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ کی آگ بھڑکتی ہے،تواس کامرکزصرف محصولات تک محدودنہیں رہتابلکہ یہ جنگ اب ان نایاب معدنیات تک پھیل چکی ہے جوجدید ٹیکنالوجی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں۔چین نے حال ہی میں ان معدنیات کی برآمد پرپابندیوں کااعلان کرکے امریکاکوایک ایسے میدان میں للکاراہے جہاں اس کی کمزوریاں عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔امریکااورچین کے درمیان ایک دوسرے کی اشیاءپرٹیرف اورجوابی ٹیرف لگانے کی اس تجارتی جنگ کاپس منظرنہ تونیاہے اورنہ ہی اچانک سامنے آیاہے۔

عالمی سیاسی منظرنامہ گزشتہ چنددہائیوں سے جس کروٹ پرہے،اس میں معیشت اورٹیکنالوجی کاامتزاج طاقت کے نئے پیمانے متعین کررہاہے۔یہ دور میدانِ جنگ میں گولیوں کی گونج سے زیادہ،معدنی وسائل کی تقسیم پرمبنی پالیسیوں کی گونج سن رہاہے۔چینی دانشورڈینگ شیوپنگ کایہ جملہ آج تاریخ کی سچائی بن چکاہے کہ”مشرقِ وسطیٰ کے پاس تیل ہے،ہمارے پاس نایاب معدنیات ہیں۔

چین اورامریکاکے مابین جاری تجارتی جنگ اس وقت نہایت ہی نازک موڑپرآپہنچی ہے۔ایک طرف دونوں ممالک ایک دوسرے پربھاری محصولات (ٹیرف) عائدکرکے معاشی ضربیں لگارہے ہیں،تودوسری طرف چین نے اپنی سب سے بڑی طاقت— نایاب معدنیات—کوبطورہتھیاراستعمال کرناشروع کردیاہے۔ان معدنیات کی برآمدپرپابندی کے احکامات جاری کرنا امریکاکیلئے ایساہی ہے جیسے کسی زندہ جسم سے سانس کی ڈورکھینچ لی جائے۔

امریکاکاان نایاب معدنیات پرانحصاربے حدزیادہ ہے۔سکینڈیئم،یٹریئم،لانتھانم،اوردیگرریئرارتھ عناصرجدید ٹیکنالوجی کے بنیادی ستون ہیں۔میزائل سازی،جیٹ طیارے،موبائل فونز،ریڈار، الیکٹرک گاڑیاں،اورحتیٰ کہ سبزتوانائی کی مصنوعات میں ان کااستعمال لازم ہے۔ان معدنیات کو”نایاب” اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ زمین میں قلیل مقدارمیں پائے جاتے ہیں،اورانہیں علیحدہ کرنا،صاف کرنااورپروسیس کرناانتہائی مہنگااورماحول دشمن عمل ہے۔

دنیامیں سب سے زیادہ ذخائرآسٹریلیا،چین،امریکا،برازیل اورروس میں پائے جاتے ہیں،مگر پروسیسنگ کا92فیصدحصہ صرف چین کے پاس ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق،چین اس وقت عالمی سطح پر61فیصدتک نایاب معدنیات پیداکرتاہے اور92 فیصدتک ان کی ریفائننگ چین کے ہاتھ میں ہے۔اس یکطرفہ اجارہ داری نے چین کواس شعبے کابلاشبہ شہنشاہ بنادیاہے۔یہ معدنیات نہ صرف قیمتی ہیں بلکہ ماحولیاتی طورپرمہلک بھی ہیں۔ان کی کان کنی میں تابکاری عناصرشامل ہوتے ہیں، جوماحول اورانسانی صحت کیلئے خطرناک ہیں۔یہی سبب ہے کہ یورپ اوردیگرمغربی اقوام نے اس میدان سے راہِ فرار اختیارکی،اورچین نے اس خلاکوکئی دہائیوں کی جامع منصوبہ بندی سے پُرکر دیا .

چین نے سات اہم نایاب معدنیات کی برآمدپرپابندی لگادی ہے،جن میں ایسے عناصربھی شامل ہیں جوامریکی دفاعی صنعت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس اقدام سے نہ صرف امریکاکی دفاعی تیاریوں میں خلل پڑا،بلکہ عالمی منڈی میں بےچینی بھی بڑھ گئی ہے۔چین نے اپریل سے برآمدات کیلئے سپیشل لائسنس لازمی قراردے دیاہے،جوکہ”دوہری استعمال”کے معاہدات کے تحت ایک جائزقدم ہے۔یہ معدنیات جنگی اورغیرجنگی،دونوں ٹیکنالوجیز میں استعمال ہوتی ہیں،جس سے ان کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ سینٹرآف سٹریٹجک اینڈانٹرنیشنل سٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق ،ایف35 جیٹس، ٹومو ہاک میزائل،اوردیگرہائی ٹیک دفاعی آلات کا انحصارانہی معدنیات پرہے۔چین کی موجودگی نہ ہوتوامریکاکیلئے یہ دفاعی سلسلہ تقریباًناممکن ہوجائے گا۔

امریکاکے پاس بھی محدودمقدارمیں ذخائرہیں،مگرپروسیسنگ کی صلاحیت نہ ہونے کے برابرہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین سے معاہدے کی کوشش کی تاکہ چین پرانحصارکم کیاجاسکے۔بدقسمتی سے،یوکرین کے وہ علاقے جہاں یہ معدنیات ہیں،روسی قبضے میں آچکے ہیں۔دراصل یوکرین کی جنگ میں امریکا اور اوریورپ کی دلچسپی انہی معدنیات کی وجہ سے ہے لیکن ناکامی کی وجہ سے اب ٹرمپ کی پالیسی کایوٹرن انہی مفادکیلئے ہے۔اسی لئے ٹرمپ نے یوکرین کے زیلنسکی کوکھلی دہمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی تھی اوراس سے براہِ راست ان معدنیات کے حصول کامطالبہ کیاتھاجوابھی تک پورانہیں ہوسکا۔

گرین لینڈکوامریکاخریدنے کی پیشکش کرچکاہے۔معدنیات سے مالامال یہ خطہ،ڈنمارک کی مالی امدادپرانحصارکرتاہے،مگرٹرمپ کی جارحانہ حکمت عملی نے اس تجویزکوعالمی سطح پرمزاح کانشانہ بنادیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے غیرمتوازن فیصلوں نے امریکاکودوہری مشکل میں ڈال دیاہے۔نہ صرف اس نے چین جیسے اجارہ دار کوناراض کردیاہے بلکہ یورپ جیسے اتحادی بھی اس کے اقدامات سے نالاں ہیں۔یہ جنگ محض تجارتی یااقتصادی نہیں بلکہ عالمی طاقت کے نئے مراکزکاتعین کررہی ہے۔اگرامریکانے وقت پرکوئی نیا راستہ نہ چناتوممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ میدانِ جنگ میں موجودتوہو،مگراس کے پاس جنگ جیتنے کیلئے ہتھیار نہ ہوں۔یوں بھی تاریخ سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ امریکااب تک36سے زائدممالک میں جارحیت کا مرتکب ہوچکاہے اورہرجنگ کا مقدررسواکن شکست اورفرارپرمبنی ہے۔آئیے!چین اورامریکا میں موجودہ تناؤکو سمجھنے کیلئے اس تنازعہ کا شواہدکے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کہ مستقبل میں طاقت کامرکز کس کے ہاتھ میں ہوگا؟

دراصل اس کشیدگی کی بنیادٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں2018ءمیں چین پرٹیکنالوجی چوری ،غیرمنصفانہ تجارتی پالیسیوں،اورذہین ملکیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائدکرتے ہوئے250ارب ڈالرمالیت کی چینی مصنوعات پر ٹیرف لگاکررکھی تھی جس کے جواب میں چین نے اپنے ردعمل میں 110/ارب ڈالرکی امریکی مصنوعات(سویا بین، الیکٹرانکس ، پٹرولیم) پرٹیرف کاجواب دیا تھا۔2023ء تک دونوں ممالک کے درمیان 50% تک اضافی ٹیرف عائدہوچکےتھے۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، امریکا کو 2023ء تک 0.5%جی ڈی پی کانقصان،جبکہ چین کو1.2%جی ڈی پی کااقتصادی دھچکالگا۔گویاامریکااورچین کے درمیان یہی نایاب معدنیات کامحاذایک مرتبہ پھرایک خوفناک جن کی صورت میں عالمی تجارتی منڈی میں آن پہنچاہے۔

نایاب زمینی معدنیات وہ17کیمیائی عناصرہیں جن کے بغیرآج کی ٹیکنالوجی—چاہے وہ اسمارٹ فونزہوں،الیکٹرک گاڑیاں یاجنگی میزائل سسٹم— ناممکن ہیں ۔ سکینڈیئم سے لے کر لٹیٹیئم تک،یہ تمام عناصرایسے ہیں جوزمین کی گودمیں تووافرمقدارمیں موجودہیں، مگران کانکالنااورصاف کرناانتہائی مشکل اورمہنگاعمل ہے۔تاریخی طورپر،ان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ بیسویں صدی میں یورینیم کے بعدیہی وہ دوسرے خاموش ہتھیارہیں جونہ صرف عالمی طاقتوں کی جنگی اوراقتصادی پالیسیوں کو تشکیل دیتے ہیں بلکہ یہ نایاب معدنیات جدیدتہزیب کامضبوط ستون بن کرمستقبل فاتح قوم کا استعارہ بن گئی ہیں۔

گزشتہ دوعشروں میں چین نے نہ ان معدنیات کی کان کنی اوران کی پروسیسنگ میں بھی دنیاپرغلبہ حاصل کرلیاہے۔کان کنی سے پروسیسنگ تک چین کی بالادستی نے امریکاکی صنعتی اورمعاشی دنیاپرلرزہ طاری کردیاہے۔بین الاقوامی اعدادوشمارکے مطابق،چین اس وقت دنیابھرمیں61فیصدنایاب معدنیات پیداکرتاہے،جبکہ ان کی پروسیسنگ کا92فیصدحصہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔یہ بالادستی محض اتفاق نہیں،بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کانتیجہ ہے ۔1980 ءکی دہائی میں جب مغربی ممالک نے ماحولیاتی تحفظ کے نام پرکان کنی کے سخت قوانین بنائے،توچین نے اس موقع کوغنیمت جانا۔اس نے کم لاگت ،کم مزدوری،اورماحولیاتی پابندیوں میں نرمی کے ذریعے دنیابھرکی صنعت کواپنی جانب متوجہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج چین کے صوبے انرمونگولیا اورجیانگشی میں واقع کانیں دنیا کی ٹیکنالوجی کوسہارادے رہی ہیں۔

چین نے یکم اگست2023ءکوگیلیم،جرمینیم سمیت8نایاب معدنیات کی برآمدات پرلائسنسنگ کانظام نافذکیا،جوامریکاکی90%سپلائی کو متاثرکرتاہے۔ گویا چین نے نایاب معدنیات پر پابندی کاہتھیاراستعمال کرتے ہوئے یہ قانونی جوازپیش کیاکہ یہ پابندیاں”قومی سلامتی”اور “ماحولیاتی تحفظ” کیلئےہیں لیکن تجزیہ کاراسے امریکاکودباؤمیں لانے کی کوشش قراردیتے ہیں۔چین کی طرف سے عائدپابندیوں نے امریکاکی معیشت پراس طرح گہرااثرچھوڑاکہ اس کے ایف 35 طیاروں کی پیداوارسست پڑگئی،امریکامیں الیکٹرک کارز(ٹیسلا)، ٹاورز(کوالکام)اورجی5 بری طرح نہ صرف متاثرہوئے ہیں بلکہ ناقابل تلافی نقصان کی بناءپران کامستقبل داؤپرلگ گیاہے۔

امریکاکیلئےیہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے۔دفاعی سازوسامان سے لے کرشمسی توانائی تک،ہرشعبے میں چین پرانحصاراس کی حکمتِ عملی کوکمزورکررہاہے۔مثال کے طورپر، ایف35 لڑاکاطیارے کے ہریونٹ میں400کلوگرام سے زائدنایاب معدنیات استعمال ہوتے ہیں۔چین کی جانب سے برآمدات پرپابندی نے امریکاکواس مقام پرلاکھڑاکیاہے جہاں1973ءکے تیل کے بحران میں عرب ممالک نے مغرب کولاکھڑاکیاتھا۔امریکاکی سب سے بڑی کمزوری کااورچین پرانحصارکایہ عالم ہے کہ امریکاکی سب سے بڑی کان،ماؤنٹین پاس کیلیفورنیاسے نکالاگیاخام موادبھی پروسیسنگ کیلئےچین ہی بھیجاجاتا ہے۔

چین کی پروسیسنگ مہارت کاجائزہ اورٹیکنالوجی کے ارتقاءکااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس نے2000ءمیں ہی”863″ پروگرام کے تحت نایاب معدنیات کی ریسرچ پر12 ارب ڈالرخرچ کیے۔اس پراجیکٹ پرچین کواس لئے فوقیت رہی جوبعد ازاں موجودہ دورمیں چین کی اجارہ داری کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے کہ چین میں کان کنی کی لاگت امریکا سے 60فیصدکم ہیں۔اس کے علاوہ چین نے شنگھائی اورگوانگژومیں تین سوسے زائدپروسیسنگ پلانٹس لگانے کے ساتھ کان کنی کمپنیوں کو30فیصد ٹیکس میں چھوٹ بھی دے دی ہے۔ چین کی ان کامیاب پالیسیوں کے سامنے آسٹریلیا کی لیناس کارپوریشن اور ملائیشیا کی لیناس ایڈوانسڈ میٹیریلزپلانٹ بھی بے بس ہوگئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ امریکانے2022ءمیں ایک مرتبہ پھرماؤنٹین پاس کان کی بحالی کودوبارہ فعال کرنے کیلئے35ملین ڈالرکی سرمایہ کاری سے اس کاآغازکردیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے چین کے معاشی محاصرہ کیلئے آسٹریلیا،جاپان،بھارت کوساتھ ملاکر”کواڈ” جیسابین العلاقائی اتحادبنایاہے تاکہ چین کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں امریکانے “ریئرارتھ انڈیپینڈنس” ایکٹ2023ءکے قانون کے تحت2030ءتک خودکو پروسیسنگ میں خودکفیل بنانے کاہدف طے کررکھاہے لیکن ماہرین کی رائے کے مطابق یہ ایک بھرپورکوشش توہوسکتی ہے لیکن مکمل خودانحصاری کانام نہیں دیاجاسکتا۔

امریکاکی80%نایاب معدنیات چین سے درآمدہوتی ہیں۔مثال کے طورپرنیو”ڈیمیئم”جوالیکٹرک موٹرزاورونڈ ٹربائنوں کیلئے انتہائی ضروری ہیں۔ “یوروپیئم”نیوکلیئرری ایکٹرزاورمیڈیکل امیجنگ مشینوں میں استعمال ہوتاہے۔اسی طرح”ڈسپروسیئم”فوجی ریڈاراور میزائل گائیڈنس سسٹمزکاکلیدی جزوہے،ان تمام معدنیات کیلئے امریکاچین کامحتاج ہے۔2022ء کی رپورٹ کے مطابق اگرچین سپلائی روک دے توایف35طیاروں کی پیداوارمیں کم ازکم6ماہ کی تاخیرہوسکتی ہے۔

آئیے !دیکھتے ہیں کہ چین کے اس جوابی وارسے امریکاپرکیاصنعتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اورکیانایاب چینی معدنیات پرامریکی انحصار مستقبل میں کیاخوفناک معاشی اثرات نمودارہوسکتے ہیں۔
یوایس جیالوجیکل سروے2023کے اعدادوشمارکے مطابق امریکاکی6میں سے5نایاب معدنیات(جیسے نیوڈیمیئم،پراسیوڈائمیئم،ڈسپرو سیئم)کا 80 فیصدکی95فیصدسپلائی چین کے سخت کنٹرول میں ہے۔گیلیم اورجرمینیم(سیمی کنڈکٹرزکیلئےاہم)کی94%عالمی سپلائی چین کے پاس ہے،جس پرامریکا کا100 %انحصارہے۔ امریکاکی صنعتی شعبوں کاانحصارچینی نایاب معدنیات کااس قدرمرہونَ منت ہے کہ الیکٹرک گاڑی ٹیسلابیٹری میں10سے15 کلوگرام معدینات(خاص طورپرنیوڈیمیئم)استعمال ہوتاہے۔2030ء تک امریکا کوایک ونڈ ٹربائن میں2گنا معدنیات درکارہیں اوریہ ونڈٹربائن امریکی صنعت کیلئے تجارتی شہہ رگ سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اسی طرح یہ نایاب معدنیات امریکی فوجی ہارڈوئیر کیلئے اس قدراہم ہیں کہ ہرایک ایف35 لڑاکاطیارے کے ہریونٹ میں417کلوگرام معدنیات درکارہیں۔اسی طرح ایک”ایجز”گائیڈڈمیزائل سسٹم میں4سے5کلوگرام”یٹریئم”معدنیات درکار ہے۔

پینٹاگون کی2020ءرپورٹ کے مطابق220امریکی دفاعی پیداوارمیں سے160دفاعی سپلائی چینزانہی چینی نایاب معدنیات پرمنحصر ہیں۔امریکی لڑاکا طیارے ایف35کے ساتھ ساتھ ہر ایک امریکی کروزمیزائل جس میں3سے5کلوگرام ٹیربیئم چینی نایاب معدنیات استعمال ہوتی ہیں،اگرچین صرف 80 فیصدسپلائی روک دے تو6ماہ میں دفاعی شعبہ ایسے بحران میں مبتلاہوسکتاہے کہ اس سے امریکی سلامتی کوسنگین خطرات کاسامناکرناپڑسکتاہے۔

یہ چینی معدنیات آخرکیوں”نایاب”ہیں؟یہ عناصرزمین کی پرت میں دوسری دھاتوں(جیسے آئرن، تانبا)کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔انہیں الگ کرنے کیلئےکیمیائی پیچیدگی کے ساتھ ساتھ انتہائی مہنگے کیمیائی عمل درکارہیں۔ پروسسینگ کے دوران زہریلے فضلے کا اخراج ہوتاہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک نے1990ءکی دہائی میں کان کنی ترک کردی تھی۔بیجنگ نے مزدوری کی کم قیمت اور ماحولیاتی قوانین میں نرمی سے پروسیسنگ پرکنٹرول حاصل کرلیااور یہی وجہ ہے کہ آج نایاب معدنیات کی پروسیسنگ میں چین کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔

اک نظر نایاب معدنیات کے عالمی ذخائر پر بھی ڈالتے ہیں:
٭نایاب معدنیات میں چین اس وقت سرفہرست ہے۔خاص طورپرانرمنگولیاکے بایان اوبوکان سے44ملین میٹرک ٹن کی مقدارمیں حاصل ہوتاہے جودنیاکا37فیصدہے۔
٭ویتنام ٹیکنالوجی کی کمی کی بناءکے باوجود22ملین میٹرک ٹن کی معدنیات نکال رہاہے جودنیاکا18فیصدہے اوروہ بھی پروسیسنگ کیلئے چین کی خدمات حاصل کررہاہے۔
٭روس اوربرازیل سرمایہ کاری نہ ہونے کی بناءپر21ملین میٹرک ٹن معدنیات نکال رہاہے جودنیا کا17فیصدہے۔
٭امریکاکیلیفورنیاماؤنٹین پاس کان سے(1.5ملین میٹرک ٹن)کی مقدارمیں نکال رہاہے لیکن یہ تمام معدنیات پروسیسنگ کیلئےچین بھیجی جاتی ہیں۔گویادنیاکی92فیصدنایاب معدنیات کی پروسیسنگ چین کے ہاتھ میں ہے۔

آئیے صرف ان4چینی مخصوص نایاب معدنیات کاذکرکرتے ہیں جن کے اعدادوشمارخودامریکی ادارے نے شائع کئے ہیں:
٭امریکی الیکٹرک موٹرز،مقناطیس صنعت کاچینی نایاب”نیوڈیمیئم”معدنیات پر92 فیصدانحصارہے۔
٭اسی طرح نیوکلیئرری ایکٹرزاورلیزرمصنوعات کاچینی معدنیات”یوروپیئم”پر89فیصدانحصارہے۔
٭فوجی ریڈاراورایٹمی ہتھیارکیلئے چینی معدنیات”ڈسپروسیئم”کا95فیصدلازمی عمل دخل ہے۔
٭ایئرکرافٹ انجنزاورہائنبرڈکارزکیلئے91فیصدپراسیوڈائمیئم نایاب چینی معدنیات استعمال لازمی ہے۔
٭ماؤنٹین پاس کان (کیلیفورنیا)امریکاکی واحدفعال کان،جو15ہزارٹن سالانہ خام مواد نکالتی ہے لیکن اسے پروسسینگ کیلئے چین بھیجاجاتاہے۔امریکامیں صرف ایک پروسیینگ پلانٹ ٹیکساس میں ہے جوجون2025ءتک مکمل ہوگااوراس کے باوجودابھی امریکاکو پروسیسنگ کی سہولت کیلئے کئی سال چین پرانحصارکرناہوگا۔

نیشنل ڈیفنس سٹاک پائل کے مطابق امریکاکے پاس اگلے دوسال کی ضرورت کیلئے نایاب معدنیات کاہنگامی ذخیرہ موجودہے لیکن سالانہ ضرورت کیلئے ساڑھے چارہزارٹن معدنیات صرف فوجی ہوئی جہازوں کیلئے درکارہوتاہے اورسالانہ ضرورت کا10فیصد نایاب معدنیات یعنی ایک ہزارٹن بیٹریاں بنانے کیلئے درکارہوتاہے۔اس لئے خدشہ یہ ہے کہ ہنگامی سٹاک سے استعمال کرنے کی پالیسی مستقبل کے کسی بڑے خطرے کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

امریکانے چینی نایاب معدنیات کے متبادل کیلئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں جس میں مغربی آسٹریلیامیں نئے کان کنی منصوبوں میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے۔اسی طرح کیوبک کینیڈامیں(دنیاکا60 فیصد)نائوبیئم کے ذخائرموجودہیں لیکن پروسیسنگ نہ ہونے کے برابرہے۔جرمنی کی کمپنی سیمنزنے گرین لینڈ میں کان کنی کاآغازکررکھاہے لیکن2020ءتک پیداوارممکن نہیں۔بد قسمتی سے امریکی صدرٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں قدم جماتے ہی اپنے ہمسایہ کینیڈاکو دہمکیوں سے اس قدرخوفزدہ کردیاکہ کینیڈاکے سربراہ جسٹن ٹروڈوکووقت سے پہلے اس لئے مستعفی ہوناپڑگیاکہ وہ اپنے دورِاقتدارمیں امریکا کی کسی قسم کی غلامی کے پلان میں شریک نہ ہوسکیں اوراسی طرح کی دہمکی سے ڈنمارک کوبھی خوفزدہ کردیاکہ گرین لینڈامریکاکا حصہ ہے اوروہ کسی بھی وقت گرین لینڈپر قبضہ کرسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے سب سے مضبوط اتحادی یورپی یونین کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے نیٹوپر بھرپور تنقید کرتے ہوئے یورپی یونین کوبھی ٹیرف کی ممکنہ پابندیوں میں شامل کردیاہے۔

ادھردوسری طرف چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں جہاں ٹیرف میں اضافہ کیاہے وہاں چینی پابندیوں کے بعدامریکامیں چینی نایاب معدنیات کی قیمتوں میں300فیصداضافہ ہوگیا ہے۔اس سے جہاں ملٹری انڈسٹری کمپلیکس شدیدمتاثرہواہے وہاں جیوپولیٹیکل دباؤ میں بھی اضافہ کاامکان ہے جس کی وجہ سے امریکاکے اقتصادی اورسیاسی خطرات میں واضح اضافہ ہوتادکھائی دے رہاہے۔چین کی ان پابندیوں کی وجہ سے لاکہیڈ مارٹن، بوئنگ جیسی کمپنیوں کوہرماہ50ملین ڈالرکااضافی خرچ برداشت کرناپڑرہاہے۔سیاسی،اقتصادی دفاعی ماہرین کاکہنا ہے کہ مستقبل میں چین تائیوان کے تنازعہ میں نایاب معدنیات کو”ہتھیار”کے طورپراستعمال کرسکتاہے۔

تاریخی تناظرمیں نایاب معدنیات کی خودکفالت میں امریکابتدریج زوال پذیرہواہے۔1980ءتک ان معدنیات میں وہ دنیاکی100فیصد پیداوارکے مقابلے میں60فیصدتک خودکفیل تھالیکن 1990ءکی دہائی میں موحولیاتی قوانین اورچین کی سستی مزدوری نے امریکی صنعت کوتباہ کردیا۔بعدازاں 2000ءکے بعدجونہی”رئیرایکسپورٹ کوٹاسسٹم”کاآغازہوا،چین نے عالمی منڈی پراپنا کنٹرول مضبوط کر لیاجس کے نتیجے میں آج چین معاشی طورپر امریکااورمغربی ممالک کیلئے ایک بہت بڑامعاشی خطرہ بن گیاہے لیکن اس کے پیچھے چین کی انتھک محنت اورپالیسیوں کااستحکام نظرآتاہے جواس نے برسوں سے اختیارکررکھاہے۔

ان نایاب معدنیات کے عالمی ذخائرنے جغرافیائی سیاست پربھی گہرااثرچھوڑاہے۔اگرچہ نایاب معدنیات کا37فیصد ذخیرہ چین میں ہے، لیکن دنیاکی 75 معدنیات کی پروسیسنگ پراس کا غلبہ ہے۔ویت نام،برازیل،روس،پاکستان اوربھارت جیسے ممالک میں بھی معدنیات کی قابل ذکرمقدار موجود ہے۔ تاہم،ان ممالک میں ٹیکنالوجی اورسرمایہ کی کمی نے چین کو اجارہ داربنا دیاہے۔امریکااب ان ممالک کے ساتھ معاہدے کرکے اپنی سپلائی چین کومتنوع بنانے کی کوشش کررہاہے۔مثال کے طورپرآسٹریلیاکے ساتھ ایک مشترکہ منصوبہ”دی سولر سٹریٹجی”کے تحت چین سے آزادہونے کی کوشش کی جارہی ہے مگریہ راستہ بھی کانٹوں سے بھراہواہے کیونکہ پروسیسنگ کی سہولتیں تعمیرکرنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جن وسائل پرکنٹرول ہو،وہی قومیں عروج پرہوتی ہیں۔چین کی یہ حرکت2010ءکے اس واقعے کی یادایک تاریخی سبق اورمستقبل کااشارہ یاد دلاتی ہے جب اس نے جاپان کوسمندری تنازعے کے دوران نایاب معدنیات کی ترسیل روک دی تھی۔آج یہی حکمت عملی امریکاکے خلاف استعمال ہورہی ہے۔اگرچہ امریکانے”ریئرارتھ انڈیپینڈنس ایکٹ 2023” جیسے قوانین متعارف کرائے ہیں، مگرچین کے سامنے یہ کوششیں ابھی ناکافی ہیں۔

جس طرح کبھی سلطنتِ روماکولوہے پرکنٹرول حاصل تھااوربرطانیہ کوکوئلے پر،آج چین نے نایاب معدنیات کواپنی عظمت کانشان بنا لیاہے۔یہ تجارتی جنگ محض محصولات تک محدود نہیں،بلکہ یہ ایک ایسی جغرافیائی شطرنج ہے جس میں ہرچال مستقبل کے عالمی توازن کومتاثرکرتی ہے۔یادرکھیں کہ”زبانِ سیاست میں خاموشی بھی ایک بیان ہے”۔چین کایہ خاموش اعلان—نایاب معدنیات کی پابندی—دراصل ایک طاقتوربیان ہے جوامریکاکی اقتصادی اورتکنیکی بالادستی کوللکاررہا ہے۔ امریکا کایہ انحصارصرف اقتصادی نہیں،بلکہ قومی سلامتی کامسئلہ ہے۔جیساکہ لارڈمیکالے نے کہاتھا:
“طاقت کااصل سرچشمہ دولت نہیں،بلکہ اس دولت کوکنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے”۔
چین نے اس صلاحیت کواپنے ہاتھ میں لے لیاہے،اورامریکاکواپنی حکمت عملی ازسرنومرتب کرنی ہوگی۔

تاریخی تناظرمیں اگرمعدنیات کی اس جنگ کاجائزہ لیاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ جیسے قدیم رومانے لوہے کی تلواروں سےیورپ کو فتح کیاتھا،چین آج نایاب معدنیات سے عظیم الشان ڈیجیٹل سلطنت بنارہاہے۔جس طرح1973ءمیں عربوں نے تیل کاہتھیاراستعمال کرکے ایک عالمی بحران پیداکردیاتھا،اسی طرح چین”رئیرارتھ”کواسی طرح استعمال کررہاہے۔مجھے اس موقع پرونسٹن چرچل کاایک قول یاد آرہاہے کہ”تاریخ فاتحین کے حق میں لکھی جاتی ہے”۔ چین اس وقت تاریخ لکھنے کی پوزیشن میں ہے۔

چین کی اس حکمت عملی نے تجارتی جنگ کو ایک نئے دورمیں داخل کردیاہے۔جس طرح اڈمنڈبرک نے کہاتھا:
۔”جنگ صرف تلواروں سے نہیں،بلکہ اقتصادی پالیسیوں سے بھی لڑی جاتی ہے”

چین نے یہ سبق یادرکھاہے۔اگرامریکااپنی پروسیسنگ صلاحیت نہ بڑھاسکا،تویہ جنگ صرف ٹیرف تک نہیں،بلکہ ٹیکنالوجی کی بالادستی تک پھیل سکتی ہے۔ مجھے یہ کہنے دیں کہ”زبان علم ہویاسیاست،الفاظ کاانتخاب ہی تاریخ بناتاہے”چین کے الفاظ(نایاب معدنیات)نے اسے تاریخ کے دھارے میں ایک طاقتورمقام دے دیاہے جس میں امریکی نخوت وتکبراوراس کی ظالمانہ اورانسانیت کُش پالیسیوں کا بہت بڑاعمل دخل ہے۔بالخصوص تیسری دنیاکے کسی بھی ملک کے باشندوں میں امریکی پالیسیوں کیلئے کوئی ہمدردی نہیں پائی جاتی۔

تجارتی جنگ کانیامحاذنایاب معدنیات پرچین کی حکمت عملی اورامریکاکی مجبوری ایک نئے انقلاب کی نویدبننے جارہاہے جہاں طاقت کاسرچشمہ صرف معاشی فتوحات سے آنے والی خوشیوں سے ناپاجائے گااورچین اس معرکے میں تیزی کے ساتھ کامیابی کے جھنڈے گاڑرہاہے۔

اے اہلِ خرد!اے اربابِ دانش وشعور!کب تک خاموشی کوتدبرکانام دیتے رہوگے؟دنیاکے گلی کوچے لہوسے ترہورہے ہیں،انسانیت کی سانسیں بے صداہوچکی ہیں،اورامن صرف بین الاقوامی اجلاسوں کی دستاویزات میں قیدہے۔وقت کاتقاضاہے کہ وہ اہلِ مغرب،وہ اہلِ امریکا،جن کے دلوں میں ابھی انسانیت کی رمق باقی ہے،وہ خاموشی توڑیں۔ورنہ یادرکھو،تاریخ وہی بولے گی جوسچ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔کہیں ایسانہ ہوکہ تمہارے سناٹے میں ظلم کی آوازگونجنے لگے،اورپھرتم صرف تعزیتیں لکھنے کے قابل رہ جاؤ۔آج کی خاموشی کل کی پشیمانی بن سکتی ہے۔اٹھو،کہ امن تمہیں آوازدے رہاہے۔

امن کی راہ تمہارے قدموں کی منتظر ہے کیا تم اب بھی خاموش رہو گے؟
اٹھو!قبل اس کے کہ امن کا چراغ بجھ جائے اور اندھیرا ہم سب کو نگل جائے۔
تم خاموش رہے، اور وقت بول پڑااب بھی مہلت باقی ہے، فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔
اے امن کے دعویدارو! امن تمہیں آواز دے رہا ہے کیا تم نے سننے سے انکار کر دیا؟
اگر تم نہ نکلے، تو وہ نکل آئیں گےجو امن کے نہیں، جنگ کے پیامبر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں