حالیہ مہینوں میں پاکستان میں شدت پسندکالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)کے سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔دوسری طرف سکیورٹی فورسزان کے خلاف کارروائیاں بھی کررہی ہیں۔اگرہم سال 2024کے اعدادوشمارکاجائزہ لیں توٹی ٹی پی نے سکیورٹی فورسزاورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر1,758حملے کرنے کا دعویٰ کیاہے۔ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعدادوشماراور دعوؤں کے مطابق ان حملوں میں1,284افرادہلاک اور1,661 خمی ہوئے ہیں۔
جہاں ایک جانب کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آئی ہیں وہیں ان کے پروپیگنڈے کیلئےاستعمال کیے جانے والے میڈیا ذرائع بھی وسعت اختیارکرتے دکھائی دیے ہیں۔اگرچہ پاکستانی حکام نے شدت پسندتنظیم ٹی ٹی پی کونقصان پہنچانے میں کامیابیوں کادعویٰ کیاہے لیکن حکومتی کوششوں کاتنظیم کے میڈیاآپریشنزپرکوئی خاص منفی اثرنہیں پڑاہے۔ٹی ٹی پی کے بڑھتے میڈیاپروپیگنڈے اورحکومت کواسے روکنے میں مشکلات پربات کرنے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ پروپیگنڈے کیلئےاستعمال کیے جانے والاٹی ٹی پی کامیڈیانیٹ ورک کیاہے اوریہ کام کیسے کرتاہے؟
شدت پسند تنظیم کالعدم ٹی ٹی پی کااپنی نمائندگی اورپروپیگنڈے کیلئےاستعمال کیے جانے والے میڈیاونگ”عمرمیڈیا”نے تنظیم کے موجودہ سربراہ نور ولی محسودکے زیرقیادت وسعت حاصل کی ہے۔نورولی محسودنے2018میں ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالنے کے بعدتنظیم سے الگ ہونے والے دھڑوں اورکئی دوسرے گروپوں کے ساتھ مضبوط اتحادقائم کیا۔اس کاٹی ٹی پی کی حالیہ بڑھتی ہوئی کارروائیوں میں ایک اہم کرداررہاہے۔اس میڈیاونگ کا نام افغان طالبان کے بانی ملا محمدعمرکے نام پررکھاگیاہے اوریہ میڈیاگروپ ٹی ٹی پی کی نام نہاد”وزارتِ اطلاعات ونشریات”کے ماتحت کام کرتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے میڈیاونگ”عمرمیڈیا”نے2021میں طالبان کے افغانستان پرقبضے کے بعدسے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
عمرمیڈیاکی جانب سے آڈیو،ویڈیواورٹیکسٹ مواداُردواورپشتوزبانوں میں شائع کیاجاتاہے اورپھراسے انگریزی،دری، فارسی اورعربی میں ترجمہ کرکے دوبارہ شائع کیاجاتاہے۔اس میں متعددویڈیوز ، روزانہ کاریڈیوبراڈکاسٹ،ہفتے میں دو بارنشرہونے والی حالاتِ حاضرہ کی پوڈکاسٹ،ایک اردومیگزین اور ٹی ٹی پی کی جانب سے روزانہ کے حملوں کی رپورٹ اورسیاست کے حوالے سے بیانات کی اشاعت شامل ہے۔یہ موادعمرمیڈیاکی ویب سائٹ پرشائع کیاجاتاہے اوراسے گروپ کے مخصوص سوشل میڈیااکاؤنٹس،واٹس ایپ اورٹیلی گرام جیسی پیغام رساں ایپس کے ذریعے بھی پھیلایاجاتاہے۔عمرمیڈیا کے ساتھ کام کرنے والے افرادعموماًافغان اورپاکستانی صحافیوں کے ساتھ رابطے کرتے ہیں اورٹی ٹی پی کے موادکی وسیع پیمانے پراشاعت کویقینی بناتے ہیں۔عمرمیڈیاکیلئےپڑھے لکھے نوجوان مقامی اوربین الاقوامی میڈیاکومانیٹرکرتے ہیں۔عمر میڈیاکی جانب سے ٹیلی گرام اورواٹس ایپ پرچینل بنائے گئے ہیں اورمتعددپاکستانی اورافغان صحافی ان چینلزکوفالوکرتے ہیں۔
یہ افغان طالبان کی اس حکمتِ عملی سے مطابقت رکھتی ہے جوان کی جانب سے اپنے دورِعروج پراپنائی گئی تھی۔یادرہے کہ دیگرشدت پسندتنظیمیں جیسا کہ نام نہاددولتِ اسلامیہ اور القاعدہ کی ایسی میڈیاپالیسی نہیں ہے۔تاہم رواں برس جنوری میں ٹی ٹی پی نے اپنے میڈیاونگ عمرمیڈیاکے ڈھانچے میں تبدیلیاں کیں اوراس کومزیدجدید، متحرک اورفعال بنایاہے۔2021میں افغانستان پرطالبان کے قبضے کے بعدسے ٹی ٹی پی نے عمرمیڈیاکے ذریعے پروپیگنڈے میں نمایاں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے میڈیاآپریشن کونہ صرف وسعت دی ہے بلکہ اس میں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق عمرمیڈیاکی جانب سے مختلف اقسام کاموادبنایاجاتاہے لیکن ویڈیو اس میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ٹی ٹی پی کاعمر میڈیا ویڈیو،آڈیواورپوڈ کاسٹ سیریزکے ساتھ ساتھ اردواورپشتو زبان میں رسالے بھی شائع کرتاہے۔اس کے علاوہ عمرمیڈیاکی جانب سے روزانہ کی بنیادپرکسی پیش رفت پربیانات بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ان میں حملوں کے حوالے سے مختصردعوے بھی کیے جاتے ہیں اورانہیں ترجمان محمد خراسانی سے منسوب کیاجاتاہے۔گزشتہ برس ستمبرمیں عمرمیڈیا نے اعلان کیاتھاکہ وہ باقاعدگی سے چاررسالے،ایک پوڈ کاسٹ سیریز، دولیکچرزروزانہ اورایک ہفتہ وارنیوزلیٹرشائع کررہاہے۔
عمر میڈیاکی جانب سے جاری کی جانے والی مختصرویڈیوزسب سے زیادہ قابل ذکرہیں جن کامقصد پاکستانی سکیورٹی فورسزکے خلاف تشددکوبھڑکانااور ساتھ ہی ٹی ٹی پی کی سکیورٹی فورسزکے خلاف کارروائیوں کوپیش کرناہوتاہے۔ٹی ٹی پی کے عمرمیڈیا کادعویٰ ہے کہ وہ14ویڈیوسیریزتیارکرتاہے۔حال ہی میں عمرمیڈیاکی اہم اوربنیادی پروپیگنڈاپرمبنی اردو اشاعت ماہانہ میگزین”مجلہ طالبان”مستقل بنیادوں شائع ہورہاہے اوراب اس کے معیاراور ڈیزائن دونوں میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔اب عمرمیڈیاکی جانب سے اکثراوقات خواتین کاایک خصوصی رسالہ “بنات خدیجۃ الکبریٰ”اور پشتو زبان کامیگزین “صدائے طالبان”بھی شائع کیاجارہاہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کوکالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے پروپیگنڈے کوروکنے میں کئی چیلنجزاور مشکلات کاسامناہے۔ٹی ٹی پی اپنے بیانیے کوپھیلانے کیلئےمختلف سوشل میڈیاپلیٹ فارمزاورانکرپٹڈمیسجنگ ایپس جیسے ٹوئٹر،ٹیلیگرام،واٹس ایپ اورسیگنل کااستعمال کررہی ہے،جہاں ان کے پیغامات،بھرتیوں اورحملوں کے منصوبے شیئرکیے جاتے ہیں۔جنہیں مکمل طورپرکنٹرول کرنامشکل اوران تک رسائی حاصل کرناحکومت کیلئےمشکل ہے۔ پاکستانی اداروں کوفی الحال ڈیجیٹل پلیٹ فارمزپرکنٹرول کی کمی کاسامناہے۔اس لئے پاکستانی حکام کی جانب سے ان موادکوہٹانے کی درخواستوں پرسوشل میڈیا کمپنیاں ہمیشہ فوری کارروائی نہیں کرتیں ۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمزپر ٹی ٹی پی کے موادکوہٹانے کیلئےپاکستانی حکومت کوقانونی اورتکنیکی مسائل کے نام پربین الاقوامی قوانین اورپالیسیوں کاسامنا کرناپڑتاہے۔پاکستان کی درخواستوں کے باوجودسوشل میڈیاکمپنیوں کی جانب سے موادہٹانے میں تاخیرہوتی ہے کیونکہ ان کی پالیسیاں مغربی ممالک کے قوانین کے مطابق زیادہ سخت ہیں اوران مقامی کمپنیوں کایہ مؤقف ہے کہ وہ بین الاقوامی سوشل میڈیاکمپنیوں کی پالیسیزکی پابندہیں۔ٹی ٹی پی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے اکاؤنٹس بناکرریاستی کوششوں کوناکام بناتے ہیں لیکن باخبرذرائع کاکہناہے کہ یہ پاکستان کونقصان پہنچانے کیلئے ایک مخصوص پالیسی پرعمل کیاجارہاہے وگرنہ یہ پالیسیاں خودان کے ممالک میں کیوں بے اثرہیں؟
مقامی ہمدردوں کی موجودگی میں ٹی ٹی پی اپنے مقامی ہمدردوں اورنظریاتی حامیوں کی موجودگی کی بناءپر مختلف ویب سائٹس اورسوشل میڈیاگروپس کے ذریعے اپنا پروپیگنڈہ پھیلانے میں مصروف ہیں لیکن یادرہے کہ ان تمام سوشل میڈیاکے چلانے کیلئے تمام تکنیکی معاونت مغربی ممالک میں موجود کمپنیاں مہیا کرتی ہیں جوپاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔بین الاقوامی تعاون کی کمی کی وجہ سے مغربی ممالک دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے مؤقف کی مکمل حمایت نہیں کرتے،جس کی وجہ سے عالمی سطح پرٹی ٹی پی کے خلاف مؤثراقدامات کرنامشکل ہو جاتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چندبرسوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آئی ہے،ساتھ ہی ان کے میڈیانیٹ ورک نے بھی وسعت اختیارکی ہے۔ٹی ٹی پی کی جانب سے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئےسوشل میڈیااورویب سائٹس استعمال کی جارہی ہیں۔ہربڑے حملے کے بعدٹی ٹی پی کے میڈیاونگ عمرمیڈیاکی جانب سے ایک تفصیلی بیان جاری کیاجاتا ہے ،جس میں حملوں کی ویڈیوزاورتصاویرشامل کرکے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے حملےکو “فتح” اور”جہاد”کے طورپر پیش کرکے کامیابی کے بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔
گزشتہ چندبرسوں میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آئی ہے،ساتھ ہی ان کے میڈیانیٹ ورک نے بھی وسعت اختیارکی ہے۔ٹی ٹی پی کے حملے اوراس کامیڈیاونگ ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔عمرمیڈیانوجوانوں کوبھرتی کرنے کیلئے مذہبی حوالوں سےجذباتی بیانات اورجہادی ویڈیوزاستعمال کرتاہے۔ ویڈیوز،آڈیوزاورتحریری موادکے ذریعے نئے افرادکو بھرتی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔میڈیاکے ذریعے نئے افرادکوجنگجوؤں کی صفوں میں راغب کرنے اورشامل ہونے کیلئےاکسایاجاتاہے۔
مختلف زبانوں میں پروپیگنڈاموادتیارکیاجارہاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افرادتک پیغام پہنچ سکے۔ٹی ٹی پی بین الاقوامی حمائت حاصل کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی جہادی نیٹ ورکس سے روابط کیلئے عالمی جہادی تنظیموں جیسے القاعدہ اورداعش کے ساتھ تعلقات قائم کرکے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ عمرمیڈیا2014میں ٹی ٹی پی کے مرکزی میڈیا ونگ کے طورپرقائم کیاگیاتھا۔اس کے بنیادی مقاصدمیں جہادی نظریات کی تشہیراورٹی ٹی پی کے حملوں کوجائزثابت کرنا،پاکستانی ریاست،فوج اورحکومت کے خلاف نفرت انگیزبیانیہ تیار کرنا،بھرتیوں اورفنڈنگ کیلئےجدیدمیڈیاتکنیکوں کااستعمال کرناشامل ہے۔
2020سے عمر میڈیا کی قیادت منیب نامی کمانڈرکے ہاتھ میں ہے،جوپہلے القاعدہ کے میڈیاونگ”السحاب”سے منسلک تھا۔عمرمیڈیاکے تحت مختلف ٹیمیں کام کرتی ہیں،جوویڈیو،آڈیو، تحریری مواداورسوشل میڈیامینجمنٹ پرکام کرتی ہیں۔ افغانستان میں قائم متعددمیڈیاہب ٹی ٹی پی کی مختلف شاخوں کومیڈیامعاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے مختلف شعبے ویڈیو،آڈیو، تحریری مواداورسوشل میڈیا مانیٹرنگ پرکام کرتے ہیں۔افغانستان میں مختلف مقامات پر اس کے سیل موجود ہیں ،جہاں سے یہ موادتیارہوتاہے۔عمرمیڈیااپنی دہشتگردکاروائیوں کیلئے بین الاقوامی سپانسرزکی خفیہ فنڈنگ کے علاوہ افغانستان میں موجودمختلف شدت پسند گروہوں کی حمایت بعض ہمدردتنظیموں اورافرادسے ملنے والی مالی امدادکے علاوہ اغوابرائے تاوان اوردیگرغیر قانونی ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم سے چلایاجارہاہے۔
یادرہے کہ2021ءمیں طالبان کی حکومت آنے کے بعدجہاں عمرمیڈیاکومزیدآزادی اوروسائل حاصل ہوئے وہاں ٹی ٹی پی کومحفوظ پناہ گاہیں ملیں اوراپنے خفیہ ٹھکانوں سے نکل کردیگرمحفوظ ٹھکانوں میں آزادی کے ساتھ اپنی کاروائیوں میں اضافہ کردیا۔عمرمیڈیانے پروپیگنڈا میں نئی حکمت عملی اپنائی،جس میں مذہبی حوالوں کے ذریعے حمایت حاصل کرنے پرزوردیاگیا۔جونہی اپنے بیرونی سپانسرزکی طرف سے مالی وسائل میں اضافہ ہوا،اس سے بہترپروڈکشن اور وسیع ترپھیلاؤممکن ہوگیا۔
عمرمیڈیا کے قیام سے مختلف گروہوں کے انضمام سے میڈیاونگ کومزیدمتحرک بنایاگیاہے۔ٹی ٹی پی نے اپنے میڈیا آپریشنز کیلئےنئی حکمت عملی تیارکی اورافغانستان میں زیادہ محفوظ مقامات پرمراکزمنتقل کیے۔پاکستانی حملوں کے بعدتنظیمی ڈھانچے میں رد و بدل کیاگیاتاکہ میڈیامہم متاثرنہ ہو۔2021ء کے بعد، ٹی ٹی پی نے میڈیا ہینڈلنگ میں جدید ٹیکنالوجی جیسے ویڈیو اینیمیشنز،ڈرون فوٹیج اورہائی ڈیفینیشن ویڈیوزکے استعمال میں اضافہ کردیا۔پاکستانی فضائی حملوں اورانٹیلی جنس کارروائیوں کے باعث عمرمیڈیانے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اورچھوٹے،غیرمرکزی یونٹس میں کام کرناشروع کردیاہے۔
یوں توطالبان حکومت سرکاری طورپرٹی ٹی پی اوردیگردہشتگردگروپس کی حمائت سے انکارکرتے ہیں لیکن عملی طورپرغیراعلانیہ تعاون سے ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں اورنقل وحرکت کی آزادی حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے پروپیگنڈے میں نئے بیانیے میں طالبان کی فتح کواپنی فتح قراردیتے ہوئے مزیدافرادکو بھرتی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ٹی ٹی پی نے افغانستان میں داعش کے خلاف طالبان کی کاروائیون پربھی بیانیہ تیارکیاتاکہ طالبان کے اندرونی مخالفین کواپنی جانب مائل کرسکے۔
عمرمیڈیانے اپنے بیرونی سپانسرکی مددسے پروپیگنڈہ موادکوانتہائی جدیدخطوط پراستوارکرتے ہوئے بھاری مقدارمیں ٹی ٹی پی کی تقاریر،مذہبی جذباتی بیانات،جہادی ترانے،تبلیغی مواد،آن لائن میگزین،جہادی ادب اوربیان سازی کے مضامین کے علاوہ حملوں کی فوٹیج،جنگجوؤں کے پیغامات کے ویڈیوز ، آڈیوزجاری کئے ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ کروڑوں ڈالرخرچ کئے جارہے ہیِں۔
مزید براں2022کے آخرسے ٹی ٹی پی کی میڈیاسرگرمیاں مزیدبڑھ گئیں جن میں یہ حکومتی اقدامات کوناکام ثابت کرنے کی شدت سے ناکام کوشش کی جارہی ہے۔پاکستانی حکومت اورفوج کے خلاف نوجوانوں کوورغلانے کیلئےمختلف بیانیے بنائے جارہے ہیں۔ویڈیوزاورسوشل میڈیامہمات چلائی جا رہی ہیں۔جھوٹی خبروں اورفیک میڈیاکے ذریعے نوجوانوں کوورغلایاجارہاہے۔سوشل میڈیاپرٹی ٹی پی جعلی اورجھوٹی خبروں اورویڈیوزکے ذریعے ریاستی بیانیے کو چیلنج کرتی ہے۔گزشتہ کچھ عرصے پاکستانی حکومت اورسکیورٹی فورسزکے خلاف یہ پروپیگنڈامزیدمنظم اور خطرناک ہوگیاہے۔
دسمبر2022میں پاکستانی حکومت نے دعویٰ کیاکہ افغانستان کے صوبہ پکتیکامیں عمرمیڈیاکے ہیڈکوارٹرکوتباہ کردیا گیاہے۔ٹی ٹی پی نے اپنے سپانسرزکی مددسے نئے ذرائع اختیارکرتے ہوئے اپناکام شروع کردیاہے۔یقیناًپروپیگنڈے میں وقتی کمی آئی لیکن تنظیم نے نئے چینلزکے ذریعے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اس کے باوجودعمرمیڈیااورٹی ٹی پی کے نیٹ ورک میں بڑی حدتک خلل توپڑاہے لیکن پروپیگنڈابدستورجاری ہے۔
ڈیجیٹل ذرائع کی پیچیدگیوں کے سبب ٹی ٹی پی کے پروپیگنڈے کومکمل طورپرختم کرنامشکل ہوگیاہے۔عالمی برادری کی حمایت کی کمی،خاص طورپر سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے فوری کاروائی نہ ہوناایک بڑاچیلنج ہے۔جہاں ڈیجیٹل ذرائع کی پیچیدگی کی وجہ سے سوشل میڈیاپرموادکومکمل طورپر ہٹاناممکن نہیں وہاں ڈیجیٹل ذرائع پرمکمل کنٹرول حاصل کرنامشکل ہے۔بھارت کھلے عام ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی حمایت کررہاہے تاکہ پاکستان میں عدم استحکام پیداکیاجاسکے۔
دوسری طرف عالمی برادری نے پاکستان کے خدشات کو مکمل طورپرتسلیم نہیں کیا۔بھارت کی مبینہ حمایت کے باوجودعالمی سطح پراس پرکوئی دباؤنہیں ڈالاگیا۔عالمی برادری بالخصوص مغربی ممالک کی حمایت کی کمی کی بناء پردہشتگردی کے خلاف کاروائیوں میں پاکستان کے ساتھ عدمِ تعاون کی بناءپراب تک بھارت کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی،جس کی وجہ سے پاکستان کوسفارتی سطح پرچیلنجزکاسامناہے۔
ادھرٹی ٹی پی کے اندرونی تنازعات کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں جس سے شامل گروپوں میں دراڑیں پروپیگنڈا ونگ پراثراندازہورہی ہیں۔کچھ ویڈیوزاوربیانات لیک ہوچکے ہیں،جس سے ٹی ٹی پی کے سکیورٹی خطرات میں اضافہ ہواہے۔ٹی ٹی پی کے ذیلی گروہ اب ایک مرتبہ پھراپنے میڈیا نیٹ ورکس کی بحالی کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ٹی ٹی پی کے اندراس وقت 72سے زیادہ گروہ موجودہیں،جن میں جماعت الحرارنمایاں ہے۔جماعت الاحرارنے اپناعلیحدہ میڈیا ونگ”غازی میڈیا”بنایاہے جوٹی ٹی پی کے عمومی بیانیے سے مختلف بیانات جاری کرتا ہے۔بعض مواقع پرٹی ٹی پی نے جماعت الاحرار کے بیانات سے لاتعلقی ظاہرکی ہے۔اسی طرح لشکرِاسلام اورحافظ گل بہادرگروپ نے اپنے علیحدہ چینلزقائم کرلئے ہیں۔
ادھرچین نے پاکستان پرزوردیاہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف سخت اقدامات کرے کیونکہ سی پیک کومسلسل نشانہ بنایاجارہاہے۔اگریہ حملے جاری رہے توسی پیک منصوبوں پرمنفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں تاہم چین براہِ راست اس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
سوال یہ ہے کیاامریکاافغانستان میں بری طرح ہزیمت اٹھانے کاذمہ دارپاکستان کوٹھہراتے ہوئے اس کی سزادینے کی سازش میں شامل ہے یاپھراس خطے کے سب سے بڑے پراجیکٹ سی پیک کوناکام بنانے کیلئے اپنادباؤڈال رہاہے یاپھر کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ کاروائیاں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کوغیرمستحکم کرنے کیلئےکی جارہی ہیں یاپاکستان کی ایٹمی طاقت کوختم کرنے کی سازش ہے۔بین الاقوامی سطح پرپاکستان کودفاعی دباؤمیں ڈالنے کیلئےمختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں جہاں(ٹرائیکا)اپنے تمام اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں دہشتگردی کوفروغ دینے کے پیچھے ایک بڑامقصداس کی ایٹمی صلاحیت کوکمزورکرناہی نہیں بلکہ اسے ایٹمی قوت سے دستبردارکرنابھی ہوسکتا ہے ۔مغربی اوربھارتی میڈیامیں اکثرپاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے عدم تحفظ کے حوالے سے منفی پروپیگنڈاکیاجاتاہے ۔بالخصوص ٹرائیکا(امریکا،بھارت اوراسرائیل) شروع دن سے پاکستان کی ایٹمی قوت کوختم کرنے کے درپے ہیں اوراب پاکستان میزائل ٹیکنالوجی میں بھی عالمی طورپرایک ممتاز مقام حاصل کرچکاہے جس مکی بناءپرٹرائیکاکوزیادہ تشویش ہے۔گزشتہ برس سے اب تک امریکا پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی پر”امریکاکی سلامتی کوپاکستان کے بڑھتے ہوئے میزائل”پروگرام پراپنے تحفظات کاذکر کرکے اس پروگرام کے معاون دواہم کمپنیوں پرپابندی لگا چکا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیاان حالات میں پاکستان غیرملکی فنڈزسے چلنے والی ٹی ٹی پی جیسے دہشتگردوں کی طرف سے چلائی جانے والی میڈیاجنگ جیت سکتاہے؟ ٹی ٹی پی کامیڈیاپروپیگنڈانیٹ ورک انتہائی جدیدمضبوط اورمنظم سسٹم بن چکاہے جسے روکنے کیلئےپاکستان کوجدیدڈیجیٹل ٹیکنالوجیز،سائبرسیکیورٹی اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان کواس کے خلاف مؤثراقدامات کرنے کیلئےعالمی حمایت،سائبرسیکیورٹی اورجدید ٹیکنالوجی کوبروئے کارلانا ہوگا جس کیلئے اسے چین،روس،ایران،ترکی کے علاوہ دیگرمسلمان ملکوں کے ماہرین پرمشتمل ایک ہنگاامی کمیشن تشکیل دیناہو گاجہاں مستقبل کے خطرات کے تدارک کیلئے عملی کاروائیوں کاآغازکرناہوگا۔