The Lament of the Beginning — The Cry of Silence

ماتمِ پہلگام — خاموشی کی چیخ

:Share

کشمیر،وہ دلِ مضطرب جوبرف پوش پہاڑوں کے سینے میں دھڑکتاہے،ایک بارپھرلہو لہان ہوگیاہے۔پہلگام کی سرسبزوادی،جو کبھی سیاحوں کی مسکراہٹوں سے جگمگاتی تھی،آج ماتم کدہ بن چکی ہے۔وادیٔ کشمیر،برصغیرکے دل میں ایک ایساخطہ ہے جو اپنی فطری خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ایک پیچیدہ تاریخی وجغرافیائی ورثہ بھی رکھتاہے۔برطانوی استعمارکے اختتام پرجب برصغیرکوتقسیم کیاگیاتوریاست جموں وکشمیر کی حیثیت متنازعہ ہوگئی۔اس نزاع نے خطے کوایسی کشمکش میں دھکیل دیاجوآج بھیگزشتہ78سالوں سے سلگ رہی ہے۔

پہلگام میں سیاحوں پرحملہ صرف کشمیرمیں ہی نہیں بلکہ عالمی امن واستحکام کیلئےایک سنگین چیلنج ہے۔یہ خطہ1989سے تشدد کی لپیٹ میں ہے،جس میں بیرونی مداخلت،مقامی ناراضگی اورجیواسٹریٹجک مفادات کاامتزاج نظرآتاہےتاحال کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی،جوعام طورپرکشمیرمیں دہشتگردواقعات کے برعکس ہے۔یہ خلاسازش کے نظریات کوہوادیتاہے ۔

بیسرن کے سنسان میدانوں میں گونجتی گولیوں کی آوازنے نہ صرف انسانی جانیں نگلیں،بلکہ اس وادی کی خوبصورتی کوبھی نوحہ گربنادیا۔وہ میدان جہاں کبھی بچے تتلیاں پکڑتے تھے،آج خون آلودکپڑوں اورسسکیوں سے بھرچکاہے۔وہ چراگاہ جس پرکبھی گڈریے بانسری بجاتے تھے،آج انسانی المیے کی گواہی دے رہی ہے۔

پہلگام،جہاں حالیہ دہشتگردانہ حملہ ہوا،ضلع اننت ناگ کاسیاحتی مقام ہے اوراس کامحلِ وقوع نہایت اسٹریٹیجک ہے۔یہ علاقہ نہ صرف مقامی سیاحت کامحورہے بلکہ امرناتھ یاتراکاایک اہم پڑاؤبھی ہے،جس کی بنیادپریہاں ہمہ وقت سیکیورٹی موجودرہتی ہے۔

یہ حملہ محض ایک واردات نہیں،بلکہ ایک پیغام ہے—ایک خاموش اشارہ،جو سیاسی بساط پرکچھ بڑی چالوں کاپیش خیمہ معلوم ہوتاہے۔یہ حملہ عین اُس وقت وقوع پذیرہوتاہے جب ایک اعلیٰ امریکی وفد ہندوستان کے دورے پرموجودہے۔کیایہ محض اتفاق ہے؟ یاایک گہری،پیچیدہ سازش کاوہ مکارانہ باب ہے جس سے انسانی مستقبل کی تباہی کے مناظرچیخ چیخ کر اپنے طرف متوجہ کر رہے ہیں؟یہ وہ سوال ہے جس کاجواب تلاش کرنامحض صحافت کی نہیں،ضمیرِ انسانی کی ضرورت ہے۔

یہ پہلی بارنہیں کہ جب کبھی عالمی توجہ ہندوستان کی طرف مائل ہوتی ہے،کشمیرمیں خون کی ندی بہادی جاتی ہے۔تاریخ کی گردسے جھانک کردیکھئے تو جب بھی کوئی اعلیٰ امریکی عہدیداربھارت آتاہے،کشمیرمیں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوتاہے۔ کیاتعجب ہے کہ جب بھی امریکی یادیگرمغربی رہنماجنوبی ایشیاکادورہ کرتے ہیں،خطے میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھاگیا ہے۔مثال کے طورپر2000ءمیں امریکی صدرکلنٹن کے دورہ بھارت کے دوران چھٹی سنگھ جموں میں50سکھوں کوان کی مذہبی عبادت گاہ گوردوارہ میں گولیوں سے بھون دیاگیااورصرف آدھ گھنٹے میں اس کاالزام کشمیری مجاہدین اورپاکستان پرلگادیاگیاجبکہ خودبھارتی حکومت کی طرف سے مقررکردہ تحقیقی کمیشن جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈجسٹس اورایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل کے ساتھ دیگرسوشل سروس کے ایک ماہرنے مشترکہ تحقیق کے بعدانڈین انٹیلی جنس کوموردِ الزام ٹھہرادیا۔

اسی طرح 2016میں پٹھانکوٹ میں فوجی اڈے پرامریکی صدراوباماکے دورے سے قبل ہوا،جسے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کیلئےاستعمال کیاگیا۔ جون2024میں ہندویاتریوں پرحملہ،جس میں9/افرادہلاک ہوئے۔ابتدائی الزامات حسبِ روایت پاکستان پرلگائے گئے،مگربعدازاں تحقیقات کی دبیزپرتوں میں سے انڈین خفیہ اداروں کے سائے جھانکتے نظرآئے۔

الفاران نامی گروہ نے1995میں پہلگام میں6غیرملکی سیاحوں کواغواکیا،لیکن تحقیقات میں انڈین خفیہ ایجنسی”را”کاہاتھ پایاگیا۔بعد میں یہ اغواکاری ایک”فالس فلیگ”آپریشن ثابت ہوا. اب پہلگام پرموجودہ حملہ امریکی نائب صدرکے دورے کے موقع پرپیش آگیاجس کے بارے میں کئی عالمی تجزیہ نگاربھی شکوک وشبہات کااظہار کر رہے ہیں کہ حملہ ممکنہ طورپرانڈیاکوبین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنے یاتوجہ ہٹانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ آج ایک مرتبہ پھرامریکی نائب صدرکادورۂ ہندایک اہم خارجی پس منظرمہیاکرتاہے۔ایسے واقعات نہ صرف خطے میں غیریقینی کی فضاپیداکرتے ہیں بلکہ عالمی توجہ کومخصوص بیانیوں کی طرف موڑتے ہیں۔

ٹرائیکا( امریکا،اسرائیل اورانڈیا)کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت اورشواہدموجودہیں۔ بلوچستان اورکشمیرمیں ٹرائیکا پاک چین کے اس عظیم الشان پراجیکٹ سی پیک سے اس لئے خوفزدہ ہے کہ اس کی تکمیل سے دنیابھرکی تجارتی منڈیوں پرامریکااورمغرب کی اجارہ داری ختم ہونے کاخدشہ ہے۔اسی لئے امریکانے چین کوبحرِ ہنداوربحرالکاہل میں محدودکرنے کیلئے “کواڈ” جیسا اتحادبنایاہے۔ بحرہندکے سونامی کے بعدہندوستان،جاپان،آسٹریلیااورامریکانے آفات سے بچاؤکی کوششوں میں تعاون کیلئے2007میں ایک غیر رسمی اتحادبنایا۔جاپان کے اس وقت کے وزیراعظم شینزوآبے نے اس اتحادکوباضابطہ چوکورسیکورٹی ڈائیلاگ یاکواڈکی طرح شکل دی۔کواڈکوایشین آرک آف ڈیموکریسی قائم کرناتھالیکن اپنے ممبروں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی اور الزامات کی وجہ سے یہ گروپ چین مخالف بلاک کے سواکچھ نہیں رہا۔

کواڈکی ابتدائی تکراربڑی حدتک سمندری سلامتی پرمبنی رہی ہے لیکن اب امریکا اسے چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی اورعالمی اجارہ داری کومحدود کرنے کیلئے استعمال کرنے کاخواہاں ہے۔پاکستان اورچین سی پیک کے ذریعے اسٹرٹیجک پارٹنرہیں،اس لئے پہلگام کے واقعہ جیسی گہری سازش کے ممکنہ محرکات اوراس کوبنیادبناکر عالمی طورپرپاکستان پرالزام تھوپ کرجارحیت کاپروگرام ترتیب دینے کی کوشش کی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ انڈیانے پاکستان پردباؤبڑھانے کیلئے اپنے سفارتی تعلقات کوفوری طورپرمحدودکرتے ہوئے پاکستان میں اپنے سفارت خانے کے افرادمیں کمی کا اعلان کردیا ہے ،پاکستانی شہریوں پرپابندی عائد کرتے ہوئے ہرقسم کے ویزوں کومنسوخ کردیاہے اوراس وقت انڈیامیں جوپاکستانی ویزوں پرگئے ہوئے ہیں،ان کوہر حال میں یکم مئی تک ملک چھوڑنے کاکہاگیاہے۔انڈیااورپاکستان کے مابین دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا عالمی معاہدہ”سندھ طاس”کاپانی روکنے کااعلان کر دیاہے جبکہ اس معاہدے کاضامن “ورلڈبینک”ہے۔پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی ہنگامی اجلاس بلاکرایسے ہی جوابی کاروائی کاعندیہ دے دیاہے۔ گویااس خطے میں پاکستان پردباؤ بڑھاکراپنے اگلے مقاصد کے حصول کیلئے نئی صف بندیوں کاآغازکردیاگیاہے۔

اسرائیل، امریکا،اورانڈیاکے درمیان دفاعی تعاون گزشتہ دہائی میں نمایاں ہواہے۔رپورٹس کے مطابق،انڈین فوجیوں کی اسرائیل میں موجودگی اس کاسب سے بڑاثبوت ہے کہ ہزاروں انڈین شہری اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوچکے ہیں،جوفلسطینیوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔غزہ میں جنگی جرائم کے عالمی دباؤاورتوجہ کوکم کرنے کیلئے اسرائیل اوراس کے اتحادی کسی نئے محاذکی تخلیق میں دلچسپی رکھتے ہیں۔خودمودی حکومت کا اندرونی سیاست کایہ ایجنڈہ بھی سامنے آگیاہے کہ وہ کشمیر میں تشددکوانڈیاکی قومی یکجہتی کومضبوط کرنے اور مقامی آبادی کومزید دباؤکیلئےاستعمال کرنے جارہاہے۔دوسری طرف انڈیا کھلم کھلاآقاؤں کے ایماءپربلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد سےسی پیک کواورصوبہ خیبرپختونخواہ میں ٹی ٹی پی جیسی دہشگرد تنظیموں کی مددسے پاکستانی استحکام کونشانہ بنارہاہے۔

ابھی حال ہی میں دہشتگردوں اورخوارجی گروہ نے11مارچ2025کوجعفرایکسپریس پرحملہ کرکے درجنوں بے گناہ شہریوں کو شہیدکردیاجس کاساراپلان انڈین”را”نے تیارکیاتھا۔دہشتگردوں نے کھلے عام سی پیک کونشانہ بنانے کااعتراف کرتے ہوئے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پربراہ راست چین کواس پراجیکٹ کوفوری بندکرنے کی دہمکییاں بھی دیں۔

اب بھی وہی انداز،وہی اسلوب،وہی اہتمامِ خونریزی!توکیایہ محض دہشتگردی ہے؟یاایک سیاسی اسکرپٹ جس کاسٹیج کشمیرہے، اورتماش بین دنیاکی بے حس آنکھیں ہیں۔گویامظلوم کشمیریوں پرہونے والے ہندوبرہمن کے انسانیت سوزظلم وستم کی داستان میں ماضی کے سائے اورحال کادھواں اب خاموشی کے شورکے سمندرمیں تلاطم پیداکررہے ہیں جس کوعالمی نگاہوں سے پو شیدہ رکھنے کیلئے مودی جنتاایک مرتبہ پھراپنی اسی مکاری کاڈرامہ رچا کراقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پرسب سے پرانے تنازعے سے توجہ ہٹانے کیلئے اپنے امریکی اوراسرائیلی استعمارکی مددسے ایسے مکروہ اقدام کررہی ہے۔

کشمیرمیں حالیہ دہشتگردی کے واقعے کاجغرافیائی،سیاسی وعسکری اورانٹیلیجنس تناظرمیں ہونے والے واقعات کاجائزہ لیاجائے توبھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں پرماضی میں مختلف داخلی فالس فلیگ آپریشنزکا الزام لگتارہاہے جوبعدازاں تحقیقات پرانڈین سازش کے بھیانک اورخوفناک چہرے سے نقاب ہٹانے میں مددگارثابت بھی ہوچکاہے۔مثلاًچھٹی سنگھ پورہ جموں،پٹھانکوٹ اورممبئی حملوں کے تناظرمیں یہ بحث ہمیشہ زندہ رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کارروائیوں میں داخلی ہاتھ ملوث رہاہے،جو عالمی رائے عامہ کومتاثر کرنے کیلئےانجام دی جاتی ہیں۔اسی طرح،ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی،اوربلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی بھارتی سرپرستی کے بھی مصدقہ شواہدموجودہیں،جنہیں پاکستان متعددبین الاقوامی فورمزپرپیش کرچکاہے۔

خطے کی موجودہ عالمی صورتِ حال محض دوقوموں کی کشمکش نہیں بلکہ ایک وسیع ترطاقت آزمائی کی تصویربن چکی ہے جہاں عالمی قوتیں علاقائی شطرنج کی بساط پراپنے سفارتی حربوں کے پیادوں کواستعمال کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ایسے خوفناک ڈراموں کی پشت پناہی پرموجود ہوتے ہیں۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکااوراس کے اتحادی چین کے تجارتی و عسکری اثرورسوخ کوروکنے کی کوشش کررہے ہیں،وہیں سی پیک جیسے منصوبے، جنہیں پاکستان اورچین نے اپنی ترقی کی ریڑھ کی ہڈی قراردیاہے،مغربی اوربھارتی قوتوں کی آنکھوں کا کانٹا بنے ہوئے ہیں۔

امریکااورچین کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی کشمکش میں بھارت کی شمولیت کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔کواڈاتحاد،جس میں بھارت، امریکا،جاپان، اور آسٹریلیاشامل ہیں،دراصل چین کے خلاف ایک معاشی وعسکری بندباندھنے کی کوشش ہے۔چین اورپاکستان کا مشترکہ منصوبہ سی پیک،بھارت اورمغربی طاقتوں کی آنکھ کاکانٹاہے۔بلوچستان اورکشمیرمیں دہشتگردی کواس تناظرمیں بھی دیکھاجاسکتاہے کہ یہ سی پیک کوغیرمستحکم کرنے کی ایک کڑی ہے۔انڈو-امریکن اتحاد،اسرائیلی عسکری معاونت،اورافغانستان میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں،سب ایک مربوط جغرافیائی تانے بانے کی نشاندہی کرتی ہیں۔کیایہ سانحہ بھی اسی عالمی بساط پرایک پیادہ قربان کرنے کی حکمت عملی ہے؟

اسرائیل اوربھارت کے درمیان عسکری وانٹیلیجنس تعاون اب کسی سے ڈھکاچھپانہیں۔غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوران بھارت کی حمایت، اوراسرائیلی فوج میں بھارتی رضاکاروں کی شمولیت،یہ سب ایک نئے سفارتی اتحادکی نشاندہی کرتے ہیں جس کے اثرات جنوبی ایشیا میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔امریکاانڈیاکوایشیامیں چین کے خلاف استعمال کرناچاہتا ہے،لہٰذاوہ کشمیرکے معاملے پرخاموشی اختیارکرسکتاہے۔تاہم،اگرثبوت سامنے آتے ہیں کہ انڈیاخود ساختہ حملوں میں ملوث ہے،توامریکاکی پوزیشن پیچیدہ ہوسکتی ہے۔تاہم ٹرمپ نے اقتدارمیں آنے کے بعدجس طرح عالمی چپقلش کو بڑھانے کیلئے جن پالیسیوں کااعلان کرکے اپنے دوستوں کوبھی نہیں بخشا،اس کابین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آناشروع ہوگیاہے اورعین ممکن ہے کہ ٹرائیکانے باہم ایک سازش کے تحت پہلگام جیسے واقعہ کیلئے اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلئے اس ڈرامہ کواس لئے بھی رچایاہےکہ ٹرمپ۔اسرائیل اورانڈیا کے اندرونی خلفشارسے توجہ ہٹانے کیلئے ویساہی ڈرامہ کیاجائے جواس سے پہلے کئی مواقع پرکیاگیاہے۔

چین کشمیرکے معاملے پرپاکستان کی حمایت کرتارہاہے اورسی پیک کے تحفظ کواپنی قومی سلامتی سے جوڑتاہے۔اگرانڈیاکاملوث ثابت ہوتاہے،توچین اقوام متحدہ یادیگرفورمزپردباؤبڑھاسکتاہے ۔ دوسری طرف روس،جوچین کااتحادی ہے،ممکنہ طورپرانڈیاپرنرم موقف اپنائے گاکیونکہ انڈیا اسلحے کی خریداری میں روس کااہم گاہک ہے۔

مکمل سیاسی تجزیہ کیلئے داخلی محرکات کے ان اہم نکات کوبھی سامنے رکھناہوگا:
کیاانڈیاکشمیرمیں اپنی پالیسیوں کی ناکامی چھپانے یافوجی موجودگی کوجوازدینے کیلئےایسے واقعات کواستعمال کررہاہے؟
کیا انڈیا نے کشمیراورہندوستان میں مسلمانوں پرجاری مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ فالس فلیگ آپریشن کیاہے؟
کیاخطے میں بھارتی تسلط سے بنگلہ دیش کی آزادی پاک بنگلہ دیش کے نئے دوستی کے اتحادکی وجہ یہ ڈرامہ رچایاگیاہے؟
کیا(انڈیا-اسرائیل-امریکا)ایک نیامحاذ کھول کرچین،پاکستان،اورایران کے اتحادکوکمزورکرنا چاہتے ہیں؟
کیامغربی میڈیا اس واقعے کو”اسلامی دہشتگردی”کے طورپرپیش کرکے مقامی کشمیری مزاحمت کوداغدارکرنے کی کوشش کرے گا؟

بین الاقوامی المیے میں ذرائع ابلاغ، بیانیے کی جنگ،اورسچ کاگلاگھونٹنے میں ٹرائیکا(امریکا،اسرائیل اورانڈیا)کے میڈیاکاکردار قابلِ نفرت بن چکاہے۔ جہاں ایک طرف غزہ میں اسرائیلی مظالم پرپردہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے،وہیں کشمیرمیں اس طرح کے واقعات کو“ری ایکشن”قراردیکردنیاکوگمراہ کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیاکی خاموشی،بالخصوص مغربی ذرائع ابلاغ کاتعصب،ان کارروائیوں کوپسِ منظرمیں دھکیل دیتاہے تاکہ اسرائیل وبھارت کے اقدامات پرسوال نہ اٹھیں۔کیادنیاکی آنکھیں اب صرف وہی آنسو دیکھتی ہیں جوامریکاکی مرضی سے بہائے جائیں؟

بین الاقوامی قانونی تناظرمیں ان عالمی طاقتوں کی خاموشی جواقوام متحدہ کی قرردادوں کے مطابق کشمیرکے حق خودارادیت کے معاہدے میں بطور ضامن دستخط کرچکی ہیں،اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں،بالخصوص قراردادنمبر47جو1948میں منظورکی گئی، کشمیرمیں استصوابِ رائے کی حمایت کرتی ہے۔تاہم،بھارت اس پرعملدرآمدسے گریزاں رہاہے۔عالمی عدالتِ انصاف اورانسانی حقوق کی تنظیمیں اس مسئلے پرمسلسل خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کی طرف سے منظورشدہ قراردادیں ان ضامنوں سے سوال کرتی ہیں کہ کیااگرتمہارے ملک کے عوام کے ساتھ ایسامعاہدہ اوروعدہ کیاگیاہوتاتوکیاتم اسی طرح خاموش رہتے، لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کی شہادت پراسی طرح آنکھیں بندرکھتے؟

تف ہے تمہارے اس کردارپرکہ خودتودنیابھرمیں انسانی حقوق کے چیمپئن بننے کادعویٰ کرتے ہولیکن کشمیرکے معاملے پرتم سب کوسانپ سونگھ جاتاہے اورتم سب اپنے مفادات کے اسیربن کرغزہ میں نیتن یاہواورکشمیرمیں مودی کی ظالم فوج کوکشمیریوں کے کھلے عام قتل کالائسنس دینے میں کوئی عارنہیں سمجھتے۔بین الاقوامی قانون کے تحت شہری آبادی کونشانہ بناناجنگی جرم کے زمرے میں آتاہے،اورایسے واقعات میں اقوامِ متحدہ کی مداخلت لازم ہے،بصورتِ دیگرعالمی اداروں کی ساکھ پرسوال اٹھتے ہیں۔

وادی کشمیر،تیری خاک بھی چراغاں ہے،کشمیرکی فضاآج بھی خموش نہیں۔وہ اپنے زخموں سے بھی چیختی ہے،اپنے بادلوں سے بھی روتی ہے،یہ ایک حادثہ نہیں،یہ تاریخ کاورق ہے—خون میں ڈوبا،چیخوں سے مزین،اورجھوٹ کے غلاف میں لپٹاہوا،اوراپنی برف میں بھی سوال چھپائے رکھتی ہے ۔

آج بھی کئی سوال ہیں جوتاریخ کے سینے میں دھڑکتے ہیں۔وادی کشمیر کی سرسبزپہاڑوں میں بہائے جانے والاخون آج بھی یہ سوال پوچھتاہے کہ اگریہ سازش ہے،تواس کے معمارکون ہیں؟اگرانڈیاخوداپنے شہریوں کے خون سے اپنا دامن رنگ رہاہے،توکیا عالمی برادری اس جرم کی چشم پوشی کرے گی؟اگرامریکاپشت پناہی کرے گا،توچین وروس کاردعمل کیاہوگا؟

یہ واقعہ صرف ایک سانحہ نہیں بلکہ عالمی سفارتی شطرنج کی چال معلوم ہوتاہے،جس میں انسانی جانیں محض مہرے بن چکی ہیں۔اگردنیا نے اس پر سنجیدگی سے غورنہ کیاتویہ شعلے پورے خطے کواپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔اب وقت ہے کہ عالمی برادری،اقوام متحدہ،اورانسانی حقوق کی تنظیمیں نہ صرف اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کامطالبہ کریں بلکہ اس پسِ پردہ ہاتھوں کو بھی بے نقاب کریں جوامن کے نام پرجنگ کاکھیل کھیل رہے ہیں۔واقعے کی آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہئیں،خاص طور پرجب تاریخی طور پرانڈین خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے شواہدموجودہیں۔

جیوپولیٹیکل احتیاط اورکشمیر کے معاملے پرپاکستان کوچین اورروس کے ساتھ تعلقات کومزیدمضبوط بنانے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔خطے میں امن وسلامتی اورکشمیر کے معاملے پر اپنے ہمسایوں افغانستان، ایران کے ساتھ مل کراقوام متحدہ میں انڈیاکی ممکنہ جارحیت کے خلاف بلاک بنانے کی ضرورت ہے۔خطے کے عوام کے اندرفوری طورپرپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے ذریعے ایک جامع عوامی بیداری کی مہم کاآغازکیاجائے اور ایسے واقعات کے پیچھے چھپی سازشوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے،تاکہ عوام پروپیگنڈے کاشکارنہ ہوں۔

اس سارے معاملے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کشمیرکی مقامی آبادی کوتشدد کی قیمت اداکرنی پڑرہی ہے،جبکہ طاقتور ممالک اپنے مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔یہ مضمون اُن تمام عناصر کیلئے ایک دعوتِ فکرہے جوخطے میں دیرپاامن کے خواہاں ہیں۔یہاں ہرفقرہ ایک سوال ہے،اورہرسوال کے پیچھے ایک چیخ ہے جوانصاف کی متقاضی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں