Political dreams, historical wounds

سیاسی خواب،تاریخی زخم

:Share

کشمیرکامسئلہ برصغیرکے دواہم ممالک،پاکستان اوربھارت،کے درمیان ایک دیرینہ اورپیچیدہ تنازع ہے،جس پروقتاًفوقتاًعالمی قوتوں کی توجہ رہی ہے۔ان میں سرِفہرست امریکاہے،جوکبھی ثالثی کے روپ میں،کبھی سٹریٹیجک شراکت دارکے طورپر، اورکبھی محض تماشائی کی حیثیت سے کرداراداکرتا رہاہے ۔ یہ مقالہ اس تاریخی پس منظرکوبیان کرتاہے جس میں امریکاکی ثالثی کی پیشکشیں، پاکستانی ریاست کی توقعات،اوران کے نتائج کاگہراتجزیہ شامل ہے۔

تاریخ ایک خاموش مؤرخ ہے جوکبھی جھوٹ نہیں بولتی،بشرطیکہ اسے سننے والااہلِ فکرودانش ہو۔جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ، بالخصوص پاکستان اوربھارت کے باہمی تنازعات کے تناظر میں،امریکی کردارایک ایساباب ہے جوبارہاامیدکے سراب میں لپٹا، مایوسی کی دھندمیں گم ہوکرابھرتارہاہے۔یہ رپورٹ اس تاریخ کے پیچ وخم کوبیان کرتی ہے جوامریکی ثالثی،پاکستانی توقعات،اور بھارتی مصلحتوں کے بیچ الجھی ہوئی ہے۔

تاریخ اس بات کی بھی چشم دیدگواہ ہے کہ عالمی سیاست میں کوئی مستقل دوست یادشمن نہیں ہوتا،مفادہی اصل میزان ہے۔مگراگراس کسوٹی پردنیاکی سب سے بڑی جمہوریت اورطاقتور ریاست یعنی امریکاکوپرکھاجائے،تویہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ امریکااپنے مفادات کے حصول کے بعداُنہی دوستوں کی قربانی دینے میں دیرنہیں لگاتاجنہوں نے اُس کیلئے خطرات مول لیے ہوتے ہیں۔

دنیاکی سفارتی بساط پربعض چالیں شطرنج سے بھی زیادہ مہلک اورپیچیدہ ہوتی ہیں۔جب امریکاجیساسوداگرِامن،اپنے ہاتھ میں مفادات کی ترازوتھام کرثالثی کالبادہ اوڑھتاہے،تومظلوم کوبسا اوقات وہی کچھ ملتاہے جوذی روح کوکسی بے ضمیرتاجرکی تجویزکردہ سوداگری میں نصیب ہوتاہے:”چپ رہو،زمین دے دو،باقی ہم دیکھ لیں گے”۔

اہلِ نظرجانتے ہیں کہ برصغیرکی تاریخ کاہرورق اس المناک حقیقت سے لبریزہے کہ پاکستان نے جب جب امریکاکی جانب اُمیدو استقامت کے چراغ جلائے،توہواکارُخ یوں بدلاکہ نہ چراغ بچے نہ تیل۔ماضی کاہرسنگ میل گواہ ہے کہ ہم نے ہرمرتبہ انکل سام کے دل لبھانے کیلئے اپناتن،من،دھن پیش کیا،اورجب صلہ مانگاتوکچھ جملہ معترضہ اورچند’مشورے‘ ہاتھ آئے۔

یادش بخیر،1962کی خزاں میں جب ہمالیہ کی چوٹیوں پرہندوستان اورچین کی توپیں گرج رہی تھیں،توعقل وتدبرکی بعض جُگنو صفت آوازیں پاکستان کے ایوانِ اقتدارمیں یہ کہہ کراُبھریں کہ”اب وقت ہے،کشمیر حاصل کرنے کا”،دانش مندی نے بھی بارہااکسایا کہ انڈیااورچین کی1962کی جنگ پاکستان کیلئے ایک سنہری موقع تھاکہ وہ کشمیرپرکوئی فیصلہ کن قدم اٹھاسکے۔اورکئی عسکری ماہرین اورسیاسی مبصرین نے اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت کومشورہ دیاکہ یہ وقت بھارت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر کشمیرکی بازیابی کاہے۔

شنیدیہ بھی ہے کہ چین کی طرف سے بھی خاموش سفارت کاری کے ذریعے اس بیش بہاقیمتی لمحات سے فائدہ اٹھانے کاپیغام بھی دیاگیامگراُس وقت خود ساختہ فیلڈمارشل ایوب خان نے امریکاکی کینیڈی انتظامیہ کی یقین دہانیوں پربھروسہ کرتے ہوئے غیرجانبداری اختیارکی،یہ سوچ کرکہ کل کینیڈی ثالث بنے گا،انصاف کی میزان تھامے گااورکشمیرہمارے ہاتھ آجائے گا ۔ثالثی کرکے پاکستان کے حق میں فیصلہ کرے گااوریوں خودساختہ فیلڈمارشل ایوب خان نے ناقابل معافی فحش اورظالمانہ غلطی کرکے واشنگٹن کے وعدۂ فرداپریقین کر تے ہوئے بندوق نیام میں ڈال دی۔مگرتاریخ نے یہ دکھایاکہ امریکانے یہ وعدہ کبھی وفانہیں کیا۔لیکن نتیجہ؟امریکی ثالثی ایک خواب نکلی جوآنکھ کھلتے ہی بکھرگیا۔اس طرح 1962کی انڈیا-چین جنگ کے بعدپاکستان کی بے سودامیدیں آج بھی پاکستان کے مقتدرکے ایوانوں کی نالائقیوں کانوحہ پڑھ رہی ہیں۔

1950ءکی دہائی میں پاکستان نے امریکاکے ساتھ سیٹواورسینٹوجیسے دفاعی معاہدوں میں شمولیت اختیارکی۔ان معاہدات کے تحت پاکستان کوفوجی امدادتو ملی،مگریہ امدادصرف کمیونسٹ خطرات سے نبٹنے کیلئے مخصوص تھی،نہ کہ بھارت جیسے علاقائی حریف کے خلاف۔1959کادفاعی معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھاجس میں کمیونسٹ ممالک سے تحفظ کاوعدہ توتھامگرعملی فائدہ صفررہا۔گویاپاکستان کیلئے امریکاکے ساتھ یہ دفاعی معاہدے ایک ایسے یکطرفہ نفع کی شکل اختیارکرگئے جس کامکمل فائدہ امریکا کے حق میں تھا۔

تاریخ اس حقیقت کی شاہدہے کہ امریکااپنے مفادات کی تکمیل کے بعداُنہی دوستوں کی قربانی دینے میں لمحہ بھرکی تاخیرنہیں کرتا جنہوں نے اس کی جنگوں اورجارحانہ عزائم کواخلاقی،عسکری اورسفارتی مدد فراہم کی ہوتی ہے۔پاکستان اس تلخ تجربے سے سب سے زیادہ گزراہے۔1950کی دہائی میں سیٹواور سینٹو کے خواب دکھاکرپاکستان کوایک ایسے راستے پرگامزن کیاگیا جہاں منزل محض ایک سراب تھی۔دفاعی معاہدات کی چھتری تلے سوویت مخالف اقدامات کیلئے پاکستان کوآلۂ کاربنایاگیا۔

مگرپھرجب1965کی جنگ میں ہم نے اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے اسلحہ اٹھایا،توامریکانے وہی مہیاکردہ ہتھیاربندکردیے۔امریکانے واضح کیا کہ فراہم کردہ دفاعی سازوسامان بھارت کے خلاف استعمال کیلئے نہیں دیاگیاتھاجبکہ1965کی جنگ میں امریکاسے عملی مددکی امیدکی گئی توہتھیاروں کی فراہمی روک کرامریکانے پاکستان کواس غلط فہمی سے نکال دیاکہ وہ کبھی بھارت کے خلاف پاکستان کامددگارہوسکتاہے۔تاریخ نے ان سنگین لمحات کواپنے سینے میں محفوظ کرلیاہے جب پاکستان کوبتایاگیاکہ”یہ تمھیں کمیونسٹوں سے بچانے کیلئے دیے تھے،دہلی سے نہیں!”اب یہ کوئی نئی بات تونہ تھی،مگرہماری امیدیں ہمیشہ وفاکی قاصدرہیں،بھلے وفاکا مسکن واشنگٹن کی پالیسیوں میں کبھی نہ ملا۔تاہم ایوب خان کوکینیڈی انتظامیہ نے یہ تاثرضروردیاکہ بھارت کے خلاف کوئی عسکری اقدام غیرضروری ہے،اوروہ ثالثی کاکردارسنجیدگی سے اداکریں گے۔نتیجہ؟مسئلہ وہیں کاوہیں رہا۔یہ پاکستان کیلئے ایک تلخ یاد دہانی تھی کہ وہ امریکاکے مفادات کامہرہ رہاہے،نہ کہ ایک خودمختارسٹریٹیجک حلیف۔

پھرجب1971کی شامِ ستم ڈھاکہ میں ڈھلی،توزخم خوردہ ریاست کونہ صرف آدھاوجودگنواناپڑابلکہ جنگی قیدیوں کی رہائی کی قیمت میں شملہ معاہدے کی وہ شق ماننی پڑی جس نے اقوامِ متحدہ کی کشمیرکے حق میں منظورکردہ قراردادوں کو تاریخ کی الماری میں بند کرکے اُس پردھول چڑھنے دی۔کیایہ سیاسی حکمت تھی یامجبوری کی معذرت؟تاریخ کے ہرمؤرخ کاقلم مختلف جواب دے گا،مگرہر جواب میں پاکستان کی تنہائی ضرورہوگی اوراس میں قصوروارہمارے مقتدر افرادہی نظرآتے ہیں۔

تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس معاہدے میں بھارت کاپلہ اس لئے بھاری رہاکہ اس کے پاس ہمارے کئی ہزارسویلین سمیت فوجی جنگی قیدی کے طورپرموجود تھے اوردشمن نے اس کافائدہ اٹھاتے ہوئے شملہ معاہدے میں یہ شرط ڈال دی کہ تمام تنازعات،بشمول کشمیر،دوطرفہ بنیادپر حل کیے جائیں گے۔اس شق نے اقوام متحدہ کی کشمیرپرمنظورشدہ قراردادوں کی حیثیت کوکمزورتوکردیا لیکن ختم نہیں کر سکا ،یقیناًیہ پاکستان کا ایک سفارتی نقصان یامجبوری کہاجاسکتاتھا۔

یادرہے کہ1970ءمیں یحییٰ خان نے چین اورامریکاکے تعلقات بحال کرانے میں کلیدی کرداراداکیاتھامگراس کی’اجرت’نہ کشمیر کی صورت میں ملی،نہ مشرقی پاکستان کے تحفظ کی صورت میں۔نتیجتاً1971کی جنگ میں نہ صرف پاکستان دولخت ہوابلکہ شملہ معاہدے کی وہ شق بھی مانی گئی جس نے اقوامِ متحدہ کی کشمیر پرقراردادوں کی اہمیت ختم کردی۔بھٹوکی سفارتکاری کوعظیم کامیابی کے طورپرپیش کیاگیامگروقت نے بتایاکہ اصل کامیابی کاغذپرتھی،زمینی حقائق میں نہیں۔

1999کی کارگل جنگ میں بھی پاکستان کوبالآخرامریکاہی کے دباؤپرپسپائی اختیارکرناپڑی۔اس جنگ کے دوران دونوں ممالک ایٹمی قوتیں بن چکے تھے،اور امریکانے ایک بارپھر’امن‘ کے نام پرپاکستان کوروکاجبکہ بھارت کی بالواسطہ حمایت جاری رہی۔نائن الیون کے بعدفاسق کمانڈومشرف ایک ہی امریکی فون کال پرڈھیرہوگیااورپاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکاکااس طرح ساتھ دیاکہ باقاعدہ طورپردو ملکی ائیر پورٹ امریکاکے حوالے کردیئے گئے جہاں پاکستانی ادارے کے کسی بھی فردکوداخلہ کی بھی اجازت نہیں تھی۔انہی ائیرپورٹس سے امریکی رپورٹ کے مطابق افغانستان پر57ہزارفضائی حملے کئے گئے اورتورابوراپربھی منی ایٹم بم گرانے کیلئے بھی ارضِ وطن کے انہی ہوائی اڈوں کواستعمال کیاگیا۔رسد،انٹیلیجنس،اورزمینی تعاون کے عوض کچھ مالی امداد توملی،امریکاکی طرف سے قراردی گئی اس دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان نے سترہزارسے زائدجانیں اورایک اندازے کے مطابق 110/ارب ڈالرکامعاشی نقصان بھی برداشت کرناپڑااورکئی لاکھ افغانوں کابوجھ بھی اپنی معیشت پرلادکرامریکاکوخوش کرنے کی ناکام کوششیں جاری رہیں۔جبکہ دوسری طرف،امریکانے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کیااورسٹریٹیجک شراکت داری کومضبوط کیا اوراب تک امریکی تعاون اورپشت پناہی کی بناء پربھارت پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے جس کے درجنوں مرتبہ اقوام عالم کے علاوہ اقوام متحدہ کوٹھوس شواہداورثبوت بھی مہیا کئے گئے لیکن ابھی تک امریکا کی سرپرستی میں چلنے والی لونڈی کاکرداراداکرنے والی اقوم متحدہ اپنے کردارنبھانے سے منہ موڑچکی ہے۔

2019میں جب ٹرمپ،کشمیرپرثالثی کاعندیہ دے کروزیرِاعظم عمران خان کوچکمہ دیاکہ تم ایک مرتبہ پھر’کرکٹ ورلڈ کپ‘کی جیت جیسی خوشی قوم کودے سکتے ہواورعمران نے ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کوامید کی کرن سمجھا۔تاریخ نے ایک بارپھر ہمارے دروازے پر دستک دی لیکن قصر سفیدکے فرعون ٹرمپ نے عمران خان پرواضح کردیاکہ کشمیرپرمودی کویکطرفہ چیک کیش کروانے کی اجازت دے دی گئی ہے اوراب یہ تمہارا کام ہے کہ اپنے اقتدارمیں رہنے کیلئے اپنی قوم کے ساتھ کیاڈرامہ رچاناہے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اپنے اقتدارکے دوام کواس لئے بھی ترجیح دی کہ اس وقت کافوجی سپہ سالارقمرباجوہ کوبھی پینٹاگون نے اپنے ہاں بلاکربظاہر18گنزکاسلیوٹ پیش کرکے کشمیرکے معاملہ پرفیصلہ پرعملدرآمدکاحکم صادرکردیاتھاجس کااظہارباجوہ نے دو درجن صحافیوں کوبلاکرکشمیرپراپنی بزدلی کااظہارکردیاتھا۔اس طرح ٹرمپ نے امریکامیں مودی کی طرف سے اس کی انتخابی مہم میں دوبڑے جلسوں کے خطاب کے نتیجے میں انڈین امریکی ووٹروں کی حمائت وصول کرنے کاحق اداکردیااورمودی نے باقاعدہ امریکی شہہ پرآرٹیکل370کو منسوخ کرکے کشمیرکوہندوستان کاحصہ قراردے دیا۔

عمران خان نے اپنے اقتدارکوبچانے اورامریکی دورے کوکامیاب ثابت کرنے کیلئے بھٹوکی نقل کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے مقامی سربراہان کوبڑی تعدادمیں لوگوں کوچک لالہ ائیرپورٹ پہنچنے کاکہاجنہں وہ اپنے امریکی دورہ سے فاتح کے طورپرخودکوپیش کرنے کاڈرامہ رچایاگیا۔ہم نے تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے ٹرمپ کاکشمیرپرثالثی کادھوکہ قبول کرلیا۔جب عمران خان اوراُس وقت کے آرمی چیف امریکاجاکرلوٹے توان کے لبوں پرفخروانبساط تھا،جیسے قوم نے کوئی سفارتی معرکہ مارلیاہو۔اسی سازش کے تحت چک لالہ ائیرپورٹ پروطن واپسی پران کااستقبال ایک فاتح کی مانندکیاگیا۔عمران خان کی امریکی واپسی پر،چک لالہ کااستقبال گویاایک فتح کاجشن تھا،مگروہ فتح چندہفتوں بعد5اگست کواس وقت شکست میں بدل گئی جب مودی نے آرٹیکل370کاخاتمہ کر کے اقوام متحدہ کی ساری قراردادوں کوبھارتی آئین کی دفعہ میں تحلیل کردیا۔بھارت نے یکطرفہ طورپرکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی،اورامریکا نے خاموشی اختیارکی۔

یہ کیساثالث تھاجوایک طرف ثالثی کی بات کرتاہے اوردوسری طرف دشمن کوکشمیرکوہڑپ کرنے کاسیاسی آشیرواددیتاہے؟کیایہ ثالثی تھی یازمین کی نئی نیلامی کامقدمہ؟اگریہی ثالثی ہے،تو پھرفلسطین کیلئے ان کاحل بھی سامنے ہے:غزہ کوامریکاکے حوالے کردیا جائے،امریکااسے دنیاکے سیاحوں کیلئے ایک خوبصورت علاقہ بناکریہاں جنگ کامکمل خاتمہ کردیاجائے گااوریہاں رہنے والے تمام فلسطینیوں کوپڑوسی عرب ممالک اپنے ہاں آباد کاری کیلئے اجازت دیں۔آخرہم کب سمجھیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں جن سے اب بھی مسلمانوں کووفاکی اُمیدہے؟

تاریخ کاجائزہ لیں توامریکانے دوسری جنگِ عظیم کے بعدسے اب تک تقریباًتین درجن سے زائد ممالک میں براہِ راست یابالواسطہ مداخلت کی ہے۔ کوریا ،ویتنام،افغانستان،عراق،لیبیا، شام،اوریمن جیسے ممالک امریکی مداخلت کی بھینٹ چڑھے اورآخرکارامریکاکوان خطوں سے یاتوبے عزتی کے ساتھ نکلناپڑا یاشکست کونیم فتح کے پردے میں چھپاناپڑا۔افغانستان میں طالبان کی واپسی اورویتنام میں ساگون کے زوال کے مناظراس حقیقت کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔

ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کیاتھاکہ وہ امریکاکوغیرضروری جنگوں سے نکالیں گے۔مگرصدارت کے منصب پرفائز ہونے کے بعداُن کے طرزِ عمل میں نہ صرف تبدیلی آئی بلکہ کینیڈا،گرین لینڈاورچین کے خلاف دھمکی آمیزلب ولہجہ اختیارکیاگیا۔نیٹو اتحاد کے خلاف شکوہ وشکایت اوریورپی یونین پردباؤڈالناامریکی خارجہ پالیسی میں تناؤکی علامت بن کرابھرا۔فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کوکھلی چھوٹ دینااورغزہ میں انسانی حقوق کی پامالی پر خاموشی،نہ صرف ٹرمپ کے دوہرے معیارکوآشکارکرتی ہے بلکہ انتخابی وعدوں کی صریحاًنفی اورانحراف کی بدترین مثال ہے۔

ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں بالآخرپسپائی اختیارکی۔چینی اقتصادی ماڈل کی پائیداری اورعالمی سطح پراس کی توسیع نے امریکاکو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکردیا۔دوسری جانب حالیہ پاک-بھارت جنگ میں مغربی اسلحے کی برتری کابیانیہ بھی دم توڑگیا۔ بھارت اوراسرائیل کاگٹھ جوڑعالمی سطح پرعیاں ہو گیا۔موجودہ جنگ میں جس طرح پاکستان نے اسرائیلی ہاروپ ڈرونزکونہ صرف مار گرایابلکہ اُن کے آپریٹرزاوربیس اسٹیشنزکوبھی تباہ کیا،اس سے امریکا اوراسرائیل کی عسکری برتری کاطلسم ٹوٹتادکھائی دیا۔اس فتح کے بعدامریکانے،اسرائیل کی ایماپر،فوری جنگ بندی کیلئے مداخلت کی تاکہ بھارت کومکمل ہزیمت سے بچایاجاسکے۔

اسرائیلی ہاروپ ڈرونز،جنہیں ناقابلِ شکست قراردیاگیاتھا،پاکستانی دفاعی قوت کے سامنے ناکام ہوگئے۔پاکستان نے نہ صرف ان ڈرونز کومارگرایابلکہ بھارت میں اُن کے آپریٹنگ مراکزکو بھی تباہ کردیا۔اسرائیل کے18ہلاک شدہ ماہرین کی واپسی خفیہ اندازمیں ہوئی،مگر دنیاجان چکی تھی کہ اسرائیل اوربھارت کی عسکری برتری کاافسانہ محض جھوٹ کاغبارہ تھا۔

اس شکست کے بعدامریکاکوجنگ بندی کیلئے ہنگامی مداخلت کرناپڑی۔اسرائیل اوربھارت کی اپیل پرامریکانے فوری طورپرثالثی کا کرداراداکرنے کی کوشش کی تاکہ اپنے اتحادیوں کوبچایاجا سکے۔مگرپاکستان کیلئے یہ تجربہ نیانہ تھا۔1962، 1965، 1999اورپھر 2019کے بعد،ہربارامریکانے پاکستان کووقتی وعدوں اورلالی پاپوں سے بہلایامگرزمینی حقائق وہی کے وہی رہے۔کشمیرکی صورتِ حال میں کوئی جوہری تبدیلی نہ آئی بلکہ صورتحال مزید الجھ گئی۔

اب امریکانے ایک مرتبہ پھرپاکستان کوکشمیرپرثالثی کالالی پاپ دیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکابھارت کوچین کے خلاف بطورایک ‘جوکرکارڈ’استعمال کرنا چاہتاہے۔کواڈاتحادمیں بھارت کی شمولیت اسی حکمتِ عملی کاحصہ ہے،لیکن امریکادوبارہ اس کمزوراورغیر مستحکم شراکت دار پربھروسہ کرنے کی غلطی کر رہاہے۔

امریکانے ویتنام،افغانستان،لیبیا،شام،عراق اوراب یوکرین وغزہ میں جوکرداراداکیا،وہ اس کی ثالثی کی ساکھ پرسنگین سوالات اٹھاتاہے۔ ٹرمپ نے یوکرین کومشورہ دیاکہ وہ اپنا20٪علاقہ روس کودے دے اوربدلے میں امریکاامن قائم کرے گا۔غزہ میں ثالثی کامطلب یہ تجویزنکلاکہ اگرفلسطینی علاقہ خالی کردیں توجنگ خودبخودختم ہوجائے گی۔یہ وہ طرزِثالثی ہے جودرحقیقت جبرکی نئی شکل ہے۔

مودی کی انتخابی مہم میں پاکستان کومسلسل دھمکیاں دینا،اسی پرانے بیانیے کی تجدیدہے جس کے ذریعے بھارت میں ہندوقوم پرستی کوجلادی جاتی ہے۔اس کامقصدصرف الیکشن میں فتح حاصل کرنانہیں،بلکہ چین کے خلاف امریکی منصوبے’کواڈ’میں بھارت کی فعالیت کویقینی بنانابھی ہے۔مگرامریکااس حقیقت کونظراندازکررہاہے کہ بھارت نہ1962 میں چین کامقابلہ کرسکا اورنہ آج اس قابل ہے۔ امریکاکا’لنگڑاگھوڑا’بھارت اپنی فوجی اورتزویراتی کمزوریوں کے سبب عالمی طاقتوں کے مہرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

امریکاکی ماضی کی روش،حالیہ اقدامات اورمستقبل کے اشارے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ عالمی طاقت محض مفادات کی اسیرہے۔اس کے وعدے ،معاہدے،اورثالثی کی پیش کشیں صرف وقتی فائدے کیلئے ہوتی ہیں۔وقت آگیاہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کوازسرِنوتشکیل دے اورخود انحصاری کی راہ اختیارکرے۔ٹرمپ یاکسی بھی امریکی صدرکی ثالثی پرانحصار کرنااس فریب کے سوا کچھ نہیں کہ”وہ سایہ جسے ہم منزل سمجھتے ہیں،سراب نکلتاہے”۔

سی پیک،چین اورپاکستان کی نئی سمت کامظہرہے۔پاکستان نے چین کے ساتھ سی پیک منصوبہ شروع کیا،جسے’گیم چینجر’قراردیاگیا۔ چین نے حالیہ دنوں میں بھی کشمیرکے معاملے پر پاکستان کی سفارتی حمایت کی،مگرپاکستانی اشرافیہ اب بھی امریکاسے کسی معجزاتی ثالثی کی امید باندھے ہوئے ہے،گویاپرانے زخموں پرمرہم ڈالنے کی تمناہو۔

اگرفرض کریں کہ امریکاثالثی کے کسی فارمولے پرعملدرآمدکرتاہے،جیسے کہ کشمیرکودوحصوں میں بانٹ دیاجائے،یاگلگت بلتستان پاکستان کودے کرباقی انڈیاکو،یاپورے کشمیر کوغیرمسلح ریاست بنا دیاجائے—توکیایہ تجاویزکسی فریق کوقابلِ قبول ہوں گی؟اوراگرنہ ہوئیں،توٹرمپ کا’ریچھ نماغصہ‘کس پر گرے گا؟

پاکستان کویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خارجی ثالثی،خصوصاًامریکاکی ثالثی،ایک سراب ہے جوہربارمایوسی کی چٹان سے ٹکرا کربکھرجاتاہے۔قوموں کے مسائل دوسروں کے رحم وکرم پر نہیں ،اپنی خودی،حکمت اوراستقلال سے حل ہوتے ہیں۔کشمیرکامسئلہ ہویا کسی اورقومی مفادکاسوال،پاکستان کواپنی قوتِ فیصلہ،سفارتی حکمت اوراندرونی اتحادکوبنیادبناناہوگاکیونکہ ثالثی کی خوش فہمیاں بالآخرقومی وقاراورتاریخی سچائی کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہیں۔

واشنگٹن کی وہی کہانی ہے،جسے ہم باربارنئے کرداروں کے ساتھ دہراتے ہیں۔کل ضیاالحق نے مارشل لاکوجائزدکھانے کیلئے امریکا کی آشیربادلی،آج کوئی اورواشنگٹن کے استقبال پراپنی سیاست کی قلعی چمکاتاہے۔مگرانکل سام کی انگلی تھامنے والاہرراہرو،بالآخر اُس بازارِسیاست میں بے لباس پایاگیاجہاں سودے صرف طاقت کے ہوتے ہیں۔

آج بھی اگرٹرمپ کی ثالثی پربھروسہ کیاجائے توممکنہ تجاویزیہی ہوں گی کہ جوکشمیرجس کے پاس ہے،اسے ہی تسلیم کرلو،یااسے پٹے پرہمیں دے دو،بیس سال بعدبات کرنا!”کیایہ کسی خودمختارریاست کیلئے قابلِ قبول ہے؟اوراگرنہ ماناگیاتو؟ٹرمپ کاغصہ،جیساکہ دنیانے دیکھا،ریچھ کے جپھے جیساہوتاہے، جس سے نکلنامحال اورسانس لینادشوار۔امریکاایساثالث ہے جوصرف نفع کاسوداگرہے چاہے اس کیلئے دنیابھر کے تمام مسلمانوں کوختم ہی کیوں نہ کردیا جائے۔

جنہیں سراب دکھاکرخوابوں میں الجھایاجائے،وہ یاتوخام خیالی کے اسیرہوتے ہیں یاتاریخ سے نابلد۔پاکستان کواب یہ تسلیم کرلیناچاہیے کہ مسئلہ کشمیرکاحل نہ توامریکاکے کسی ثالث کے ذریعے ممکن ہے اورنہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم سے،جب تک قوم خوداپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری،عزم،اورداخلی اتحاد پیدانہ کرے۔امریکاکے ہروعدے میں ایک پنہاں مفادہے اورہر ثالثی میں ایک پوشیدہ سودا۔وقت آچکاہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت،دفاعی صلاحیت ،اورنظریاتی اساس کے بل پراپنی راہ متعین کرے،بصورت دیگر، ہربارکی طرح تاریخ فقط ایک اورفریب کااضافہ کرے گی۔

آخری بات،مگرسب سے کڑوی ہے کہ قومیں جوخواب بارباردیکھتی ہیں،وہ یاتونشے کی لت بن جاتے ہیں یاپھرمایوسی کی دہلیزپرلے جاکرچھوڑدیتے ہیں۔ہم نے ہرباریہ گمان کیاکہ کوئی آئے گا،ہمارامقدمہ لڑے گا،ہماری شہ رگ چھڑائے گامگرجوشہ رگ اپنے ہی ہاتھوں کی بے توجہی سے زخمی ہو،اسے کوئی غیر کیسے سہارادے سکتاہے؟تاریخ کے ماتھے پرلکھی تحریرواضح ہے کہ ثالثی کے خواب صرف وہی دیکھتاہے جسے اپنی دلیل،اپنی قوت،اوراپنی حکمت پریقین نہ ہو۔

ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ماضی سے سبق لیں،دوستوں اوردشمنوں کوصرف جذبات کی بجائے حقیقت کی کسوٹی پرپرکھیں اور قومی مفادکواولین ترجیح دیں۔ورنہ ہربارلالی پاپ کی چمکدار پیکنگ میں زہرہمیں چکھناپڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں