Economic autonomy: An effective response to sanctions or just a dream?

اقتصادی خودمختاری: پابندیوں کا مؤثر جواب یا محض خواب؟

:Share

امریکانے پاکستان،چین،متحدہ عرب امارات سمیت آٹھ ممالک کی70کمپنیوں پربرآمدی پابندیاں عائدکی ہیں۔جن میں19 پاکستانی،42 چینی اور4 متحدہ عرب امارات سمیت ایران، فرانس، افریقہ،سینیگال اوربرطانیہ کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔یہ پابندیاں مختلف وجوہات کی بناپرلگائی گئی ہیں،جن میں قومی سلامتی،جوہری اوربیلسٹک میزائل پروگرامزمیں مبینہ شمولیت اوردیگر امورشامل ہیں۔امریکی حکومت کادعویٰ ہے کہ یہ کمپنیاں امریکاکی قومی سلامتی اورخارجہ پالیسی کے مفادات کے منافی کام کررہی ہیں۔

یادرہے کہ ایساپہلی بارنہیں کہ امریکانے پاکستان سمیت دیگر ممالک کی کمپنیوں کو”قومی سلامتی کیلئےخطرہ”قراردیتے ہوئے ان پرپابندیاں عائد کی ہوں۔اس سے قبل2018میں بھی امریکا نے پاکستان کی7ایسی انجینیئرنگ کمپنیوں کو جوہری آلات کی تجارت میں ملوث قراردیکرسخت نگرانی کی فہرست میں شامل کیاتھا۔اس کے بعد دسمبر2021میں بھی امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ طورپرمددفراہم کرنے کے الزام میں13پاکستانی کمپنیوں پرپابندیاں لگادی تھی۔

امریکی پابندیوں کی زدمیں جوپاکستانی کمپنیاں آئی ہیں ان میں الائیڈبزنس کنسرن پرائیویٹ لمیٹڈ،اریسٹن ٹریڈ لنکس،بریٹلائٹ انجینئرنگ کمپنی،گلوبل ٹریڈرز،انڈنٹیک انٹرنیشنل،انٹرا لنک انکارپوریٹڈ،لنکرزآٹومیش پرائیویٹ لمیٹڈ،این اے انٹرپرائززشامل ہیں۔ اوٹومینوفیکچرنگ،پوٹھوہارانڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ کنسرن،پراک ماسٹر،پروفیشنل سسٹمزپرائیویٹ لمیٹڈ،رچناسپلائیزپرائیویٹ لمیٹڈ اور سٹیک ٹیکنالوجیزبھی پابندیوں کاشکارکمپنیاں ہیں۔ امریکانے نہ صرف پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے چارسپلائرز پرپابندی لگائی ہے بلکہ اپریل2024میں بھی چین کی3اوربیلا روس کی ایک کمپنی پرپاکستان کے میزائل پروگرام کی تیاری اور تعاون کے الزام میں پابندیاں عائد کرنے کااعلان کیاتھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیومِلرکی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ”امریکاان چارپاکستانی کمپنیوں کو نامزدکررہاہے جوبڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اوران کی ترسیل میں ملوث رہے ہیں۔امریکاتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کارروائی کرتارہے گا”۔واضح رہے کہ اب تک خودامریکانے اسرائیل کوغزہ میں جنگ کیلئےتین ارب ڈالرز سے زیادہ کے ہتھیارمہیاکیے ہیں۔

پاکستان کے دفترخارجہ نے ایک بیان میں کہاہے کہ اسلام آبادامریکاکے حالیہ اقدامات کے حوالے سے آگاہ نہیں تاہم ماضی میں “محض شک کی بنیاد پر فہرست جاری کی گئی یاپھران میں شامل اشیاکنٹرول لسٹ میں شامل بھی نہیں تھیں مگرانہیں حساس سمجھا گیا”۔

امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک فیکٹ شیٹ بھی جاری کی گئی ہے۔اس فیکٹ شیٹ کے مطابق امریکانے چین میں قائم شیان لونگڈے ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈپرپاکستان کے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل کی تیاری کیلئے پرزے اورآلات فراہم کرنے کاالزام عائدکیا ہے ۔ اس میں فلیمینٹ وائنڈنگ مشین بھی شامل ہے جوراکٹ موٹر کیسزتیارکرنے کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے۔تیانجِن کری ایٹوانٹرنیشنل ٹریڈکمپنی لمیٹڈنے پاکستان کے طویل فاصلے تک مارکرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کوآلات فرام کیے ہیں جس میں”سٹرویلڈنگ”کاسامان بھی شامل ہے۔امریکاکے مطابق سپیس لانچ ویہیکل میں استعمال ہونے والے پروپیلینٹ ٹینکوں کی تیاری میں بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

فیکٹ شیٹ میں چین کی گرانپیکٹ کمپنی لمیٹڈپرالزام عائدکیاہے کہ یہ کمپنی پاکستان کی خلائی تحقیق کے ادارے سپارکوکے ساتھ مل کر راکٹ موٹروں کی جانچ پڑتال میں معاون آلات کی فراہمی میں ملوث پائی گئی ہے اورمزیدیہ بھی الزام لگایاگیاہے کہ یہی کمپنی پاکستان کوبڑی راکٹ موٹرزآزمانے کیلئے پرزے فراہم کرتی رہی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں ایم ٹی سی آر کیٹگری ون بیلسٹک میزائل کی پروڈکشن کی جاتی ہے۔

فیکٹ شیٹ کے مطابق بیلاروس میں قائم مِنسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ نے پاکستان کوبیلسٹِک میزائل پروگرام کیلئےخصوصی گاڑیوں کے چیسس فراہم کیے ہیں۔یہ چیسس بیلسٹک میزائل کے لانچ سپورٹ پروگرام میں کام آتاہے جسے پاکستان کے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس(این ڈی سی)کوفراہم کیاگیاتھا۔

امریکاکادعویٰ ہے کہ یہ کمپنیاں جوہری ہتھیاروں،بیلسٹک میزائل پروگرامزاورڈرون ٹیکنالوجی کی ترقی میں ملوث ہیں،جوسی آئی اے اورپینٹاگون کی رپورٹس کے مطابق امریکاکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔امریکاکاالزام ہے کہ پاکستان اورچین این پی ٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری منصوبوں میں تعاون کررہے ہیں اورمیزائل ٹیکنالوجی کاتبادلہ کررہے ہیں۔مثال کے طورپر،پاکستانی کمپنیوں نے سی ایل20ایک جدید ترین “دہماکہ خیزمادہ”چین سے درآمدکیاجوبابُر-3کروزمیزائل میں استعمال ہوتا ہے۔امریکا کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے پاکستانی کمپنیوں کو سالانہ تین سو ملین ڈالر کا نقصان ہو گا کیونکہ ان کی 40 فیصد برآمدات امریکا پر مرکوز تھیں۔ پاکستان کا غوری تھری میزائل پروگرام 6 ماہ کیلئے معطل کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کیلئے گئیر باکسز دستیاب نہیں ہیں۔

یوکرین کوامریکی ہتھیارفراہم کرنے والی کمپنیوں نے رپورٹ کیاکہ روس ایرانی ساختہ ڈرونزکے ذریعے یوکرین پرحملے کررہا ہے،جن کے پرزے متحدہ عرب امارات کی کمپنیوں نے سپلائی کیے ہیں۔ علاوہ ازیں روس اوریوکرین جنگ کے تناظرمیں کچھ کمپنیاں روس کوڈیفنس ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے شبہات کی زدمیں ہیں اس لئے ان متاثرہ کمپنیوں کی امریکی مارکیٹ تک رسانی بندکردی گئی ہے جس سے ان کو2۔1بلین ڈالرکانقصان ہوسکتاہے۔یہ امریکی پابندیاں ان متاثرہ ممالک کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں رکاوٹ پیداکرکے سیمی کنڈکٹرز،ڈرون پارٹس،اورلیبارٹری سازوسامان کی درآمدکومتاثرکر سکتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی ان تمام متاثرہ ممالک کے ساتھ امریکااوراس کے اتحادی ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات میں تناؤاورکشیدگی کاواضح امکان ہے۔

امریکی مؤقف کے مطابق مذکورہ کمپنیاں ایسے اقدامات میں ملوث ہیں جواس کی قومی سلامتی اورخارجہ پالیسی کیلئےخطرہ بن سکتے ہیں۔امریکی محکمہ تجارت کے مطابق،یہ کمپنیاں جوہری اوربیلسٹک میزائل پروگرامز میں معاونت،غیرقانونی تجارت،اور جدید ٹیکنالوجی کی غیرمجازمنتقلی میں ملوث ہیں۔

امریکاکاکہناہے کہ بعض کمپنیاں ایسے ممالک کے ساتھ تعاون کررہی تھیں جن پرجوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے سخت نگرانی ہے اوران کمپنیوں نے جوہری عدم پھیلاؤکی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ کچھ کمپنیاں مبینہ طورپرپاکستان اوردیگر ممالک کے بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی پروگرام میں مدد دے رہی تھیں۔چین،ایران اوردیگرممالک کی کمپنیاں حساس امریکی اور دفاعی ٹیکنالوجی غیر قانونی طریقے سے منتقل کررہی تھیں۔چین اورپاکستان کے ساتھ امریکاکے تجارتی اورسفارتی تعلقات مزیدمتاثرہو سکتے ہیں۔ عالمی سپلائی چین خاص طورپرالیکٹرانکس اور دفاعی شعبوں میں میں خلل پیداہو سکتاہے۔یہ اقدام امریکااوردیگرمتاثرہ ممالک کے درمیان مزیدتناؤپیداکرسکتاہے۔بین الاقوامی منڈی میں حساس اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

امریکاکی پابندیوں کی زدمیں پاکستان کی19کمپنیاں زیادہ تردفاعی اورانجنئیرنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔13دسمبر2021کو درجن بھرپاکستانی کمپنیوں پرپابندیاں،بشمول ڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آرگنائزیشن پرپابندی لگائی گئی تھی۔اس کےعلاوہ”اے ای ایس”اڈوانسڈانجینئرنگ سلوشن،کے آر ایل ٹیکنیکل سروسزاورنیشنل الیکٹرانکس سرفہرست ہیں۔ان پرالزام ہے کہ یہ کمپنیاں پاکستان کے غوری میزائل تھری کیلئے گئیرباکس اوربابرکروز میزائل کی تیاری میں معاونت کررہی ہیں۔ایڈوانس انجیئرنگ سلوشن پریہ الزام بھی لگایاگیا کہ یہ غوری میزائل کیلئے ہائی پریشرٹربائنزتیارکرتی ہے۔اس پابندی کے بعدچین سے50ملین ڈالرکامعاہدہ منسوخ ہوگیاہے۔

نیشنل الیکٹرانکس کمپلیکس پرالزام ہے کہ وہ پاکستان کی جوہری لیبارٹریزکیلئے سینسرزاورکنٹرول سسٹمزتیارکرتی تھی۔اسی طرح”کے آرایل ٹیکنیکل سروسز”کمپنی شاہین میزائل3کیلئے گائیڈنس الگورتھمز گائیڈنس سسٹم تیار کرتی ہے جوامریکاکے مطابق ایف16طیاروں کے سافٹ وئیرسے چوری شدہ کوڈپرمبنی ہیں۔اسی طرح پاکستانی کمپنی نیشنل انجینئرنگ اینڈسائنسٹفک کمیشن بابر کروز میزائل کیلئے ٹربوفین انجن کی تیاری میں ملوث ہے۔

امریکانے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے چارسپلائرزپر پابندی عائدکی ہے،جن پرالزام ہے کہ وہ پاکستان کے میزائل پروگرام کیلئےپرزہ جات اورٹیکنالوجی فراہم کررہے تھے۔ان متاثرہ کمپنیوں پرمختلف الزامات لگاکرجو پابندیاں لگائی گئی ہیں ان میں سرفہرست پاکستان کی ایک انڈسٹری پرمیزائل سسٹم کیلئےمخصوص اجزاءکی سپلائی کاالزام لگایاگیاہے۔ایک دوسری کمپنی پر یہ الزام لگایاگیاہے کہ وہ غیرقانونی نیٹ ورکنگ کے ذریعے امریکی ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ملوث ہے۔تیسری کمپنی پریہ الزام ہے کہ وہ میزائل پروگرام میں ضروری الیکٹرانک چِپس کی سپلائی میں ملوث ہے اور پاکستان کی ایک معروف سلوشن انجینئرنگ کمپنی پریہ الزام ہے کہ وہ جدیدنیویگیشن سسٹم کی فراہمی میں ملوث ہے جبکہ یہ تمام کمپنیاں ان الزامات سے لاعلم ہیں اورانہوں نے اپنی شفافیت پرزوردیاہے۔

پاکستانی حکومت کامؤقف ہے کہ اس کی دفاعی ترقی اقوام متحدہ کے قوانین کے دائرے میں ہے اوراس کے سٹریٹیجک پروگرامز ان کے مقامی وسائل سے تیارکیے گئے ہیں۔اگرامریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ فیکٹ شیٹ پرنظردوڑائیں تواس میں دو ٹوک اورسخت پاندیاں لگاتے ہوئے کہاگیا ہے کہ ان چاروں کمپنیوں کے امریکا میں موجودیاامریکی افرادکی تحویل میں موجودتمام تراثاثے منجمد کردیے جائیں گے۔ان کمپنیوں کی ملکیت رکھنے والے افرادکے امریکامیں داخلے پربھی پابندی لگادی جائے گی اورامریکی شہریوں کوان کے ساتھ کاروبارکرنے سے روک دیاجائے گا۔

چین کی42کمپنیاں ہیں جوجدیدالیکٹرانک اورمیزائل ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں جن میں اہم نام “ہوائے کلاؤڈ،سینوٹیک الکٹرانکس، اورچینجڈو ایرو سپیس” ہیں۔ان کمپنیوں پریہ الزامات ہیں کہ یہ چینی فوج پیپلز لبریشن آرمی جدید ڈرون ٹیکنالوجی سپلائی کرنے میں ملوث ہے اور2018میں بیلاروس کی منسک ڈیفنس سلوشن سمیت7انجینئرنگ کمپنیوں کوبھی اس فہرست میں شامل کرلیاگیاجس پر پابندیاں عائدکردی گئیں۔دفاعی امورکے ماہرین کاکہنا ہے کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ دنیابھرمیں عالمی قانون،عالمی ادارے اور عالمی ٹیکنالوجی تک رسائی جیوپولٹکس کے زیرِ اثررہی ہے۔چین کی معاشی ایکسپنشن اوروسعت کوروکنے یامحدودرکھنے کی مغربی ممالک کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ان پابندیوں کے بعدان الزامات کوچیلنج کرنے،اس کا جواب دینے یا پھر اس کی قانونی چارہ جوئی کی تمام ترذمہ داری ان چینی کمپنیوں پرہے جن پریہ الزامات لگائے گئے ہیں۔

اسی طرح متحدہ عرب امارات کی چارکمپنیاں ڈیزرٹ فالکن ٹیکنالوجیز،سکائی لائن ڈیفنس سلوشن کونامزدکیاگیاہے جوایران کو شہاب تھری میزائل کے جائرو اسکوپس پرزے اورڈرونز کے پرزے سپلائی کررہی ہیں۔یوکرین کو امریکی ہتھیار فراہم کرنے والی کمپنیوں نے رپورٹ کیا کہ روس ایرانی ساختہ ڈرونزکے ذریعے یوکرین پرحملے کررہاہے جن کے پرزے متحدہ عرب امارات کی کمپنیوں نے سپلائی کیے۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل نہیں آیا، لیکن ایران کے ساتھ تجارت میں کمی کردی ہے لیکن ایک اطلاع کے مطابق متحدہ عرب امارات نےغیرسرکاری سطح پرایران کوشہاب-3میزائل کے پرزے سپلائی کرنے والی کمپنیوں کوبندکر دیا ہے۔اس کے ساتھ ہی یو اے ای کی تجارتی برادری میں شدیدتشویش پائی جاتی ہے۔

چین کاجے ایل تھری سب میرین میزائل منصوبہ بھی سست روی کا شکار ہے جس میں” سینوٹیک الیکٹرانکس” کاکردارتھا۔چین کی کمپنی “ہووائے کلاؤڈ “کے شئیرزمیں15فیصد کمی آگئی ہے جس سے اس کی مارکیٹ ویلیو20بلین ڈالرتک گرگئی ہے۔یہ پہلاموقع نہیں جب امریکا نے پاکستان یا دیگر ممالک کی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہوں۔ اپریل 2004 میں چین کی3 اور بیلاروس کی ایک کمپنی پرپابندی عائدکی گئی جوپاکستان کے میزائل پروگرام میں مدددے رہی تھیں۔۔2018میں پاکستان کی7اورانجینیئرنگ کمپنیوں کو سخت نگرانی کی فہرست میں شامل کیاگیاتھا۔

2018 میں کراچی انجیئرنگ ورکس پر “روٹرز”سنٹری فیوج کی غیر قانونی فروخت کی بناء پر پابندی لگا دی گئی تھی اسی طرح دسمبر2021میں پاکستانی کمپنیوں پرجوہری اورمیزائل پروگرام میں مبینہ مددکے الزام میں پابندیاں لگائی گئی تھیں اوراب 2021میں سپارکوپرراڈارسے بچنے والے اسٹیلتھ
میٹریل “ڈیسٹو”میں ترقی حاصل کرنے پرپابندی لگادی گئی ہے اورڈیفنس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آرگنائزیشن “ڈیسٹو”پر غوری4میزائل کیلئے ڈیجیٹل گائیڈنس سسٹم کی تیاری کرنے پرپابندی لگادی گئی ہےاور”گڈز” گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشن پرجے ایف تھنڈر17طیاروں کیلئے ایل ای ڈی ایویونکس کوتیارکرنے پرپابندی لگادی گئی ہے۔ اسی طرح کراچی انجیئرنگ ورکس پریورینیم افزودگی میں استعمال ہونے والے”پی ٹوسنٹرفیوج”کے پرزے تیارکرنے کے الزام میں پابندی لگادی گئی ہے۔پاکستانی کمپنی”واہ نوبل گروپ”کوجوہری ری ایکٹرزمیں استعمال ہونے والے “ڈی ٹواو”ہیوی واٹرکی غیرقانونی فروخت کاالزام لگاکرپابندی لگادی گئی ہے۔

اپریل2024 میں چین کی چینجڈوایروسپیس پریہ الزام لگاکرپابندی عائدکردی گئی کہ یہ پاکستان کے بابرتھری کروزمیزائل کیلئے کمپوزٹ میٹریل سپلائی کرتی ہے جومیزائل کوایک ہزارکلومیٹرتک رینج فراہم کرتے ہیں اوربیلا روس کی منک ڈیفنس سلوشن پر اس لئے پابندی عائد کی گئی کہ وہ پاکستان کے شاہین تھری میزائل کیلئے سٹیلتھ کوٹنگ کی ترقی میں مدددے رہی ہے۔

امریکی مؤقف ہے کہ یہ پابندیاں امریکی پالیسی کاحصہ ہیں جوحساس ٹیکنالوجیزکی منتقلی روکنے کیلئےبنائی گئی ہیں لیکن عالمی ماہرین کو اس دہرے معیارپر بہت تحفظات ہیں کہ خطے میں بھارت برملاان عالمی پابندیوں کی خلاف ورزی کررہاہے لیکن اس کے باوجودامریکااوراس کے اتحادی”سول ایٹمی ٹیکنالوجی معاہدے”کی آڑمیں نہ صرف بھارت کی مددکررہے ہیں بلکہ اس پراپنی آنکھیں بھی بندکرکے مکمل خاموش ہیں۔

امریکی پابندیوں کے جواب میں مختلف ممالک کاردعمل سامنے آیاہے۔چین نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے”امریکی یکطرفہ کارروائی” قراردیاہے اورعالمی تجارتی تنظیم”ڈبلیوٹی او”میں اس کی شکائت درج کرانے کاعندیہ دیاہے۔چین نے جوابی پابندیوں کااعلان کرتے ہوئے امریکی پابندیوں کواقتصادی دہشتگردی قراردیاہے۔چین کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ بوئنگ اور لاک ہیڈ مارٹن کے حصول پرامریکی یکطرفہ پابندیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

جبکہ پاکستان نے امریکاسے ان پابندیوں کی وضاحت طلب کرتے ہوئے اسے سفارتی سطح پراٹھانے کیلئے داخلی سطح پرایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جواس پرفوری مناسب اقدامات اٹھائے گی جبکہ ان پابندیوں کے رد عمل میں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاہے کہ “یہ پابندیاں ہمارے دفاعی حق پرحملہ ہیں،ہم اپنے دفاعی پروگرامز پرکسی کوٹوکنے نہیں دیں گے اورہم اپنے میزائل پروگرام کوجاری رکھیں گے”۔پاکستانی وزارت خارجہ نے آئی اے ای اے کوخط لکھ کرامریکی پابندیوں کوغیرمنصفانہ قراردیاہے۔امریکاپاکستان کوجوہری عدم پھیلاؤ “این ٹی پی”کے معاہدے پردستخط کرنے پرمجبورکرناچاہتاہے جبکہ پاکستان کامؤقف ہے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت دفاعی ہے اورکسی کو کوئی خطرہ نہیں۔

٭پاکستان کیلئے ٹیکنالوجی کا مقامی حل یہ ہے کہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کوسیمی کنڈکٹرریسرچ لیب قائم کرنے کیلئے فنڈزمہیاکئے جائیں ۔
٭اقوام متحدہ میں جوہری عدم پھیلاکے معاہدے پربین الاقوامی مذاکرات شروع کئے جائیں جہاں نئی شرائط پربات چیت کرکے تیسری دنیاکے ممالک کوایسی نارواپابندیوں کے عذاب سے محفوط کیاجائے۔
٭عالمی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ تمام متاثرہ ممالک مل کرجوابی پابندیوں سے امریکاکوبہترین جواب دے سکتے ہیں جس کی ایک مثال تویہ ہے کہ امریکاکی مائیکروچپ صنعت کاچین پر80 فیصد انحصارکرتی ہے اورچین ان پابندیوں کے جواب میں اس کااعلان کرچکاہے کہ وہ ان بیجااورنارواپابندیوں کاضرورجواب دے گا۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ امریکاکے ساتھ سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعے ان پابندیوں پروضاحت طلب کی جائے۔

روس اورایران نے پہلے کی طرح امریکاکی پابندیوں کوغیرمنصفانہ قراردیاہے اوران پابندیوں کاخاطرخواہ جواب دینے کااعلان بھی کیاہے جبکہ دیگر متاثرہ ممالک نے اسے عالمی قوانین اورضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے مناسب وقت پراس کاجواب دینے کااعلان کیاہے۔پاکستان کیلئے ان پابندیوں کامقابلہ کرنے کیلئے فوری طورپرایسالائحہ عمل تیارکرنے کی ضرورت ہے جس سے ارضِ وطن کے خلاف ہونے والی اس سازش کاکماحقہ جواب دیاجاسکے۔پاکستان کیلئےٹیکنالوجی کا مقامی حل یہ ہے کہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو سیمی کنڈکٹرریسرچ لیب قائم کرنے کیلئے فنڈزمہیاکئے جائیں۔

اقوام متحدہ میں جوہری عدم پھیلاؤکے معاہدے پربین الاقوامی مذاکرات شروع کئے جائیں جہاں نئی شرائط پربات چیت کرکے تیسری دنیاکے ممالک کوایسی نارواپابندیوں کے عذاب سے محفوط کیاجائے۔عالمی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ تمام متاثرہ ممالک مل کرجوابی پابندیوں سے امریکاکوبہترین جواب دے سکتے ہیں جس کی ایک مثال تویہ ہے کہ امریکاکی مائیکروچپ صنعت کاچین پر80فیصدانحصارکرتی ہے اورچین ان پابندیوں کے جواب میں اس کااعلان کرچکاہے کہ وہ ان بیجااورنارواپابندیوں کاضرورجواب دے گا۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ امریکاکے ساتھ سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعے ان پابندیوں پروضاحت طلب کی جائے۔

٭ بین الاقوامی تجارتی قوانین کے تحت امریکاکے فیصلے کوچیلنج کیاجائے۔
٭اقوام متحدہ یاعالمی تجارتی تنظیم میں ان غیرقانونی پابندیوں کے خلاف اپیل دائرکی جائے۔
٭قانونی اقدامات اٹھاتے ہوئے متاثرہ کمپنیوں کیلئےقانونی چارہ جوئی کے راستے تلاش کئے جائیں۔
٭امریکی پابندیوں سے متاثر ممالک فوری طورپرمتبادل تجارتی راستے اختیارکرتے ہوئے اقدامات اٹھائیں جس کیلئے چین،روس،
ترکی اورمشرق وسطیٰ کے دیگرممالک کے ساتھ تجارت کوفروغ دیں۔
٭اپنی دفاعی اورصنعتی صلاحیتوں کوبڑھانے کیلئےاندرونی وسائل پرتوجہ دیں۔
٭اپنی کمپنیوں کے تجارتی طریقوں کوعالمی قوانین کے مطابق شفاف بنانے کیلئے لائحہ عمل تیارکریں اوراندرونی نگرانی کے عمل کوفروغ دیں۔
٭جوہری اورمیزائل پروگرامزکے بارے میں بین الاقوامی ایجنسیوں آئی اے ای اے کی رپورٹنگ کوبڑھانے کی ضرورت پرزوردیں۔
٭امریکاکی جاسوسی سے بچنے کیلئےخفیہ کمیونیکیشن نیٹ ورکس قائم کرکے سائیبرسیکورٹی کے نظام کومزیدمضبوط بنایاجائے۔
٭چینی وزارتِ خارجہ نے کہاکہ ہرصورت سی پیک کوکسی بھی بیرونی دباؤسے محفوظ رکھاجائے گا۔پاکستان اورچین سی پیک کی حفاظت کیلئے گورڈن گارڈزفورس کوجدیدسیکورٹی ٹیکنالوجی سے لیس کریں گے۔
٭امریکی پابندیوں کامقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مستقل بنیادوں پرمستقبل کی حکمت عملی کالائحہ عمل تیارکیاجائے۔
٭جدیدٹیکنالوجی کے دورمیں آئی ٹی نے تمام ٹیکنالوجیزپرسبقت حاصل کرلی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ مستقبل میں سائبرجنگ ی تیاری کیلئے اے
آئی “آرٹیفشل ٹیکنالوجی “سے پاکستان کے سیکورٹی کمانڈکوجدید ترین نیشنل سائبرٹولزسے لیس کیاجائے۔
٭تمام متاثرہ ممالک روس،چین اورترکی کے ساتھ ٹیکنالوجی شئیرنگ معاہدوں کاآغازکریں اورمضبوط بنیادوں پرسیکورٹی ٹولزکا تبادلہ کیاجائے۔
٭امریکی پابندیاں عالمی تجارتی نظام اورسفارتی تعلقات پرگہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔پاکستان،چین،اوردیگرمتاثرہ ممالک کواپنی پالیسیوں پرنظرثانی کرتے ہوئے عالمی سطح پراپنے مفادات کے تحفظ کیلئےموثر اقدامات کرنے ہوں گے۔اگریہ ممالک سفارتی اور تجارتی سطح پرمؤثرحکمت عملی اختیار کرتے ہیں،تووہ ان پابندیوں کے ممکنہ منفی اثرات کونہ صرف کم کرسکتے ہیں بلکہ اپنے مثبت حقوق کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں۔

امریکاکی یہ پابندیاں جیوپولیٹیکل کشمکش کاحصہ اورطاقت کے نئے عالمی توازن کی عکاس ہیں،جس میں چین کوروکنے کیلئے پاکستان جیسے اتحادی کونشانہ بنا کردباؤمیں لیاجارہاہے حالانکہ یہ وہی پاکستان ہے جس نے امریکاکودنیامیں واحدسپرپاوربننے میں نہ صرف مدد کی بلکہ بے تحاشہ جانی ومالی قربانیاں بھی دیں ۔متاثرہ ممالک کوچاہیے کہ ان چیلنجزسے نمٹنے کیلئےمقامی ٹیکنالوجی کی ترقی،بین الاقوامی سفارت کاری،اقتصادی خودمختاری کوترجیح دیں کیونکہ اقتصادی خودکفالت ہی ان تمام مسائل کی کلیدہے اورعلاوہ ازیں بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے دفاعی حقوق کاتحفظ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں