The Kurram conflict: sectarian tension or a game of global politics?

کرم کا تنازع: فرقہ وارانہ کشیدگی یا عالمی سیاست کا کھیل؟

:Share

صوبہ خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ کااسلام آبادمیں صوبے کے وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلح جتھوں کے ساتھ یورش کرنا، خانہ جنگی کی طرف ایسا خطرناک قدم تھاجس نے سب کوہلاکررکھ دیا حالانکہ اسلام آباد یورش سے چنددن قبل ان ہی کے صوبے کرم میں خوفناک فرقہ واریت کے واقعے میں32/افرادہلاک ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجوداسلام آبادکے خونی احتجاج کے بعدانہوں نے اب سول نافرمانی کااعلان کرتے ہوئے عجیب منطق کے ساتھ بیان داغ دیاہے کہ ہم محمودغزنوی کی طرح حملے جاری رکھیں گے۔

یادرہے خیبرپختونخواکے ضلع کرم کاشمارپاکستان کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتاہے جسے برطانوی دورِحکومت نے1890 کی دہائی میں باقاعدہ طور پرآبادکیاتھا۔انگریزسرکارنے باقاعدہ ایک سازش کے تحت یہاں زمینوں کی تقسیم دومختلف فرقوں میں تقسیم کی تاکہ اس خطے سے ان کے خلاف کوئی منظم کاروائی نہ ہوسکے۔مقامی قبائل میں تنازعات کاآغازبھی انہی دنوں شروع ہو گیاتھاگویاکُرم میں مقامی قبائل کے درمیان تنازعات کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے لیکن رواں برس جولائی سے یہ علاقہ وقفے وقفے سے ہونے والی خونریزجھڑپوں اور فرقہ وارانہ حملوں کی وجہ سے مسلسل خبروں میں ہے۔

صرف2024میں ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں پیش آئے پرتشددواقعات میں200سے زیادہ افراد مارے جاچکے ہیں جن میں خواتین اوربچے بھی شامل ہیں۔کرّم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پرحملے اورپھرقبائلی لشکرکی جانب سے متعددمقامات پرلشکر کشی اورآتشزنی کے واقعات کے بعدیہ خبرعام ہے کہ یہ فرقہ وارانہ جھگڑاپاڑہ چنارسے باہرآرہاہےجس کی افغانستان سے باقاعدہ پشت پناہی ہورہی ہے اورطالبان سرحدپارکررہے ہیں۔وہیں سوشل میڈیاپرایسی ویڈیوزبھی سامنے آئیں جن میں مبینہ طورپرایک چیک پوسٹ پرپاکستان کے پرچم کی جگہ کالعدم تنظیم زینبیون کاجھنڈانصب کیاگیاتھا ۔ یادرہے کہ ضلع کُرم میں21نومبرکوگاڑیوں کے قافلے پرایک حملے میں50سے زیادہ افرادہلاک ہوئے تھے جن میں سے بیشترکاتعلق شیعہ مکتبہِ فکر سے تھا۔اس سے قبل اکتوبرمیں کُرم میں سُنّی قبائل سے تعلق رکھنے والے مسافروں کے قافلے پربھی حملہ کیاگیاتھاجس میں حکام کے مطابق خواتین، بچوں سمیت16/افراد ہلاک ہوئے تھے۔

21نومبرکوپیش آئے واقعے کے اگلے روزمسلح لشکرنے ضلع کُرم میں سُنی آبادی والے علاقے بگن پرحملہ میں32/افرادہلاک اور سینکڑوں دُکانیں اورمکانات نذرِآتش کردیے۔کرم کی لڑائی میں شدت پسندعناصرکے بارے میں یہ دعویٰ کیاجارہاہے کہ فریقین کی صفوں میں شدت پسند تنظیموں کے ایسے جنگجوبھی شامل ہیں جواپنےغیرملکی آقاؤں کے ایماءپرپاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ادہرحکام کادعویٰ ہے کہ کُرم میں جاری تنازع میں کالعدم تنظیموں زینبیون،(ٹی ٹی پی)،داعش، لشکرِجھنگوی،سپاہ صحابہ اورسپاہ محمدسے جُڑے عناصربھی ملوث ہیں۔تاہم اس تنازعہ میں شام،عراق اورافغانستان میں تنازعات کے سبب مقامی سطح(کرم میں)پربھی تشددمیں اضافہ ہواہے۔نہ صرف ان(غیرملکی)تنازعات میں حصہ لینے والے جنگجوؤں نے کُرم میں اپنی شقاوت دکھائی ہے بلکہ انہوں نے اس حملے میں بھی امریکی جدیداسلحے کااستعمال کیاہے جوامریکی افواج انخلاءکے وقت ان کے حوالے کرگئے تھے۔ضلع کُرم سے تعلق رکھنے والے افراداپنے علاقوں میں کالعدم تنظیموں سے جُڑے افرادکی موجودگی کی تصدیق توکرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ پرتشددواقعات کاالزام بھی ایک دوسرے پرلگاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ضلع کُرم کے علاقے باگزئی سے ایک باخبرذریعہ کے مطابق وسطی کُرم میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ضرورہے لیکن یہ بہت محدود ہے تاہم شیعہ علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لشکرکشی کرتے ہیں،اُن کوکون روکے گا؟

بگن کے قریب واقع ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے معلم بھی اپنے علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے حامیوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کاکہناہے کہ”خود کو زینبیون اورطالبان سے منسوب کرنے والے لوگ اسلام کی مقدس ہستیوں کوغلیظ گالیاں اورہتک آمیززبان استعمال کرتے ہیں۔ان چیزوں کودیکھ کرپھرمقامی لوگ بھی مشتعل ہوجاتے ہیں اوراُن کے خیال میں اکتوبرمیں کونج علیزئی میں مسافرویگن پراور نومبر میں لوئرکُرم کے علاقوں بگن اوراوچت میں مسافربسوں پرہونے والے حملوں کی وجہ بھی یہی ہے۔اُن کے مطابق لوئراوروسطی کرم میں فوجی آپریشن ہوچکے ہیں اورایسے ہی آپریشن کی ضرورت اپر کُرم میں بھی ہے۔

کُرم میں تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ افسرنے افغانستان کے سرحدی علاقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ”ان(سُنّی قبائل) کی جانب سے لڑنے کیلئے بھی اُدھرسے لوگ اِدھرآ جاتے ہیں۔اُدھرسے آنے والے لوگوں کی آمدسے فریقین کی طاقت پرفرق تو پڑتاہے لیکن یہاں یہ بھی یادرکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جوساراعلاقہ ہے،اس علاقے میں رہناوالاہربندہ ہرقسم کااسلحہ چلانا جانتاہے۔

تاہم افغان طالبان کاکُرم میں اہل تشیع فرقے کے خلاف جنگ میں”براہِ راست ملوث ہونا”مشکل ہے کیونکہ پاکستان خصوصاً کرم جیسے سرحدی علاقوں میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات افغانستان میں دونوں فرقوں پربراہ راست اثرڈال سکتے ہیں۔اگرایساکوئی اقدام ہوتاہے تویہ افغانستان کے ایران کے ساتھ تعلقات پرمنفی اثرڈال سکتاہے جوافغان طالبان کیلئےکسی طورقابل قبول نہیں ہوگا۔ تاہم ضلع کُرم میں منگل،مقبل اورزادران جیسے سُنی قبائل بھی موجودہیں اوران سے تعلق رکھنے والے افرادافغانستان میں بھی رہائش پذیرہیں۔

جب کُرم میں اہل تشیع لشکرکی جانب سے سنی قبائل کے گھروں کوجلانے،بعض افراد کے ہلاک کرنے،ان کی ویڈیوزسوشل میڈیا پرآنے اوران کی عورتوں کوساتھ لے جانے کی خبریں سامنے آتی ہیں،تو قبائلی روایات کے مطابق سرحدپارموجودان قبائل کااپنے ہم قبیلہ یاعزیزواقارب کے انتقام میں اس تنازع میں شامل ہونابعیدازقیاس نہیں ہے۔افغانستان کی سرحدمیں بسنے والے قبائل میں افغان طالبان کے جنگجواورکمانڈربھی شامل ہیں جن کے قریبی تعلقات کُرم میں موجودسُنی قبائل سے ہیں اوراسی سبب کُرم میں جاری شیعہ،سُنّی تنازع مزیدپیچیدہ ہو جاتاہے۔

اہم حکومتی عہدیدارکے مطابق علاقے میں بھاری اسلحے کی موجودگی ان کیلئےایک بڑامسئلہ بناہواہے اوروہ اس کیلئےپڑوسی ملک افغانستان کوموردِالزام ٹھہراتے ہیں۔آپ کوپتاہے کہ سرحد پارکون موجودہے اوروہاں کیاکیاہوتارہاہے تواس کے کچھ تو نقصانات ہوں گے۔جوحالیہ انخلاہواہے امریکی افواج کابے شمارخطرناک اسلحہ ان دونوں فریقین کے ہاتھ لگاہے جس کابے دریغ استعمال ہورہاہے۔اگرآپ کویادہوتوجب2007میں سُنّی کالعدم تنظیموں اورٹی ٹی پی نے ضلع کُرم میں قدم جمانے کی کوشش کی تومقامی شیعہ رہنماحاجی حیدرکی قیادت میں مسلح اہل تشیع لشکر نے انہیں شکست دی تھی۔حاجی حیدرکا شمارپاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سابق سربراہ قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتاتھا۔

ادھرزینبیون بریگیڈکے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ مسلح گروہ شیعہ پاکستانی جنگجوؤں پرمشتمل ہے جوشام میں خانہ جنگی کے دوران ایران کے اتحادی بشارالاسدکی حمایت میں ہزاروں سنی مخالفین کوبیدردی سے قتل کردیاتھا۔انہیں عراق اورشام میں مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمہ داری بھی سوپنی گئی تھی۔دوسری جانب ایران بھی زینبیون بریگیڈ سے اپنے تعلق کوخفیہ نہیں رکھتااورایرانی سرکاری میڈیابشمول پاسدارانِ انقلاب سے منسلک تسنیم نیوزایجنسی بھی شام اورعراق میں مارے جانے والے پاکستانی جنگجوؤں کی خبریں اورکہانیاں نشرکرتا رہتا ہے۔

زینبیون بھی طالبان کی طرح کالعدم تنظیم ہے پھراُن کے خلاف ویسی ہی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟وہاں لوگوں کے پاس ایسے اسلحہ ہے جومقامی پولیس کے پاس بھی نہیں ہے۔ماضی میں اسی علاقے کے مقامی لڑکے شام میں داعش کے خلاف لڑنے جاتے رہے ہیں۔یہاں کوئی عربی یافارسی شہری موجود نہیں تاہم وہ کُرم میں زینبیون کی منظم موجودگی کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کے علاقوں میں شیعہ قبیلوں پرحملوں میں داعش اوردیگرافغان گروہ ملوث ہیں۔جب ان سے سُنی قبیلوں پرہونے والے حملوں کے حوالے سے استفسارکیا گیاتوانہوں نے کہاکہ”یہ قبائلی کلچر ہے کہ جس علاقے میں حملہ ہوتاہے وہیں کے مقامی افرادکوان حملوں کاذمہ دارسمجھاجاتاہے اوروہاں مخالف قبیلے کے لوگ حملہ کردیتے ہیں۔

تاہم زینبیون اب بھی متحرک ہے،ان کی جانب سے اب سوشل میڈیاایپ کے ذریعے کھل کرلوگوں کوبھرتی نہیں کیاجارہا تاہم ایران میں پڑھنے والے یارہائش پذیرپاکستانی شیعہ افراداب بھی بھرتی کیے جا تے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق “زینبیون بریگیڈ”کبھی بھی5ہزارافرادسے زیادہ لوگوں پرمشتمل نہیں رہا،تاہم اب ان کی تعدادکم ہوکرڈھائی ہزارسے چار ہزارتک آگئی ہے ۔

ضلع کُرم کاعلاقہ پاڑہ چنارافغانستان کے دارالحکومت کابُل سے تقریباً100کلومیٹردورہے اورجب نائن الیون حملوں کے بعدامریکااوراس کے اتحادیوں نے افغانستان پرچڑھائی کی تووہاں سے لوگوں نے کُرم میں بھی نقل مکانی کی۔جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں2000کے وسط میں ٹی ٹی پی کاقیام عمل میں آیاتوان علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔کُرم میں تعینات رہنے والے ایک پولیس افسرنے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ضلع کُرم میں دونوں اطراف سے لڑنے والے افرادمیں شامل کچھ لوگ غیرملکی تنازعات میں لڑکرآئے ہیں گویایہ تمام افرادباقاعدہ تربیت یافتہ ہیں۔ تاہم ان لوگوں کی تعداداتنی زیادہ نہیں ہے لیکن اُن کاتعلق جس بھی فرقے سے ہوتاہے وہ اسی جانب سے لڑتے ہیں اور وہ بڑابھاری اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔

اس وقت صورتحال پولیس کے قابوسے باہرہے،پولیس کے پاس ایسااسلحہ نہیں ہے جس سے ان لوگوں کوروکاجاسکے۔ پھرعلاقے کامحل وقوع ایک اورمسئلہ ہے۔وہ علاقہ ایساہے کہ آپ درمیان میں نہیں آسکتے،اگرآپ کوفورسزکوتعینات کرناہے توآپ کوپہاڑکے پیچھے سے چڑھناپڑھتاہے، ظاہر ہے اگرآپ ان کے سامنے سے آئیں گے توآپ کوکسی ایک گروپ کی گولی لگ جائے گی۔گوزینبیون کاپہلامقصد نام نہادداعش کے خلاف لڑناتھالیکن جب یہ لوگ واپس آناشروع ہوئے توبہت سے لوگ پنجاب اور کراچی میں توپکڑے گئے لیکن پاڑہ چنارکے لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ریڈارپرنہیں آئے۔باقی پاکستان کی نسبت اس علاقے کے لوگوں کامذہب کی طرف رجحان زیادہ ہے اوریہ منظم اوراعلی تربیت یافتہ بھی ہیں۔

پاکستان میں شیعہ برادری پرہونے والے حملوں کی ذمہ داری ماضی میں نام نہادداعش کی خراسان شاخ قبول کرتی رہی ہے۔ماضی میں نام نہاد د اعش دعویٰ کرچکی ہے کہ یہ حملے شام اورعراق میں پاکستانی افرادپرمشتمل زینبیون بریگیڈکی کارروائیوں کے جواب میں کیے گئے ہیں۔ اگست2021کے بعدداعش اورپاکستانی سُنّی تنظیموں نے ایک بارپھرپاکستان میں اپنی کارروائیاں تیزکی ہیں جس کے سبب زینبیون نے بھی ملک میں اپنامحاذسنبھال لیا ہے۔ضلع کرم وہ علاقہ جوکہ چاروں اطراف سے ان سُنّی انتہاپسند تنظیموں کے نرغے میں ہے،اسی لیے زینبیون نے بھی اپنارخ ضلع کُرم کی طرف کر لیاہے۔

ضلع کرُم کی صورتحال سے واقف اورماضی میں وہاں تعینات رہنے والے حاضرِسروس سکیورٹی افسران کے مطابق کُرم میں لڑائیوں کی بُنیادی وجہ زمینی تنازع ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد میں بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کے معاملے کوبھی نظراندازنہیں کیاجاناچاہیے۔علاقے میں امن وامان برقراررکھنے کیلئےفریقین کوغیرمسلح کرناانتہائی ضروری ہے اورجو لوگ علاقے سے باہرسے آکرلڑرہے ہیں،اُن پربھی نظررکھنی چاہیے۔

سب سے پہلے توانسدادِدہشتگردی ایکٹ کے تحت بیرونِ ملک تربیت لے کرآنے والے جنگجوؤں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔اگران افراد کونہ روکاگیاتوکُرم میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی شہری علاقوں تک بھی پھیل سکتی ہے اورپاکستان کے ازلی دشمن اس سلسلے میں پوری طرح سرگرم ہیں ۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ملکی سیاست کی لڑائی لڑنے کی بجائے اپناپورازور دشمنوں کی اس سازش کوکچلنے پرصرف کیاجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں