New wave of terrorism in Pakistan

پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر

:Share

پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں حالیہ ہفتوں میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کی نئی لہر نے شدت پسندوں کے حملوں نے سیکورٹی صورتحال کو انتہائی نازک بنا دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ، پشاور میں بم دھماکے، اور بلوچستان میں سرکاری اداروں پر فائرنگ جیسے واقعات نے حکومت اور عوامی حلقوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔ اس بحران کے پیشِ نظر، اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزرا، انٹیلیجنس ایجنسیوں کے سربراہان، اور سیاسی قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں ریاست کی پوری قوت کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

پاکستان میں ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز جیسے کہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے ذریعے دہشتگرد گروہوں کو ختم کرنے میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ خاص طور پر سوات آپریشن میں عوام کی بڑی حمایت حاصل تھی، جس کے نتیجے میں چھ ہفتوں میں شدت پسندوں کا خاتمہ ممکن ہوا۔ موجودہ حالات ایسے دکھائی دے رہے ہیں کہ ایک اور فوجی آپریشن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے، کیونکہ ماضی کے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ طاقت کے استعمال کے بغیر دہشتگردی کا مکمل خاتمہ مشکل ہے۔ تاہم، فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت اور سول اداروں کی شمولیت بھی ناگزیر ہے تاکہ دہشتگردی کے خاتمے کے بعد دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔

٭اجلاس میں 2014 کا نیشنل ایکشن پلان دوبارہ فعال کرنے پر زور دیا گیا، جس کے تحت دہشتگردی کے خلاف ریاستی اداروں کو یکجا کیا گیا تھا اور دہشتگردوں کے خلاف سخت کارروائی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
٭کمیٹی نے سٹریٹجک اور متفقہ سیاسی عزم کی ضرورت پر زور دیا جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوں۔
٭اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر، اعلیٰ حکومتی وزراء، پارلیمانی کمیٹی کے اراکین اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے نمائندگان نے دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر تبادلہ خیال کیا۔
٭سوات میں 2009 کے فوجی آپریشن کی مثال دیتے ہوئے کہا گیا کہ 22 لاکھ افراد کی منتقلی کے بعد 6 ہفتوں میں مالاکنڈکے 8اضلاع کی بازیابی ممکن ہوئی تھی۔
٭موجودہ صورتحال میں ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اب طاقت کے ذریعے مسائل کے حل کوترجیح دی جائے گی۔
٭حکومت کو سیکورٹی پالیسیز میں سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے جدید ٹولز شامل کرنے کی ہدایت کی گئی۔
٭کمیٹی نے حزبِ اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کیا، جس سے سیاسی وحدت کا فقدان ظاہر ہوتا ہے۔
٭اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ریاست کو پوری قوت کے ساتھ دہشتگرد عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔
٭دہشتگرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا کو ریڈارکلائزیشن اور فنڈنگ کے لیے استعمال کرنے اور دیگر ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ میڈیا کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
٭کمیٹی نے دہشتگرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ دہشتگرد تنظیمیں نوجوانوں کو ورغلانے اور اپنی پراپیگنڈا مہم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہی ہیں، جس کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر سوشل میڈیا پر نظر رکھیں اور شدت پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔

اجلاس میں حزبِ اختلاف کی عدم ِ شرکت اور ایک بلوچ سیاسی جماعت کی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے تسلیم کیا گیا کہ ایک بھائی بی ایل اے کا سربراہ بن کر ریاست کے خلاف دشمنوں کا آلہ کار بن کر دہشتگردی کر رہا ہے اور دوسرا بھائی سیاسی جماعت کا لیڈر بن کر اسمبلی میں ریاست پر تنقید کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر، بلوچستان میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ جبکہ حزبِ اختلاف کسی ایک ایجنڈے پر خود کو قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ اس مشکل ترین اور قومی سلامتی کے موقع پر بھی وہ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کبھی جیل سے اپنے رہنماء کی پیرول پر رہائی کی شرط عائد کرتی ہے اور کبھی پختونخواہ صوبہ جہاں اس کی حکومت ہے، وہاں کے وزیراعلیٰ کی قومی سلامتی کے اجلاس میں عدم شرکت اور عدم تعاون کی پالیسی اور بیانات سے ملکی سلامتی کو نقصان اور دنیا بھر کو اس نازک ترین موقع پر غلط پیغام مل رہا ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حزب اختلاف کے بعض اراکین کی عدم شرکت کو قومی مفاد کے خلاف قرار دیا گیا۔ قومی سلامتی جیسے اہم معاملے پر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ضروری ہے تاکہ ملک دشمن عناصر کے خلاف متحدہ محاذ بنایا جا سکے۔ قومی سلامتی جیسے حساس معاملے پر سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے تاکہ ملک سے دہشتگردی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکے۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں قومی سلامتی کے مسائل پر یکجا ہو کر فیصلہ سازی میں حصہ لیں۔

٭فوجی آپریشنز اور عسکری کردار کو عارضی حل قرار دیا گیا کیونکہ یہ دہشتگرد نیٹ ورکس کو کمزور تو کرتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر خاتمہ نہیں کر پاتے۔
٭ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پولیس کا کردار مرکزی ہونا چاہیے، کیونکہ ان کا عوام سے براہِ راست رابطہ ہوتا ہے۔فی الحال پولیس ابھی تک ناکام نہیں ہوئی، اس کو بہترین فیصلہ سازوں کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ آپریشن کیلئے مفید اور مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک بلوچوں کا ریاست پر اعتماد بحال نہیں کیا جاتا ٭کمیٹی میں کمیٹی میں یہ تسلیم کیا گیا کہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (جیسے سیاسی مذاکرات، معاشی ترقی) کی ضرورت ہے۔
٭کمیٹی نے بیانیے کی ناکامی کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارا بیانیہ راولپنڈی اور اسلام آباد تک محدود ہے۔ بلوچ نوجوانوں اور عام شہریوں تک ریاست کا پیغام نہیں پہنچتا۔
٭خاص طور پر جب سے چینی شہریوں پر حملے ہوئے ہیں۔ چین جیسے اتحادی بھی ہم پر اعتماد کھو رہے ہیں جس سے ریاست بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔

پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر ہارڈ اسٹیٹ پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب ریاست ہارڈ اسٹیٹ پالیسی کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور انہیں طاقت کے ذریعے ختم کیا جائے۔ تاہم، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عسکریت پسندی کے مسئلے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے صرف طاقت کا استعمال کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی مسائل کا حل بھی تلاش کرنا ہوگا۔ تاہم، بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ پہلے سافٹ انٹروینشن یعنی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

بلوچستان میں زیادہ تر لوگ ریاست کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، لیکن کچھ گروہ بداعتمادی کی وجہ سے ریاست مخالف جذبات رکھتے ہیں لیکن ان کی تعداد مٹھی بھر ہے اور مضبوط شواہد سے ثابت ہے کہ ان مٹھی بھر شر پسندوں کو بھارت، اسرائیل اور امریکا (ٹرائیکا) کی پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ ٹرائیکا ہر صورت میں سی پیک کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بلوچستان جیسے علاقوں میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے، روزگار کے مواقع، اور مذاکراتی عمل کو بھی اہمیت دینی ہوگی۔

بلوچستان میں امن کے قیام اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں نظر انداز کیے جانے والے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متوازن پالیسی ترتیب دینا ہوگی، جس میں سیاسی مذاکرات، ترقیاتی منصوبے، اور عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائی شامل ہو۔ تجزیہ تجزیہ کاروں کے مطابق ایک کمیشن بنانا چاہیے تاکہ جو بھی مسائل ہیں، ان کا حل نکالا جا سکے اور اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ریاست کو ان عناصر سے مذاکرات کرنے چاہئیں جو قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، جبکہ ریاست مخالف گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔۔ سیاسی قیادت کو اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دہشتگردی کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کی جا سکے۔

پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ دہشتگردی کے حالیہ واقعات کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری پاکستان سے اس توقع کا اظہار کرتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر شدت پسند گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔ چین جیسے قریبی اتحادی بھی پاکستان میں چینی شہریوں کی سکیورٹی پر تحفظات رکھتے ہیں، جس کے باعث معاشی اور سفارتی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے فوری طور پر نہ صرف موثر پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا بلکہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد ان شرپسندوں کی مکمل سرکوبی کیلئے پوری طاقت کے ساتھ اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔

مستقبل کی راہ اور تجاویز کے ساتھ ایک یقینی حل کی طرف پیش قدمی کیلئے ملکی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئی مطالبات سامنے آئے ہیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیشنل ایکشن پلان ٹو کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 2014ء میں جب سانحہ اے پی ایس کے بعد نواز شریف کی حکومت نے تمام جماعتوں کو اکٹھا کر کے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا، تو آج جب دہشتگردی کے خطرات مزید بڑھ چکے ہیں، تو وزیراعظم شہباز شریف کو بھی نیشنل ایکشن پلان ٹو ترتیب دیکر ایسے ہی اقدام کرنا چاہیے۔ ۔ ان کے مطابق پاکستان اس وقت ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرناک دور سے گزر رہا ہے، جس کا تقاضہ ہے کہ حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرے اور ایک نئی حکمت عملی وضع کرے ۔ اگر اس وقت قومی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا تھا، تو اب بھی ایسا ممکن ہے، اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے

٭بلوچستان کے لیے ایک حقائق کی تلاش کمیشن کے قیام کی تجویز پر بھی غور کیا گیا جہاں تمام فریق اپنے شکایات پیش کر سکیں۔
٭ماہرین کے مطابق فوجی آپریشن سے پہلے سافٹ انٹروینشن، سافٹ اقدامات (تعلیم، روزگار، انصاف) ضروری ہیں جس پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔
٭بین الاقوامی تعاون کو مزید متحرک کرنے کیلئے افغانستان کے ساتھ سرحدی تعاون اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسے فورمزپاکستان کی سفارت کاری کو فعال بنانے پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان دہشتگردی کے اس خطرناک بحران پر قابو پا سکے گا؟یقیناً پاکستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج دہشتگردی کے خلاف مستقل حکمتِ عملی ترتیب دینا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکے ہیں، جن کے تدارک کے لیے سخت اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر موثر عملدرآمد، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اقدامات اور ایک نئی جامع حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔

حکومت، فوج، انٹیلی جنس اداروں اور عوام کو مل کر ایک متحدہ بیانیہ اپنانا ہوگا تاکہ ملک میں پائیدار امن قائم کیا جا سکے۔ فوجی آپریشنز عارضی حل ہیں، جبکہ سیاسی وحدت، معاشی انصاف، اور عوامی اعتماد ہی اصل کلید ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اختلافات بھلا کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ پاکستان کو دوبارہ پرامن ملک بنایا جا سکے۔ آخر میں یہ کہنا انتہائی ضرقری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی بحالی اور اجلاس میں طے کردہ فیصلوں کا بھرپور نفاذ اس سلسلے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ حکومت اور حزبِ اختلاف ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی مفاد پر توجہ دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں